ابر اہیم تم سب کے لیے نمونہ ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

چُونکہ قر آن مجید بہت سے مو ارد میںاپنی تعلیمات کی تکمیل کے لیے ایسے اہم نمونے جوجہانِ انسانیت میں موجُود ہیں، گو اہ کے طور پر پیش کرتاہے ، اس لیے زیر بحث آ یات میں بھی دشمنان ِ خُدا سے دوستی کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے بعد ، ابر اہیم علیہ السلام اور ان کے طریقہ کار کے بارے میں ایک ایسے عظیم پیشو ا کے عنو ان سے جو تمام اقو ام کے لیے اورخاص طورپر قومِ عرب کے لیے احتر ام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے ، گفتگو کرتے ہُوئے فرماتاہے : ” تمہارے لیے ابر اہیم اور ان کے ساتھیوں کی زندگی میںاچھا نمونہ ہے “ (قَدْ کانَتْ لَکُمْ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فی إِبْر اہیمَ وَ الَّذینَ مَعَہ)(۱) ۔
ابر اہیم پیغمبروں کے بزرگ تھے. ان کی زندگی سرتاسر خداکی عبُودیّت ،جہاد فی سبیل اللہ اور اس کی پاک ذات کے عشق کے لیے ایک سبق تھی ،وہ ابر اہیم علیہ السلام کہ اُمّت ِ اِسلامی ان کی بابرکت دُعا کانتیجہ ہے اور ان کے رکھے ہُوئے نام پرفخر کرتی ہے،وہ تمہار ے لیے اس سلسلہ میں ایک اچھا نمونہ بن سکتے ہیں ۔
” و الذین معہ “ (جولوگ ابر اہیم علیہ السلام کے ساتھ تھے ) کی تعبیر سے مُر اد وہ موٴ منین ہیں جو اس ر اہ میں ان کے پیرو اور ساتھی رہے ، اگر چہ وہ قلیل تعداد میں تھے ، باقی رہایہ احتمال کہ اس سے مُر اد وہ پیغمبر ہیں جو آپ کے ساتھ ہم آ و از تھے یا ان کے زمانے کے پیغمبر ،جیساکہ بعض نے احتمال دیاہے ، تاہم یہ بُہت بعید نظر آتاہے ،خصوصاً جبکہ مُناسب یہ ہے کہ قر آن یہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو ابر اہیم علیہ السلام کے ساتھ اورمُسلمانوں کو ان کے اصحاب و انصار سے تشبیہ دے ،یہ تو اریخ میں بھی آ یاہے کہ بابل میں ایک گروہ ایساتھا جو ابر اہیم علیہ السلام کے مُعجزات دیکھنے کے بعد ان پر ایمان لے آیاتھا ، اور شام کی طرف ہجرت میں وہ آپ کے ساتھ تھا ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابر اہیم علیہ السلام کے کچھ وفادار یارو انصار بھی تھے ( ۲) ۔
اس کے بعد اس معنی کی وضاحت کے لیے مزید کہتاہے : ” جب انہوںنے اپنی مُشرک اور بُت پرست قوم سے کہا: ہم تم سے اور جن غیر اللہ کی تم پرستش کرتے ہو ، ان سے بھی بیزار ہیں (إِذْ قالُو ا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُر اؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ) ۔
ہم نے توتمہیں اور نہ ہی تمہارے دین ومذہب کوقبُول کرتے ہیں ،ہم تم سے اورتمہارے بے قدر و قیمت بُتوں سے بھی نفرت کرتے ہیں ۔
دو بارہ مزید تاکید کے لیے فر مایا : ہم نے تم سے کفر اختیار کرلیا (کَفَرْنا بِکُمْ ) ۔
البتّہ یہ کفر وہی بر اٴت و بیزار ی ہے کہ جس کی طرف بعض رو ایات میں کفر کی پانچ اقسام کے شمار میں اشارہ ہُو ا ہے ( ۳) ۔
پھرتیسر ی مرتبہ مزید تاکید کے لیے اضافہ کرتاہے : ” ہمار ے اورتمہار ے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کی دشمنی ہوچکی ہے“(وَ بَدا بَیْنَنا وَ بَیْنَکُمُ الْعَداوَةُ وَ الْبَغْضاء ُ اٴَبَداً ) ۔
اور یہ وضع و کیفیّت اسی طرح جاری رہے گی . یہاں تک کہ تم خُدائے یگانہ پر ایمان لاؤ (حَتَّی تُؤْمِنُو ا بِاللَّہِ وَحْدَہُ) ۔
اِس طرح سے انہوں نے کسِی بھی طرح کی لگی لپٹی کے بغیر دوٹوک طریقے سے دشمنانِ خُدا سے جُدائی اوربیزار ی کا اعلان کردیا اورصر احت کے ساتھ کہاکہ جُدائی کسِی قسم پر بھی ایسی اورتجدید ِ نظر کے قابل نہیں ہے ،یہ ابدتک جار ی رہے گی ، مگریہ کہ وہ اپنی ر اہ بدل لیں اورکُفر کوچھوڑ کر ایمان کی طرف آ جائیں ۔
لیکن چُونکہ یہ کُلّی اورعمومی قانُون ابر اہیم علیہ السلام کی زندگی میں ایک استثناء ،رکھتاتھا جوبعض مُشرکین کی ہدایت کے لیے صُورت پذیر ہُو ا تھا ،لہٰذا اس کے بعد فرماتاہے: اُنہوںنے کافروں سے ہرقسم کار ابط مُنقطع کر لیا اور ان سے کوئی بھی محبت آمیز بات نہیں کی : ” سو ائے اس بات کے جو ابر اہیم علیہ السلام نے اپنے باپ (چچا آذر ) سے کی تھی کہ میںخُدا سے تمہار ے لیے مغفرت طلب کروں گا، لیکن اس کے باوجُود میں خُدا کے مُقابلے میں تیر ے لیے کسِی چیز کا مالک نہیں ہُوں اوربخشش توصرف اُسی کے ہاتھ میں ہے “ (إِلاَّ قَوْلَ إِبْر اہیمَ لِاٴَبیہِ لَاٴَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَ ما اٴَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللَّہِ مِنْ شَیْء)(۴) ۔
حقیقت میں یہ ابر اہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کابُت پرستوں سے ہرقسم کے ارتباط کومنقطع کرنے کے مسئلہ سے ایک ایسا استثناء ہے جو ایک خاص مصلحت اورحالات کی وجہ سے تھا ، کیونکہ قر آئن بتلاتے ہیں کہ ابر اہیم علیہ السلام نے احتمالا اپنے چچا آذر میں ایمان کے لیے آماد گی مشاہدہ کی ہُوئی تھی ،لیکن آذر اس مسئلہ سے پریشان تھاکہ اگر اس نے توحید کی ر اہ اختیار تو اس کی بُت پرستی کے دور کا کیابنے گا ؟ لہٰذا ابر اہیم علیہ السلام نے اُس سے یہ وعدہ کرلیاتھاکہ میں بارگاہِ خدا میں تیرے لیے استغفار کروں گا اور اس وعدہ پر آ پ نے عمل بھی کیا ،لیکن آذر ایمان نہ لایا، جب ابر اہیم علیہ السلام پریہ و اضح ہوگیا کہ وہ دشمن ِ خُدا ہے اورہر گز ایمان نہیں لائے گا تو پھر اُس کے لیے استغفار نہیں کیا اور اس سے قطع تعلق کرلیا ۔
چُونکہ مُسلمان ابر اہیم علیہ السلام اور آذر کے اِس و اقعہ سے اجمالی طورپر با خبر تھے ،لہٰذاممکِن تھاکہ یہی مطلب ” حاطب بن ابی بلتعہ “ جیسے لوگوں کے لےے کُفّارسے ر ازو نیاز قائم رکھنے کابہانہ بن جائے ، اس لیے قر آن کہتاہے کہ یہ استثناء خاص حالات میں صُورت پذیر ہو ا ، اور آذر کے ایمان لے آنے کا ایک ذ ریعہ تھا نہ کہ دُنیوی مقاصد کے لیے تھا ، اسی لیے سورہٴ توبہ کی آ یہ ۱۱۴ میں فر ما تاہے : وَ ما کانَ اسْتِغْفارُ إِبْر اہیمَ لِاٴَبیہِ إِلاَّ عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَہا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ اٴَنَّہُ عَدُوٌّ لِلَّہِ تَبَر اٴَ مِنْہُ إِنَّ إِبْر اہیمَ لَاٴَو اہٌ حَلیمٌ :ابر اہیم علیہ السلام کا اپنے باپ (چچا آذر ) کے لیے استغفار صرف اِس وعدہ کی بناء پر تھاجو اُنہوںنے اُس سے کرلیا تھا ، (تاکہ اسے ایمان کی طرف کھینچ لائیں )لیکن جب اُن پر یہ و اضح ہوگیا کہ وہ خُدا کادشمن ہے تو اس سے بیزاری اختیار کرلی، بے شک ابر اہیم علیہ السلام مہربان اور بُر د بار تھے ۔
لیکن مفسّر ین کی ایک جماعت نے اسے ” ابر اہیم “ علیہ اسلام کے اُسوہ سے استثناء سمجھا او ر کہا ہے کہ سو ائے ان کے اپنے چچا آذر کے لیے استغفار کرنے کے لیے ہرچیزمیں اُن کی اقتداء اورپیروی کرناچاہیے ۔
یہ مطلب اگرچہ چند ایک مفسّرین کے کلام میں ہی آ یاہے ،پھر بھی یہ بات بُہت ہی بعید دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اوّل تووہ ہر چیز میں یہاں تک کہ اس عمل میں بھی اُسوہ تھے ، کیونکہ اگروہی ” آذر “ و الے حالا ت بعض مُشرکین میں پیدا ہوجاتے تو انہیں ایمان کی طرف کھینچ لانے کے لیے ان سے اظہار محبت کرنا اچھّا کام ہوتاہے ،دُوسرے ابر اہیم علیہ السلام معصُوم پیغمبر اورعظیم مُجاہد انبیاء میں سے تھے ، اور ان کے تمام کے تمام اعمال ہی نمُونہ تھے ، لہٰذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس مسئلہ کا استثناء کریں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ابر اہیم علیہ السلام اور ان کے پیرو کا ر پُورے قوّت کے ساتھ بُت پرستو ں کے مُخا لف تھے ،لہٰذا ہمیںاس سبق کو اپنا دستُور العمل بنانا چاہیے ، آذر کے و اقعہ میں کچھ خاص حالات تھے اور اگروہ ہمارے لیے بھی پیدا ہوجائیں تووہ ہمارے لیے بھی پیروی کے لائق ہیں ( ۵) ۔
چُونکہ دُشمنانِ خُدا کے ساتھ ایسی صر احت اورقا طعیّت کے ساتھ مبارزہ خصُوصاً اُس زمانہ میں جبکہ وہ قدرتِ ظاہری رکھتے تھے ،خُدا کی ذات پر توکّل کیے بغیر ممکن نہیں ہے ،لہٰذا آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے : پروردگار ا ! ہم تجھ پر توکّل کیاہے ،تیری طرف رُخ کیاہے اور انجام کار سب کا آخر ی اور اصلی رجُوع تیری ہی طرف ہوتاہے (رَبَّنا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنا وَ إِلَیْکَ اٴَنَبْنا وَ إِلَیْکَ الْمَصیر) ۔
حقیقت میں اُنہوںنے اس عبارت میں تین مطالب خداوندِ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے ہیں :
اوّل :اُس کی ذات پر توکّل،دُوسر ے اُس کی طرف توبہ و بازگشت اورتیسر ے اس حقیقت کی طرف توجّہ کہ تمام چیزوں کا آخری اور اصلی رجُوع اُسی کی طرف ہوتاہے ، اور یہ ایک دُوسرے کے علّت و منزل ہیں ، معاد اور آخر ی بازگشت پر ایمان لانا توبہ کاسبب بنتاہے ، اور تو بہ رُوح ِ توکّل کو انسان میں زندہ کرتی ہے ( ۶) ۔
بعد و الی آ یت میں ابر اہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی ایک اوردرخو است کی طرف جو اس سلسلے میں حسّاس اور جاذب ہے اشارہ کرتے ہُوئے کہتاہے : ” پر وردگار ا!ہمیں کافروں کی گمر اہی کاسبب نہ بنانا “ (رَبَّنا لا تَجْعَلْنا فِتْنَةً لِلَّذینَ کَفَرُو ا ) ۔
یہ تعبیر ممکِن ہے ایسے اعمال کی طرف اشارہ ہوجو بعض بے خبر لوگوں سے سرزد ہوجاتے ہوں جیساکہ ” حاطبِ بن ابی بلتعہ “کاعمل تھا، یعنی وہ لوگ ایساکام کر بیٹھتے ہیں جوگمر اہوں کی تقویّت کاسبب بن جاتاہے ،حالانکہ ان کا گمان یہ ہوتاہے کہ اُنہوںنے کوئی غلط کام نہیں کیاہے ۔
یا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمیں ان کے چُنگل میں گرفتار نہ کر انا اور ان کے مُقابلے میںمغلوب نہ کردینا اور کہیں وہ یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو ہرگز شکست نہ کھاتے ، اور یہی بات اُن کی گمر اہی کاسبب بن جائے گی ۔
یعنی اگروہ اپنی شکست اور کافروں کے تسلّط سے ڈ رتے ہیں توخود اپنی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ دین حق پر کائی اعتر اض نہ ہو اورمُشرکین کی ظاہری کامیابی ان کی حقّا نیّت کی دلیل نہ سمجھی جائے ، گویا ایک مومِن و اقعی کا طریقہ یہی ہے کہ وہ جوکچھ چاہتاہے خُدا کے لیے چاہتاہے ،وہ سب سے کٹ کرخُدا کاہوگیا ہے اور تمام کام اُسی کی رضا کے لیے کرتاہے ۔
سوی تم کر دیم روی ودل بہ تو بستیم
ازہمہ باز آمدیم باتو نشستیم !!
ہرچہ نہ پیوند یار بود بریدیم
ہر چہ نہ پیمان دوست بود گسستیم
ہم نے تیری طرف رُخ کیاہے اورتجھ ہی سے دِل لگایاہے ۔
ہم سب کوچھوڑ کرتیر ے ساتھ ہو بیٹھے ہیں ۔
جس کاتعلّق محبُوب سے نہ ہو اُس سے ہم کٹ گئے ہیں ۔
جودوست کاعہد وپیمان نہیں تھا ہم نے اُس کوتوڑ دیاہے ۔
آیت کے آخری میںمزید کہتاہے :” پروردگار ا! اگرہم سے کوئی لغزش سرزد ہوجائے توہمیں بخش دینا “ (وَ اغْفِرْ لَنا رَبَّنا ) ۔
تو عزیز وحکیم ہے : ( إِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزیزُ الْحَکیمُ ) ۔
تیری قدر ت شکست ناپذیر ہے اورتیر ی حکمت ہرچیز میں نافذ ہے ، ہوسکتا ہے یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اگرہماری زندگی میں تیرے دشمن کی طرف تمائل ، محبت اوردوستی کی نشانی موجُود ہوتوہماری اس لغزش کوبخش دے ، نیز یہ تمام مُسلمانوں کے لیے ایک درس ہے کہ وہ بھی اس کی دستُور العمل بنائیں اور اگر کوئی ” حاطب “ ان میں پیدا ہوجائے تووہ استغفار کریں اورخُدا کی طرف پلٹ آ ئیں ۔
پھر آخری زیربحث آ یت میں دوبارہ اسی مطلب کو بیان کرتاہے جوپہلی آ یت میں بیان کیاگیاتھا فرماتاہے : ان کی زندگی میں تم مُسلمانوں کے لیے ایک اچھانمُونہ تھا، ان لوگوں کے لیے جوخُدا اورقیامت کے دن کی اُمّید رکھتے ہیں (لَقَدْ کانَ لَکُمْ فیہِمْ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ یَرْجُو ا اللَّہَ وَ الْیَوْمَ الْآخِرَ )(۷) ۔
نہ صرف بُت پرستوں اورکُفر کے طریقہ سے ان کی بر اٴت اوربیزار ی بلکہ بارگاہِ خدا میں ان کی دُعائیں اورتقاضے بھی جن کے کچھ نمُونے گزشتہ آیات میں گز رچُکے ہیں ، تمام مُسلمانوں کے لیے دستُور العمل ہیں ۔
یہ دستور العمل اورنمُونہ وہی لوگ قبول کرتے ہیں جنہوںنے خدا کے ساتھ دل لگالیا ، مبدء و معاد پر ایمان نے ان کے دل کو روشن کردیا اور وہ طریق ِ حق پر چل پڑے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ اس تاٴسی اور پیر وی کانفع سب سے پہلے خود مسلمانو ں کو ہی پہنچتا ہے ، اسی لیے آخر مین مزیدکہتاہے : ” جوشخص رُو گردانی کرے گا اور دشمنانِ خُدا سے دوستی کی بُنیاد ڈالے گا ،وہ خود اپنے آپ کوہی نقصان پہنچائے گا اور خدا کو اس کی کوئی حاجت نہیں ہے کیونکہ وہ سب سے بے نیاز اورہرقسم کی حمد وستائش کے لائق ہے “ ( وَ مَنْ یَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمید) ۔
کیونکہ دُشمنانِ خُدا کے ساتھ دوستی کرنا انہیں تقویّت پہنچاتاہے ، اور ان کی قوّت خود تمہاری شکست کاباعث ہے اگروہ تم پرمُسلط ہوگئے تو پھروہ کسِی چھوٹے بڑے پررحم نہیں کریں گے (۸) ۔
۱۔مفسّرین نے اس جُملہ کی ترکیب میں کئی احتمال دیے ہیں ،لیکن ظاہر یہ ہے کہ ” اسوة حسنة “ ”کان “ کا اسم اور” لکم “ اس کی خبر ہے اور ” فی ابر اہیم “ ” اسوة حسنة “ کامتعلق ہے ضمنی طورپر اس بات کی طرف توجّہ کرناچاہیئے کہ ” اسوة “ تاسی اورپیروی کے معنی میں کبھی تو اچھّے کاموں کے لیے اور کبھی بُرے کاموں کے لیے آتاہے، اسی لیے اوپرو الی آ یات میں ” حسنة “ کے ساتھ مُقیّد ہو اہے ۔
۲۔ کامل ابنِ اثیر جلد۱،ص ۱۰۰۔
۳۔ " بر اٴ ء “ ” بری “ کی جمع ہے جیسے : ” ظرفاء “ ” ظریف“۔
۴۔”اصولِ کافی “ بحو الہ ” نور الثقلین “جلد۵،صفحہ ۳۰۲۔
۵۔مذکورہ بیان سے و اضح ہوجاتاہے کہ یہاں استثناء متصل ہے اور” مستثنٰی منہ “ایک محذُوف جُملہ ہے کہ جس پر آ یت کامتن دلالت کرتاہے ،تقدیر میں اس طرح ہے :ان ابر اہیم و قومہ و امنھم ولم یکن لھم قول ید ل علی المحبة الا قول ابر اہیم ...لیکن دوسری تفسیر کے مُطابق استثناء منقطع ہو جائے گا اور یہ خوداس پردوسر ا اعتر اض ہے ۔
۶۔ہم نے جوکچھ بیان کیاہے ، اس سے و اضح ہوگیا کہ یہ جملہ ابر اہیم علیہ السلام ، اور ان کے ساتھیوں کا ہے ، اگرچہ بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ یہ ایک مستقل جُملہ ہے جو مُسلمانوں کی تعلیم کے عنو ان سے ان آ یات کے وسط میںنازل ہُو ا ہے لیکن یہ احتمال بعید نظر آ تاہے ۔
۷۔بعض مفسرّین نے یہ کہا ہے کہ اوپر و الی آ یت میں ” لمن “ ” لکم“کابدل ہے ( تفسیر فخر ر ازی وروح المعانی زیرِ بحث آ یات کے ذیل میں ) ۔
۸۔اس قول کی بناء پر جُملہ ” من یتول “جملہ شرطیہ ہے اور اس کی جزاء محذُو ف ہے وہ تقدیر میں اس طرح ہے : ” مَنْ یَتَوَلَّ فقد اخطاٴ حظ نفسہ وذھب یعود نفعہ الیہ“جورُو گردانی کرے اُس نے اپنے حصّہ سے خطاء کی اور اُس چیزسے دُور و ہوگیاہے ،جس کانفع اس کی طرف لوٹتاہے ۔( مجمع البیان ،جلد۹،صفحہ ۲۷۲)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma