۳۔ انسانوں سے رابطہ:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
۱۔ ایمان و عمل کی راہ میں تسلسل ۲۔ خدا سے رابطہ

۳۔ انسانوں سے رابطہ: مومنین وہ لوگ ہیں جو پروردگار کے ساتھ دائمی رابطے کے علاوہ خلق خدا سے بھی مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ اسی لئے قرآن ان کی تیسری خصوصیت یہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے جو نعمتیں انہیں روزی کے طور پر عطا کی ہیں انہیں خرچ کرتے ہیں (و مما رزقناھم ینفقون)۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ ”
من اموالھم ینفقون“ ( اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں) بلکہ کہتا ہے مما رزقناھم ۔ جو ہم نے انہیں رزق دیا ہے۔ اس طرح مسئلہ انفاق اور خرچ کرنے کو عمومیت دےدی گئی ہے گویا اس میں خدا کا مادی اور معنوی سب عنایتیں شامل ہیں۔ اس بناء پر پرہیزگار وہ ہیں جو نہ صرف اپنا مال بلکہ علم ، عقل، دانش، جسمانی قوتیں، مقام اور منصب اجتماعی غرض اپنا ہر قسم کا سرمایہ صاحبان حاجت پر خرچ کرتے ہیں اور اس خواہش کے بغیر کہ ان لوگوں سے اس کا کچھ عوض ملے گا۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ انفاق اور خرچ کرنا جہان آفرینش کا ایک عمومی قانون ہے یہ قانون خاص طور پر موجودات زندہ میں نظر آتا ہے۔ مثلا انسان کا دل صرف اپنے لئے کام نہیں کرتا بلکہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ بدن کے تمام خلیوں پر خرچ کرتا ہے۔ مغز، جگر اور بدن انسانی کے کارخانے کا ہر جزء اپنے کام کے ماحصل کو ہمیشہ خرچ کرتا ہے۔ اصولی طور پر جو مل جل کر رہتے ہیں، انفاق کے بغیر ان کی زندگی کا کوئی مفہوم نہیں
1۔
دوسرے انسانوں سے رابطہ در حقیقت خدا سے ربط و تعلق کا نتیجہ ہے جس انسان کا خدا سے تعلق ہے اور جو و مما رزقناھم کے مطابق روزی کو خدا کی عطا سمجھتا ہے، اسے اپنی پیدا کردہ نہیں سمجھتا بلکہ خدا تعالی کا عطیہ سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ چند دن کے لئے اس کے پاس بطور امانت ہے۔ وہ انفاق و بخشش سے تکلیف نہیں بلکہ راحت محسوس کرے گا کیونکہ اس نے خدا کی عطا خدا کے بندوں کو دی ہے البتہ اس کے مادی و معنوی نتائج و برکات خود حاصل کئے ہیں، یہ طرز فکر روح انسانی کو بخل و حسد سے پاک کردیتا ہے اور تنازعہ کی دنیا کو تعاون کی دنیا میں بدل دیتا ہے۔ ایسی دنیا کہ جس میں ہر شخص اپنے آپ کو مقروض سمجھتے ہوئے وہ نعمات جو اس کے پاس ہیں حاجت مندوں کے سپرد کردیتاہے۔ وہ آفتاب کی طرف نور افشانی کرتا ہے اور کسی عوض کا خواہاں نہیں ہوتا۔
یہ امر قابل غور ہے کہ امام صادق (ع) نے مما رزقناھم کی تفسیر میں ارشاد فرمایا :

ان معناہ و مما علمناھم یبثون

یعنی جن علوم و احکام کی ہم نے انہیں تعلیم دی ہے وہ ان کی نشر واشاعت کرتے ہیں اور جو ان کی احتیاج رکھتے ہیں انہیں تعلیم دیتے ہیں2۔
واضح ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انفاق اور خرچ کرنا علم کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ مسئلہ انفاق میںنگاہیں چونکہ مالی انفاق کی طرف متوجہ تھیں لہذا امام نے معنوی انفاق کا ذکر فرماکر اس مفہوم کی وسعت کو روشن کردیا۔
ضمنی طور پر یہاں یہ بھی پورے طور پر واضح ہوگیا کہ زیر بحث آیت میں انفاق اورخرچ کرنے سے مراد فقط زکواة واجب یا واجب و مستحب دونوں نہیں بلکہ اس کا مفہوم وسیع تر ہے جو ہر قسم کی بلا عوض مدد پر محیط ہے۔



۱۔ نور الثقلین و مجمع البیان ذیل آیہ مذکورہ۔
۲۔ انفاق، اس کی اہمیت اور اس کے اثرات کی بحث اسی تفسیر کی جلد۲ ص ۱۸۱ تا ۲۰۸ آیات ۲۶۱ تا ۲۷۴ پر ملاحظہ فرمائیں۔
 
۱۔ ایمان و عمل کی راہ میں تسلسل ۲۔ خدا سے رابطہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma