توہماری مکمل حفاظت ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

اس بحث کے بعد جوگزشتہ آیات میں مشرکین اورہٹ دھرم منکرین کے بارے میں آ ئی ہے ،جوایک ایسی بحث تھی کہ ہرحق طلب انسان کے لیے حقیقت کوواضح کرتی تھی ،ان آ یات کے تعصب اورہٹ دھرمی سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتا ہے: وہ ایسے ہٹ دھرم ہیںکہ اگروہ اپنی آنکھ سے دیکھ لیں کہ ایک ٹکڑا آسمانی پتھروںکاعذابِ الہٰی کے طورپر نیچے گررہاہے تووہ یہ کہیں گے : تمہیں مغالطہ ہواہے ، یہ پتھر نہیںہے ، یہ تو تہ بہ تہ بادل ہے ،جوزمین پر برسنے والاہے (وَ ِنْ یَرَوْا کِسْفاً مِنَ السَّماء ِ ساقِطاً یَقُولُوا سَحاب مَرْکُوم)(١) ۔
جولوگ اس قدر ہٹ دھرم ہوں کو محسوس حقائق کابھی انکار کردیں اور آسمانی پتھروں کی تہ بہ تہ بادل کہنے لگیں حالانکہ تمام لوگوں نے بادل کو ،جب وہ زمین کے قریب ہوتاہے ۔ دیکھاہے کہ وہ نجارات کے مجموعہ کے سوال اور کچھ نہیں ہے ، یہ لطیف بخارات تہ بہ تہ ہو کرپتھر میں کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں؟
ان افراد کی حقائق معنوی کے مقابلہ مین تکلیف وذمہ داری واضح ہے ۔
ہاں!گناہ ،ہواپرستی ،عناد اورہٹ دھرمی کی تاریکی انسان کی نگاہ کے افق کواس طرح سے تیرہ تاریک کردیتی ہے کہ آخر کاروہ محسوسات کابھی انکار کرنے لگ جاتے ہے ۔
مرکوم متراکمکے معنی میں ہے اور وہ ایک ایسی چیز ہوتی ہے جن کابعض حصہ دوسرے بعض حصہ پرقرار پایاہو۔
لہذا بعدوالی آ یت میں مزید کہتا ہے: اب جب کہ ایسا ہے توان کوچھوڑ دے اوراس ہٹ دھرم گروہ کی ہدایت کے لیے زور نہ دے ، تاکہ وہ اپنے موت کے دن کی ملاقات کرتے ہوئے خداکے عذابوں کو جوان کیانتظار میں ہیںاپنی آنکھ سے دیکھ لیں(فَذَرْہُمْ حَتَّی یُلاقُوا یَوْمَہُمُ الَّذی فیہِ یُصْعَقُونَ)۔
یصقون صعق اور اصعاق کے مادہ سے مارڈالنے کے معنی میں ہے،اوراصل میں صاعقہ سے لیاگیاہے ، اور چونکہ صاعقہ لوگوں کوہلاک کردیتی ہے،لہذا جہاں پرانسانوں کی عمومی موت سے ، جوقیامت کامقدمہ ہے،تفسیر کی ہے ،لیکن یہ تفسیر بعید نظر آ تی ہے ،کیونکہ وہ اس زمانہ تک باقی نہیں رہیں گے ،بلکہ وہی پہلامعنی ہے ،یعنی ان کوموت کے دن کے لیے ، جواخردی سزاؤں اورعذابوں کاسرآغاز ہے ،چھوڑدے ۔
ہم نے جوکچھ بیان کیاہے اس سے معلوم ہوگیا ہے کہ ذرھم(انہیں چھوڑدے) کاجملہ ایک تہدید آمیزامرہے، اوراس سے مراد ایسے ناقابل ہدایت افراد کی تبلیغ پراصرار کوترک کردیناہے ۔اس بناپر نہ توپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی طرف سے عمومی سطح پرتبلیغ کوجاری رکھنے کے ساتھ منافات رکھتاہے اور نہ ہی فرمان جہاد کے ساتھ۔
اس بناپر بعض کایہ کہناکہ :یہ آ یت آیات جہاد کیساتھ نسخ ہوگئی ہے ،کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں ہے ۔
اس کے بعداس دن کاتعارف کراتے ہوئے کہتاہے : وہی دن ،جس میں ان کی چارہ جوئی اورمنصوبے انہیںکوئی فائدہ نہیں دیں گے ، اور فرار کے تمام راستے ان کے سامنے بند ہو جائیں گے ،اور کسی طرف سے ان کی مدد نہ کی جائے گی (یَوْمَ لا یُغْنی عَنْہُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئاً وَ لا ہُمْ یُنْصَرُونَ ) ۔
ہاں جوشخص مرجاتا ہے اس کی قیامت صغریٰ برپاہو جاتی ہے (من مات قامت قیامتہ)اوروہ جزاؤن اور سزاؤںکے لیے ابتداء ہوتی ہے ،جن میں سے بعض تو برزخی پہلو رکھتی ہیں، او ربعض دوسری قیامت کبریٰ میں ،یعنی انسانوں کوعمومی قیامت میں انہیں دامنگیر ہوں گی، اوران دونوں مراحل میں نہ تو چارہ جوئیاں مؤثر ہوں گی اور نہ ہی ارادہ الہٰی کے مقابلہ میں کوئی ناصر و مددگار ہوگا۔
اس کے بعد مزید کہتاہے،:وہ یہ تصور نہ کربیٹھیں کہ صرف برزخ اورقیامت کاعذاب ہی ہوگا، ان لوگوں کے لیے جنہوںنے ظلم وستم کیاہے اورکفر وشرک اختیارکیاہے ،اس سے پہلے بھی اس دنیامیں ان کے لیے سزاوعذاب ہے ،اگرچہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے (وَ اِنَّ لِلَّذینَ ظَلَمُوا عَذاباً دُونَ ذلِکَ وَ لکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لا یَعْلَمُون) ۔
ہاں!انہیں اس دنیامیں بھی ان عذابوں کیانتظار میںرہناچاہیئے ،جیساکہ گزشتہ اقوام پرہوئے ، مثلاً صاعقے ،زلزلے، آسمانی پتھر، خشک سالی، قحط یاسپاہ توحید کے مجاہدین کے توانا ہاتھوں سے قتل ہونا،جیسا کہ جنگ بدرمیں سرداران شرک کے ایک گروہ کے لیے اتفاق ہوا، مگر یہ کہ وہ بیدار ہوجائیں، توبہ کرلیں اورخدا کی طرف پلٹ آئیں ۔
یقینا ان میں سے ایک گروہ توقحط اورخشک سالی میں گرفتار ہوا، اورایک گروہ،جیساکہ ہم نے بیان کیاہے جنگ بدر میں قتل کردیاگیا، لیکن ایک عظیم گروہ نے توبہ بھی کرلی، اور ایمان لے آئے ، اور سچے مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے ،اورخدانے انہیں اپنی عفود بخشش میں شامل قرار دیا(٢) ۔
وَ لکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لا یَعْلَمُونَ (لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے ) کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عام طورپر اس عذاب سے ، جو دنیاوآخرت میں ان پر آنے والاہے ،بے خبر ہیں ، اوراس کامفہوم یہ ہے کہ ان کی اقلیت اس معنی سے آگاہ ہے لیکن اس کے باوجودہٹ دھرمی اورعناد کی وجہ سے اپنی مخالفت پر اصرار کرتے ہیں ۔
بعد والی آ یت میںپیغمبر کوان تمام کا رشکینوں،تہمتوںاورناسزاباتوں کے مقابلہ میں صبرو استقامت کی دعوت دیتے ہوئے فرماتاہے : اپنے پروردگار کے حکم کی تبلیغ کی راہ میں صبرو استقامت وشکیبائی اختیار کر (وَ اصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّک)(٣) ۔
اگرو ہ تجھ کاہن ،مجنون اور شاعر کہتے ہیں توتُوصبر کر، اسی طرح اگروہ آیات قرآنی کوافتراخیال کرتے ہیں جوخدا پرباندھے گئے ہیں توتُوصبر وشکیبائی اختیار کر، اوراگروہ ان تمام منطقی دلیلوںکے مقابلہ میں پھربھی ہٹ دھرمی اور عناد کوجاری رکھتے ہیں ، تو تواستقامت اختیار کر ،کہیں ایسانہ ہو کہ تو مایوس اور ضعیف و ناتواں ہوجائے ۔
کیونکہ توہمارے علم کی نگاہوں کے سامنے ہے اورہماری مکمل حفاظت میں ہے (فَِنَّکَ بِأَعْیُنِنا) ۔
ہم ہرچیزکودیکھ رہے ہیںاورہرچیز سے باخبرہیں ، اورہم تجھے تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔
َفَِنَّکَ بِأَعْیُنِناکاجملہ بہت لطیف تعبیر ہے ،جوپروردگار کے علم وآگاہی کوبھی بتاتا ہے،اوراس کی کامل حمایت اورلطف کوبھی بیان کرتاہے ۔
ہاں!انسان جب یہ احساس کرلے کہ کوئی بزرگ ہستی حاضر وناظر ہے،اوروہ اس کی تمام کوششوں اور جدوجہد کودیکھ رہی ہے ،اوروہ دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی حمایت کرتی ہے ، تواس موضوع کاادراک اسے طاقت وتوانائی بخشتاہے ، اور زیادہ سے زیادہ مسئو لیت کااحساس بھی ۔
اور چونکہ خداکے راز ونیاز اور اس کی عبادت وبندگی اوراس کی ذات پر پاک کی تسبیح و تقدیس انسان کوآرام وسکون اور قوت وطاقت بخشتی ہے ۔لہٰذا صبرو کاحکم دینے کے بعدفر ماتاہے : جس وقت توکھڑا ہوتواپنے پروردگارکی تسبیح وحمد بجالا ( وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حینَ تَقُومُ) ۔
جسوقت توسحر کے وقت عبادت اور نماز شب کے لیے اٹھے ۔
جس وقت تونیند سے واجب نماز کے لیے اٹھے ۔
اورجب بھی توکسی مجلس ومحفل سے کھڑا ہوتواس کی حمد وتسبیح کر۔
مفسر ین نے اس آیت کی گوناں گوں تفسریں کی ہیں لیکن ان سب کے درمیان جمع کرنابھی ماممکن ہے ،چاہے وہ سحر کے وقت نمازتہجدکے لیے ہو، چاہے نیند کے بعد نماز فریضہ کے اداکرنے کے لیے ہو،اور چاہے وہ ہرمجلس سے قیام کے بعد ہو۔
ہاں!اپنی روح اورجان کوخدا کی حمد وتسبیح کے ساتھ نور وصفا بخش، اوراپنی زبان کواس کے ذکر سے معطر بنا، اس کی یاد سے مدد لے ، اور دشمن کی کارشکنیوںسے مبارزہ کرنے کے لیے آمادہ ہوجا!
متعدد روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جس وقت کسی مجلس سے اٹھتے تھے تو خدا کی تسبیح اورحمد بجالاتے تھے اورفرماتے تھے: انہ کفارة المجلس یہ حمد وتسبیح مجلس کاکفارہ ہے( ٤) ۔
منجملہ ان کے ایک حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جس وقت کسی مجلس سے اٹھتے توفرماتے :
سبحانک اللھموبحمدک اشھد ان لا الہ الّا انت، استغفرک و اتوب الیک۔
بعض لوگوں نے عرض کیا:اے رسول خدایہ کیاکلمات ہیں جوآپ نے کہے ہیں،آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:
ھن کلمات علمنیھن جبرئیل،کفارات لما یکون فی المجلس
یہ وہ کلمات ہیں جن کی جبرئیل نے (خد ا کی طرف سے )مجھے تعلیم دی ہے ،اور یہ اس چیز کاکفارہ ہے جومجلس میں واقع ہوتی ہے(٥) ۔
اس کے بعد آخری آیت میں مزید کہتاہے : اسی طرح رات میں اس کی تسبیح کر، اور ستاروں کے پشت پھیرنے کے وقت اور طلوع صبح کے وقت (وَ مِنَ اللَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَ ِدْبارَ النُّجُومِ) ۔
بہت سے مفسرین نے ومن اللیل فسبحہ کے جملہ کی نماز شب کے ساتھ تفسیر کی ہےوَ اِدْبارَ النُّجُومِ کی صبح کی دورکعت نافلہ کے ساتھ، جوطلوع فجر کے آغاز اور نورصبح میں ستاروں کے پنہاں ہونے کے وقت پڑھی جاتی ہے ۔
ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے بھی آ یاہے کہ اِدْبارَ النُّجُومِ صبح کی دو رکعت نافلہ ہے جونمازصبح سے پہلے اور ستاروںکے غروب کے وقت بجالاتے ہیں ۔
باقی رہاوادْبارَ النُّجُومِ (جوسورئہ ق کی آ یت ٤٠ میں آ یاہے )تواس سے مراد وہ دو رکعت نافلہ ہیں، جونمازمغرب کے بعدپڑھی جاتی ہیں (لیکن مغرب کے نوافل چار کعتیںہیں جن میں سے اس حدیث میں صرف دورکعت کی طرف اشارہ ہواہے( ٦) ۔
بہرحال،عبادت اور تسبیح وحمدِ خدا رات کے اندر اور طلوع فجر کے آغاز میں ایک اور ہی دوسرا لطف وصفا رکھتی ہیں ،اوردکھادے اوررکا کاری سے بہت دور ہوتی ہے ،اوراس کے لیے روح کی آمادگی اور زیادہ ہوجاتی ہے ،کیونکہ دن کی زندگی میںمشغول رکھنے والے کاموں سے فراغت ہوتی ہے ، اور رات کی استراحت نے انسان کو آرام وسکون بخشا ہواہوتاہے اورقیل وقال اور شور وغوغا نہیں ہوتا۔
حقیقت میں یہ وقت وہی وقت ہے جس میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج پرگئے تھے ،اورمقام قاب قوسین پرراز ونیاز کی خلوت گاہ میں پہنچے تھے، اور اپنے خداکے ساتھ راز ونیاز کی باتیں کی تھیں ۔
اسی بناپرزیربحث آ یات میں ان دو اوقات پرتکیہ ہواہے ۔
ایک حدیث میں پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے منقول ہواہے:
رکعتا الفجر خیرمن الدنیا ومافیھا
تیرے لیے صبح کی نافلہ دورکعت دنیاو مافیہا سے بہتر ہیں (٧) ۔
خداوندا!مجھے عمربھر سحر خیزی اوراپنی ذات سے رازونیاز کی توفیق مرحمت فرما۔
پروردگار!ہمارے قلب کواپنے عشق سے مطمئن اوراپنی محبت سے نورانی،اوراپنے لطف وکرم کاامید وار بنادے ۔
بارالہٰا!ہمیںشیطانی قوتوںاوراپنے دشمنوںکی کار شکنیوںکے مقابلہ میں صبرو شکیبائی اور استقامت وپامردی مرحمت فرما۔تاکہ ہم تیرے پیغمبر کی پیروی کریں ،اوران کی سنت کے مطابق زندگی گذاریں،اوران کی سنت پرہی داعئی اجل کولبیک کہیں ۔
١۔"" کسف""(بروزن فسق)کسی بھی چیز کے ٹکڑ ے کے معنی میں ہے اور من السماء کی تعبیر کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، یہاں آسمانی پتھر کاٹکڑامرادہے ، بعض کتب لغت سے معلوم ہوتاہے ، کہ یہ لفظ کسفہ کی جمع ہے (جیساکہ کسف بروزن پدر بھی جمع ہے ) لیکن اکثر مفسرین نے اسے مفرد کے معنی میںلیا ہے، زیربحث آیت سے ظاہر یہ ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے کیونکہ اس کی صفت کومفرد کی صورت میں لایاہے ۔
٢۔وہ لوگ جو "" فیہ یصعقون""کوروز قیامت اور ابتداء قیامت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں، انہوں نے زیربحث آیت میں عذابِ قبراور عذابِ برزخ کے معنی میں لیاہے ،لیکن چونکہ وہ تفسیرضعیف ہے لہذا یہ احتمال بھی ضعیف ہے ۔
٣۔""حکم ربک""سے مراد ممکن ہے وہی احکامِ الہٰی کی تبلیغ ہو کہ پیغمبراس کی صبرو شکیبائی کرنے پر مامور ہے ،یاخدا کاعذاب ہے جس کادشمنوں کووعدہ دیاگیاہے ،یعنی انتظار کریہاں تک کہ عذابِ الہٰی انہیں پکڑلے ،یا او امر الہٰی اورفرمان خداکے معنی میں ہے یعنی چونکہ خدانے حکم دیا ہے کہ صبرو استقامت کر، اگر چہ تینوں تفاسیر کاجمع کرنابھی ممکن ہے ، لیکن پہلی تفسیرزیادہ مناسب نظر آ تی ہے ،خصوصاً "" انک با عیننا"" کے جملہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ۔
٤۔ "" تفسیرالمیزان"" جلد ١٩،صفحہ ٢٤۔
٥۔"" درالمنثور"" جلدصفحہ ١٢٠۔
٦۔"" مجمع البیان"" سورہ ق کی آ یت ٤٠ کے ذیل میں (جلد ٩،صفحہ ١٥٠) ۔
٧۔تفسیرقرطبی جلد ٩،صفحہ ٦٢٥١ زیربحث آ یات کے ذیل میں ۔

آمین یا رب العالمین
سورہ طور کااختتام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma