سوره مائده

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
ترجمه قرآن کریم

  شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱۔اے ایمان لانے والو! اپنے عہد و پیمان اور قول و قرار پورے کرو، چو پائے ( اور چوپایوں کے جنین ) تمہارے لئے حلال کردئے گئے ہیں، ان کے علاوہ جوتم سے بیان کئے جائیں گے ، اور احرام کے وقت شکار کو حلال نہ سمجھو، اور خدا جو چاہتا ہے ( اور مصلحت دیکھتا ہے ) حکم کرتا ہے ۔

۲۔ اے ایمان والو! شعائر خدا وندی ( او رمناسک حج کو محترم سمجھو، اور حدود کی مخالفت) کو حلال قرار نہ دو، اور نہ ہی حرام مہینہ کو او رنہ بغیر نشانی والی قربانیوں کو اورنہ نشانیوں والی کو ،اور نہ  انھیں جو خانہ ٴ خدا کے قصد سے پر وردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے آتے ہیں اور جب تم حالت ِ احرام سے نکل جاوٴ تو پھر شکار کرنا تمہارے لئے مانع نہیں ہے ۔او روہ گروہ جو مسجد الحرام کی طرف ( صلح حدیبیہ کے سال ) تمہارے آنے میں حائل ہوا تھا  اس کی دشمنی تمہیں تجاوز پر نہ ابھارے، اور( ہمیشہ)نیکی اور پرہیز گاری کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور( ہر گز) گناہ اور تجاوزکی راہ  میں ایک دوسرے کاساتھ نہ دو، اور خدا سے ڈرو جس کی سزا سخت ہے ۔

۳۔ مردار کا گوشت ، خون ، سورکا گوشت، وہ جانور جو غیر خدا کے نام پر ذبح ہوں ، وہ جانور جن کا گلا گھونٹ دیاجائے اور تشدد کر کے انھیں مار دیا جائے ،اور وہ جانور جو بلندی سےگرکر مر جائیں ، وہ جانور جو دوسرے جانور کے سنیگ مارنے سے مر جائیں، اور درندہ جانور کے شکار کا باقی ماندہ مگر یہ کہ ( بر موقع اس جانور کے پاس جاپہنچیں اور ) اسے ذبح کرلیں، او روہ جانور جو کسی بت کے اوپر ( یا اس کے سامنے ) ذبح کیے جائیں، ( سب کے سب ) تم پر حرام ہیں، اور (اسی طرح ) قسمت آزمائی کی مخصوص  لکڑیوں سے جانور کا گوشت تقسیم کرنا ، یہ تمام اعمال فسق او رگناہ ہیں ۔ آج کے دن کفار تمہارے دین ( کے زوال ) سے مایوس ہو گئے ہیں لہٰذا ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ( میری مخالفت سے ) ڈرو۔ آج کے روز میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا، او راپنی نعمت تم پر تمام کردی ،اور اسلام کو تمہارے لئے ( ہمیشہ رہنے والے ) دین کی طور پر قبول کرلیا۔ لیکن وہ لوگ کہ بھوک کی حالت میں جن کا ہاتھ کسی اور کھانے تک نہ پہنچے اور وہ گناہ کی طرف مائل بھی نہ ہوں ( تو ان کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ ممنوع گوشت میں سے کھالیں ) خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ۔

۴۔ ائے رسول تم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کونسی چیز ان کے لئے حلال ہے تو آپ ان سے کہدیں کہ تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں، اور وہ شکاری کتے جو تم نے شکار کے لئے سدھا رکھے ہیں اور جو طریقے اللہ نے تمہیں بتا ئے ہیں ان میں سے کچھ تم نے انھیں بھی سیکھایا ہے تو جس جانور کا شکار کریں اور تمہارے لئے محفوظ رکھیں توتم اسے کھاسکتے ہو،اور انھیں چھوڑنے سے پہلے اللہ کا نام لیا کرو، اور خدا سے ڈرتے رہو، کیونکہ اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔

۵۔ آج کے دن پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہوگئی ہیں، اور (اسی طرح) اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے ،اور تمہارا کھانا ان کے لءے حلال ہے ،اور ایسے ہی مسلمان پاک دامن عورتیں اور اہل کتاب میں سے وہ عورتیں جو پاک دامن ہیں تمہارے لئے حلا ل ہیں بشرطیکہ ان کا حق مہر ادا کر دو، اورخود بھی پاک دامن رہو نہ کہ زنا کار، نیز پوشیدہ طور پر اور غیر شرعی طریقے سے یاری نہ لگاؤ ، اور جو شخص اس چیز سے کفر اختیار کرے کہ جس پر ایمان لانا چاہیے، اس کے اعمال باطل اور بے اثر ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں سے ہوگا ۔

۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کوکہنیوں تک دھولو ،اورسراور پاؤں کا ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرو ،اور اگر حالتِ جنب میں ہو تو غسل کرو اور اگر بیمار ہو یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی (قضائے حاجت کی) پست جگہ سے آیاہے یا عورتوں کی مباشرت ہو اور (غسل یا وضو کیلیے) پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سےتیمم کرو، اور اس (مٹی) سے چہرے کے اوپر (پیشانی پہ) اور ہاتھوں پر مسح کرو۔ خدا نہیں چاہتا کہ تمھارے لیے مشکل پیدا کرے بلکہ وہ چاہتاہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے شاید تم اس کا شکر ادا کرو۔

۷۔ اپنے اور پر خدا کی نعمت کو یاد کرو ،اور اس عہد و پیمان کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم سے لیا ہے۔ اس وقت جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ،اور خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو، کیونکہ خدا سینوں کے اندر کے حالات سے آگاہ ہے۔

۸۔اے ایمان والو! ہمیشہ خُدا کے لیے قیام کرو، اور عادلانہ گواہی دو اورکسی گر وہ کی دشمنی تمھیں ترکِ عدالت کی طرف نہ لے جائے۔ عدل کرو کہ وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو خُدا اس سے آگاہ ہے۔

۹۔ خدا نے ایمان لانے والوں اورعمل صالح کرنے والوں سے بخشش اور اجرعظیم کا وعدہ کیاہے۔

۱۰۔ اور جو لوگ کافر ہوگئے ہیں اور ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ اہلِ جہنم ہیں۔

۱۱۔ اے ایمان والو! اس نعمت خدا کویاد رکروجب (دشمن کی) ایک جماعت نے ارادہ کر رکھا تھا کہ تم پر ہاتھ اٹھائے ( اور تمھیں ختم کردے) لیکن خدا نے ان کا ہاتھ تم سے روک دیا، خدا سے ڈرو اور مومنین کو چاہیے کہ وہ صرف خدا پر ہی توکّل (اور بھروسہ) کریں۔

۱۲۔خدا نے بنی اسرائیل سے پیمان لیا اور ان میں سے بارہ رہبر اور سرپرست ہم نے مبعوث کئے ،اور خُدا نے (انھیں) کہا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو، زکٰوة ادا کرو، میرے رسولوں پر ایمان لاآؤ ،اور ان کی مدد کرو، اور خدا کو قرض حسنہ دو(اس کی راہ میں ضرورت مندوں کی مدد کرو) تو تمھارے گناہوں کو چھپادوں گا (بخش دوں گا) اورتمھیں باغات جنت میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی داخل کروں گا ،لیکن جوشخص اس کے بعدبھی کافر ہوجائے تو وہ راہ ِ راست سےمنحرف ہوگیاہے۔

۱۳۔ پس ہم نے ان کی پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ا،ور ان کے دلوں کو سخت کردیا (یہاں تک کہ) وہ (خدا کے) کلام میں تحریف کرتے تھے، اور اس کے کچھ حِصّے کی جو ہم نے انھیں تعلیم دی تھی اسے انھوں نے فراموش کردیا ،اورتمھیں ہر وقت ان کی کسی  نہ کسی(نئی) خیانت کی خبر ملتی رہے گی، مگر ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ (ایسا نہیں ہے) پھربھی ان سے در گذرکرو، اور صرف نظر کرو ،کیونکہ خدا نیک لوگوں کو پسند کرتاہے۔

۱۴۔اور  کچھ لوگ ( عیسی مسیح کی دوستی اور ) نصرانیت کا دعویٰ  کرتے ہیں ، ان سے ( بھی ) ہم نے عہد و پیمان لیا ، لیکن ان لوگوں نے بھی اس چیز کا ایک حصہ فراموش کردیا جن کا انھیں تذکر دیا گیا تھا، لہٰذا ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے عداوت ڈال دی، اور جو کچھ انھوں نے انجام دیا عنقریب خدا انھیں اس کے ( نتائج کے ) بارے میں آگاہ کرے گا ۔

۱۵۔  اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آیاہے جو آسمانی کتاب کے ان بہت سے حقائق کو واضح کرے گا، جنہیں تم چھپاتے تھے، اوربہت سی چیزوں سے ( جن کی عملاً ضرورت نہیں ) صرفِ نظر کرلے گا ۔ خدا کی طرف سے تمہارے پاس نور اور واضح کتاب آئی ہے ۔

۱۶۔ جو لوگ اس کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں خدا انھیں سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرے گا  اور اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر انہیں روشنی میں لیجائے گا اور  انہیں راہِ راست کی ہدایت کرے گا ۔

۱۷۔ یقینا جنھوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے وہ کافر ہوگئے ، کہہ دو اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم ، اس کی ماں اور روئے زمین پر موجود تمام لوگوں کو ہلاک کردے تو اسےکون روک سکتاہے؟ ( ہاں) آسمانوں زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، اس کی حکومت خدا ہی کے لئے ہے، جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

۱۸۔  یہودو نصاریٰ کہتے تھے کہ ہم خدا کے بیٹے ہیں اور اس کے ( خاص) دوست ہیں، ( ان سے ) کہہ دو کہ پھربھی وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے، بلکہ تم  اس کی مخلوقات میں سے انسان ہو، وہ جسے چاہتا ہے ( اور اہل پاتا ہے ) اسے بخش دیتا ہے ،اور جسے چاہتا ہے ( اور مستحق سمجھتا ہے ؟) اسے سزا دیتا ہے ۔ آسمانوں اور زمین کی حکومت او رجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب  اسی کے لئے  ہےاور تمام موجودات کی باز گشت اسی کی طرف ہے ۔

۱۹۔  اے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہے اور وہ پیغمبروں کے درمیانی عرصے اور فاصلے کے بعد تمہارے لئے حقائق بیان کرتا ہے کہ مبادا( روز قیامت) کہو کہ ہمارے پاس نہ بشارت دینے والا آیا ہے نہ ڈرانے والا( لہٰذا اب ) بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ( پیغمبر) تمہارے پاس آگیا ہے، اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

۲۰۔وہ وقت یاد کرو ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تم پر خدا نے جو نعمت دی ہے اسے یاد رکھو، جب اس نے تمہارے لئے انبیاء مقرر کئے ( اور فرعونی استعمار کی زنجیر توڑدی) اور تمہیںخود اپنا مختا ر بنادیا ،او رتمہیں ایسی کئی چیزیں بخشیں جو عالمین میں سے کسی کو نہیں دیں۔

۲۱۔ اے قوم ! سر زمین مقدس میں داخل ہو جاوٴ جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے ،اور اپنے پچھلے پاوٴں نہ لوٹ جاوٴ ( اور پیچھے نہ ہٹو ) کہ خسارے میں رہو گے ۔

۲۲۔ وہ کہنے لگے : اے موسیٰ ! اس سر زمین میں ظالم رہتے ہیں جب تک وہ نکل نہ جائیں ہم اس میں ہر گز داخل نہ ہوں گے ،اگر وہ نکل جائیں تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔

۲۳۔ ان لوگوں میں سے دوشخص جو خدا سے ڈرتے تھے اور خدا نے ( عقل، ایمان اور شجاعت کی صورت میں ) انھیں اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے:تم  ان کے شہر کے دروازے(ایک ساتھ) میں داخل ہوجاوٴ، جب تم داخل ہوجاوٴ گے تو فتحیاب ہو جاوٴ گے، اور خدا پر توکل کرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔

۲۴۔ بنی اسرائیل کہنے لگے: اے موسیٰ ! جب تک وہ اس میں ہیں ہم ہرگز وہاں نہیں جائیں گےتو اورتیرا پر وردگار جائے اور ( ان سے ) جنگ کرے، ہم تو یہیں بیٹھیں ہیں ۔

۲۵۔موسیٰ نے کہا: پر وردگارا!میرا تو بس اپنے پر اور اپنے بھائی پر بس چلتا ہے ، لہذا ہمارے اور گنہگار جماعت کے درمیان جدائی ڈال دے۔

۲۶۔خدا نے موسیٰ سے فرمایا : یہ سر زمین چالیس سال تک ان کے لئے ممنوع ہے ( اور یہاس تک نہیں پہنچ سکیں گے )، اورہمیشہ اس  زمین میں سر گرداں رہیں گے، اور تم اس گنہگار جماعت ( کے انجام ) کے بارے میں غمگین نہ ہو۔

۲۷۔ ( اے رسول)  آدم کے دو بیٹوں کا قصہ حق کے ساتھ ان کے سامنے پڑھیے، جبکہ ان میں سے ہر ایک نے( پر وردگار کے) تقرب کے لئے کام کیا، مگر ان میں سے ایک کا ( عمل )تو قبول ہوگیا لیکن دوسرے سے قبول نہ کیا گیا ،( وہ بھائی جس کا عمل قبول نہیں ہوا تھا دوسرے بھائی سے ) کہنے لگا : خدا کی قسم میں تجھے قتل کر دوں گا ۔ (دوسرے بھائی نے کہا: ( میں نے کونسا گناہ کیا ہے؟ کیونکہ ) خدا تو صرف پر ہیز گاروں سے قبول کرتا ہے ۔

۲۸۔ اگر تو میرےقتل کے لئے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تو تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاوٴں گا،کیونکہ میں عالمین کے پروردگارسے ڈرتا ہوں ۔

۲۹۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ( تو یہ عمل انجام دے کر ) میرے اور اپنےگناہ کا بوجھ اٹھائے پھرے ، اورتو جہنمیوں میں سے ہو جائے، اورستمگر وں کی یہی سزا ہے ۔

۳۰۔ نفس سرکش نے آہستہ آہستہ اسے بھائی کے قتل کے لئے پختہ کردیا، اور اس نے اسےقتل کردیا، اور وہ گھاٹا اٹھا نے والوں میں سے ہو گیا ۔

۳۱۔ اس کے بعد خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین میں کوشش کرتا( اور اسے کھودتا) تا تھاکہ وہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کا جسم زمین میں کسیے دفنائے۔ تو وہ کہنے لگا وائے ہو مجھ پر کہ میں اس کواّ ے جیسا ( بھی ) نہیں ہو سکتا ،کہ اپنے بھائی کو دفن کرسکوں، اور آخرکار وہ ( رسوائی کے خوف اورضمیر کے دباوٴ سے اپنے کام پر ) پشیمان ہوا ۔

۲۳۔  اس بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ قرار دیا کہ جوشخص کسی انسان کو بغیر اس کے کہ وہ ارتکاب قتل کرے اور روئے زمین پر فساد بھیلائے قتل کرد ے تو یہ اس طرح ہے گویا اس نے تمام انسانوں کوقتل کردیا، اور جوکسی ایک انسان کو قتل سے بچا لے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی ہے، اور ہمارے رسول واضح دلائل کے ساتھ بنی اسرائیل کی طرف آئے پھربھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے روئے زمین پرظلم اور تجاوز کیا ۔

۳۳۔جو لوگ خدا اور پیغمبر سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور روئے زمین پر فساد بر پا کرتے ہیں ( اور ڈرا دھمکا کر لوگوں کو جان و مال اور ناموس پر حملہ کرتے ہیں ) ان کی سزا یہ ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے ،یا سولی پر لٹکا دیا جائے یا ان کے دائیں ہاتھ اور بائیں پاوٴں ( کی چار چار انگلیوں ) کو کاٹ دیاجائے، اور یا انھیں ان کی زمین سے جلا وطن کر دیا جائے ۔یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت سخت عذاب ہے ۔

۳۴۔ مگر وہ  لوگ جو ان پرتمہارے ہاتھ ڈالنے سے پہلے توبہ کرلیں، اور جان لو کہ( خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا کیونکہ )خدا بخشنے والااور مہر بان ہے ۔

۳۵۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو ،اور راہ خدا میں جہادکرو تاکہ فلاح اور نجات پاجاوٴ۔

۳۶۔جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ، اگر روئے زمین میں جو کچھ ہے اس کے برابر ان کے پاس ہو اور وہ روز قیامت سزا سے نجات کے لئے فدیہ کے طور پر دے دیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ،اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا ۔

۳۷۔ وہ ہمیشہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل آئیں لیکن وہ اس سے نکل نہ پائیں گے ، اور ان کے لئے پائیدارعذاب ہوگا ۔

۳۸۔چورمرد اور چور عورت کا ہاتھ اس کے انجام دئیے گئےعمل کےبدلے میں خدائی سزا کے طور پر کاٹ دو،اور خدا توانا اور حکیم ہے ۔

۳۹۔لیکن جو شخص ظلم کرنے کے بعد توبہ ، اصلاح اور تلافی کرلے توخدا اس کی توبہ قبول کرلے گا ، کیونکہ خدا بخشنے والا مہر بان ہے ۔

۴۰۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا آسمانوں اور زمین کامالک اور حکمران ہے، جسے چاہتا ہے ( اورمستحق سمجھتا ہے ) سزا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ( او راہل جانتا ہے ) بخش دیتا ہے، اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔

۴۱۔ اے ( خدا کے ) رسول! وہ لوگ جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کے دل ایمان نہیں لائے اور وہ راہ  کفر میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں ، تم ان کے بارے میں غم نہ کرو، اور یونہی یہودیوں کے بارے میں ( جو اسی راہ پر چلتے ہیں )، وہ زیادہ آپ کی باتیں سنتے ہیں تاکہ آپ کی تکذیب کے لئے کوئی بات ہاتھ آجائے ،وہ دوسرے لوگوں کے جاسوس ہیں جو لوگ خود تمہارے پاس نہیں آئے ،وہ باتوں کوان  کے اصلی مطلب سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں! کہ یہ اگر ( جو ہم چاہتے ہیں ) تمہیں دے دیا جائے ( او رمحمد تمہاری خواہش کے مطابق فیصلہ کریں ) تو اسے قبول کرلو، ورنہ دوری اختیار کرو،( اور اس پر عمل نہ کرو )اور جسے خدا ( اس کے پے در پے گناہوں کی وجہ سے )سزا دینا چاہے تو کوئی اسے بچا نہیں سکتا، وہ ایسے لوگ ہیں کہ خدا ان کے دلوں کی پاکی نہیں چاہتا ۔ انھیں دنیا میں رسوائی نصیب ہو گی اور آخرت میں وہ عذاب عظیم  سے د چار ہو ں گے ۔

۴۲۔ وہ تمہاری باتیں بہت غور سے سنتے ہیں تاکہ انھیں جھٹلائیں،اور بہت زیادہ وہ مال حرام  کھاتے ہیں ۔ اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان قضاوت کرو یا ( اگر مصلحت ہو ) تو انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دو، اور اگر ان سے صرف نظر کرلو تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتے، اور ار ان کے درمیان فیصلہ کرو تو عدالت سے کام لو کہ خدا عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

۴۳۔وہ کس طرح تمہیں فیصلہ کرنے کے لئے بلاتے ہیں، جبکہ ان کے پاس تورات ہے اور اس میں خدا کا حکم موجود ہے، ( اور پھر ) کیوں تمہارے فیصلہ کے بعدتم سے منہ پھیر لیتے ہیں؟ اور وہ مومن ہی نہیں ہیں ۔

۴۴۔ ہم نے توریت کو نازل کیا کہ جس میں ہدایت اور نور تھا ہی اور انبیاء کہ جو حکم خدا کے سامنے تسلیم تھے اس کے مطابق یہودیوں میں فیصلہ کرتے تھے،اور (اسی طرح)علماءبھی اس کتاب کے مطابق حکم کرتے تھے کہ جو ان کےسپردتھی،اور وہ اس پر گواہ تھے، اس بنا پر(آیات الہٰی کے مطابق فیصلہ کرنے کے بارے میں ) لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو، او رمیری آیات کوکم قیمت پر نہ بیچو، او رجو لوگ خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔

۴۵۔ اور ہم نے اس ( توریت) میں ان( بنی اسرائیل )کے لئے مقرر کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان ہے اور ہر زخم کے لئے قصاص ہے اور اگر کو ئی ( قصاص سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ) اسے بخش دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگا، اور جولوگ خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں ۔

۴۶۔  اور ان ( گذشتہ انبیاء) کے بعد ہم نے عیسیٰ کو مقرر کیاوہ اس توریت کی تصدیق کرتے تھے جو ان سے پہلے بھیج دی گئی تھی، اور ہم نے اسے انجیل دی کہ جس میں ہدایت او رنور تھا( اور اس کی یہ آسمانی کتاب بھی ) تورات کی تصدیق کرتی تھی جو اس سے پہلے تھی اور متقیوں کے لئے ہدایت او رموعظہ ہے ۔

۴۷۔ ہم نے اہل انجیل ( پیروان ِ مسیح ) سے کہا کہ جوکچھ خدا نے اس میں نازل کیا ہے وہ اس کے مطابق حکم کریں، اور جو لوگ اس کے مطابق حکم نہیں کرتے جو خدا نے نازل کیا ہے ، وہ فاسق ہیں ۔

۴۸۔ اور اس کتاب کو ہم نے حق کے ساتھ تم پر نازل کیا جبکہ یہ گذشتہ کتب کی تصدیق کرتی ہے، اور ان کی محافظ و نگہبان ہے، لہٰذا خد انے جو احکام نازل کئے ہیں ان کے مطابق حکم کرو اور ان کے ہواو ہوس کی پیروی نہ کرو، اور احکام الہٰی سے منہ نہ پھیرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے واضح آئین اور طریقہ مقرر کردیا ہے ۔ اگر  وہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت قرار دیتا لیکن خدا چاہتا ہے کہ اس نے جو کچھ تمہیں بخشا ہے اس میں تمہیں آزمائے ( اور تمہاری صلاحیتیوں کی نشو ونما کرے ) اس لئے تم کوشش کرو اور نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاوٴ ۔ تم سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے، اور جس میں تم نے اختلاف کیا ہے وہ تمہیں اس کی خبر دے گا ۔

۴۹۔ اور ان ( اہل کتاب) کے درمیان تمھیں اس کے مطابق حکم کرنا چاہئیے جو خدا نے نازل کیا ہے، اور ان کی ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو ،اور ان سے ہوشیار رہو کہیں تمہیں وہ بعض ایسے احکام سےمنحرف کردیں جو تم پر نازل ہوئے ہیں، اور اگر وہ ( تمہارے کام اور فیصلے سے ) رو گردانی کریں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے کچھ گناہوں کے بدلے انھیں سزا دے، اور بہت سے لوگ فاسق ہیں ۔

۵۰۔ کیا وہ ( تم سے ) زمانہ ٴ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں، اور اہل ایمان  ویقین کے لئے خدا سے بہتر حکم کون کر سکتا ہے ۔

۵۱۔اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور سہارا نہ بناوٴ، وہ تو ایک دوسرے کے لئے سہارا ہیں، اور تم میں سے جو لوگ ان سے دوستی کرتے ہیں، وہ انھی میں سے ہیں اور خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔

۵۲۔ ( لیکن) تم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہو جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ لوگ( ان کی دوستی میں)  ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں ڈرہے کہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے( کہ جس میں ہمیں ان کی مدد کی ضرورت پڑے) شاید خدا کی طرف سے کوئی اورفتح یا واقعہ ( مسلمانوں کے فائدے میں ) رونما ہوجائے اور یہ لوگ اپنے دلوں میں جو کچھ چھپائے ہوئے ہیں اس پر پشمان ہوں ۔

۵۳۔ اور وہ جو ایما ن لائے ہیں کہتے ہیں: کیا یہ وہی ( منافق) ہیں جو بڑی تاکید سے قسم کھاتے تھے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ( ان کا معاملہ یہاں تک کیوں آپہنچا کہ) ان کے اعمال نابود ہو گئے اور وہ خسارے میں جا پڑے۔

۵۴۔اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا ( وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا ) خدا آئندہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جسے وہ دوست رکھتا ہوگااور وہ لوگ ( بھی) اسے دوست رکھتے ہوں گے، جو مومنین کے سامنے متواضع اور کفارے کے مقابلے میں طاقت ور ہیں، وہ راہِ خدا میں جہاد کرتےہیں اور سر زنش کرنے والوں کی سر زنش سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے ، وہ جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) عطا کرتا ہے اور ( خدا کا فضل) وسیع ہے ، اور ( ہر چیز کا)  جاننے والا ہے ۔

۵۵۔ تمہارا سر پرست اور رہبر صرف خدا ، اس کا پیغمبر اور وہ  لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں،اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں ۔

۵۶۔اور جو لوگ اللہ ، اس کے پیغمبر اور صاحبان ِ ایمان کی ولایت قبول کرلیں ( وہ کامیاب ہیں کیونکہ ) خدا کی حزب اور پارٹی  کامیاب ہے

۵۷۔اے ایمان والو! اہل کتاب اور مشرکین میں سے ان لوگوں کو اپنی دوست اور سہارا نہ سمجھو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں، اور اسے کھیل کود سمجھتے ہیں ،اور اگرایمان دار ہو تو خدا سے ڈرو۔

۵۸۔ جب ( تم اذان کہتے ہواو رلوگوں کو ) نماز کے لئے پکارتے ہو تو وہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، او راسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسا گروہ ہیں جوعقل و ادراک نہیں رکھتے ۔

۵۹۔ ( اے رسول) کہہ دیجئے: اے ایک کتاب ! کیا تم ہم پر اعتراض کرتے ہو؟کیا اس کے کوئی اور چیز ہے کہ ہم خدا ئے یکتا پر ، جو کچھ اس نے ہم پر نازل کیا ہے اس پر اور جو کچھ اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے اس پر ایمان لائے ہیں ،اور یہ اس بنا پر ہے کہ تم میں سے اکثر راہ ِ حق سے منحرف ہو گئے ہیں ( لہٰذا حق تمھیں اچھا نہیں لگتا ) ۔

۶۰ ۔ ( اے رسول) کہہ دیجئے : کیا میں تمھیں ایسے لوگوں کے بارے میں آگاہ کروں  کہ خداکے نزدیک جن کا ٹھکا نا اور سزا ان سے بد تر ہے ؟ جنھیں خدا نے اپنی رحمت سے دور کیا ہے اور ان پر اپنا غضب نازل کیا ہے ( اور انھیں مسخ کردیا ہے )اور ان میں سے  کچھ کوبندر اور خنزیر بنادئے اور جنھوں نے بت پرستی کی ہے ان کا ٹھکانا برا ہے ،اور وہ راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔

۶۱۔ اور جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ( ( لیکن ) وہ کفر کے ساتھ داخل ہو تے ہیں اور کفر کے ساتھ ہی نکل جاتے ہیں، اور جو کچھ وہ چھپائے ہوئے ہیں خدا اس سے آگاہ ہے ۔

۶۲۔ اورتم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ گناہ ، تجاوز اور مال ِ حرام کھانے میں ایک دوسرے پرسبقت کرتے ہیں، جو کام وہ انجام دیتے ہیں کس قدر بر اہے ۔

۶۳۔ عیسائی او ریہودی علماء انھیں گناہ آمیز باتوں او رمال ِ حرام کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے۔کس قدر برا ہے وہ عمل جو وہ انجام دیتے ہیں ۔

۶۴۔ اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ تو بندھا ہو اہے ۔ انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اور وہ اس بات کی وجہ سے رحمت ِ الہٰی سے دور ہیں، جب کہ اس ( کی قدرت) کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح سے چاہے ( بخشتا اور )خرچ کرتا ہے ،اور یہ آیات جو تجھ پر تیرے پر وردگار کی نازل ہوئی ہیں ان میں سے بہت سوں کے طغیان او رکفر کو بڑھادیتی ہیں ،اور ان کے درمیان ہم نے قیامت تک کے لئے دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے ،او رجب بھی انھوں نے جنگ کی آگ روشن کی خدا نے اسے خاموش کردیا او روہ زمین میں فساد کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

۶۵۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو ہم ان کے گناہ بخش دیں گے اور انھیں نعمات سےمعمور باغات بہشت میں داخل کردیں گے ۔

۶۶۔ اور اگر وہ توریت ، انجیل او رجو کچھ ان کے پر وردگار کی طرف سے ( قرآن کی صورت میں ) نازل ہوا ہے اسے قائم رکھتے تو آسمان او رزمین سے رزق کھاتے ۔ ان میں سے کچھ لوگ میانہ رو ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر برے اعمال انجام دیتے ہیں ۔

۶۷۔ اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اسے کامل طور سے (لوگوں تک) پہنچادو، اور اگر تم نے (ایسا) نہ کیا تو گویا تم نے اس کا (کوئی) کار رسالت انجام ہی نہیں دیا اور خداوندتعالیٰ تمھیں لوگوں کے (ان تمام) خطرات سے (جن کا احتمال ہے)محفوظ رکھے گا اور خداوندتعالیٰ (ہٹ دھرم) کفار کی ہدایت نہیں کرتا ۔

۶۸۔ اے اہلِ کتاب تم کچھ وقعت نہیں رکھتے جب تک کہ تم توریت و انجیل اور اس کو جو تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے قائم اور برپانہ کرو، لیکن جو کچھ تم پر تیرے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے (نہ صرف ان کی بیداری کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ)اُن میں سے بہت سوں کے طغیان اور کفر کو زیادہ کرتا ہے ۔ اس بناپر اس کافر قوم (اور ان کی مخالفت)سے غمگین نہ ہو۔

۶۹۔ وہ لوگ جو( پیغمبر اسلام)  ایمان لائے اور یہودی، ( =حضرت یحیی کے پیرو) صائبین اور عیسائی جو بھی خدائے یگانہ اور روز قیامت پر ایمان لے آئے گا اور عمل صالح بجالائے گا تو نہ ایسے لوگوں پر کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ ہی وہ محزون و مغموم ہوں گے ۔

۷۰۔ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے لیکن جب بھی کوئی پیغمبران کی خواہشات نفسانی اور میلانات کے خلاف آتا  تو بعض کی تکذیب کرتے اور بعض کو قتل کردیتے ۔

۷۱۔ اور انھوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ اس کا کوئی بدلہ اور سزا نہ ہوگی لہٰذا (وہ حقائق کو دیکھنے اور سچی باتوں کو سننے سے) اندھے اور بہرے ہوگئے اس کے بعد پھر (وہ بیدار ہوئے اور) خدانے ان کی توبہ قبول کرلی، اس کے بعد دوبارہ (خواب غفلت میں جا پڑے اور )ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور خدا ان کی کارگزاریوں سے خوب اچھی طرح مطلع ہے ۔

۷۲۔ جنہوں نے یہ کہا کہ خدا مسیح ابن مریم ہی ہے وہ یقینا کافر ہیں، (جبکہ خود) مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل تم خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی ،کیونکہ جوشخص کسی کو خدا کا شریک قرار دے گا خدانے اس پر جنت کو حرام کردیا ہے ،اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے ،اور ظالموں کا کوئی یاور و انصار نہیں ہے ۔

۷۳۔ جنہوں نے یہ کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے وہ بھی یقینا کافر ہوگئے ہیں کیونکہ معبود یگانہ کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر وہ اپنے اس قول سے دستبردار نہ ہوئے تو اُن میں سے (اس عقیدہ پر قائم رہنے والے) کافروں کو دردناک عذاب پہنچے گا ۔

۷۴۔ کیا وہ خدا کے حضور توبہ نہیں کرتے، اُس کی طرف نہیں پلٹتے اور اُس سے طلب بخشش نہیں کرتے جبکہ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

۷۵۔ مسیح ابن مریم فقط فرستادئہ خدا تھے اُن سے پہلے بھی فرستارگان الٰہی ہی تھے، ان کی ماں بھی بہت سچی خاتون تھیں ۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے (لہٰذا تم کس طرح سے مسیح کی الوہیت کا دعویٰ اور اس کی ماں کی عبادت کرتے ہو)غور کرو کہ ہم کس کس طرح سے نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ دیکھو کہ وہ حق سے کس طرح منحرف ہو جاتے ہیں ۔

۷۶۔ کہہ دو کیا تم خدا کے سوا ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں نقصان ہی پہنچاسکتی ہے اور نہ ہی تمہارے نفع  بخش ہے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

۷۷۔ کہہ دواے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں غلو (اور تجاوز) نہ کرو ،اورحق کے سوا کچھ نہ کہو اور ایسے لوگوں کی ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیا ،اور سیدھے راستے سےمنحرف ہوگئے ۔

۷۸۔ جو لوگ بنی اسرائیل میں سے کافر ہوگئے ہیں انھیںحضرت داؤد و عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ۔ یہ اس بناپر ہوا کہ وہ گناہ اور تجاوز کرتے تھے ۔

۷۹۔ وہ ان برے اعمال سے جنہیں وہ خود انجام دیتے تھے ایک دوسرے کو منع نہیں کیا کرتے تھے ۔

۸۰۔ تم اُن میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں (اور بت پرستوں) کو دوست رکھتے ہیں، (اور اُن سے راہ ورسم بڑھاتے ہیں) انھوں نے کتنے ایسےبُرے اعمال اپنے (انجام اور آخرت) کے لئے آگے بھیجے ہیں، کہ جن کا نتیجہ خدا کی ناراضگی تھی ،اور وہ ہمیشہ عذاب (الٰہی) میں رہیں گے ۔

۸۱۔اگر وہ خدا پر اور پیغمبر پر اور جو کچھ اس کے اوپر نازل ہوا ہے اُس پر ایمان لے آتے تو (ہرگز) انھیں اپنا دوست نہ بناتے ،لیکن ان میں بہت سے فاسق ہیں۔

۸۲۔  یقینی طور پر تم یہود اورمشرکین کو مومنین کی دشمنی میں سب لوگوں سے بڑھا ہوا پاؤگے، لیکن وہ لوگ کہ جوخودکومسیحی کہتے ہیں انھیں تم مومنین کے ساتھ دوستی میں قریب تر پاؤ گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں کچھ دانشمند اور دنیا سے دور افراد موجود ہیں، اور وہ حق کے مقابلے میں تکبّر نہیں کرتے ۔ ([1])

۸۳۔  اور وہ جس وقت پیغمبر پر نازل ہونے والی آیات سنتے ہیں توتم دیکھوگے کہ ان کی آنکھوں سے (فرط شوق میں) آنسو جاری ہوجاتے ہیں، کیونکہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں اے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں تو تو ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ دے ۔

۸۴۔  ہم خدا پر اور اُس حق پر جو ہم تک پہنچا ہے کیوں ایمان نہ لے آئیں جبکہ ہماری آرزو ہے کہ وہ ہمیں صالحین کےگروہ میں سے قرار دے

۸۵۔  خدا نے انھیں ان ہی باتوں کی وجہ سے جنت کے ایسے باغات ثواب وجزا کے طور پر دیئے کہ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ اور یہ نیکوکار لوگوں کی جزا ہے ۔

۸۶۔  اور وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیں اور انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا  ہےوہ اہلِ دوزخ ہیں ۔

۸۷۔ اے ایمان والو! اُن پاکیزہ چیزوں کو جو خدانے تم پر حلال کردی ہیں اپنے اُوپر حرام نہ کرو ،اور حد سے تجاوز نہ کرو، کیونکہ حد سے تجاوز کرو کیونکہ خدا تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

۸۸۔ اور خداوند تعالیٰ نے حلال اور پاکیزہ نعمات میں سے جو رزق تمہیں دے رکھا ہے اُنہیں کھاؤ اور اس خدا (کی مخالفت) سے پرہیز کرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

۸۹۔ خداوند تعالیٰ تمہیں بے ہودہ (اور بے ارادہ) قسموں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا ،لیکن وہ قسمیں کہ جنہیں (ارادہ کے سات) تم نے محکم کیا ہو، ان کے بارے میں مواخذہ کرے گا ۔ اس قسم کی قسموں کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے (اور وہ کھانا ایسا ہونا چاہیے) جو تم عام طورپر اپنے گھروالوں کوکھلاتے ہو، یادس مسکینوں کو لباس پہنانا ہے ،یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، اور جسے ان میں سے کچھ میسّر نہ ہووہ تین دن روزے رکھے، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ۔ جب تم قسمیں کھاتے ہو (اور پھر ان کی مخالفت کرتے ہو)، اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو اور انہیں نہ توڑو۔ خداوند تعالیٰ اسی طرح سے اپنی آیات کو تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر بجالاؤ۔

۹۰۔ اے ایمان لانے والو شراب، قمار بازی، بت اور ازلام (جو ایک قسم لاٹری تھی) پلید اورعمل شیطان ہیں، ان سے سے اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

۹۱۔ شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور قمار بازی کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی ڈال دے اور تمہیں ذکر خدا اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم (ان تمام نقصانات اور اس تاکیدی نہی کے بعد) اس سے رکو گے؟

۹۲۔ اور خدا اور پیغمبر کی اطاعت کرو ،اور (اس کے فرمان کی مخالفت سے) ڈرو ،اور اگر تم روگردانی کرو گے تو (سزا کے مستحق ہوگے، اور) جان لو کہ پیغمبر کے ذمہ واضح ابلاغ کے سوا اور کچھ نہیں ہے ،(اور اس نے یہ فریضہ تمہارے سامنے انجام دے دیا ہے )۔

۹۳۔جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انھوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی ،بشرطیکہ وہ آئندہ ان چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں ،اور اچھے کام کریں، پھر جس چیز سے روکا جائے اُس سے رکیں ،اور جو اسے فرمان الٰہی  مانیں ۔ پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویّہ رکھیں، الله نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔

۹۴۔ اے ایمان والو! خدا تمھیں شکار کی اس مقدار کے ساتھ کہ (جو تمھارے قریب آجائیں اور) تمھارے ہاتھ اور نیزے اُن تک پہنچ جاتے ہیں، آزمائے گا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون شخص غیب پر ایمان رکھتے ہوئے خدا سے ڈرتا ہے ،اور جو شخص اُس کے بعد تجاوز کرے تو اُس کے لئے دردناک عذاب ہوگا ۔

۹۵۔ اے ایمان والو! حالت احرام میں شکار نہ کرو، اور جوشخص تم میں سے جان بوجھ کر اُسے قتل کرے گا تو اُسے چاہیےکہ اُس کا معادل کفارہ چو پاؤں میں سے دے ۔ ایسا کفارہ کہ جس کے معادل ہونے کی دو آدمی تصدیق کریں اور وہ قربانی کی شکل میں کعبہ (کے حدود) میں پہنچے یا (قربانی کے بجائے) مساکینوں اور فقرا کو کھانا کھلائے، یا اس کے معادل روزے رکھے ،تاکہ اپنے کام کی سزا کا مزہ چکھے ۔جو کچھ گذشتہ زمانے میں ہوچکا ہے خدا نے وہ معاف کیا اور جو شخص تکرار کرے  گاخدا اُس سے انتقام لے گا اور خدا توانا اور صاحبِ انتقام ہے ۔

۹۶۔ دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے، تاکہ تم اور مسافرین اس سے فائدہ اٹھائیں، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تو صحرا کا شکار تم پر حرام ہے، اور خدا (کی نافرمانی) سے کہ جس کی طرف تم محشور ہوں گے ڈ رتے رہو ۔

۹۷۔ خدانے کعبہ، بیت الحرام کو لوگوں کے کام کے لئے سامان مہیا کرنے کا ایک وسیلہ قرار دیا ہے، اور اسی طرح حرمت والا مہینہ اور بے نشان قربانیان اور نشاندار قربانیاں، اس قسم کے (حساب شدہ اور دقیق) احکام اس لئے ہیں کہ تمھیں معلوم ہوکہ خدا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، جانتا ہے ۔

۹۸۔ جان لو کہ خدا شدید سزا دینے والا ہے (اور اس کے باوجود) وہ بخشنے والا  اورمہربان بھی ہے

۹۹۔ پیغمبر کی ذمہ داری ابلاغِ رسالت (اور احکام الٰہی پہنچانے) کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، (اور وہ تمھارے اعمال کا جواب دہ نہیں ہے) اور خدا جانتا ہے کہ تم کن چیزوں کو آشکار اور کن چیزوں کو مخفی رکھتے ہو ۔

۱۰۰۔ کہہ دو کہ پاک وناپاک (کبھی) برابر نہیں ہوسکتے، اگرچہ ناپاکوں کی کثرت تجھے بھلی معلوم ہو، خدا (کی مخالفت) سے پرہیز کرو، اے صاحبان عقل وخرد! تاکہ تم فلاح ونجات حاصل کرسکو ۔

۱۰۱۔اے ایمان والو!اگر تم ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کروگے کہ اگر وہ تمہارے لئے آشکار ہو جائیں تو تم رنجیدہ ہو جاؤگے؛ اور اگر قرآن کے نزول کے وقت ان کے بارے میں سوال کروگے تو وہ تمہارے لئے آشکار ہو جائیں گی؛خدا نے (تمہاری سہولت کے لئے)ان سے چشم ہوشی کرلی ہے۔اور خدا وند عالم بخشنے والا اور برد بار ہے۔

۱۰۲ ۔تم سے پہلے والے کچھ لوگوں نے بھی ان کے بارے میں سوال کیا تھا ؛ پھر وہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے (ممکن ہے تمہاری بھی یہی حالت ہوجائے)۔

۱۰۳۔ خدا نے کوئی ”بحیرہ“، ”سائبہ“،”وصیلہ“، ”حام“ قرار نہیں دیا([2]) لیکن جو لوگ کافر ہوگئے انھوں نے خدا پر جھوٹ باندھا اور اُن میں سے زیادہ تر تو سمجھتے نہیں ہیں ۔

۱۰۴۔ اور جس وقت ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور پیغمبر کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اپنے آباؤاجداد سے پایا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے ،کیا ایسا نہیں ہے کہ ان کے آباؤاجداد کچھ نہیں جانتے اور انھوں نے ہدایت حاصل نہیں کی تھی ۔

۱۰۵۔اے ایمان والو!اپنے اُوپر نظررکھو،جب تمھیں ہدایت حاصل ہوجائے تو ان لوگوں کی گمراہی جو گمراہ ہوچکے ہیں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا نہیں سکے گی، تمام چیزوں کی بازگشت خدا کی طرف ہے اور وہ تمھیں اس عمل سے جو تم کیا کرتے تھے آگاہ کرے گا ۔

۱۰۶۔اے ایمان لانے والو! جب تم  میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے تو وصیت کرتے وقت اپنے میں سے دوعادل افرادکو بلالو، اگر تم سفرمیں ہو اور تمھیں موت آپہنچے(اور راستے میں تمھیں کوئی مسلمان نہ ملے)تو اغیار میں سے دوفرد، اور اگر شہادت ادا کرتے وقت ان کے سچے ہونے میں شک کرو تو انھیں نماز کے بعد روک رکھو تاکہ وہ یہ قسم کھائیں کہ ہم حق کو کسی چیز کے بدلے فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اگر چہ ہمارے رشتہ داروں کے بارے میں ہی میں کیوں نہ ہو اور ہم خدائی شہادت کو نہیں چھپاتے کہ مبادا ہم گنہگاروں میں سے ہوجائیں ۔

۱۰۷۔اور اگر اطلاع حاصل ہوجائے کہ وہ دونوں گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں( اور انہوں نے حق کو چھپایا ہے) تو دو اور ایسے افراد کہ جو میت سے زیادہ نزدیک ہیں ان کی جگہ قرار پائیں گے، اور خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی کی نسبت حق کے زیادہ قریب ہے اور ہم تجاوز و زیارتی کے مرتکب نہیں ہوئے  ہیں،اور اگر ہم نے ایسا کیا ہو تو ہم ظالمین میں سے ہوں گے ۔

۱۰۸۔یہ کام زیادہ سبب بنے گا کہ وہ حق کی گواہی دیں( اور خدا سے ڈریں) اور یا( لوگوں سے )ڈریںکہ (ان کا جھوٹ فاش ہوجائے گا اور) ان کی قسموں کی جگہ دوسروں قسمیں لے لیں گی ،اور خدا (کی مخالفت) سے ڈرو اور کان دھر کر بات سنو اور خدا فاسقین کی ہدایت نہیں کرتا ۔

۱۰۹۔ اُس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا، اور انھیں کہے گا کہ لوگوں نے تمھاری دعوت کا کیا جواب دیا تھا تو وہ کہیں گے ہمیں تو پتہ نہیں تُو خود تمام پوشیدہ چیزوںکا جاننے والا ہے ۔

۱۱۰۔ وہ وقت یاد کرو جب خدا نے عیسیٰ بن مریم سے کہا کہ اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تیری تقویت کی کہ تو گہوارے میں اور بڑے ہوکر لوگوں سے گفتگو کرتا تھا، اور جب میں نے تجھے کتاب وحکمت اور توریت وانجیل کی تعلیم دی، اور جب کہ تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل بناتا اور اُس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، اور مادر زاد اندھے اور برص کی بیماری والے کو تو میرے حکم سے شفا دیتا تھا اور مُردوں کو (بھی) تو میرے حکم سے زندہ کرتا تھا، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھے اذیت وتکلیف پہنچانے سے بازرکھا جب تو ان کے پاس واضح دلائل لے کر آیا تھا لیکن اُن میں سے کافروں کی ایک جماعت نے کہا کہ یہ تو کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں ۔

۱۱۱۔اور وہ وقت یاد کرو جب میں نے حواریون کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے بھیجے ہوئے پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا: کہ ہم ایمان لے آئے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں ۔

۱۱۲۔وہ وقت یاد کروکہ جب حواریون نے یہ کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تمہارا پروردگار آسمان سے مائدہ نازل کرسکتا ہے تو اُس نے (جواب میں) کہا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اللہ سے ڈرو ۔

۱۱۳۔وہ کہنے لگے (ہم یہ بات بُری نیت سے نہیں کہتے بلکہ) ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل (آپ کی رسالت پر) مطمئن ہوجائیں، اور ہم جان لیں کہ تونے ہم سے سچی بات کہی ہے، اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں ۔

۱۱۴۔عیسیٰ (علیه السلام) نے عرض کیا: اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما،تا کہ وہ ہمارے اوّل و آخر کے لیے عید قرار پائے، اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں روزی عطا فرما، تو بہترین روزی دینے والا ہے ۔

۱۱۵۔خداوند تعالیٰ نے (اس کی دعا قبول فرمالی اور) کہا: میں اُسے تم پر نازل کروں گا، لیکن  اس کے بعدجو شخص تم میں سے کافر ہوجائے گا (اور وہ انکار کی راہ اختیار کرے گا) اُسے میں ایسی سزادوں گا کہ عالمین میں سے ویسی سزا کسی کو نہ دی ہوگی۔

۱۱۶۔وہ وقت یاد کرو جب خداوندتعالیٰ عیسیٰ ابن مریم سے کہے گا کہ (اے عیسیٰ) کیا تونے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الله کے علاوہ دو خدا بنالو، وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات پاک ہے، مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ ایسی بات کہوں جو میرے لائق نہیں ہے، اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی تو اس کا تجھے ضرور علم ہوگا ۔ تُو ان سب باتوں کو جاننا ہے کہ جو میرے نفس وروح میں ہیں، لیکن میں جو کچھ تیری ذات پاک میں ہے اُسے نہیں جانتا کیونکہ تو تمام اسرار اور پوشیدہ چیزوں سے باخبر ہے ۔

۱۱۷۔مجھے تو نے جس کام پر مامور کیا تھا اُس کے سوا اُن سے اور کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ میں نے تو اُن سے یہی کہا تھا کہ اُس خدا کی پرستش کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھار بھی پروردگار ہے اور میں تو اس وقت تک ہی اُن کا نگران اور گواہ تھا جب تک کہ اُن کے درمیان تھا اور جب تونے مجھے ان کے درمیان سے اٹھالیا تو پھر تُو ہی اُن کا نگران تھا اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے ۔

۱۱۸۔ (اس صورت میں )اگر تُو انھیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں، (اور وہ تیری  نہ عدم حکمت کی نشانی ہے اور نہ ہی تیری بخشش کمزوری کی علامت ہے) ۔

۱۱۹۔ خدا کہتا ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں سچّوں کو ان کی سچائی فائدہ بخشے گی ۔ ان کے لیے جنت کے باغات ہیں، جن کے (درختوں) کے نیچے پانی کی نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، خدا اُن سے راضی وخوشنود ہوگا اور وہ خدا سے راضی اور خوشنود ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

۱۲۰۔ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام چیزوں کی حکومت الله ہی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔



[1]۔ساتواں پارہ،آیت۸۳سےشروع ہوتاہےلیکن۸۳آیت کومضمو ن کی مناسبت سےیہاں درج کیاگیاہے (مترجم)

[2]۔ یہ چارقسم کےگھریلوجانوروں کی طرف اشارہہے،زمانہ جاہلیت میں ان سےاستفادہ ممنوع سمجھاجاتاتھا،اسلام نےاس بدعت کاخاتمہ کردیا۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma