۹۵۔ کبھی کبھی ہماری دعاکیوں قبول نہیں ہوتی؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۹۶۔ جبر اور اختیار کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ ۹۴۔ دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟

دعا کی قبولیت کے شرائط کی طرف توجہ کرنے سے بھی بظاہر دعا کے پیچیدہ مسائل میں نئے حقائق آشکار ہوتے ہیں اور اس کے اصلاحی اثرات واضح ہوجاتے ہیں، اس ضمن میں ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں:
۱۔ دعا کی قبولیت کے لئے ہر چیز سے پہلے دل اور روح کی پاکیزگی کی کوشش کرنا، گناہ سے توبہ اور اصلاح نفس ضروری ہے ، اس سلسلہ میں خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں اور رہبروں کی زندگی سے الہام و ہدایات حاصل کرنا چاہئے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:”جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے خدا کی حمد و ثنا کرے، پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اورپھر اپنی حاجت طلب کرے“(1)
۲۔ اپنی زندگی کی پاکیزگی کے لئے غصبی مال اور ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کرے اور حرام غذا نہ کھائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے: ”مَنْ اٴحَبَّ اٴنْ یُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطِبْ مَطْعَمَہُ وَ مَکْسِبَہ“(2) ”جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کے لئے اس کی غذا اور کار وبار کاحلال اور پاکیزہ ہوناضروری ہے “
۳۔ فتنہ و فساد کا مقابلہ کرے اور حق کی دعوت دینے میں کوتاہی نہ کرے کیونکہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیتے ہیں ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ پیغمبر اسلام سے منقول ہے: ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو ، ورنہ خدا بُرے لو گوں کو تمہارے اچھے لوگوں پر مسلط کردے گا، پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہیں ہوگی“۔(3)
حقیقت میں یہ عظیم ذمہ داری جو ملت کی نگہبان ہے اسے ترک کرنے سے معاشرہ کا نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں بدکاروں کے لئے میدان خالی ہوجاتا ہے، اس صورت میں دعا اس کے نتائج کو زائل نہیں کرسکتی کیونکہ یہ کیفیت ان کے اعمال کا قطعی اور حتمی نتیجہ ہے۔
۴۔ دعا قبول ہونے کی ایک شرط خدائی عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے، ایمان، عمل صالح، امانت اور صحیح کام اس عہد و پیمان کا ایک حصہ ہیں، جو شخص اپنے پروردگار سے کئے گئے عہد کی پاسداری نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں ہونا چاہئے کہ پروردگار کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ اس کے شامل حال ہوگا۔
کسی شخص نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے دعا قبول نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا : خدا کہتا ہے کہ دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور وہ قبول نہیں ہوتی!
اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا: ”إنَّ قُلُوبَکُم خَانَ بِثَمانِ خِصَالِ“ تمہارے دل و دماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے، ( جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی):
۱۔ تم نے خدا کو پہچان کر اس کا حق ادا نہیں کیا، اس لئے تمہاری معرفت نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔
۲۔ تم اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر پر ایمان تو لے آئے ہو لیکن اس کی سنت کی مخالفت کرتے ہو، ایسے میں تمہارے ایمان کا کیا فائدہ ہے؟
۳۔ تم اس کی کتاب کو تو پڑھتے ہومگر اس پر عمل نہیں کرتے، زبانی طور پر تو کہتے ہو کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، لیکن عملی میدان میں اس کی مخالفت کرتے رہتے ہو!
۴۔ تم کہتے ہو کہ ہم خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی نافرمانی کی طرف قدم بڑھاتے ہو اور اس کے عذاب سے نزدیک ہوتے رہتے ہو۔
۵۔ تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے مشتاق ہیں حالانکہ تم ہمیشہ ایسے کام کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور لے جاتے ہیں۔
۶۔ نعمتِ خدا سے فائدہ اٹھاتے ہو لیکن اس کے شکر کا حق ادا نہیں کرتے!
۷۔ اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو (اور تم اس سے دوستی کا نقشہ بناتے رہتے ہو) تم شیطان سے دشمنی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملی طور پر اس کی مخالفت نہیں کرتے۔
۸۔ تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب کو مڑکر بھی نہیں دیکھتے۔ ان حالات میں تم کیسے امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جب کہ تم نے خود اس کی قبولیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو، اپنے اعمال کی اصلاح کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو تاکہ تمہاری دعا قبول ہوسکے۔(4)
یہ پُر معنی حدیث صراحت کے ساتھ اعلان کررہی ہے:
خدا کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ مشروط ہے مطلق نہیں، بشرطیکہ تم اپنے عہد و پیمان پورا کرو حالانکہ تم آٹھ طرح سے پیمان شکنی کرتے ہو، تم عہد شکنی نہ کرو تو تمہاری دعا قبول ہوجائے گی۔
مذکورہ آٹھ احکام جو دعا کی قبولیت کے شرائط ہیں انسان کی تربیت، اس کی توانائیوں کو اصلاح کرنے اور اسے ثمر بخش بنانے کے لئے کافی ہیں۔
۵۔ دعا کی قبولیت کے لئے ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل اور کوشش کے ہمراہ ہو، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے کلمات قصار میں بیان ہوا ہے: ”الداعی بلا عمل کالرامی بلا وتر!“(عمل کے بغیر دعا کرنے والا، بغیر کمان کے تیر چلانے والے کے مانند ہے)۔
اس چیز کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ چلہٴ کمان تیر کے لئے عامل حرکت اور ہدف کی طرف پھینکنے کا وسیلہ ہے اس سے تاثیرِ دعا کے لئے عمل کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
مذکورہ پانچوں شرائط سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مادی علل و اسباب کے بجائے دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ قبولیت دعا کے لئے دعا کرنے والے کی زندگی میں ایک مکمل تبدیلی بھی ضروری ہے، اسے اپنی فکرکو نئے سانچے میں ڈھالنا چاہئے اور اسے اپنے گزشتہ اعمال پر تجدید نظر کرنا چاہئے۔
ان تمام مطالب کے پیش نظر دعا کو اعصاب کمزور کرنے والی ا ور کاہلی کا سبب قرار دینا کیابے خبری اور غفلت نہیں ہے؟! اور کیا یہ تہمت کسی غرض کے لئے نہیں ہے؟!(5)
 


(1) سفینة البحار ، جلد اول صفحہ ۴۴۸و ۴۴۹
(2) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸و ۴۴۹
(3) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸
(4)نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۳۳۷
(5) تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۴۳
 
۹۶۔ جبر اور اختیار کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ ۹۴۔ دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma