٢۔گفتار بلاعمل :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
زبان دل کی ترجُمان ہوتی ہے ،اگران دونوں کاراستہ ایک دُوسرے سے الگ ہو جائے تو یہ نفاق کی نشانی ہے ،اورہم جانتے ہیں کہ ایک منافق کی فکر و رُوح سلامت نہیں ہوتی ۔
بدترین بلائیں جوکسِی معاشرے پر مُسلّط ہوسکتی ہیں اُن میں سے ایک سلبِ اطمینان کی بلاہے اوراس کااصلی عامل گفتار کردار سے جُدائی ہے .وہ لوگ باتیں توکرتے ہیں لیکن ان پرعمل نہیں کرتے ،وہ ہرگز دُوسرے پراعتماد نہیں کرسکتے اور مشکلات کے مُقابلے میں ہم آہنگ نہیں ہوسکتے ۔ان کے درمیان اخوّت، بر ادری اور خُلوص دہرگز کار فر مانہین ہوسکتا، ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوگی اورکوئی بھی دشمن ان سے مرغوب نہیں ہوگا ۔
جب شام کے لشکر کے غارت گروں نے عراق کی سرحد کوتاخت وتاراج کیا اور یہ خبر امام علی علیہ السلام کے کانوں تک پہنچی تو آپ کوسخت دُکھ پُہنچا ۔آپ نے ایک خطبہ دیااوراس میں فرمایا :
ایّھاالناس المجتمعة ابدانھم المختلفہ اھوائوھم ،کلامکم یوھی الصم الصلاب، وفعلکم یطمع فیکم الاعداء،تقو لون فی المجالس کیت وکیت ، فاذ اجاء القتال قلتم حیدی حیاد!
امام علی علیہ السلام اپنے خطبے میں ،جوآپ علیہ السلام کے سوزِ دل کی حکایت بیان کرتاہے ،عراق کے لوگوں سے کہتے ہیں :
اے وہ لوگو!جن کے بدن تواکھٹے ہیں لیکن افکارو خواہشات مختلف پراگندہ ہیں ،تمہاری گرماگرم باتیں توسخت پھترں کوبھی توڑ دیتی ہیں ، لیکن تمہارے کمز وراعمال دشمنوں کوطمع دلاتے ہیں ، مجالس ومحافل میں تو تم اِس طرح اوراُس طرح کہتے ہو لیکن جنگ کے وقت ہائے وائے کرتے ہو کہ اے جنگ ہم سے دُور ہو جا ( 1) ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
یعنی بالعلماء من صدق فعلہ قولہ ، ومن لم یصدق فعلہ قولہ فلیس بعالم ۔
عالم وہ ہے ،جس کاعمل اس کے قول کی تصدیق کرے ،جس کاعمل اُس کے قول کی تصدیق نہیں کرتاوہ عالم نہیں ہے ( 2) ۔
ایسی اقوام ومِلل جواہل قول تو ہیں لیکن اہل عمل نہیں ہیں ، وہ اسی بناء پر ہمیشہ دشمنون کے چُنگل میں اسیر رہتے ہیں ، ایک معاصرشاعرنے ان کی سر نوشت ایک خوبصورت داستان میں بلبل اور شکاری باز کی زبانی پیش کرتے ہُوئے اس کی تصویر کشی کی ہے :
دوش می گُفت بُلبُلے باباز
کز چہ حال توخوشتراست ازمن
توکہ زشتی وبد عبوس ومہیب
توکہ لا لی و گنگ وبستہ دہن
مست و آزاد روی دست ِ شہاں
بادوصد ناز می کُنی مسکن
من بدین ناطقی وخوش خوانی
باخوش اندامی وظریقی تن
قفسم مسکن است وروزم شب
بہرہ ام غصّہ است ورنج و مُحن
باز گفتار کہ راست می گو می ! لیک سترش بُود روشن
داب توگفتن است و ناکردن
خُوئے من کردن است وناگفتن
ترجمہ :
کل رات ایک بُلبُل باز سے کہہ رہی تھی
کہ تیری حالت مُجھ سے کیوں بہتر ہے ؟
حالانکہ توقبیح منظر ،ترش رُو اورمُہیب شکل ہے ۔
توبے زبان گونگاہے ،اورتیرا مُنہ بندہے ۔
توپھر بھی مست اور آزادی کے ساتھ بادشاہوں کے ہاتھوں پر سینکڑوں ناز اورنخرے کے ساتھ بیٹھتاہے ۔
لیکن میں اس نطق اورخوش خوانی کے باوجود اورخوش اندام اورعمدہ بدن کے ساتھ
پنجرہ تو میرامسکن ہے اور میرا روشن دن شب تاریک ہے ۔
میرے نصیب میں غم اور رنج ومحن برداشت کرناہے ۔
باز نے کہاکہ تُوسچ کہتی ہے ۔
لیکن اس کا راز توبُہت ہی واضح ہے ۔
تیراطریقہ صرف باتیں بنانا ہے عمل کرنا نہیں
اورمیری عادت عمل کرنا ہے باتیں دبنانا نہیں ۔
1۔ "" نہج البلاغة "" خطبہ ٢٩۔
2۔"" اصول کافی ""جلداوّل ، (باب صنقہ العلماء حدیث) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma