٢۔ آ یت کے مفاد سے سوء استفادہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں ، یہ آ یات گزشتہ اور بعد میں آنے والی آ یات کے قرینہ سے ، آخرت کے لیے انسان کی سعی وکوشش کوبیان کررہی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود چونکہ یہ چیزایک مسلم عقلی حکم کی بنیاد پرہے ،لہٰذا اس کے نتیجہ کوعمومیت دی جاسکتی ہے ،اور دنیا کی کوششوں کوبھی اس میں شامل سمجھا جاسکتاہے ،اوراسی طرح دنیوی اجروصلہ اورسزاؤں کوبھی ۔
لیکن یہ اس معنی میں نہیں ہے ، جوسوشلسٹ مکتب کے زیراثر بعض لوگ اسے مند کے طورپر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ،کہ اس آ یت کامفہوم یہ ہے ،کہ مالکیت صرف کام کے طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ،اوراس طرح وہ قانون میراث ،مضاربہ اوراجارہ و کرایہ وغیرہ پرخط بطلان کھینچ دیں ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اسلام کادم بھر تے ہیں، اورقرآنی آیات سے استد لا ل بھی کرتے ہیں ،حالانکہ مسئلہ میراث اسلام کے قطعی اصولوں میں سے ہے ۔اور اسی طرح زکوٰة وخمس ہیں،حالانکہ نہ تو وارث نے ہی اپنے مورث کے مال کے لیے کوئی سعی و کوشش کی ہے ، اورنہ ہی خمس وزکوٰة کے مستحقین نے ، اور نہ ہی وصیتوں اورنذ روغیرہ کے موارد میں، حالانکہ یہ تمام امور قرآن مجید میں آ ئے ہیں ۔
دوسرے لفظومیں یہ ایک اصل ہے ،لیکن عام طورپر ہراصل کے مقابلہ میں ایک استثناء ہوتاہے ،مثلاً بیٹے کا باپ سے میراث لیناایک اصل ہے ، لیکن اگربیٹاباپ کاقاتل ہویااسلام سے خارج ہوجائے تواُسے میراث نہیں ملے گی ۔
اسی طرح ہرشخص کی کوشش کے نتیجہ کااس تک پہنچنا ایک اصل ہے ،لیکن اس بات میں کوئی امرمانع نہیں ہے کہ اجارہ کی قرار داد کے مطابق جوایک قرآنی اصو ل ہے (۱) اسے اس چیز کے مقابلہ میں ،جس پر طرفین رضامند ہیں، واگزار کردے ، یاوصیت ونذر کے طریق سے کہ دونوںبھی قرآن میںہیں دوسرے کومنتقل کردے ۔
 ۱۔یہ اصل موسیٰ اور شعیب کی داستان میں سورة قصص آیہ ٢٧ میں آ ئی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma