۲۔ حقیقت تقوی کیا ہے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
دوسراگروہ سر کش کفار کا ہےقیامت پر ایمان

۲۔ حقیقت تقوی کیا ہے : تقوی کا مادہ ہے ”وقایة“ جس کے معنی ہیں نگہداری یا خود داری(۱
دوسرے لفظوں میں نظم و ضبط کی ایک ایسی اندرونی طاقت کا نام تقوی ہے جو سر کشی و شہوت کے مقابلے میں انسان کی حفاظت کرتی ہے حقیقت میں یہ قوت ایک ایسے مضبوط ہینڈل کا کام دیتی ہے جو وجود انسانی کی مسینری کو الٹ جانے کی جگہوں پر محفوظ رکھتا ہے اور خطرناک تیزیوں سے روکتا ہے۔
اسی لئے امیرالمومنین علی(ع) تقوی کو خطرات گناہ کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعے کا عنوان دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
اعلموا عباداللہ ان التقوی دار حصن عزیز
اے اللہ کے بندو! جان لو کہ تقوی ایسا مضبوط قلعہ ہے جسے تسخیر نہیں کیا جاسکتا (
۲
اسلامی احادیث اور علماء اسلام کے کلمات میں حالت تقوی کے لئے بہت سی تشبیہات بیان ہوئی ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں :
الا و ان التقوی مطایا ذلل حمل علیھا اھلھا و اعطوا ارمتھا فاوردتھم الجنة۔
تقوی ایسے راہوار کی مانند ہے جس پر اس کا مالک سوار ہو، اس کی باگ ڈور بھی اس کے ہاتھ میں ہو اور وہ اسے بہشت کے اندر پہنچادے (
۳)
۳۔ نہج البلاغہ ، خبطہ ۱۶۔
بعض نے تقوی کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی ہے جو کانٹوں بھری زمین سے گذر رہا ہو اور اس کی کوشش میں ہو کہ اپنادامن بھی سنبھالے رکھے اور قدم بھی احتیاط سے اٹھائے تاکہ کوئی کانٹا اس کے دامن سے نہ الجھ جائے اور نہ ہی کوئی خار اس کے پاؤں میں چبھے۔
عبداللہ معتز نے اس کیفیت کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے  :
۱۔ خل الذنوب صغیرھا و کبیر ھا فھو التقی
۲۔ واضع کماش فوق ار ض الشوک یحذر ما یری
۳۔ لا تحقرون صغیرة ان الجبال من الحصی
۱۔ سب چھوٹے بڑے گناہوں کو چھوڑ دے کہ حقیقت تقوی یہی ہے۔
۲۔ اس شخص کی طرح ہوجا جو خار دار زمین پر انتہائی احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔
۳۔ چھوٹے گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھ کہ پہاڑ سنگریزوں ہی سے بنتا ہے
ضمنا اس تشبیہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ تقوی یہ نہیں کہ انسان گوشہ نشین ہوجائے اور لوگوں سے میل جول ترک کردے بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے اگر چہ وہ غلیظ معاشرہ ہی کیوں نہ ہو اپنی حفاظت کرے۔
اسلام میں کسی کی شخصیت کے لئے معیار فضیلت و افتخار یہی تقوی ہے اور اسلام کا شعار زندہ ہے :
ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔
یعنی یقینا خدا کے یہاں تم میں سے زیادہ صاحب عزت و تکریم وہی ہے جو تقوی میں سب سے بڑھ کر ہے (حجرات،
۱۳
حضرت علی فرماتے ہیں :
ان تقوی اللہ مفتاح سداد و ذخیرة معاد و عتق من کل ملکة ونجاة من کل ھلکة
تقوی او رخوف خدا ہر بند دروازے کی کلید ہے، قیامت کے لئے ذخیرہ ہے، شیطان کی بندگی سے آزادی کا سبب ہے اور ہر ہلاکت سے باعث نجات ہے( 4)۔ 
ضمنا متوجہ رہئے گا کہ تقوی کی کئی ایک شاخیں اورشعبے ہیں مثلا تقوی مالی، تقوی اقتصادی، تقوی جنسی، تقوی اجتماعی اور تقوی سیاسی وغیرہ۔
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ آآنذَرْتَہُمْ آمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَیُؤْمِنُونَ (۶)
 خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی آبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ (۷)۔
ترجمہ
۶۔ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انیہں (عذاب خدا سے) ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
۷۔ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اوران کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ایک بڑا عذاب ان کے انتظار میں ہے۔


 

۱۔ راغب نے ”مفردات“ میں لکھا ہے ”وقایہ“ کے معنی ہیں چیزوں کو ان امور سے محفوظ کرنا جو انہیں نقصان یا تکلیف پہنچائیں اور تقوی کے معنی ہیں ”خطرات سے بچا کر روح کو ایک حفاظتی پردے میں رکھنا“ تقوی کے معنی کبھی خوف بھی کئے جاتے ہیں حالانکہ خوف تو تقوی کا سبب ہے۔ عرف شریعت میں تقوی کا مطلب ہے اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھنا اور کمال تقوی یہ ہے کہ مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب
 کیا جائے۔
۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۷۔
 3۔ تفسیر ابوالفتوح رازی، جلد اول ص ۶۲۔
4۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۰۔

 

دوسراگروہ سر کش کفار کا ہےقیامت پر ایمان
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma