۳۱۔ کیا معراج ،آج کے علوم سے ہم آہنگ ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۳۲۔کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟ ۳۰۔ معراج؛ جسمانی تھی یا روحانی اور معراج کا مقصد کیا تھا؟

۳۱۔ کیا معراج ،آج کے علوم سے ہم آہنگ ہے؟ 

گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں واقعہٴ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یہی نظریہ تھا ان کے خیال میں اس طرح تویہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس میں مل گئے؟
لیکن” بطلیموسی “نظریہ ختم ہو گیا تو آسمانوں کے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ختم ہوگیا البتہ علم ہیئت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھر ے ہیں مثلاً:
۱۔ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کششِ ثقل ہے جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مداراور مرکزِ ثقل سے نکلنے کےلئے کم از کم چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔ 
۲۔دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا
(1)بعض قدیم فلاسفہ کا یہ نظریہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ، اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں --”خرق “(پھٹنا)اور ”التیام“(ملنا)ممکن نہیں 
۳۔ایسے سفر میں تیسری رکاوٹ اس حصہ میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے جبکہ جس حصہ پر سورج کی بلا واسطہ روشنی پڑرہی ہے اور اسی طرح اس حصہ میں جان لیوا سردی ہے جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ہے۔
۴۔ اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطرناک شعاعیں ہیں کہ جو فضا ئے زمین کے اوپر موجود ہیں مثلا کا سمک ریز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ریز ultra violet ravsاور ایکس ریز x ravsیہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے ارگانزم organismکے لئے نقصان دہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں (زمین پر رہنے والوں کے لئے زمین کے اوپر موجودہ فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم ہوجاتی ہے )
۵۔اس سلسلہ میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ خلامیں انسان کا وزن ختم ہوجاتا ہے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باشندہ بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلا میں جا پہنچیں تو اس کیفیت سے نمٹنا بہت ہی مشکل ہے ۔
۶۔اس سلسلہ میں آخری مشکل زمانہ کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دورحاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہو گاکہ اس کی رفتار اس سے زیادہ ہو ۔
ان سوالات کے پیش نظر چندچیزوں پر توجہ ضروری ہے: 
۱۔ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام تر مشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔
۲۔اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا تھابلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعہ صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے۔ 
زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ، توباقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔
جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں، اور ایسے لباس پہنے کہ جو اسے انتہائی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ سکیں اور مشق کے ذریعہ بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ،یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعہ یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لا محدود طاقت کے ذریعہ یہ کام نہیں کرسکتا ؟
ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لئے انتہائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفرمیں در پیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ،ہاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا، براق ؟ رفرف ؟ یا کوئی اور ؟یہ مسئلہ قدرت کاراز ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ۔
ان تمام چیزوں سے قطع نظر تیز ترین رفتار کے بارے میں مذکورہ نظریہ آج کے سائنسدانوں کے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آئن سٹائن اپنے مشہور نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہے۔
آج کے سائنسداں کہتے ہیں کہ امواج جاذبہRdvs of at f fion زمانے کی احتیاج کے بغیر آن واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے نظام موجودہیں کہ جوروشنی کی رفتارسے زیادہ تیزی سے مرکزِ جہان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے اور ستارے اورشمسی نظام تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں) (غور کیجئے )
مختصر یہ کہ اس سفر کے لئے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہٴ معراج کو عقلی طورپر محال سمجھا جائے ،اس راستہ میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔
بہرحال واقعہٴ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالہ سے ناممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے ، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے۔(1) (2)


 (1)معراج ، شق القمر اور دونوں قطبوں میں عبادت کے سلسلہ میں ہماری کتاب ”ہمہ می خو اہند بدا نند“ میں رجو ع فر مائیں
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷

 

 
۳۲۔کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟ ۳۰۔ معراج؛ جسمانی تھی یا روحانی اور معراج کا مقصد کیا تھا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma