شاہراہِ توحید کے راست قامت افراد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
گذ شتہ آ یات کے بعد پہلی زیر بحث آ یت میں کفار ومومنین کے ان دونوں گرو ہوں کی حالت کی کیفیت ایک عمدہ مثال کے ضمن میں منعکس کرتے ہُوئے فرماتاہے:کیاوہ شخص جومنہ کے بل گراہو اچل رہا ہے،ہدایت کے زیادہ نزدیک ہے یاوہ شخص جوراست قامت صراطِ مستقیم پرقدم رکھتے ہُوئے آگے بڑھ رہاہے (أَ فَمَنْ یَمْشی مُکِبًّا عَلی وَجْہِہِ أَہْدی أَمَّنْ یَمْشی سَوِیًّا عَلی صِراطٍ مُسْتَقیمٍ)۔
یہاں بے ایمان ، ظالم ،ہٹ دھرم اورفریبی لوگوں کوایسے شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو ناہمواراور پیچ وخم سے پُر راہ سے گزر رہاہو ،وہ مُنہ کے بل گراہو اہو،اورہاتھ پائوں سے یاسینہ کے بل چل رہاہو ، نہ ٹھیک طرح سے راستہ دیکھ سکتاہو اور نہ ہی اپنے اُو پر نظر کرسکتاہو ، نہ ر کا وٹوںسے باخبر ہو اور نہ ہی سرعت اورتیزی سے چل سکتاہو ،تھوڑا سارستہ چلتا ہو اورپھر تھک جاتاہو (قُلْ ہُوَ الَّذی أَنْشَأَکُمْ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ الْأَفْئِدَةَ قَلیلاً ما تَشْکُرُونَ)۔
خدا نے مشاہدے اورتجر بے کاذ ریعہ اوروسیلہ (آنکھ)بھی تمہارے اختیار میں قرار دی . دوسروں کے افکار سے آگاہی کاذ ریعہ ( کان )اور علوم عقلیہ میں غور وفکر کرنے کاذ ریعہ (قلب)بھی دیا .خلاصہ یہ کہ سب قسم کے عقلی ونقلی علوم سے آگاہی کے لیے تمام ضر وری آ لات تمہارے اختیار میں دے دیئے ہیں . لیکن ان تمام عظیم نعمتوںکابہت کم لوگ شکر یہ ادا کرتے ہیں . کیونکہ شکرِ نعمت یہ ہے کہ ہر نعمت کواسی مقصد کے لیے استعمال کیاجائے جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے .کیا واقعاً سب لوگ کان ،آنکھ اورعقل سے اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہیں ؟۔
پھر دوبارہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کومخاطب کرتے ہُوئے فرماتاہے : کہہ دیجئے وہی توہے جس نے تمہیں زمین میںپیداکیا ہے اوراسی کی طرف تم لوٹ کر جائو گے اوراسی کے پاس تم جمع ہوگئے (قُلْ ہُوَ الَّذی ذَرَأَکُمْ فِی الْأَرْضِ وَ ِلَیْہِ تُحْشَرُونَ )۔
حقیقت میں پہلی آیت راستے کومشخّص کرتی ہے اور دوسری آ یت کام کے آلات و وسائل کو اور یہ آیة ہدف ومقصد کو کہ اسلام وایمان کے سیدھے راستہ اور طراط مستقیم میں قدم آ گے بڑھائو ،معرفت اور شناخت کے تمام آلات سے فائدہ اٹھائو اور جاو دانی زندگی کی طرف چل پڑ و ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ گز شتہ آ یت میں انشأ کم کی تعبیر ہُوئی ہے اوراس آیت میں ذرأ کم آیا ، ممکِن ہے ان دونوں تعبیروںکافرق اس بات میں ہو کہ پہلاجملہ تو انسان کوعدم سے وجود میں لانے کی طرف اشارہ ہو (یعنی تم نہیں تھے اور خدا نے تمہیں پیداکیا ہے )نیز دوسراجملہ ماد ۂ خاکی سے انسان کی پیدائش کی طرف اشارہ ہو . یعنی ہم نے تمہیں خاک سے پیدا کیاہے ۔
اس کے بعداسی رابط میںمنکر ین معاد کی گفتگو اوران کامُطالبہ پیش کرتے ہُوئے فرماتاہے : وہ استہزاء کے طورپر کہتے ہیں :اگرتم سچ کہتے ہو تویہ قیامت کاوعدہ کِس وقت پورا ہوگا(وَ یَقُولُونَ مَتی ہذَا الْوَعْدُ ِنْ کُنْتُمْ صادِقین)۔
تم اس کی کوئی یقینی تاریخ معیّن کیوں نہیں کرتے ؟اوراس لحاظ سے تم سب کی ذمّہ داری واضح کیوں نہیں کرتے ؟
ھٰذاالوعدسے کیا مراد ہے .اِس کے دو احتمال بیان کیے گئے ہیں. پہلا قیامت کاوعدہ ، دُوسرا دنیا کی گو ناگو ں سزائوںکاوعدہ ،مثلا ً زلزلے ،صائقے ،بجلیاں اور طوفان .لیکن گزشتہ آیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے پہلا دمعنی زیادہ مناسب نظر آ تاہے اگرچہ دونوںمعانی کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔
بعد والی آ یت میں انہیں اِس طرح جواب دیتاہے :کہہ دیجئے اس موضوع کا علم و آگہی توخدا ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور میں توصرف واضح وآشکارانذار کرنے والا اور ڈ رانے والا ہُوں (قُلْ ِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّہِ وَ ِنَّما أَنَا نَذیر مُبین)۔
یہ تعبیر ٹھیک اسی چیز کے مشابہ ہے جو قرآن کی متعدّد آ یات میں ہے .منجملہ سورۂ اعرا ف کی آ یت ١٨٧میں آ یا ہے : قل انما علمھا عندربی کہہ دیجئے کہ قیامت کے وقوع کے زمانہ کاعلم صرف میرے پر وردگار کے پاس ہے ۔
اورایسا ہی ہونا چاہیے ،کیونکہ اگرقیامت کی تاریخ معلو م ہوتی اوراس کاعرصہ اورفاصلہ زیادہ ہوتا تولوگ غفلت میں پڑجاتے اگروہ عرصہ کم ہوتا تواضطرار جیسی حالت پیداکرلیتے اوردونوں حالتوں میں تربیّتی اہداف نامکمل رہ جاتے ۔
آخری زیربحث آیت میں مزید کہتاہے : جس وقت اس وعدہ ٔالہٰی اورعذب کوقر یب سے مشاہدہ کریں گے توکافروں کے چہر ے قبیح اورسیاہ ہو جائیں گے ۔ جیساکہ غم واندو ہ کے آثار اُن سے برس رہے ہیں (فَلَمَّا رَأَوْہُ زُلْفَةً سیئَتْ وُجُوہُ الَّذینَ کَفَرُوا)۔
اوران سے کہاجائے گا : یہ وہی چیز ہے جس کاتم تقاضا کیاکرتے تھے (وَ قیلَ ہذَا الَّذی کُنْتُمْ بِہِ تَدَّعُونَ)۔
تد عون دُعا کے مادہ سے ہے ، یعنی تم ہمیشہ اصرار اور تقا ضاکیا کرتے تھے کہ قیامت واقع ہو ، اب وہ واقع ہوگئی ہے .اوراس سے راہِ فرار ممکِن نہیں ہے (١)۔
یہ مضمون حقیقت میںاسی چیز کے مشابہ ہے جوسورہ ذاریٰت کی آ یت ١٤ میں کفّار کومخاطب کرتے ہُوئے آ یاہے کہ قیامت کے دن ان سے
وَ قیلَ ہذَا الَّذی کُنْتُمْ بِہِ تستعجلون کہا جائے گا :یہ وہی چیزہے کہ جس کے لیے تم جلدی کیاکرتے تھے ۔ بہرحال یہ عذابِ ْْْْْٰقیامت کے بارے میں ہی بیان کررہی ہے جیساکہ اکثر مفسّرین نے کہا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ متی ھذ الوعد کاجملہ بھی قیا مت کے وعدہ کی طرف اشارہ ہے ۔
حاکم ابو القاسم حسکانی کہتاہے :
جب کافروں نے خدا کے ہاں امام علی علیہ السلام کے مقامات کومشاہدہ کیا توان کے چہرے( غیظ و غضب کی شدت سے )سیاہ ہوگئے ( ٢)۔
ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے بھی یہی مطلب نقل ہوا ہے کہ یہ آیت المیر المومنین علی علیہ السلام اورآپ کے یارو انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے (٣)۔
البتّہ یہ تفسیر جوشیعہ اوراہل سنّت کے طرق سے نقل ہُوئی ہے ایک قسم کی تطبیق کے قبیل سے ہے ورنہ آ یت کا محِلّ و قوع معاد و قیامت کے ساتھ مربُوط ہے اوراس قسم کی تطبیقیں روایات میں کچھ کم نہیں ۔
١۔ "" تد عون "" "" باب افتعال ""سے اور"" دعاء ""کے مادّ ہ سے تقاضا کرنے کے معنی میں ہے یادعواکے مادہ سے تقاضا یاکسِی چیز سے انکار کرنے کے معنی میں ہے ۔
٢۔مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٣٠۔
٣۔نورالثقلین ، جلد ٥ ،صفحہ ٣٨٥۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma