1۔ عربوں کے تین مشہوربت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

مشرکین عرب کے بہت سے بت تھے ،لیکن بلاشک وشبہ ان میں سے تین بت لات وعزیٰ اورمنات ایک خاص اہمیت اور شہرت رکھتے تھے ۔
ان ناموں کے ساتھ ان تینوں کے نام رکھنے کے بارے میں ، اور اسی طرح سب سے پہلے ان بتوں کے بنانے والے کے متعلق اوران کے مقام اورپرستش کرنے والے قبیلہ کے سلسلہ میں بہت سی باتیں اوراختلافات ہیں، اور ہم یہاں صرف اسی بات پر جوکتاببلوغ الارب فی معرفة احوال العرب میں آ یا ہے ،اکتفاکرتے ہیں ۔
پہلا معروف بت، جسے عربوں نے انتخاب کیا، بت منات تھا، عمروبن لحی کی طرف سے ،بت پرستی کوشام سے حجاز کی طرف منتقل کرنے کے بعد، بنایاگیاتھا ، یہ بت بحرائہ حمر کے پاس مدینہ اور مکہ کے درمیان کے علاقہ میں رکھا گیاتھا، اور تمام عرب اس کااحترام کیاکرتے تھے ۔ اوروہ اس کے پاس قربانی کرتے تھے ،لیکن سب سے زیادہ اسے دوقبیلے ، اوس اور خزرج اہمیت دیتے تھے ، یہاں تک کہ آٹھویں ہجری میں، جوفتح مکہ کا سال تھا ،جس وقت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مدینہ سے مکہ کی طرف جارہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کوبھیج کراسے تڑوادیا ۔
زمانہ جاہلیت کے عربوں نے بت منات بنانے کے ایک مدت بعد لات کوبنایا ، جوایک چار کونوں والے پتھر کی صورت میں تھا ، اور سرزمین طائف میں رکھاگیاتھا، اس جگہ پر جہاں آج مسجد طائف کی بائیں طرف کا منارہ ہے اس بت کے خادم زیادہ تر قبیلہ ٔ ثقیف میں سے تھے ، جب وہ مسلمان ہوگئے ،توپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغیرہ کوبھیج کراسے تڑوادیا، اور اس نے اُسے آگ میں پھینک کر جلادیا ۔

تیسرا بت جس کازمانہ جاہلیت کے عربوں نے انتخاب کیاتھا، عزّٰی تھا جومکہ سے عراق کے راستے میں ذات عرق، کے قریب رکھاہوا تھا، اور قریش اس کابہت ہی زیادہ احترام کیاکرتے تھے ۔
وہ ان تینوں بتوں کواتنی اہمیت دیاکرتے تھے ،کہ وہ خانۂ خدا کے گروطواف کرتے وقت کہتے تھے ۔: والّات والعزی ومناة الثالثة الاخرٰی ، فانھن الغرانیق العلیٰ ،وان شفاعتھن لترتجی : لات وعزی اورمنات خوبصورت اوربلند مقام پرندے ہیں کہ جن سے شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے !!اوروہ انہیں خداکی بیٹیاں سمجھتے تھے (ظاہر یہ ہے کہ و ہ انہیں فرشتوں کی مورتیاں خیال کرتے تھے جنہیں وہ خدا کی بیٹیاں کہہ کرپکارتے تھے (۱) ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کانام رکھنے میں بھی غالباً انہوں نے خدا کے ناموں سے استفادہ کیاہواتھا، زیادہ سے زیادہ تانیث کی علامت کے ساتھ ،تاکہ وہ اوپر والے عقیدہ کوظاہرکرے، اس طرح سے کہ اللّات اصل میں اللاھہ تھا، اس کے بعد حرف ھ ساقط ہوگیا، او ر اللّات ہوگیا(۲)اور العزّٰی اعز کی مؤ نث ہے اورمنات منی اللہ الشیئ کیس چیز کے خدا کی طرف سے مقدر ہونے سے لیاگیاہے ۔
بعض اسے نوئ کے مادہ سے جانتے ہیں جوان ستاروں میں سے تھاجن کے بارے میں عربوں کایہ عقیدہ تھاکہ جب وہ طلوع کرتے ہیں توان کے ساتھ ہی بارش ہوتی ہے ،اور بعض اسے بروزن سعی کے مادہ سے خون بہانے کے معنی میں جانتے ہیں، کیونکہ وہ قربانی کے خون ان کے پاس بہایاکرتے تھے (۳) ۔
بہرحال عرب ان بتوںکااس قدر احترام کیاکرتے تھے ،کہ بعض قبیلوں یاافراد کانام عبدالعزی اور عبدمناف کی طرح کے رکھا کرتے تھے(۴) ۔
۱۔"" بلوغ الارب فی معرفت احوال العرب"" جلد ٢،صفحہ ٢٠٢،٢٠٣۔
۲۔اس معنی کے مطابق اللات کواللاة (گول تاء ) کے ساتھ لکھاجاناچاہیے ، لیکن چونکہ وقفی حالت میں (ھائ) کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے اور ممکن ہے کہ لفظ "" اللہ"" کے ساتھ اشتباء ہوجائے لہٰذا سے "" اللّات"" کی صورت میں لکھتے ہیں ۔
۳۔پہلااحتمال کشاف میں اور دوسرابلوغ الارب میں آ یاہے ۔
۴۔بلوغ الارب جلد ٢،صفحہ ٣٠٢اور ٣٠٢۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma