70۔کیا ”شفاعت“ توحید کے منافی ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۷۱ ۔ وضو ،غسل اور تیمم کا فلسفہ کیا ہے؟ ۶۹۔ فلسفہٴ شفاعت کیا ہے؟ اور کیا شفاعت کی امید ،گناہ کی ترغیب نہیں دلاتی؟

شفاعت کے سلسلہ میں سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ شفاعت کا عقیدہ توحید کے بر خلاف ہے، البتہ یہ اعتراض وہابیوں کی طرف سے بہت زیادہ پروپیگنڈے اور کافی خرچ کی بنا پر وسیع پیمانے پر ہو تاآیا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں مزید تو جہ کی ضرورت ہے۔
وہابیوں کے عقائد کا محور عمدہ طور پر چند چیزیں ہیں،جن میں سب سے اہم ”توحید افعالی“ اور ”توحید عبادی“ ہے، یہ لوگ توحید کی اس قسم کے معنی اس طرح کرتے ہیں جس سے شفاعت شافعین، انبیاء اور اولیاء اللہ کی ارواح سے مدد مانگنا، یا خدا کی بارگاہ میں ان کو شفیع قرار دینا، توحید خدا کے منافی ہے، اور اسی وجہ سے یہ لوگ (وہابیوں کے علاوہ) ان چیزوں کا عقیدہ رکھنے والے تمام فرقوں کومشرک جانتے ہیں! اور اگر آپ تعجب نہ کریں تو یہ بھی عرض کردیا جائے کہ یہ لوگ ان عقائد رکھنے والوں کی جان، مال اور ناموس کو زمانہٴ جاہلیت کے مشرکین کی طرح مباح مانتے ہیں!
ان لوگوں نے اسی عقیدہ کی بنا پر حجازاور عراق (وغیرہ) کے بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا، ان کے اموال کو تاراج کیااور ایسا ظلم و ستم کیا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ئھ) اس فرقہ کے بانی نے اپنی مشہور کتاب ”رسالہ اربع قواعد“ میں بہت سی باتیں تحریر کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
شرک سے نجات صرف ”چار قواعد“ کے ذریعہ ہی ممکن ہے:
۱۔ جن مشرکین سے پیغمبر اکرم (ص) نے جنگ کی ہے وہ سب خداوندعالم کو خالق، رازق اور اس جہان کا مدبر مانتے تھے جیسا کہ سورہ یونس آیت نمبر ۳۱ میں ارشاد ہوتا ہے:
< قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ (1)
”پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمہیں زمین اور آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمہاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تو یہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ! تو آپ کہہ دیجئے کہ پھر اس سے کیوں نہیں ڈرتے“۔
اس آیت کی بنا پر وہ لوگ خداوندعالم کی رزّاقیت، خالقیت ، مالکیت اور مدبریت کا عقیدہ رکھتے تھے۔
۲۔ مشرکین کی اصل مشکل یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: ہم بتوں کی عبادت اور ان پر توجہ صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں اور ان کے ذریعہ ہمیں قرب خدا حاصل ہوجائے، جیسا کہ قرآن مجید میں ا رشاد ہوتا ہے:
<وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ (2)
”اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں“۔
۳۔ جو لوگ غیر خدا کی عبادت کیا کرتے تھے ان تمام سے پیغمبر اکرم (ص) نے جنگ کی ہے، چاہے وہ درختوں کی پوجا کرتے ہوں یا پتھروں اور چاند و سورج کی پوجا کرتے ہوں، یا ملائکہ ، انبیاء اور صالحین کی عبادت کرتے ہوں، پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، (یعنی آنحضرت نے ان سب سے جنگ کی ہے)
۴۔ ہمارے زمانہ کے مشرکین ( یعنی وہابیوں کے علاوہ تمام فرقے) زمانہ جاہلیت کے مشرکین سے بدتر ہیں! کیونکہ وہ سب چین و سکون کے وقت بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے لیکن سخت حالات میں صرف خدا کو پکارتے تھے جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر ۶۵/ میں بیان ہوا ہے:
< فَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ(3)(4)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کرلیتے ہیں“۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اس نظریہ میں اتنے محکم ہیں اگرچہ ان کا نظریہ حقیقت میں سفسطہ اور مغالطہ ہے، لیکن پھر بھی یہ لوگ دیگر مسلمانوں کے خون کو مباح جانتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز جانتے ہیں، جیسا کہ شیخ ”سلیمان“ اس گمراہ فرقہ کا سربراہ اپنی کتاب ”الہدایة السنیہ“ میں کہتا ہے: قرآن و سنت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جو شخص ملائکہ یا انبیاء یا (مثلاً) ابن عباس اور ابوطالب وغیرہ کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے تاکہ وہ خدا کی بارگاہ میں شفاعت کریں، جیسا کہ بادشاہوں کے قریبی لوگ اس سے سفارش کرتے ہیں، تو ایسے لوگ کافر اور مشرک ہیں،ان کا
خون اور مال و دولت مباح ہے، اگرچہ یہ لوگ اپنی زبان سے کلمہ شہادتین کا اقرار کرتے ہوں نماز پڑھتے ہوں اور روزہ رکھتے ہوں۔
چنا نچہ ان لوگوں نے اپنے اس شرمناک عقیدہ پرپابند رہنے یعنی مسلمانوں کی جان و مال کو مباح قرار دینے کو بہت سے مقامات پر ثابت کر دکھایا ہے جن میں سے حجاز میں طائف کا مشہور و معروف قتل عام (صفر ۱۳۴۳ئھ میں) اور (۱۸/ ذی الحجہ ۱۲۱۶ئھ میں ) کربلا کا قتل عام بہت سی تواریخ میں موجود ہے۔
اس استدلال کے انحرافی نکات
۱۔ قرآنی آیات کے پیش نظر یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت ایک قرآنی اور اسلامی مسلم حقیقت ہے، اورقرآن مجید میں ”شفاعت کرنے والے“ اور ”شفاعت کئے جانے والوں“ کے شرائط بیان ہوئے ہیں، لہٰذا یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی قرآن و اسلام کا دم بھرے اور ان تمام واضح و روشن مدارک کے باوجود اس اسلامی عقیدہ کا انکار کرے، ہمیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟ جبکہ یہ اس عقیدہ کا انکار کرتے ہیں جو قرآن اور اسلام کی ضروریات میں سے ہے، کیا کوئی مسلمان اسلام اور قرآن کے ضروریات کا انکار کرسکتا ہے؟!
۲۔ جس شفاعت کو قرآن بیان کرتا ہے اوراس کا دفاع کرتا ہے اس کا اصل مرجع ”اذن خدا“ ہے اور جب تک وہ اجازت نہ دے گا اس وقت تک کسی کو شفاعت کرنے کا حق نہیں ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ شفاعت اوپر سے او راذن پروردگار سے ہے، بادشاہ اور حکام کے حوالی موالی کی سفارش کی طرح نہیں ہے جو نیچے سے اور اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر ہوتی ہے۔
اس طرح کی شفاعت توحید کے مسئلہ پر مزید تاکید کرتی ہے، کیونکہ اس کا اصلی مرکز ذات خداوندعالم ہے، اور ایسی توحید ہے جس میں کسی طرح کا شرک نہیں پایا جاتا، لیکن وہابیوں نے قرآنی شفاعت کو شیطانی شفاعت اور حکام کے نزدیک سفارش سے مخلو ط کردیا ہے اور اس کے منکر ہوگئے ہیں، اور اس کو اصل توحید کے متضاد اور مخالف گردانتے ہیں، در اصل انھوں نے اس مسئلہ میں خود اپنے اوپر اعتراض کیا ہے نہ کہ قرآنی شفاعت پر۔
۳۔ شفاعت در اصل نجات کا ایک سبب ہے، جس طرح سے عالم خلقت اور عالم تکوین میں اسباب (جیسے درختوں اور فصلوں کے لئے نور آفتاب اور بارش ) کو موثر ماننا اصل توحید کے منافی نہیں ہے، کیونکہ ان تمام اسباب کی تاثیر اذن الٰہی کی بنا پر ہوتی ہے، در اصل ان تمام کا نام ایک قسم کی شفاعت تکوینی ہے، اسی طرح عالم شریعت میں مغفرت و بخشش اور نجات کے لئے کچھ اسباب پائے جاتے ہیں وہ بھی خدا کی اجازت سے، اور یہ توحید کے منافی ہی نہیں ہے بلکہ توحید پر مزید تاکید کرتے ہیں، اور اس کا نام ”شفاعت تشریعی“ ہے۔
۴۔ بتوں کے بارے میں قرآن کریم نے جس شفاعت کی نفی کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بت پرست ہر لحاظ سے بے خاصیت موجودات (بتوں) کو بارگاہ خداوندی میں اپنا شفیع قرار دیتے تھے، لہٰذا سورہ یونس ، آیت نمبر۱۸ میں ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: <وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ
”اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں“۔
یقینی طور پر انبیاء اور اولیاء اللہ کی شفاعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ آیت بتوں سے مخصوص ہے ، جو کہ بے عقل و شعور پتھر اور دھات ہیں۔
دوسری طرف قرآن کریم اس شفاعت کی مذمت کرتا ہے جس میں شفاعت کرنے والے کے استقلال اور اذن الٰہی کے بغیر اس کی تاثیر کو قبول کیا جائے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
<وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ اٴَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللهِ زُلْفاً إِنَّ اللهَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیمَا ہُمْ فِیہِ یَخْتَلِفُونَ(5)
”اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں گے ، اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کر دے گا“۔
اس آیہٴ شریفہ کے مطابق مشرکین اپنے معبودوں کو اپنا ولی اور سرپرست، اپنا حامی اور اپنا محافظ مانتے تھے، اور ان کی پوجاکرتے تھے، اور ان کے یہ دونوں کام غلط تھے، (بتوں کو اپنا ولی سمجھنا اور ان کی عبادت کرنا)
لیکن اگر کوئی شخص اولیاء اللہ ، انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی عبادت نہ کرے بلکہ ان کا احترام کرے، ان کو بارگاہ خدا میں شفیع قرار دے وہ بھی خدا کے اذن سے، تو یہ مذکورہ آیت ہرگز اس کو شامل نہ ہوگی۔
وہابی لوگ چونکہ آیاتِ شفاعت ،کفر و ایمان اور شفاعت کرنے والے نیز شفاعت ہونے والے کے شرائط کے بیان کرنے والی آیات پر مہارت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے انھوں نے بت پرستوں کے عقیدہ کو شفاعت سے ملادیا اور یہ اس مثال کی طرح ہے: ”چون ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند“ (جب حقیقت تک نہیں پہنچ سکے تو قصہ اور کہانی کی راہ اختیار کرلی۔)
۵۔ وہابیوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ عرب کے بت پرست ،خالقیت، مالکیت اور رازقیت کو خداوندعالم سے مخصوص جانتے تھے، لیکن وہ لوگ صرف بتوں کی وساطت اور شفاعت کو ما نتے تھے، یہ بھی ان کی دوسری غلط فہمی ہے، جس کی وجہ بھی قرآنی آیات سے لا علمی ہے، کیونکہ قرآن مجید کی متعددآیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بعض ان صفات کے بتوں کے لئے بھی قائل تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < فَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوْا اللهَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ(6)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کرلیتے ہیں“۔
(یعنی مشکلات کا حل بھی غیر خدا سے چاہتے تھے)
ان الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کفار و مشرکین عام حالات میں اپنی مشکلوں کا حل بتوں سے چاہتے تھے، اگرچہ سخت حالات میں صرف خدا کے لطف و کرم کے امیدوار ہوتے تھے۔
سورہ فاطر میں پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہورہا ہے:
< قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ شُرَکَائَکُمْ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ اٴَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنْ الْاٴَرْضِ اٴَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ(7)
”آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگوں نے ان شرکاء کو دیکھا ہے جنھیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو ذرا مجھے بھی دکھلاؤ کہ انھوں نے زمین میں کس چیز کو پیدا کیا ہے یا ان کی کوئی شرکت آسمان میں ہے“۔
اگر مشرکین ،صرف خدا وند عالم ہی کو خالق مانتے تھے اور بتوں کو صرف شافع کے عنوان سے ما نتے تھے، تواس سوال کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ جواب میں کہہ سکتے تھے کہ ہم ان کو خالق نہیں مانتے، صرف خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ مانتے ہیں، کیا اگر کسی کو واسطہ ما نا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے خالق بھی ماننا ضروری ہے؟!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بتوں کے خلقت میں شرکت کے قائل تھے، اور پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا کہ ان کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے ان سے سوال کریں کہ ان بتوں نے کیا چیز خلق کی ہے؟
سورہ اسراء ، آیت نمبر ۱۱۱/ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مشرکین بتوں کو مالکیت اور حاکمیت میں خدا کا شریک قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ جب خدا کوکوئی مشکل پیش آتی ہے تو یہی بت اس کی مدد کرتے ہیں! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
<وَقُلْ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنْ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا (8)
”اور کہوکہ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہیں جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اور نہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے( اور مدد گار )اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کا سر پرست ہے اور پھر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو“۔
آیت کے تینوں جملوں میں سے ہر جملہ بت پرستوں کے ایک عقیدہ کی نفی کرتا ہے کہ ”فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے “ (توجہ رہے کہ ”ولد“ بیٹے اور بیٹی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے) (9) اور ان کو خلقت میں” شریک“ نیز ان کو خدا کا” مددگار“ مانتے تھے!
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے تمام مقامات پر بت پرستوں کو ”مشرکین“ اور ان کے اعمال کو ”شرک“ کے عنوان سے یادکیا ہے، اگر وہ لوگ ”خدا “اور ”بتوں“ کے درمیان کسی شرک کے قائل نہ تھے اور ان بتوں کو صرف خدا کی بارگاہ میں شفیع مانتے تھے، تو قرآن کریم کے یہ الفاظ صحیح نہیں ہیں(معاذ اللہ)، ”شرک اور مشرک“ کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ بتوں کو خدا کی ربوبیت یا حل مشکلات یا خلقت وغیرہ میں شریک قرار دیتے تھے، (البتہ پتھر یا لکڑی کے بت ان کی نظر میں صالح اور فرشتوں کا نمونہ تھے)
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ لوگ بتوں کے لئے تدبیرِ جہان میں ایک طرح کے استقلال کے قائل تھے، اور ایک طرح سے خدا کے برابر قرار دیتے تھے، نہ فقط بارگاہ خدا میں واسطہ۔
خصوصاً قرآن کریم کی مختلف آیات میں بہت سے ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: <وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ (10) ”اور اس کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست اور مددگار بھی نہیں ہے“۔
یہ بت پرستوں کے عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ بتوں کو اپنا ولی و ناصر مانتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: <وَ لَایُغْنِی عَنْہُمْ مَا کَسَبُوا شَیْئًا ولَا مَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللهِ اٴَوْلِیَاءَ (11)”اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر سرپرست بنا یا ہے،کوئی کام آنے والا نہیں ہے“۔
قرآنی آیات میں متعدد بارمشرکین کے بارے میں ”من دون الله“ کا جملہ استعمال ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے علاوہ دوسری موجودات (بتوں، درختوں اور پتھروں) کی عبادت کیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ولی و ناصر اور مددگار ہوں، یہ وہی ” ربوبیت میں شرک“ ہے نہ کہ شفاعت۔
المختصر: قرآن کریم کی طرف سے مختلف آیات میں مشرکین پر دو اعتراض ملتے ہیں : پہلا اعتراض یہ لوگ ایسی موجودات کو مبدا اثر قرار دیتے ہیں جو نہ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی ان میں عقل و شعور پایا جاتا ہے، اور دوسرے: یہ لوگ خدا کی تد بیر کے مقابل بتوں کے لئے”ربوبیت“ کے قائل تھے۔
البتہ زمانہٴ جاہلیت کے بت پرستوں کی باتیں ضد و نقیض ہوتی تھیں، ایسا نہیں تھا کہ ایک منطقی انسان کی طرح اپنی باتوں کو بغیر کسی تضاد اور ٹکراؤ کے بیان کرتے ہوں، اگرچہ وہ بتوں کو مشکلات کے حل کے لئے خدا کا شریک قرار دیتے تھے اور ان کو ”من دون الله“ خدا کے علاوہ اپنا ناصر و مددگار تصور کرتے تھے، لیکن کبھی کبھی بتوں کو خدا کے نزدیک شفاعت کرنے والا بھی قرار دیتے تھے،اور یہ بات ہرگز شرک افعال پر اعتقاد کی دلیل نہیں ہے، یہ مطلب تمام قرآنی آیات کی تحقیق اور کفار و مشرکین کے تمام حالات سے حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ وہ لوگ شفاعت کو خدا کی اجازت پر موقوف نہیں جانتے تھے۔
(قارئین کرام!) ان تمام باتوں کے پیش نظر ،یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اگر انسان صرف اور صرف اولیاء اللہ کو شفیع قرار دے (نہ کہ پتھر اور لکڑی کے بتوں کو) اور صرف ان کو خدا کی بارگاہ میں ”شفیع“ مانے (نہ خدا کی ولایت اور تدبیر میں شریک ) نیز ان کی شفاعت کو خدا کی اجازت پر موقوف مانے (نہ مستقل طور پر) اس صورت میں شفا عت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مشکل اس وقت پیدا ہوگی جب ان تینوں اصول میں سے کسی ایک یا تینوں کو نظر انداز کردیا جائے، اور غلط راستہ کا انتخاب کیا جائے۔(12)
 


(1) سورہٴ یونس ، آیت۳۱ (2)سورہٴ یونس ، آیت۱۸
(3)سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۵
(4) ”رسالہ ا ربع قواعد“ تالیف: محمد بن عبد الوہاب ، بانی وہابیت، صفحہ ۲۴ سے ۲۷ تک، کشف الارتیاب سے نقل کیا ہے، صفحہ۱۶۳
(5) الھدیة السنیة ، صفحہ ۶۶
(6) سورہٴ زمر ، آیت ۳
(7) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۵
(8)سورہٴ فاطر ، آیت ۴۰
(9)سورہٴ اسرا ، آیت ۱۱۱
(10) ولد مولود کے معنی میں ہے، اوربڑ ے ،چھوٹے ،لڑکا ،لڑکی ،مفرداور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے، (دیکھئے: مفردات راغب)
(11) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۲۲ (71)سورہٴ جاثیہ ، آیت ۱۰
(12) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۵۳۶
 
۷۱ ۔ وضو ،غسل اور تیمم کا فلسفہ کیا ہے؟ ۶۹۔ فلسفہٴ شفاعت کیا ہے؟ اور کیا شفاعت کی امید ،گناہ کی ترغیب نہیں دلاتی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma