اگرسچ کہتے ہیں تواس کے مانند کلام لے آیئں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
گزشتہ آیات میں جنت کی نعمتوں اورہیزگاروں کی پاداشوں کے ایک قابل توجہ حصہ کوبیان کیاگیاتھا ،اوران سے پہلے کی آ یات میں بھی دوزخیوں کے دردناک عذاب کاایک حصہ آ یاتھا۔
پہلی زیربحث آیت میں گزشتہ آیات سے نتیجہ نکالتے ہوئے فر ماتاہے،:اب جبکہ معاملہ اس طرح ہے توتم نصیحت کرتے رہو اوریاد لاتے رہو (فذکرّ) ۔
کیونکہ حق طلب لوگوں کے دل ان باتوں کے سننے سے زیادہ آمادہ ہوں گے ،اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ توان کے لیے حق باتیں بیان کرے ۔
یہ تعبیر اس بات کی اچھی طرح سے نشاندہی کرتی ہے ، کہ ان دونوں گروہوں کی سزاؤں اورنعمتوں کے ذکر کرنے کااصل مقصد ، نئے حقائق کوقبول کرنے کے لیے روحانی طورپر آمادہ کرتاہے ،اور حقیقت میں ہربات کرنے والے کو اپنے کلام کے نفوذ اور بات کی تاثیر کے لیے س روش سے فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔
اس کے بعد ان اتہامات اورنا روانسبتوں کازکر کرتے ہوئے جوہٹ دھرم اورعنادرکھنے والے افراد پیغمبر کودیا کرتے تھے ،فرماتا ہے: اپنے پروردگار کے لطف وکرم اوراس کی نعمتوں کی برکت سے توکاہن ومجنون نہیں ہے (فَذَکِّرْ فَما أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکاہِنٍ وَ لا مَجْنُونٍ) ۔
کاھن اس کو کہاجاتاتھا جواسرارغیبی کی خبردیتا تھااور غالباً اس کادعویٰ یہ تھاکہ وہ جنات کے ساتھ ارتباط رکھتاہے ، اوران سے غیب کی خبریں حاصل کرتاہے ،خصوصاً زمانہ جاہلیت میں کاہن بہت تھے ،منجملہ ان کے دومشہور کاہن شق اور سطیحتھے ،حقیقت میں وہ ایسے ہو شیار لوگ تھے جواپنی ہوش وخرد سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دعووں کے ذ ریعہ لوگوں کوسرمست رکھتے تھے ، کہانت اسلام میں حرام وممنوع ہے ،اورکاہنون کے قول کاکوئی اعتبار نہیں ہے ،کیونکہ اسرارغیب خداکے ساتھ مخصوص ہیں اوراس کے بعد انبیاء اورائمہ میں سے جس کے متعلق مصلحت سمجھتاہے وہ انہیں ان کی تعلیم دیتاہے۔
بہرحال قریش لوگوں کوپیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے پاس سے ہٹا نے کے لیے یہ تہمتیں ان پرلگاتے تھے ، کبھی توانہیں کاہن اورکبھی مجنون اورتعجب کی بات یہ ہے وہ ان دونوں صفات کے تضاد سے بھی واقف نہیں تھے ،کیونکہ کاہن توہوشیارلوگ تھے، جو مجنون ہونے کے برعکس بات ہے ،او راوپر والی آ یت میں ان دونوں افتراؤں کوجمع کرنا شایدان کی اسی پراگندہ گوئی کی طرف اشارہ ہو۔
اس کے بعد تیسرے اتہام کوپیش کرتاہے کہ وہ بھی گزشتہ صفات سے تضاد رکھتاہے ،فرماتا ہے :بلکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک شاعر ہے جس کی موت کاہم انتظار کررہے ہیں (أَمْ یَقُولُونَ شاعِر نَتَرَبَّصُ بِہِ رَیْبَ الْمَنُون)۔
جب تک وہ زندہ ہے اس وقت تک اس کے اشعار کی رونق رہے گی اور وہ لوگوں کواپنی طرف جذب کرتارہے گا۔تھوڑی سی دیر کے لیے صبر کرو، یہاں تک کہ اس کی موت آجائے ۔
اوراس کے اشعار کادفتر اس کی عمر کے طومار کی طرح لپیٹ دیاجائے ،اور طاق نسیاں کے سپرد ہوجائے، اس دن ہمیں راحت وآرام نصیب ہوجائے گا۔
جیساکہ کتب لغت وتفسیر سے معلوم ہوتاہے ، منون من کے مادہ سے اصل میں دومعنی کے لیے آ یاہے نقصان اور قطع وبرید کرنا اوریہ دونوں بھی ایک دوسرے سے قریبی مفہوم رکھتے ہیں ۔
اس کے بعد لفظ منون موت کے بارے میں بھی اطلاق ہونے لگا، کیونکہ وہ ینقص العدد ویقطع المدد (افراد کو کم اور امداد کومنقطع کردیتی ہے) ۔
بعض اوقات منون زمانہ کے گذ رجانے کوبھی کہاجاتاہے ،اس مناسبت سے کہ وہ بھی موت اورمرنے کاسبب ، تعلقات کے ٹوٹنے اورافراد کی کمی کا باعث ہوتاہے ،اور بعض اوقات رات اور دن کوبھی منون کہتے ہیں اور وہ بھی ظاہراً اسی مناسبت کی وجہ سے ہے(١) ۔
باقی رہالفظ ریب اصل میں شک اور تردد اوراس چیز کے توہم کے معنی میں ہے کہ جس کے اوپر سے بعد میں پردہ اٹھایاجائے گا اور حقیقت واضح وآشکار ہوجائے گی ۔
یہ تعبیر جب موت کے بارے میں استعمال ہو، اور ریب المنون کہاجائے تووہ اس محاظ سے ہے کہ اس کے آنے کاوقت معلوم نہیں ہے ، نہ کہ اس کاحقیقت میں واقع ہونا(٢) ۔
لیکن مفسرین کی ایک جماعت نے ریب المنونقرآن میں ہرجگہ شک وترددکے معنی میں ہے ،سوائے سورہ طور کی اس آ یت کے کہ جہاں حوادث کے معنی میں ہے (٣) ۔
بعض مفسر ین نے اس کی اضطراب اور پریشانی کی حالت کے معنی میں بھی تفسیر کی ہے ،اس بناپر ریب المنون وہ اضطرابی حالت ہے جومو ت سے پہلے اکثر افراد کو عارض ہوتی ہے ۔
ممکن ہے یہ تفسیر اوپر والے معنی کی طرف ہی لوٹے ، کیونکہ عام طورپرشک وتردید کی حالت اضطراب وپریشانی کا سرچشمہ بنتی ہے ،اسی طرح ایسے حوادث بھی جن کی پیش بینی نہ ہو ایک قسم کااضطراب اور شک وتردید اپنے ہمراہ لاتے ہیں، اس طرح سے یہ سب کے سب مفاہیمشک وتردیدکی جڑ کی طرف ہی ، جواصل میں اس لفظ کا معنی ہے ،منتہی ہوتے ہیں ۔
اور دوسرے لفظوں میں ریب کے لیے تین معنی بیان ہوئے ہیں، شک ، اضطراب ،حوادث ، اوریہ سب ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں ۔
بہرحال وہ اس چیزسے اپنے دل کوخوش کرتے تھے کہ کوئی حادثہ پیش آ ئے اورپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی عمر کادفتر لپٹ جائے ، اوران کے گمان کے مطابق، اس عظیم مشکل سے ،جوآنحضرت کی دعوت نے ان کے سارے معاشرے میں پیدا کردی تھی ،انہیں رہائی مل جائے ۔
قرآن ایک پرمعنی اورتہدید آمیزجملہ سے ، ان دل کے اندھے اور عناد رکھنے والے افراد کوجواب دیتے ہوئے فرماتاہے : کہہ دوتم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتاہوں(قُلْ تَرَبَّصُوا فَِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصین) ۔
تم اپنی خام خیالی کے پورا ہونے کے انتظار میں رہو ، اور میں تمہارے لیے عذاب الہٰی کے انتظار میں ہوں ۔
تم اس انتظار میں رہو کہ میری موت کی وجہ سے اسلام کی بساط لپیٹ دی جائے ، اور میں بھی پروردگار کی مدد سے اس انتظار میں ہوں کہ میری زندگی ہی میں دین اسلام عالمگیر ہوجائے ،اورمیرے بعد بھی اپنے راستے کوجاری وساری رکھے اور آفاقی و جا ودانی ہوجائے ۔
ہاں!تم تواپنے خیالات وتصورات پرتکیہ کئے ہو، اور میں پر وردگار کے لطف خاص پرمتکی ہوں ۔
اس کے بعد انہیں شدید ترین طریقہ سے سرزنش وملامت کرتے ہوئے کہتاہے ،: کیا ان کی عقلوں نے انہیں ان اعمال کاحکم دیاہے ؟ یاوہ ایک سرکشی قوم ہیں؟(٤) ۔
سرداران قریش اپنی قوم میں ذوی الاحلام (صاحبان عقل)کے لقب سے پہنچانے جاتے تھے!قرآن کہتاہے: یہ کون سی عقل ہے جواس وحی آسمانی کو، جس کے تمام مضامین ومطالب سے حقانیت کی نشانیاں واضح ہیں ،شعروکہانت کانام دیتی ہے؟ اور اس کے لانے والے کو جو ایک زمانہ دراز سے امانت وعقل میں شہرت کامالک ہے ،کاہن ومجنون اور شاعر کہتی ہے؟
اس بناء پر اس قسم کی تہمتوں اورالزامات کا یہ نتیجہ نکلتاہے ،کہ یہ ان کی عقل کافرمان نہیں ہے ،بلکہ ان سب کا سرچشمہ روحِ عصیان وسرکشی ہے ،جوان افراد پرغالب ہے ۔جونہی کہ وہ اپنے نامشروع منافع کوخطرے میں دیکھتے ہیں ،تو عقل کوالواداع کہہ دیتے ہیں اورحق تعالیٰ کے فرمان کے مقابلہ میں طغیانِ و سرکشی پر اترآ تے ہیں ۔
احلام جمع حلم (بروزن نھم) عقل کے معنی میں ہے ،لیکن راغب کے قول کے مطابق حلم حقیقت میں ہیجان وغضب کے وقت اپنے اوپر کنڑول کرنے کے معنی میں ہے ،جوعقل و درایت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی شمارہوتاہے ،اورحلم (بروزن علم) کے ساتھ ایک مشترک تعلق رکھتاہے)یہ لفظ( حلم) بعض اوقات خواب درؤیا کے معنی میں بھی آ یاہے ،اور زیربحث آیت میں بھی اس قسم کی تفسیر بعید نہیںہے، یعنی ان کی باتیں پریشان خوابوں کانتیجہ معلوم ہوتی ہیں ۔
پھرایک اور دوسری تہمت کی طرف، جودرحقیقت ان اتہامات کے سلسلہ کی چوتھی تہمت شمارہوتی ہے،اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتاہے ،: وہ کہتے ہیں :اس نے اس قرآن کاخداپر افترا باندھا ہے، لیکن وہ ایمان نہیں رکھتے(أَمْ یَقُولُونَ تَقَوَّلَہُ بَلْ لا یُؤْمِنُون) ۔
تقوّلہ تقول ( بروزن تکلف) کے مادہ سے ،اس گفتگو کے معنی میں ہے جسے انسان اپنی طرف سے گھڑ لیتاہے درحالیکہ اس میں کوئی حقیقت وواقعیت نہیں ہوتی(٥) ۔
مشرکین اورہٹ دھرم کافروں کاقرآن مجید اورپیغمبر کی دعوت کوتسلیم نہ کرنے کایہ ایک اوربہانہ تھا، جس کی طرف قرآن کی آیات میں بارہااشارہ ہواہے ۔
لیکن قرآن مجید انہیں ایک دندان شکن جواب دیتاہے :فرماتاہے اگروہ سچ کہتے ہیں کہ یہ بشر کا کلام ہے ،اور فکر انسانی کاساختہ وپرداختہ ہے ،توپھر وہ بھی اس قسم کی بات بناکر لے آئیں(فَلْیَأْتُوا بِحَدیثٍ مِثْلِہِ ِنْ کانُوا صادِقینَ) ۔
تم بھی انسان ہو، اور خوداپنے قول کے مطابق تم مکمل ہوش، بیان کی استطاعت اورانواع واقسام کی گفتگو سے آگاہی اوراس پر قدرت رکھتے ہو، تو تمہارے خطیب اورمفکرین اس جیسی بات بناکرلانے کی طاقت کیوں نہیں رکھتے؟
فلیأ توا (پس لے آؤ)کاجملہ اصطلاح کے مطابق امرتعجیزی ہے ،اوراس کاھدف اورمقصد یہ ہے کہ قرآن کے مقابلہ میں ان کے عجز وناتوانی کومقابلہ بالمثل ساے ثابت کرے، اور یہ وہی چیزہے جسے علم کلام میں تحدی اور چیلنج سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی مخالفین کومعجزات کے مقابلہ میں معارضہ اورمقابلہ بالمثل کی دعوت۔
بہرحال یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے ،جو وضاحت کے ساتھ قرآن کے اعجاز کوروشن وآشکار کرتی ہیں، اوراس کامفہوم پیغمبر کے زمانہ کے لوگوں کے ساتھ ہی ،مخصوص نہیںہے، بلکہ تمام ایسے لوگ جوکسی بھی قرن اور زمانہ میں یہ کہتے ہوں کہ قرآن انسان کا کلام ہے ،اورخداپر افتر اباند ھاگیاہے، وہ بھی اس خطاب کے مخاطب ہیں، کہ اگروہ سچ کہتے ہیں تواس جیسا کلام لے آئیں ۔
اورجیساکہ ہم جانتے ہیں ،قرآن کی یہ ندا ،اس آ یت میں بھی ، اوراس کے مشابہ دوسری آیات میں بھی ،ہمیشہ سے بلند ہے ،اور چودہ صدیوں کے اندر، جوبعثت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سے گذرچکی ہیں، کوئی بھی اس کامشت جواب نہیں دے سکا ، حالانکہ مسلمہ طور سے دشمنانِ اسلام خصوصاً ارباب کلیسا( عیسائی)اور یہودی ،اربوں ڈالر سالانہ اسلام کے برخلاف پر وپیگنڈ ے پرصرف کررہے ہیں،ان کے لیے کوئی بات مانع نہیں تھی کہ ان کاایک حصہ مخالف دانشمندوں اور ادیبوں اور سخن وروں کے کسی گروہ کو دے دیتے تاکہ وہ قرآن کے مقابلہ میں معارضہ ومقابلہ کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوں، اور فلیا توا بحدیث مثلہ کا مصداق بنیں، اور یہ عمومی عجز، اس وحی آسمانی کی اصالت کاایک زندہ گواہ ہے ۔
ایک مفسر نے یہاں ایک نکتہ پیش کیاہے جوقابل توجہ ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں ایک مخصوص راز ہے، اورجوشخص بھی اس کی آیات کے مقابلہ آتاہے ، وہ اسے محسوس کرلیتاہے ،اس سے پہلے کہ اسرا راعجاز کے بارے میں گفتگو کی جائے ۔
وہ اس قرآن کی عبارتوں میں ایک خاص نفوذ وغلبہ کومحسوس کرتاہے ، اور ان معانی کے ماوراء ایک اور چیز عقل انسانی میں منعکس ہوتی ہے،اس کی عبارتوں کے اندرایک ایساعنصر پوشیدہ ہے،جوسننے کے ساتھ ہی انسان کے وجودمیں سماجاتاہے ، بعض اس کاآشکار ا طورپر اور بعض پنہاں طورسے ادراک کرتے ہیں،لیکن بہرحال یہ غلبہ اور نفوذ موجود ہے ،ایسا اسرار آمیز نفوذ جس کے ظہور کواچھی طرح مشخص نہیں کیا جاسکتا۔
کیایہ قرآن کے کلمات اور عبارتیں ہیں جواس قسم کاانداز رکھتی ہیں؟
یااس کے معانی کے عمق اور گہرائی میں کوئی راز چھپاہواہے ۔
یاوہ عکس ہیں جواس کے انوار سے چمکتے ہیں ۔
یایہ سب ملے جلے امور ہیں؟
غرض وہ جوکچھ بھی ہے ،ان سب کلمات ومفاہیم سے ،جولغات کے قالب میں ڈھالے جاتے ہیں، مختلف ہے ۔
یہ وہ راز ہے جوقرآن کی آ یات میں چھپا ہواہے، اور ہرشخص پہلی ہی مرتبہ جب اس کے سامنے ہوتاہے تواسے محسوس کرلیتاہے اوراس کے بعددوسرے اسرار کی تلاش میں لگ جاتاہے ،جوغوروفکر کے ذ ریعہ سارے قرآن سے حاصل ہوتے ہیں(٦) ۔
اعجاز قرآن کے سلسلہ میں مختلف طریقوں سے مزید وضاحت کے لیے تفسیر نمونہ کی پہلی جلد( سورہ بقرہ کی آ یت ٢٣ کے ذیل میں ) کی طرف رجوع کریں،وہاں ایک تفصیلی بحث اس سلسلہ میں پیش کی گئی ہے ،اسی طرح جلد ٦ (سورئہ اسراء کی آ یت ٨٨ کے ذیل میں) ۔
١۔"" لسان العرب"" "" مفردات راغب"" "" المنجد"" اور"" تفسیر قرطبی کی طرف"" رجوع کیاجائے ۔
٢۔"" راغب"" (اورمفردات) ۔
٣۔"" قرطبی "" جلد ٩،صفحہ ٦٢٤٢۔
٤۔اس بارے میں کہ یہاں"" ام"" "" استفہامیہ ہے "" یا"" منقطعہ"" اور"" بل"" کے معنی میں ،مفسرین میں سے ہر ایک نے ایک جدا احتمال دیا ہے اگرچہ اکثر نے دوسرے کوترجیح دی ہے ،لیکن آیات کاسیاق پہلے معنی میں مناسبت رکھتاہے ،لیکن توجہ رکھنا چاہیے کہ "" ام"" اس قسم کے مواقع پرحتمی طور سے ہمزہ استفہام کے بعد ہوناچاہیئے، اسی لیے فخر رازی نے اس کے لیے ایک تقدیر بیان کی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ "" ء انزل علیھم ذکرام تأ مرھم احلا مھم بھذا""(کیا ان پرخدا کی طرف سے کوئی بات نازل ہوئی ہے ،یاان کی عقلیں اس قسم کاحکم کرتی ہیں) جواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کویا تودلیل منقول کاتابع ہونا چاہیئے یادلیل عقل کا""۔
٥۔"" مجمع البیان"" میں آ یاہے :التقول: تکلف القول ولایقال ذالک الافی الکذب۔
٦۔"" فی ظلال القرآن"" جلد ٧،صفحہ ٦٠٥۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma