اے اہل محشر میرانامۂ اعمال پڑھو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
گذشتہ آ یات کی تفسیر میں بیان کیا جاچکاہے کہ نفخ ِصور دو مرتبہ رُو نماہوگا. پہلی دفعہ سب ذی رُوح مرجائیں گے اور نظامِ زندگی بکھر کر رہ جائے گا .دوسری مرتبہ ایک نیاجہاں آورایک نیا عالم بر پا ہوگا،انسان اور فرشتے ایک نئی زندگی حاصِل کریں گے ،جیساکہ ہم نے بیان کیاہے ان آ یات کاآغازتوپہلے نفخہ کی اور ان کاآخر دوسرے نفخہ کی خبردیتاہے ۔
اسی مطلب کوجاری رکھتے ہُوئے زیر بحث آیات میں فرماتاہے : اس دن تم سب کے سب بارگاہِ خدا وندی میں پیش کیے جائو گے اور تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہے گی (یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لا تَخْفی مِنْکُمْ خافِیَة) ۔
تعرضون عرض کے مادّہ سے کسِی چیز کودکھانے اورپیش کرنے کے معنی میں ہے . چاہے معاملہ ہے وقت مال اور جنس ہویااس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو .البتّہ انسان اوران کے علاوہ جوکچھ بھی ہے اس دنیامیں بھی ہمیشہ اس کے سامنے ہیں . لیکن یہ بات قیامت میں زیادہ سے زیادہ نمایاں اور ظاہر ہوگی جیساکہ خدا کی حاکمیت عالمِ ہستی پر دائمی ہے لیکن یہ حاکمیت اس دن ہر زمانہ اوروقت سے زیادہ واضح اور آشکار ہو گا ۔
لا تَخْفی مِنْکُمْ خافِیَة کاجُملہ ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہوکہ اس دن غیب اور لوگوں کے اسرار ، شہود و ظہور میں بدل جائیں گے ، جیساکہ قرآن قیامت کے بارے میں کہتاہے :یوم تبلی السرائر : وہ ایسادن ہوگاجس میں سارے پوشیدہ صفات ظاہر ہوجائیں گے(طارق۔ ٩) ۔
نہ صرف انسانوں کے مخفی اعمال،بلکہ ان کے صفات ،جذ بات ، اخلاق اور نیّتیں،سب کھل کرسامنے آ جائیں گی۔
یہ ایک عظیم حادثہ ہے اور بعض مفسّرین کے مطابق بہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر نے اور آسمانوں کے کرّوں کے پھٹ جانے سے زیادہ ،عظیم بد کار وں کی عظیم رسوائی اور مومنین کی بے مثال سربلند ی کادن ہے .وہ ایسا دن ہوگاجس میں آنسان اس میدان میں ، اعمال اور اند رونی اسرار کے لحا سے عُریاں ظاہر ہوگا، ہاں !اس دن ہمارے وجود کی کوئی چیز پنہاں اور مخفی رہے گی ۔
ممکِن ہے کہ یہ اس دن خُدا کے ہر چیز پر احاطہ ء علمی کی طرف اشارہ ہو ،لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔
لہٰذا اس کے بعد کہتاہے: لیکن و ہ شخص جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں ہوگا وہ فرطِ مسرّت میںپکا ر اُٹھے گا، لو آ ئو اورمیرانامۂ اعمال پڑھو (فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتابَہُ بِیَمینِہِ فَیَقُولُ ہاؤُمُ اقْرَؤُا کِتابِیَہ)(١) ۔
گو یاخوشی سے پھولا نہیں سماتا اوران سب نعمتوں،تو فیقات اور ہدایت کی وجہ سے جوخُدا نے اُسے دی ہیں اس کے وجُود کو ہرہر ذرّہ شکر گزار ہے اوروہ بے ساختہ الحمدللہپکار رہاہے ۔
اِس کے بعد اپنے عظیم ترین افتخارافتخار کواس کلمہ میں خلاصہ کرتے ہُوئے کہتا ہے : مجھے یقین تھاکہ قیامت آ کے رہے گی اور مجھے اپنے اعمال کاحساب دینا پڑ ے گا نِّی ظَنَنْتُ أَنِّی مُلاقٍ حِسابِیَہْ ) (٢) ۔
ظن اِس قسم کے موارد میں یقین کے معنی دیتاہے .وہ یہ کہناچا ہتاہے کہ مجھے جوکچھ نصیب ہواہے ،وہ اس دن پر ایمان کی وجہ سے ہے،واقعاً بات یہی ہے کہ حساب وکتاب پرایمان،انسان کوتقوٰی اور پر ہیز گار ی کی رُوح عطاکرتاہے،تعہداور مسئو لیّت کااحساس پیدا کرتاہے اورانسان کی تر بیت کااہم ترین عامل ہے ۔
بعد والی آ یت میں اس قسم کے افراد کے اجرو ثواب کے ایک گوشہ کوبیان کرتے ہُوئے فرماتاہے : وہ ایک کامل اور پسندیدہ زندگی میں قرار پائے گا (فَہُوَ فی عیشَةٍ راضِیَةٍ)( ٣) ۔
اگرچہ اس نے اسی ایک جُملہ کے ساتھ کہنے کی باتیں کہہ دی ہیں لیکن مزید وضاحت کے لیے کہتاہے : وہ عالی مرتبہ بہشت میں ہوگا (فی جَنَّةٍ عالِیَةٍ ) ۔
وہ بہشت جواتنی بلندوبالااو ررفیع و والا قد رہے کہ نہ کسی شخص نے دیکھی ہے نہ سُنی ہے اور نہ ہی کبھی اس کا تصوّر کیاہے ۔
ایسی بہشت جِس کے پھل وسترس میں ہوں گے (قُطُوفُہا دانِیَة ) ۔
نہ پھلو ں کو توڑ نے کی زحمت اٹھاناپڑے گی، نہ ہی اس کے لدے پھندے درختوں کے قریب ہونے میں کو ئی مشکل ہوگی اور اصولی طورپر اس کی تمام نعمتیں بغیر کسی استثناء کے دستر س میں ہوں گی ( ٤) ۔
آخری زیربحث آ یت میں ،ان بہشتیوں کے لیے خداکے محبّت آمیز خطاب کواس طرح بیان کیاہے : مزے مزے سے کھائواورپیو ، یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جنہیںتم نے گذشتہ ایّام میں انجام دیاتھا (کُلُوا وَ اشْرَبُوا ہَنیئاً بِما أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخالِیَةِ) ۔
ہاں !یہ عظیم نعمتیں بے حساب نہیں ملیں گی . یہ تمہارے اعمال کابدلہ ہے جنہیں تم نے دنیامیں آج کے لیے دخیرہ کیااور آگے بھیجاہے ،لیکن یہ ناچیز اعمال جب فضل ورحمت ِالہٰی کے افق میں قرار پائے ہیں تواس قسم کے ثمرات ،ونتائج تک منتہی ہُوئے ہیں ۔
١۔"" ھائوم ""ارباب لغت کے قول کے مُطابق، "" لے لو"" کے معنی میں ہے اگر مخاطب مردوں کی جماعت ہوتو ""ھاوم ""کہا جاتاہے .عورتوں کی جماعت ہو تو ھائن اور اگر مفر و مذ کر ہوتو "" ھا"" (زبر کے ساتھ )اور مفر د مرنّث ہوتو "" ھائ"" (زیر کے ساتھ )اور تثنیہ کے لیے""ھائما""کہاجا تاہے راغب مفرادت میں کہتاہے "" ھائ"" لینے کے معنی میں اور"" ھات""دینے کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔
٢۔"" حسابیہ "" میں ھاء استراحت کی یا سکتہ کی ہے اوراس کاکوئی خاص معنی نہیں ہے ،جیساکہ کتابیہ میں بھی ایساہی ہے ۔
٣۔اگرچہ "" رضا یت اور خوشی ""اس زندگی والوں کی ایک صفت ہے لیکن اوپرووالی آ یت میں اسے خود زندگی کی صفت قرار دیاہے . یہ چیزانتہائی تاکید کافائدہ دیتی ہے .یعنی وہ ایک ایسی زندگی ہے جوساری کی ساری رضا یت وخوشی ہے ۔
٤۔قطوف ،قطف(بروزن "" حزب""کی جمع ہے جوچُنے ہُوئے پھلوں کے معنی میں ہے اورکبھی چُننے کے لیے تیّار پھلوں کے لیے بھی آ یاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma