۷۱ ۔ وضو ،غسل اور تیمم کا فلسفہ کیا ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۷۲۔ فلسفہ نماز کیا ہے؟ 70۔کیا ”شفاعت“ توحید کے منافی ہے؟

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وضو کے دو فائدے واضح اور روشن ہیں، ایک پاکیزگی اور صفائی کا فائدہ دوسرے اخلاقی اور معنوی فائدہ، شب و روز میں پانچ بار یا کم از تین بار چہرے اور ہاتھوں کو دھونا انسان کے جسم کے لئے بہت مفید ہے، کیونکہ سر اور پیروں کی کھال پر مسح کرنے سے یہ اعضا بھی پاک و صاف رہتے ہیں، جیسا کہ آئندہ فلسفہٴ غسل میں بیان کیا جائے گا کہ کھال تک پانی کا پہنچناسمپاتھٹیک (Syapathetic) اور پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) اعصاب کو کنٹرول کرنے میں بہت متاثر ہے۔
اسی طرح اخلاقی اور معنوی لحاظ سے بھی چونکہ یہ کام قربتِ خدا کے لئے ہوتا ہے، جو تربیتی لحاظ سے مو ثرہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک تیری اطاعت و بندگی میں حاضر ہوں، لہٰذا اسی اخلاقی و معنوی فلسفہ کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے ایک حدیث میں اس طرح ذکر ہوا ہے:
” وضو کا حکم اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس سے عبادت کا آغاز ہوتا ہے ،(کیونکہ) جس وقت بندہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے، اور اس سے مناجات کرتا ہے تو اسے اس وقت پاک ہونا چاہئے، اور اس کے احکام پرعمل کرنا چاہئے اورگندگی اور نجاست سے دور رہے، اس کے علاوہ وضو باعث ہوتا ہے کہ انسان کے چہرہ سے نیند اور تھکن کے آثار دور ہو جائیں اور انسان کا دل خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوکر نورِ پاکیزگی حاصل کرے“۔(1)
فلسفہ غسل میں بیان ہونے والی وضاحت سے فلسفہ وضو بھی مزید واضح ہوجائے گا۔
فلسفہ غسل
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ انسان کے مجنب ہو نے پر اسلام نے غسل کا حکم کیوں دیا ہے جبکہ صرف مخصوص عضو گندا ہوتا ہے؟!! نیز پیشاب اور منی میں کیا فرق ہے جبکہ پیشاب میں صرف پانی سے دھونا لازم ہے اورمجنب ہونے کی صورت میں تمام بدن کو دھونا (یعنی غسل کرنا) ہوتا ہے؟
اس سوال کا ایک مختصر جواب ہے اور دوسرا تفصیلی۔
مختصر جواب یہ ہے کہ انسان کے جسم سے منی نکلنے سے صرف مخصوص عضو پر اثر نہیں ہوتا ( پیشاب اور پاخانہ کی طرح نہیں ہے) بلکہ اس کا اثر بدن کے تمام دوسرے اعضا پر بھی ہوتا ہے منی کے نکلنے سے بدن کے تمام اعضا سست پڑجاتے ہیں، جو اس بات کی نشانی ہے کہ اس کا اثر تمام بدن پر ہوتا ہے۔
وضاحت:
دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسان کے بدن میں دو طرح کے نباتی اعصاب ہوتے ہیں جن سے بدن کا سارا نظام کنٹرول ہوتا ہے، ”سمپاتھٹیک (Syapathetic)“ اور ”پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) اعصاب“دو طرح کے اعصاب پورے بدن میں پھیلے ہوئے ہیں اور بدن کے تمام نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، بدن ”سمپاتھٹیک اعصاب“ کا کردار بدن کے نظام میں تیزی پیدا کرنا ہے اور ”پیرا سمپاتھٹیک اعصاب“کا کردار بدن میں سستی پیدا کرنا ہے، در اصل ان دونوں کا کام گاڑی میں ریس اور بریگ کی طرح ہے، اس سے بدن میں توازن قائم رہتا ہے۔
کبھی بدن میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں جن سے یہ توازن ختم ہوجاتا ہے، انھیں میں سے ایک مسئلہ ”Climax“ (اوج لذت جنسی) ہے ، اور اکثر اوقات منی کے نکلتے وقت یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔
اس موقع پر ”اعصاب پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) ”سمپاتھٹیک (Syapathetic) اعصاب“پر غلبہ کرلیتے ہیں اور انسان کا توازن منفی صورت میں بگڑجاتا ہے۔
یہ موضوع بھی ثابت ہوچکا ہے کہ ”سمپاتھٹیک (Syapathetic)اعصاب“ کے بگڑے ہوئے توازن کو دوبارہ برقرار کرنے کے لئے بدن کا پانی سے مس کرنا بھی موثر ہے،اور چونکہ جنسی لذت کا عروج ’Climax“ بدن کے تمام اعضا پرحسی طور پر اثر انداز ہوتا ہے ، لہٰذاجنسی ملاپ یا منی نکلنے کے بعداسلام نے حکم دیا ہے کہ سارے بدن کو پانی سے دھویا جائے تاکہ پورے بدن کا بگڑاہواتوازن دوبارہ صحیح حالت پر پلٹنے میں مدد مل سکے۔(1)
البتہ غسل کا فائدہ اسی چیز میں منحصر نہیں ہے، بلکہ غسل ان کے علاوہ ایک طرح کی عبادت بھی ہے جس کے اخلاقی اثر کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اسی وجہ سے اگر نیت اور قصد قربت کے بغیرغسل انجام دیا جائے تو انسان کا غسل صحیح نہیں ہے، در اصل ہمبستری کرنے یا منی کے نکلنے سے انسان کا جسم جیسا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اٴنّ الجَنابَةَ خَارجةٌ مِن کُلِّ جَسدہ فلذلکَ وَجَبَ عَلَیہ تَطْہِیر جَسَدہ کُلّہ“ (جنابت پوری بدن سے باہر نکلتی ہے لہٰذا پورے بدن کو پانی سے دھونا (یعنی غسل کرنا) واجب ہے) (وسائل الشیعہ، جلد اول صفحہ ۴۶۶) یہ حدیث گویا اسی چیز کی طرف اشارہ ہے
بھی گندا ہوجاتا ہے اور اس کی روح بھی مادی شہوات کی طرف متحرک ہوتی ہے اور جسم سستی اور کاہلی کی طرف، غسل جنابت سے انسان کا جسم بھی پاک و صاف ہوجاتا ہے اور چونکہ قربت کی نیت سے انجام دیا جاتا ہے اس کی روح بھی پاک ہوجاتی ہے، گویا غسل جنابت کا دوہرا اثر ہوتا ہے، ایک جسم پر اور دوسرا انسان کی روح پر، تاکہ روح کو خدا اور معنویت کی طرف حرکت دے اور جسم کو پاکیزگی اور نشاط کی طرف۔
ان سب کے علاوہ ، غسل جنابت کا وجوب بدن کو پاک و صاف رکھنے کے لئے ایک اسلامی حکم ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے مل جائیں گے جو پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں کرتے، لیکن اس اسلامی حکم کی بنا پر وہ گاہ بہ گاہ اپنے بدن کی گندگی کو دور کرتے ہیں، اور اپنے بدن کو پاک و صاف رکھتے ہیں، اور یہ چیز گزشتہ زمانہ سے مخصوص نہیں ہے (کہ لوگ گزشتہ زمانہ میں مدتوں بعد نہایا کرتے تھے) بلکہ آج کل کے زمانہ میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو بعض وجوہات کی بنا پر صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے، (البتہ اسلام کا یہ حکم ایک عام قانون ہے یہاں تک کہ جن لوگوں نے ابھی اپنے بدن کو دھویا ہو ان کو بھی شامل ہے)، (یعنی اگر نہانے کے بعد مجنب ہوجائے تو بھی غسل کرنا واجب ہے۔)
مذکورہ تینوں وجوہات کی بنا پر یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ منی نکلنے کے بعد (چاہے سوتے وقت یابیداری کی حالت میں ) اور اسی طرح ہمبستری کے بعد (اگرچہ منی بھی نہ نکلی ہو) غسل کرنا کیوں ضروری ہے(2)
فلسفہ تیمم کیا ہے؟
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ مٹی پر ہاتھ مارنے اور ان کو پیشانی اور ہاتھوں پر ملنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ خصوصاً جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اکثر مٹی گندی ہوتی ہے اور اس سے
جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
الف: اخلاقی فائدہ: تیمم ایک عبادت ہے، اس میں حقیقی عبادت کی عکاسی پائی جاتی ہے، کیونکہ انسان حکم خدا کے پیش نظر اپنے شریف ترین عضو یعنی پیشانی پر مٹی بھرا ہاتھ پھیرتا ہے تاکہ خدا کے سامنے اپنی تواضع اور انکساری کا اظہار کرسکے، یعنی میری پیشانی اور میرے ہاتھ تیرے سامنے تواضع و انکساری کی آخری حد پر ہیں، اور پھر انسان نماز یا دوسری ان عبادتوں میں مشغول ہوجاتا ہے جن میں وضو یا غسل کی شرط ہوتی ہے، اس بنا پر انسان کے اندر تواضع و انکساری، بندگی اور شکر گزاری کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔
ب۔ حفظان صحت کا فائدہ: آج کل یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مٹی میں بہت سے جراثیم (Bacterias ) پائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ بہت سی گندگیاں دور ہوتی ہیں، یہ جراثیم جن کا کام آلودہ کرنے والے مواد کا تجزیہ اور طرح طرح کی بدبو کو ختم کرنا ہے زیادہ تر زمین کی سطح پر معمولی سی گہرائی میں جہاں سے ہوا اور سورج کی روشنی سے بخوبی فائدہ اٹھاسکیں، بکثرت پائے جاتے ہیں، اسی وجہ سے جب مردہ جانور کی لاشیں زمین میں دفن کردی جاتی ہیں اور اسی طرح دوسری چیزیں جو گندگی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں زمین پر پڑی ہوں تو کچھ عرصہ بعد ان کے بدن کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور جراثیم کی وجہ سے وہ بدبو کا مرکز نیست و نابود ہوجاتا ہے، یہ طے ہے کہ اگر زمین میں یہ خاصیت نہ پائی جاتی تو کرہ زمین تھوڑی ہی مدت میں بدبو کے ڈھیروں میں بدل جاتا، اصولی طور پر مٹی اینٹی بیوٹک اثر رکھتی ہے، جو جراثیم مارنے کے لئے بہترین چیز ہے۔
اس بنا پر پاک مٹی نہ صرف آلودہ نہیں ہے بلکہ آلودگی کو ختم کرنے والی ہے، اور اس لحاظ سے ایک حد تک پانی کا کام کرسکتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ پانی جراثیم کو بہالے جاتا ہے اور مٹی جراثیم کو مار ڈالتی ہے۔
لیکن توجہ رہے کہ تیمم کی مٹی مکمل طور پر پاک و صاف ہو جیسا کہ قرآن کریم نے بہترین لفظ استعمال کیا ہے: ”طیباً“
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تیمم کے حوالے سے لفظ ”صعید“ استعمال ہوا ہے جو ”صعود“ سے لیا گیا ہے (جس کے معنی بلندی کے ہیں) جو اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ تیمم کے لئے زمین کی سطحی مٹی لی جائے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہو اور جس میں جراثیم کو مارنے والی بیکٹری پائی جاتی ہوں، اگر اس طرح کی پاک و پاکیزہ مٹی سے تیمم کیا جائے تو یہ تاثیر رکھتی ہے اور اس میں ذرا بھی نقصان نہیں ہے۔(3)
وضو میں ہاتھوں کو کس طرح دھویا جائے نیز سر اور پیر کا مسح کس طرح کیا جائے؟
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶ /میں روح کی پاکیزگی کے طریقہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، اور روح کی پاکیزگی کے لئے احکام وضو، غسل اور تیمم بیان ہوئے ہیں، پہلے مومنین سے خطاب ہوا اور وضو کے احکام اس ترتیب سے بیان کئے:
< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَاٴَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُ وٴسِکُمْ وَاٴَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ(4)
”اے ایمان والو! جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ اور سر اور گٹوں تک پیروں کا مسح کرو“۔
اس آیہٴ شریفہ میں ہاتھوں کے دھلنے کی حد ”کہنی“ تک قرار دی گئی ہے کیونکہ قرآن مجید میں لفظ ”مرافق“ ہے جس کے معنی ”کہنیاں“ ہیں ،لیکن جب کسی انسان سے کہا جائے کہ ”اپنے ہاتھوں کو دھو لیجئے“ تو ممکن ہے کہ وہ شخص صرف کلائیوں تک ہاتھوں کو دھوئے، کیونکہ اکثر اوقات ہاتھوں کو یہیں تک دھویا جاتا ہے، لہٰذا اس غلطی کو دور کرنے کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہنیوں تک دھوئیں: < إِلَی الْمَرَافِقِ
اس تفصیل کی بنا پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ آیت میں لفظ ”الیٰ“ (یعنی کہنیوں تک) ہاتھوں کے دھونے کی حد کو بیان کرنے کے لئے ہے نہ ہاتھوں کو دھونے کی کیفیت کے لئے، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے اور مذکورہ آیت کے اس طرح معنی کرتے ہیں:
ہاتھوں کو انگلیوں کے سرے سے کہنیوں تک دھوئیں، (جیسا کہ اہل سنت کے یہاں پایا جاتا ہے)
اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے کہ اگر آپ کسی پینٹر سے کہیں کہ ہماری دیوار کو فرش سے ایک میٹر تک رنگ کردیں،تو یہ بات واضح ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیوار پر نیچے سے اوپر کی طرف رنگ کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس مقدار میں رنگ ہونا ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔
اس بنا پر مذکورہ آیت میں ہاتھوں کے دھلنے کی مقدار معین کی گئی ہے، لیکن اس کی کیفیت سنت نبی (ص) میں اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ بیان ہوئی ہے ، کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھویا جائے۔
”بِرُءُ وسِکُمْ “ میں لفظ ”ب“ بعض اہل لغت اور بعض احادیث کی بنا پر ”بعض“ کے معنی میں آیا ہے یعنی سر کے ”بعض حصہ“ کا مسح کرو، جیسا کہ احادیث میں ملتا ہے کہ سر کے اگلے حصہ کا ہاتھ سے مسح کیا جائے ، لیکن جیسا کہ بعض اہل سنت کے یہاں رائج ہے کہ پورے سر کا مسح کرتے ہیں، یہ مذکورہ آیت کے مفہوم کے موافق نہیں ہے۔
”بِرُءُ وسِکُمْ “،کے بعد ”اٴرجلِکُم“ کا آنا خود اس بات پر گواہ ہے کہ پیروں کا بھی مسح کیا جائے نہ کہ ان کو دھویا جائے،(اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ”اٴرْجلَکم“کے لام پر زبر آیا ہے تو ”بِرُءُ وسِکُمْ “کے محل پر عطف ہوا ہے نہ کہ ”وُجُوہَکُم“ پر) (5)(6)


(1) وسائل الشیعہ ، جلد۱ ، صفحہ ۲۵۷
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۹۱
3 تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۰۰
(4) سورہ مائدہ ، آیت ۶
(5) واضح ہے کہ ”وُجُوہَکُم“ اور ”اٴرْجُلَکُم“ میں کافی فاصلہ ہے، جس کی بنا پر اس پر عطف ہونا بعید نظر آتا ہے، اس کے علاوہ بہت سے مشہور قاری قرآن نے ”اٴرْجُلَکُم“ کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے
(6) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۵
 

 

۷۲۔ فلسفہ نماز کیا ہے؟ 70۔کیا ”شفاعت“ توحید کے منافی ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma