اے مجرمو! فرار کی کوئی راہ نہیں ہے !

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس سُورہ کے مباحث عام طورپر مسئلہ معاد اوراس سے مربوط امور کے محور کے گرد چکر لگاتے ہیں، اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ گذ شتہ آ یات میں ہٹ دھرم کفار کے جہنم میں پھینکنے،اور ان کے شدّت عذاب کی کیفیت،اوران صفات کے متعلق جوانہیں دوزخ کی طرف کھینچ لے گئے تھے، گفتگو تھی،زیربحث آ یات میں ایک اورمنظر کی تصویرکشی کرتاہے، کامل احترام کے ساتھ پرہیزگاروں کے جنّت میںداخل ہونے کامنظر اور بہشت کی انواع واقسام کی نعمتوںاوران صفات کی طرف اشارہ جو انسان کوبہشتیوں کی صف میں قرار دیتی ہیں ، تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرنے سے حقائق زیادہ واضح اور روشن ہوجائیں ۔
پہلے فرماتاہے:اس دن بہشت پرہیزگار وں کے نزدیک ہوجائے گی اوران سے اس کاکوئی فاصلہ نہیں ہوگا(وَ أُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقینَ غَیْرَ بَعیدٍ ) ۔
ازلفت زلفیٰ ( بروزن کبریٰ) کے مادہ سے قرب ونزدیکی کے معنی میں ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ نہیں کہتاکہ پر ہیزگار وں کوجنّت کے قریب کریں گے، بلکہ یہ کہتاہے کہ جنت کوان کے قریب کریں گے !یہ ایک ایسامطلب ہے ، جو اس دُنیا کے حالات کومدّ نظر رکھتے ہُوئے قابلِ تصور نہیں ہے ،لیکن اس بناء پرکہ دارِ آخرت کے اصول کچھ ایسے ہیں جواس جہان کے حالات سے بہت مختلف ہیں، اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خدا پرہیزگار مومنین کے اتنہائی اکرام واحترام کی بناء پر بجائے اس کے کہ انہیں جنت کی طرف لے جائے ، جنت کوان کی طرف لے آ ئے گا،!
سورئہ شعراء کی آیت ٩٠ و ٩١ میں آ یاہے : وَ أُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقینَ،وَ بُرِّزَتِ الْجَحیمُ لِلْغاوینَ اس دن جنت پرہیزگار وں کے قریب کردی جائے گی ،اور دوزخ کوگمراہوں کے لیے آشکار وظاہر کریں گے ۔
اور یہ خدا کامومن بندوں پرانتہائی لطف و کرم ہے ، جس سے بالا تر کاتصور نہیں ہوسکتا ۔
غیر بعید کی تعبیر بھی تاکید کے عنوان سے ہے ( ١) ۔
بہرحال آیت کامفہوم یہ ہے کہ مسئلہ قیامت میں واقع ہوگا، اگرچہ تعبیرفعل ماضی (از لفت)کے ساتھ ہوئی ہے،کیونکہ وہ یقینی حوادث جو مستقبل میں واقع ہوں، بہت سی تعبیروں میں فعل ماضی کی صورت میں بیان ہوتے ہیں ،لیکن بعض نے اس کاواقعات ماضی کے ساتھ معنی کیاہے ، اوریہ کہاہے کہ جنت کاپرہیزگاروں کے نزدیک ہونادُنیا میں حاصل ہوچکاہے، کیونکہ جنّت کے اوران کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے،اِدھر وہ دُنیا سے جائیں گے اور اُدھر جنّت میں داخل ہوجائیں گے ۔
لیکن قبل وبعد کی آ یات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے جوقیامت کے منظر کی گفتگو کررہی ہیں، یہ معنی بعید نظر آ تاہے اورمناسب وہی پہلی تفسیر ہے ۔
اس کے بعد بہشتیوں کے اوصاف کی تفصیل بتاتاہے:یہ وہ جنّت ہے ، جس کاتم سے وعدہ کیاگیاہے، اوریہ اُن لوگوں کے لیے ہے جوخداکے حکم کی اطاعت کی طرف لوٹتے ہیں، اوراس عہد وپیمان اوراحکام کی حفاظت کرتے ہیں (ہذا ما تُوعَدُونَ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفیظٍ ) ۔
یہاں ان کے اوصاف میں سے دواوصاف کی طرف اشارہ ہواہے ۔
اوّاب اور حفیظ
اوّاب اوب (بروزن دوب)کے مادہ سے بازگشت کے معنی میں ہے،جوممکن ہے چھوٹے بڑے گناہوں سے توبہ کے معنی میں ہو یااس کی اطاعت کی طرف بازگشت کے معنی میں ہو، اوراس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ یہ مبالغہ کاصیغہ ہے ۔ یہ نشاندہی کرتاہے، کہ بہشتی ایسے پرہیزگار لوگ ہیں کہ جو عامل بھی انہیں خدا کی اطاعت سے دُور کرتاہو ، وہ اس کی طرف فوراً متوجہ ہوجاتے ہیں اوراس کی اطاعت کی طرف لوٹ آ تے ہیں، اوراپنی کوتاہیوں اورغفلتوں سے توبہ کرتے ہیںتاکہ نفس مطمئنہ کے مقام تک پہنچ جائیں ۔
حفیظمحافظ اور نگران کے معنی میں ہے ،کیااس سے مراد خداکے عہدو پیمان کی حفاظت ہے،جواس نے انسانوںسے لیاہے کہ اس کی اطاعت کریں اور شیطان کی عبادت نہ کریں (یس۔ ٦٠)یاخدا کے قوانین اور حدودِ الہٰی کی حفاظت ؟یاگناہوں کوچھوڑنااورانہیں تو بہ کے لیے یاد رکھنااوران کی تلافی کرنا؟یایہ سب امور ؟۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ یہ حکم مطلق صُورت میں ذکر ہواہے،آخری تفسیر جوجامعیت رکھتی ہے زیادہ مناسب نظر آ تی ہے ۔
ان اوصاف کوجاری رکھتے ہُوئے ۔ جوحقیقت میں گذشتہ اوصاف کی تفسیر وتوضیح ہیں،بعد والی آیت میں ان کے دو اوراوصاف کی طرف اشارہ کرتاہے اور فر ماتاہے:وہی شخص جوتنہائی میںخدا ئے رحمن سے ڈر سے اور توبہ کرنے والے دل کے ساتھ اس کے حضور میں حاضر ہو(مَنْ خَشِیَ الرَّحْمنَ بِالْغَیْبِ وَ جاء َ بِقَلْبٍ مُنیبٍ) ۔
پوشیدہ طورپر خداسے ڈ رنے کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اس کے باوجودکہ ہرگز خدا کوآنکھ سے نہیں دیکھتے ،اس کے آثار میں غور کرکے اور استد لال کے طریقے سے اس پرایمان لاتے ہیں،ایساایمان جوکامل مسؤلیت کے احساس سے توام ہے ۔
یہ احتمال بھی موجود ہے،کہ لوگوں کی آنکھ سے پنہاں مراد ہو ، وہ نہ صرف لوگوں کے سامنے بلکہ تنہائی اورخلوت میں بھی کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ۔
یہ خوف اور خشیت اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ان کادل منیت ہو، ہمیشہ کے لیے خدا کی طرف متوجہ ہوجائے اوراس کی اطاعت میں آگے پڑھے ،اور ہرلغز ش وگناہ سے تو بہ کرے ، اوراس حالت کو آخر عمر تک بر قرار رکھتے ،اوراِسی حالت میں عرصئہ محشر میں وارد ہو ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے،: جن لوگوں میں یہ چار صفات پائی جاتی ہیں، جب بہشت ان کے نزدیک ہوجائے گی تو خدا کے فرشتے احترام واکرام کے عنوان سے ان سے کہیں گے ، سلامتی کے ساتھ جنت میں وارد ہوجاؤ (ادْخُلُوہا بِسَلامٍ) ۔
ہر قسم کی بُرائی ،دُکھ درد، آفت وبلا، سزا وعذاب سے مکمل جسمانی و روحانی سلامتی ۔
اس کے بعدا ن کے اطمینان قلب کے لیے مزید کہتاہے:آج جاودانی اورہمیشگی کادن ہے،نعمتوں کی ہمیشگی ، اوربہشت کی اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ ہمیشگی (ذلِکَ یَوْمُ الْخُلُود) ۔
ان دونعمتوں(سلامتی کی بشارت اورہمیشہ ہمیشہ بہشت میں رہنے کی بشارت )کے بعد خداوندِمنان انہیں دوبشارتیں اور دیتاہے، جومجموعی طورپرچار بشارتیں ہوجاتی ہین، ان چاراوصاف کی طرح جوان میں پائے جاتے تھے ، فرماتاہے، وہ جوکچھ بھی چاہیں گے بہشت میں ان کے لیے موجُود ہے (لَہُمْ ما یَشاؤُنَ فیہا) ۔
اوراس کے علاوہ دوسری نعمتیںبھی ہمارے پاس موجود ہیں جوکھبی ان کے وہم وگمان میں بھی نہ آ ئی ہوں گی ۔کہ وہ ان کی تمنا کریں(وَ لَدَیْنا مَزید) ۔
اس سے زیادہ بہتر ، عمدہ تر، اور دل پسند تعبیر کاتصوّر بھی نہیں ہوتا ، پہلے کہتاہے،:بہشتی لوگ جو کچھ چاہیں(اس جُملہ کے معنی کی وسعت کے ساتھ)انواع واقسام کی نعمتیںبغیر کسی استثنا کے ان کے اختیار میں ہونگی ، اوران کے علاوہ بھی ایسی نعمتیں اورمواہب ہیں ، جو ہرگز کسِی انسان کے وہم وگمان میں بھی نہ آ ئی ہوں گی، لیکن خداوند رحمن ورحیم ،جس نے بہشتی پرہیزگاروں کو، اپنے خاص الطاف سے نوازاہے ،انہیں ان نعمتوںسے بھی بہرہ ورکرے گاوراس طرح سے جنّت کی نعمتیںاتنی حد سے زیادہ وسیع پہلو پیداکرلیں گی، جن کی توصیف بیان سے با ہرہے ۔
ضمنی طور پراس تعبیر سے معلوم ہوتاہے ، کہ خدائی اجر وپاداش اورمومنین کے اعمال کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے کہیںزیادہ اور بہت ہی بر ترو بالاتر ہے ، اوراس مرحلہ میں ہم ہر جگہ اس کے فضل وکرم کے رو برو ہیں، کیااس کی سزامیں اور کیا اس کے عدل کے سامنے ۔
بہشت ودوزخ، اوربہشتیوں اور دوزخیوں کے صفات اوران کے درجات ومراتب کے بارے میں گفتگو کوختم کرنے کے بعد، اسی بحث سے کامل طورپر نتیجہ نکالنے کے لیے ، مجرموں کی طرف توجہ کرتے ہُوئے فرماتاہے:کتنی بہت سی قومیں ایسی ہیں جن کو ہم نے ان سے پہلے ہلاک کیاہے ، وہ قومیں جوان سے زیادہ قوی اورطاقتور تھیں نے کئی مُلک فتح کے تھے،اورکئی شہروں پرمسلّط ہُوئے تھے ،لیکن وہ کفر وظلم وستم اور گناہ کی وجہ سے نابود ہوگئیں(وَ کَمْ أَہْلَکْنا قَبْلَہُمْ مِنْ قَرْنٍ ہُمْ أَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشاً فَنَقَّبُوا فِی الْبِلادِ) ۔
کیا اس قسم کے افراد کے لیے موت اورعذاب الہٰی سے فرار کی کوئی راہ ہے ؟(ہَلْ مِنْ مَحیص)۔
قرن اور اقتران اصل میں دوچیزوں یاکئی چیزوں کے ایک دوسرے سے نزدیک ہونے کے معنی میں ہے، اوراس جماعت کوجوایک ہی زمانہ میں زندگی بسرکتے ہیں قرن کہاجاتاہے، اس کے بعد یہ لفظ زمانہ کے ایک حِصّہ پر بولا جانے لگا، جسے کبھی توتیس سال اور کبھی سوسال کہاہے ۔
ا س بناء پر کئی قرنوںکوہلاک کرنے کامعنی کئی گذشتہ اقوام کوہلاک کرناہے۔
بطش کسِی چیز کوقوت وقدرت کے ساتھ پکڑ نے کے معنی میں ہے، اور کبھی جنگ و جدال کے معنی میں بھی آ تاہے ۔
تقبوا نقب کے مادہ سے اس سوراخ کے معنی میںہے جودیواریاچمڑے میں کرتے ہیں، لیکن ثقب صر ف اس سوارخ کوکہتے ہیں جو لکڑی میں کرتے ہیں ۔
یہ لفظ جب کسی فعل کی صُورت میں استعمال ہو، تو سیروحرکت اوراصطلاح کے مطابق راستہ کھولنے اور پیش روی کرنے کے معنی میںآتاہے،اور کشور کشائی اور مختلف علاقوںمیں نفوذ کے معنی میں بھی آ یاہے ۔
منقبت بھی اسی مادہ سے ہے ، اور یہ لفظ ان برجُستہ اشخاص کے افعال وصفات پر...اس نفوذ و تاثیر کی بناء پر جووہ لوگوںمیں رکھتے ہیں، یا راستے کو ترقی کے لیے کھو لتے ہیں،بولا جاتاہے ۔
نقیب اس شخص کوکہتے ہیں، جوکسی جمعیت کے بارے میں بحث وتحقیق کرتاہے اوران کے اوضاع واحوال سے باخبر ہوتاہے اوران کے اندرنفوذ پیداکرتاہے ۔
محیص حیص( بر وزن حیف)کے مادہ سے کسی چیز سے انحراف اورعدول کرنے کے معنی میں ہے، اوراسی مناسبت سے مشکلات سے فرار کرنے اور میدانِ جنگ میں شکست کھاجانے کے معنی میںبھی آ یاہے ۔
بہرحال یہ آیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے زمانے کے ہٹ دھرم کفار کوتنبیہ کررہی ہے ، کہ وہ گذشتہ لوگوں کی تاریخ پرنگاہ ڈالیں ، اوران کے آثارکوتاریخ کے صفحات میں اور روئے زمین پردیکھیں، غور کریں کہ خدانے اس سے پہلے کی سرکش اقوام کے ساتھ کیا کیا؟وہ قومیں جوان سے زیادہ کثرت میں تھیں اور زیادہ طاقتورتھیں، اور پھر وہ اپنے مستقبل کے بارے میںسوچیں ۔
یہ معنی بار ہاقرآن مجید میں آ یاہے ، منجملہ سورئہ زخرف کی آ یہ ٨ میں بیان ہواہے:فَأَہْلَکْنا أَشَدَّ مِنْہُمْ بَطْشا ہم نے ان اقوام کوجوان سے زیادہ طاقتور تھیں ہلاک کردیا۔
بعض مفسرین زیربحث آیت کوقومِ ثمودکی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جوحجاز کے شمار میں حجر کی کوہستانی سر زمین میں زندگی بسر کرتی تھی وہ پہاڑ وں کوکاٹ کران میںپُر شکوہ گھر اورقصر ومحلات بناتی تھی، لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے اور انہیںبھی اوران کے علاوہ دوسری اقوام کوبھی شامل ہے ۔
ھل من محیص ( کیا بھاگنے کی کوئی راہ ہے ؟)کاجُملہ ممکن ہے گذشتہ اقوام کی زبانی ہو، جوعذاب کے چنگل میں گرفتاری کے وقت اس مطلب کاایک دوسرے سے سوال کرتے تھے ،یاپر وردگار کی طرف سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے زمانے کے ہٹ دھرم کفّارکے بارے میںہو ،یعنی کیا اس دردناک سرنوشت سے جوگذشتہ سرکش اقوام کے سامنے آ ئی فرا ر کرسکتے ہیں؟
آخری زیربحث آیت میں زیادہ تاکید کے لیے مزید کہتاہے:
یقینا گذشتہ لوگوں کی سرنوشت میں، اس شخص کے لیے ، جوعقل رکھتاہے، یاکان لگاکرسُنتاہے اور حاضر (دماغ)ہے تذ کر اورایک نصیحت ہے (انَّ فی ذلِکَ لَذِکْری لِمَنْ کانَ لَہُ قَلْب أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَ ہُوَ شَہید) ۔
یہاں بھی اورقرآن کی دوسری آ یات میں بھی جودرک مسائل کے بارے میں بحث کرتی ہیں قلب سے مراد وہی عقل (شعور ادراک ہے ، لغت کی کتابوں میں بھی قلب کاایک معنی عقل ہی بتایاگیاہے،راغب نے مفردات میں زیربحث آیت میں قلب کی علم وفہم سے تفسیر کی ہے ، لسان العرب میں یہی بیان ہواہے ، کہ بعض اوقات قلبعقل کی معنی میں استعمال ہوتاہے( ٢) ۔
ایک حدیث میں امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے بھی اسی آیت کی تفسیر میں آ یاہے کہ قلبسے مرادعقل ہے ( ٣) ۔
اصل میں اس لفظ قلبکی جڑ بنیاد ، بدلنے اورایک حالت سے دوسری حالت میں آ نے کے معنی میں ہے اور اصطلاح کہاگیاہے، اوراسی کے مطابق قلب وانقلاب ہے، اور چونکہ انسان کی فکر وعقل ہمیشہ وگرگونی کی حالت میں ہے ، اس لیے اس کو قلبکہاگیاہے، اوراسی بناء پرقرآنی آ یات میں دل کے سکینہ وآرام یااطمینان قلب پرتکیہ ہواہے : ہُوَ الَّذی أَنْزَلَ السَّکینَةَ فی قُلُوبِ الْمُؤْمِنینَ :وہ ہی ہے کہ جس نے مؤ منین کے دل میں سکینہ وآرام نازل کیا ( فتح۔٤) أَلا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (رعد۔ ٢٧) ہاں !س بے قرار موجود کوصرف یادِخداسے قرار سکون حاصل ہوتاہے ۔
القی السمع( کان کوڈالے )کان دھرنے ، اور انتہائی اہنماک اور توجہ سے سننے سے کنایہ ہے ، اس تعبیر کے مشابہ جوہم فارسی میں بولتے ہیں، گوش مانز د تواست ( ہماراکان تمہارے پاس ہے ) یعنی ہم تیری باتوں کواچھی طرح سے سُن رہے ہیں ۔
شہید یہاں اس شخص کے معنی میں ہے جوحضور قلب رکھتاہو، اوراصطلاح کے مطابق،اس کادل مجلس میں ہے اوروہ وقت کے ساتھ مطالب کوسمجھتاہے ۔
اور اسی طرح سے آیت مجموعی طورپر اس طرح معنی دیتی ہے ۔
دو گروہ ان مواعظ سے پند ونصیحت حاصل کرسکتے ہیں.پہلا گروہ وہ ہے جوعقل وہوش رکھتاہے، اور خود مستقل طورپر مسائل کاتحلیل وتجزیہ کرسکتاہے، دوسراگروہ وہ ہے جواس حد میں تو نہیں ہیں، لیکن وہ عُلماء اور دانشمندوں کے لیے اچھے سامعین بن سکتے ہیں، اورحضور قلب کے ساتھ ان باتوں کوسنتے ہیں، اورحقائق کوان کے ارشاد ورہنمائی کے طریق سے معلوم کرتے ہیں ۔
اس گفتگو کی شبیہ سورئہ ملک کی آ یہ ١٠میں بھی آ ئی ہے جس میں دوزخیوں کے قول کواس طرح نقل کرتاہے،: وَ قالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ ما کُنَّا فی أَصْحابِ السَّعیرِ اگرہم سننے والے کان یاکافی عقل و ادراک رکھتے ہوتے توہرگز دوزخیوں کی صف میں قرار نہ پاتے کیونکہ وہ راہ حق کی نشانیاں واضح وآشکارہیں، لہٰذا وہ لوگ جوخود اہل تحقیق اس کواچھی طرح حاصل کرلیتے ہیںاور جواس قسم کے نہیں ہیں،وہ عادل اورہمدرد عُلماء کی رہنمائی کے ذ ریعے اپنے راہ معلوم کرسکتے ہیں، اسی بناء پر ضروری ہے کہ یاتو انسان کے پاس کافی مقدارمیں علم وعقل ہو ، یاسننے والے کان رکھتاہو( ٤) ۔
١۔"" غیر بعید "" ممکن ہے کہ "" ظرف"" ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ "" حال "" ہو یا صفت ہومحذوف مصدر کی اورتقدیر میں "" از لافا غیر بعید"" ہو ۔
٢۔السان العرب مادۂ قلب۔
٣۔اصو ل کافی جلد١ کتاب العقل والجہل حدیث ١١۔
٤۔توجہ رکھیں کہ دونوں آ یات میںیہ دو مطالب"" او"" کے لفظ کے ساتھ ایک دوسرے پرعطف ہواہے ، جونشاندہی کرتاہے کہ کم از کم ان دونوںمیں سے ایک ضروری ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma