عظیم واقعہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

قیامت سے ربط رکھنے والے مسائل قرآن مجید میں عام طورپر عظیم انقلاب برپا کرنے والے اور سرکوبی کرنے والے حادثات کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور یہ قرآن کی ان بہت سی صُورتوں میں نظر آتے ہیں جو قیامت کے متعلق بحث کرتے ہیں ،اس سورئہ واقعہ میں ،جس کا مرکزی خیال معاد ہے ،اس کی ابتدائی آ یات میں یہی واضح نظر آتاہے ،پروردگار ِ عالم آغاز ہی میں فر ماتاہے: جس وقت قیامت کاعظیم واقعہ رُونما ہوگا (ِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ)(١) ۔
کوئی شخص اس کاانکار نہیں کرسکتا(لَیْسَ لِوَقْعَتِہا کاذِبَة) ۔ کیونکہ اس کے رُو نما ہونے سے پہلے کے حوادث اس قدر شدید اورہولناک ہوں گے کہ ان کے اثرات دنیا کے ذرّہ ذرّہ پرنمایاں گے ۔ واقعة اجمالی طورپر قیامت کے برپا ہونے اور مُردوں کے قبروں سے اُٹھنے کی طرف اشارہ ہے ،اور چونکہ اس کاواقع ہونا قطع یقینی ہے اس لیے اسے واقعہ سے تعبیر کیاگیاہے ۔یہاں تک کہ بعض مفسّرین نے واقعہ کوقیامت کے ناموں میں سے ایک نام بتایاہے کاذبة کے لفظ کو بعض مفسرین نے یہاں مصدری معنوں میں لیاہے جوکہ اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کاوقوع اس طرح ظاہر اور آشکار ہوگا کہ کسی قسم کی تکذیب اوراختلافات کی گنجائش نہیں ہوگی ۔ بعض مفسّرین نے اس کی اس کے ظاہر ی معنوی کے ساتھ تفسیر کی ہے ، اس اعتبار سے کہ یہ اسم فاعل ہے ،اور کہاہے کہ قیامت کے وقوع کے سامنے کوئی تکذیب کرنے والا موجود نہیں ہوگا ( ٢) ۔
بہرحال قیامت نہ صرف یہ کہ کائنات کی تباہی کے ساتھ لازم ہے بلکہ اس کے نتیجے میں انسان بھی درہم وبرہم ہوجائیں گے ۔ جیساکہ بعد کی آیتوں میں پروردگار ِ عالم فرماتاہے؟:ایک گروہ کونیچے لے جائیں گے اور دوسرے کواُوپر لے آئیں گے (خافِضَة رافِعَة)(٣) ۔
تکبّر کرنے والے ،اکڑنے والے اورصد رنشین ظالم نیچے گرادیے جائیں گے اورکمزور مومن اورنیک افراد اوج افتخار پرمتمکن ہوں گے ،خواہ مخواہ بنے ہوئے عزّت دار ذلیل ہوں گے اوربلا وجہ محروم کیے گئے افراد عزیز ہوں گے ،ایک گروہ قعرِ جہنم میں گرے گا دوسرا گروہ بہشت کے اعلیٰ علییّن میں قیام پذیر ہوگا ،اوریہ خدائی عظیم ووسیع انقلاب کی خصوصیّت ہے ۔اسی لیے امام زین العابدین علیہ السلام سے منسُوب ایک روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے اسی آ یت کی تفسیر میںفرمایا: خافضة خفضت واللہ باعداء اللہ فی النّار، رافعة زفعت واللہ اولیاء اللہ الی الجنّة قیامت ِ خافضہ ہے کیونکہ خداکی قسم وہ دشمنانِ خدا کوجہنم کی آگ میں گِرا دے گی اور رافعہ خداکی قسم اولیاء اللہ کوبہشت میں لے جائے گی ( ٤) ۔
اس کے بعد اسی سلسلہ میں توصیف کرتے ہوئے قرآن فرماتاہے : یہ اس وقت ہوگاکہ جب وقت زمین شِدّت کے ساتھ لرزنے لگے گی (ِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا)یہ زلزلہ اس قدرعظیم وشدید ہوگا کہ پہاڑ ٹوٹ کرریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔
(وَ بُسَّتِ الْجِبالُ بَسًّا) اورغبار کی شکل میں بکھر جائیں گے (فَکانَتْ ہَباء ً مُنْبَثًّا) رجت کا مادآہ رج (بروزن حج )ہے جس کے معنی شدید حرکت کرنے کے ہیں اوراضطراب کو رجرجة کہاجاتاہے ، بست کا مادّہ بس ہے اوردراصل آٹے کو پانی سے نرم کرنے کے معنی میں ہے ھبائ غبار ہے جوفضا میں متعلق ہو اورعام حالات میں نظر نہ آ تاہو مگراس وقت کہ جب سُورج کی روشنی کسِی سُوراخ کے ذریعے اندھیرے کی جگہ داخل ہوجائے ، اَب سوچنا چاہیئے کہ وہ زلزلہ کِس حدتک سنگین ہوگا جوایسے بڑے بڑے پہاڑوں کوجواپنے استحکام میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اس طرح کی تعبیریں بیان ہوئی ہیں جوحقیقت میں پہاڑ وں کے مختلف مرحلوں میں بہت بھیانک انداز میں پھٹنے کی خبردیتی ہیں ۔
پروردگارِ عالم کبھی فرماتاہے : پہاڑ حرکت میں آ جائیں گے (وتیسرالجبال سیّرا) (طور١٠٠) پہاڑ اپنی جگہ سے اُکھاڑ دیے جائیں گے ( واذ االجبال نسفت ) (مرسلات ۔١٠) ۔
اور کبھی فر ماتاہے : انہیں اُٹھا دیاجائے گا اوروہ ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کرریزہ ریزہ ہوجائیں گے (فدکّتا وکة واحدة )(حاقہ ۔ ١٤) ۔
اورکبھی فر ماتاہے: ریت کے تہہ بہ تہہ ٹیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے ( وکانت الجبال کثیباً مھیلاً ) ( مزمل ۔ ١٤) ۔
کبھی فرماتاہے : وہ غبار کی شکل میں پراگندہ ہوجائیں گے ( زیربحث آ یت )اورآخر میں فرماتاہے دھنگی ہوئی ،رُوئی کی طرف ایسے فضا میں بکھر جائیں گے کہ صرف ان کارنگ نظر آئے گا (وتکون الجبال کالعھن المنفوش)( قارعہ ۔ ٥) ۔
ہاں البتہ خدا کے علاوہ کوئی پورے طورپر نہیں جانتا کہ ان حادثوں کاکون ساراستہ ہے اوریہ بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہمارے الفاظ کے سانچے میں ڈھل سکے ، لیکن یہ تمام پُر معنی اشارے اس دھماکے کی عظمت کی نشان دہی کرتے ہیں،اس عظیم واقعہ یعنی قیامت کے وقوع کے بیان کے بعد اس دن لوگوں کی جوحالت ہوگی ،اس کوپیش کیاگیاہے ،سب سے پہلے قرآن انہیں تین حصّوں میں تقسیم کرتاہے ۔
اورپھر فرماتاہے : اس روز تم تین گروہ ہوجاؤ گے ( وَ کُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَة)ہمیں معلوم ہے کہ لفظ زوج مذکوومؤ نث دونوں کے لیے اِستعمال ہوتاہے ، بلکہ اِن معاملات پر بھی اس کااطلاق ہوتاہے جوباہم قریب ہوں ، چونکہ آدمیوں کی مختلف صنفیں قیامت میں ایک دوسرے کے قریب ہوں گی ،لہٰذا ان کے لیے ازواج استعمال ہواہے پہلے گروہ کے بارے میں فرماتاہے : پہلے اصحاب میمنہ ہیں ،کیا ہیں اصحاب میمنہ (فَأَصْحابُ الْمَیْمَنَةِ ما أَصْحابُ الْمَیْمَنَة)(٥) ۔
اصحاب ِ میمنہ سے مُراد وہ لوگ ہیں جن کانامہ ٔ اعمال ان کے سیدھے ہاتھ میں دیاجائے گا ۔اور یہ صُورتِ حال قیامت میں نیکو کار ، اہل نجات مومنین کی نشانی ہوگی ، چنانچہ آ یاتِ قرآنی میں اس طرف بار ہا اشارہ ہے ، یاپھر یہ کہ میمنہ یُمن سے مشتق ہے جس کے معنی سعادت اورخوش بختی کے ہیں ، اس اعتبار سے پہلاگروہ سعادت مند اورخوش قسمت افراد کاہے ۔اس کے بعدوالی آ یات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس میں دوسرے گروہ کو أَصْحابُ الْمَشْئَمَةِ (شوم سے مشتق )کے نام سے منسُوب کیاگیاہے ،یہ آخری تفسیر ہی مناسب ہے (٦) ۔
ما أَصْحابُ الْمَیْمَنَة کیاکہنے اس خوش قسمت گروہ کے یہ تعبیر اس حقیقت کوبیان کرتی ہے کہ ان لوگوں کی خوش قِسمتی کی کوئی انتہا نہیں ہے اور یہ بہترین تعریف ہے جواس گروہ سے متعلق ہے ،جیساکہ ہم کہیں کہ فلاں شخص انسان ہے اورانسان بھی کیسا اس کے بعد دوسرے گروہ کوپیش کرتے ہوئے فرماتاہے:اصحاب شوم اورکیاہیں اصحابِ شوم (وَ أَصْحابُ الْمَشْئَمَةِ ما أَصْحابُ الْمَشْئَمَةِ) ۔بدبخت ، بے چارہ اور بے نواگروہ ،ایسے لوگ جن کانامۂ اعمال ان کے اُلٹے ہاتھ میں دیاجائے گا ،جوان کی بدبختی اور ان کے جرم کی بجائے خُود نشانی ہوگا ، ما أَصْحابُ الْمَشْئَمَة کی تعبیر یہاں بھی ان کی بدبختی اور شقاوت کو ظاہرکرتی ہے ۔
آخر میں تیسرے گروہ کی اس طرح تعریف کرتاہے اور سبقت کرنے والے سابقین (وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُون) (٧) ۔
وہی مقرب ہیں (أُولئِکَ الْمُقَرَّبُونَ) سابقون وہ لوگ ہیں جو نہ صرف ایمان میں پیش قدمی کرتے ہیں بلکہ اِنسانی صفاتِ اخلاق میں بھی سبقت کرتے ہیں ،وہ لوگوں کے لیے نمونہ ہیں اورمخلوق کے لیے امام وپیشوا ہیں اوراسی وجہ سے خدائے بزرگ وبرتر کے مقربین بارگاہ ہیں ۔اس بناپر اگربعض مفسّرین نے ان کے سابق ہونے کو اطاعت ِ خداوند ی یا پنجگانہ نماز یاجہاد یاہجرت یاتوبہ سے متعلق کیاہے توہرایک نے اس وسیع مفہوم کے صرف ایک گوشہ کی طرف توجہ کی ہے وگرنہ یہ لفظ دوسری نیکیوں اور برکتوں کابھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔اورپھر اسلامی روایات میں اگر کبھی السابقون کامصداق ان چار افراد کوقرار دیاگیا ہے یعنی اوّل ہابیل دوسرے مومن آل ِ فرعون ، تیسرے حبیب نجّار کہ ان میں سے ہرایک نے اپنی اُمّت کے مقابلے میں پیش قدمی کی ہے اورچوتھے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام جومردوں میں سب سے پہلے صاحب ِ ایمان تھے ، یہ ایک واضح مصداق کی نشان دہی ہے اورمصداق آ یت کومحدُود کرنے کے معنی میں نہیں ہے (٨) ۔
ایک حدیث میں آ یاہے کہ رسُول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ا تد رون من السّابقون الی ظل اللہ یوم القیامة کیاتم جانتے ہوکہ قیامت میں لُطف ِپروردگار کے سایہ میں کون لوگ ہوں گے اصحاب نے عرض کیاکہ خدا اوراس کارسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)زیادہ آگاہ ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا: الذین اذ ا اعطو الحق قبلوہ واذاسأ لوہ بذلوہ وحکم اللناس کحکمھم لانفسھم وہ ایسے لو گ ہیں کہ جب انہیںحق دیاجائے تواُسے قبول کرلیتے ہیں اور جب ان سے حق کا سوال کیاجائے تووہاسے مسائل تک پہنچادیتے ہیں ، لوگوں کے بارے میں اسی طرح حکم کرتے ہیں جس طرح اپنے بارے میں حکم کرتے ہیں ( ٩) ۔

بعض روایتوں میں السابقون کامفہوم مرسل وغیرہ مرسل پیغمبر بتایا گیاہے ( ١٠) ۔
ایک حدیث میں ہمیں ملتاہے کہ ابنِ عباس کہتے ہیں کہ میں نے اس آ یت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے پوچھا توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا : کہ جبرئیل نے مجھ سے اس طرح کہاہے : (ذالک علی و شیعتہ ھم السّا بقون الی الجنّة ، المقربون من اللہ بکرامتہ لھم وہ علی علیہ السلام اوران کے پیرو کار ہیں جوبہشت کی طرف پیش قدمی کرنے والے ہیں اوروہ مقربین بارگاہِ خدا ہیں ۔اِس احترام کی بناپر جوخدا کی نظر میں ان کاہے (١١) ۔
یہ بھی درحقیقت مذکورہ بالا مفاہیم کے واضح مصداقوں کابیان ہے ،ایسا مفہوم کہ جس میں ہرملّت واُمّت کے تمام سابقین شامل ہیں ،اس کے بعدایک مختصر سے جملہ میں مقربین کے مقام بلند کوواضح کرتے ہوئے فرماتاہے: مقربین جنّت کے پُرلغت باغات میں ہیں (فی جَنَّاتِ النَّعیمِ )(١٢) ۔
جنات النعیم کے مفہوم میں بہشت کی مادّ یومعنوی تمام اقسام کی نعمتیں شامل ہیں ،ضمنی طورپر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ صرف جنّت کے باغات ہی نعمتوں کامرکز ہیں ، خلاف باغات دنیا کے جوکبھی کبھی وسیلۂ زحمت بھی ہوجا تی ہیں۔
جیساکہ مقربین کی آخرت کی حالت ان کی دنیاکی حالت سے مختلف ہے کیونکہ دُنیامیں ان کامقام بلند اپنے اندرذمّہ داری اور جواب دہی کاپہلو بھی رکھتاہے ، جب کہ آخرت میں صرف نعمت کاسبب ہے ۔واضح رہے کہ یہاں قرب سے مُراد قرب مقامی ہے نہ کہ قرب مکانی اس لیے کہ خدامکان نہیں رکھتا اوروہ ہم سے ہماری نسبت زیادہ قریب ہے ، اس کے بعدوالی آ یت میں گزشتہ اُمتوں اوراس اُمّت کے افراد کی تقسیم کی کیفیّت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے : بہت سے گروہ گزشتہ اُمّتوںمیں سے ہیں ۔ (ثُلَّة مِنَ الْأَوَّلین)اورایک چھوٹا ساگروہ آخری اُمّت میں سے ہے :(وَ قَلیل مِنَ الْآخِرینَ ) ثلة جیسا کہ راغب مفردات میں کہتاہے۔اصل میں پشم کے مجتمع ٹکڑوں کے معنی میں ہے اوراس کے بعد جماعت یاگروہ کے معنی میں استعمال ہواہے ، بعض مفسرّین نے اسے ثل عرشہ اس کا تخت گِر پڑا اوراس کی حکومت ختم ہوگئی سے مشتق سمجھا ہے ۔اوروہ اسے قطعہ کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔ یہاں مقابلہ کے قرینہ کے ماتحت (قَلیل مِنَ الْآخِرینَ )کے ساتھ قطعہ عظیم کے معنوں میں ہے ۔ان دونوں آیتوں کے مطابق مقربین کے زیادہ گروہ گزشتہ اُمّتوں میں سے ہیں اوران میں سے صرف ٹھوڑ ے سے اُمّت ِ محمد ّ یہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)میں سے ہیں ، ممکن ہے کہ یہاں یہ سوال درپیش ہو کہ یہ صُورت ِ حال اُمّت ِ اِاسلامیہ کی حد سے زیادہ اہمیّت کے ساتھ کِس طرح مطابقت رکھتی ہے ،جب کہ خداانہیں بہترین اُمّت کے خطاب سے نوازتے ہوئے فرماتاہے : کنت خیرا مّة (آل عمران ، ١١٠)اس سوال کاجواب دونکات کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتاہے ۔پہلایہ کہ مقربین سے مُراد وہی سابقین اورایمان میں پیش قدمی کرنے والے ہیں ، یہ طے شدہ ہے کہ اُمّت ِاسلامی میں اوّل میں اسلام کوقبول کرنے کی طرف پیش قدمی کرنے والے تھوڑے سے افراد تھے ،مردوں میں سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام اور عورتوں حضرت خدیجہ علیہ السلام تھیں جب کہ گزشتہ پیغمبروں کی کثرت اوران کی اُمتوں کی تعداد اورہر اُمّت میں پیش قدمی کرنے والوں کاموجود ہونااس بات کاسبب بنتاہے کہ وہ تعداد میں زیادہ ہوں ، دوسرے یہ کہ عدد ی کثرت کیفی کثرت کی دلیل نہیں ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اِ اُمّت کے بقین کی تعداد کم ہولیکن مرتبہ ومقام کے لحاظ سے بہت ہی افضل و برتر ہوجیساکہ خود پیغمبر وں میں بھی فرق ہے (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَہُمْ عَلی بَعْضٍ) ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت وبرتری دی (بقرہ ٢٥٣)اِس نکتہ کاذکربھی ضروری محسوس ہوتاہے کہ ہوسکتاہے کہ بعض مومنین ایمان میں سبقت کرنے والوں کے زمرے میں نہ ہوں لیکن دوسری صفات وخصوصیات کے حامل ہوں جو انہیں سابقین کے ہم پلّہ قرار دیں اوراجر وجزا کے اعتبار سے وہ اسابقون کے برابر ہوں ۔اس لیے بعض روایات میں امام محمد باقرعلیہ اسلام سے اس طرح منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
نحن السابقون السابقون ونحن الاٰخرون ہم السابقون بقون ہیں اورہم اٰخرون ، بھی ہیں (١٣) ۔
ایک روایت میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے پیرو کاروں کی ایک جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (انتم السابقون الاولون والسابقون الاٰخرون والسا بقون فی الدنیا الیٰ ولا یتناوفی الاٰ خرة الی الجنّة ) تم پہلے سابقون اورآخری سابقون ہو ،تم دُنیا میں ہماری دلایت کی طرف سبقت کرنے والے ہو اورآخرت میں جنّت کی طرف سبقت کرنے والے ( ١٤) ۔
یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ بعض مفسرین اوّلین وآخرین کامصداق اوّلین اُمّت اسلام اورآخرین ِ اسلام کو بتاتے ہیں ، لہٰذا اس تفسیر کے مطابق تمام مقربین اُمّت ِاسلامی میں سے ہیں ،لیکن یہ نقشہ نہ تو ظاہر آیات کے ساتھ سازگار ہے اورنہ ان روایات کے ساتھ ہی جوان آیتوں کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں جوگزشتہ اُمّتوں کے افراد کوبھی خصوصیّت کے ساتھ سابقین واوّلین کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں ۔
١۔""اذا"" ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے اوراس کاناصب لفظ "" لیس"" ہے کہ جودوسری آ یت میں آ یاہے جیساکہ ہم کہتے ہیں "" یوم الجمعة لیس لی شغل "" جمعہ کے دن میرا کوئی مشغلہ نہیں ہے ۔ یہ احتمال بھی تجویز کیاگیاہے کہ اس کاناصب"" اذکر "" مقدر ہو یاکان کذاو کذاکاجملہ (کشاف زیربحث آ یت کے ذیل میں )لیکن پہلا احتمال سب سے زیادہ مناسب ہے ۔
٢۔ضمیر کامؤ نث ہونااس بناپر ہے کہ تقدیر عبارت نہیں "" نفسِ کاذبہ"" یا"" ضمنی طورپر "" لو قعتھا"" کے لام کوبعض مفسّرین نے تو قیت سمجھاہے) ۔
٣۔"" خافِضَة رافِعَة"" مبتدائے محذوف کی خبرہے اوراصل میں ""ھی خافِضَة رافِعَة ""تھا ۔
٤۔خصال مطابق نقل نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٠٤۔
٥۔اپنی ترکیب کے اعتبار سے اس جملہ میں کئی احتمال ہیں جن میں سب سے مناسب یہ ہے کہ یہ کہاجائے "" فَأَصْحابُ الْمَیْمَنَہ"" اور"" ما"" استفہامیہ دوسرا مبتداء ہے اوراصحاب المیمنہ اس کی خبر ہے اور مجموعة یہ دونوں پہلے مبتداکی خبر ہیں اور "" فا"" جملے کے آغاز میں تفسیر کے عنوان کی حیثیت سے ہے ۔
٦۔اگرچہ بعد والی آ یت میں "" أَصْحابُ الْمَشْئَمَةِ "" کی جگہ "" أَصْحابُ الشْمال""آ یاہے۔
٧۔اس آ یت کی اوراس کے بعد والی آ یت کی ترکیب کے بارے میں بہت سے احتمالات پیش کیے گئے ہیں۔ پہلااحتمال یہ ہے کہ پہلا""السابقون ""مبتدا ہے اور دوسرا اس کی صفت یاتاکید ہے اور"" اولئک المقربون"" مبتدااورخبر ہوکر مجموعہ خبرہے ،السابقون اوّل کی ۔ بعض نے یہ احتمال بھی پیش کیاہے کہ "" وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُون"" مبتداوخبرہیں ۔"" ابوالنجم "" کے مشہور شعر کی طرح جس وہ کہتاہے :(انا ابو النجم وشعری شعری )""میں ابو النجم ہوں اورمیرا شعرصرف میراہی شعر ہے "" یہ واقعی ایک عالی تعریف وتوصیف ہے ، یہ احتمال بھی پیش کیاگیاہے کہ پہلے "" السابقون"" کے معنی ہیں ایمان میں سبقت کرنے والے اور دوسرے السابقون کے معنی ہیں جنّت کی طرف سبقت کرنے والے ۔ اس صورت میں بھی یہ مبتدا وخبرہی ہوں گے ۔
٨۔یہی معنی ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے ۔ مجمع البیان ،جلد ٩،صفحہ ٢١٥۔
٩۔تفسیر مراغی ،جلد ٢٧ صفحہ ١٣٤۔
١٠۔تفسیر نورالثقلین ، جلد ٥ ،صفحہ ٢٠٦۔
١١۔تفسیر نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٠٩۔
١١۔تفسیر نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٠٩۔
١٢۔"" فی جَنَّاتِ النَّعیمِ "" (جار ومجرو ) ہوسکتا ہے مقربین سے متعلق ہوں یاایک محذوف سے محذوف سے متعلق ہوجوحال ہے مقربین کے لیے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے ،کائنین فی جنات النعیم یاخبر کے بعد خبرہے ۔
١٣۔تفسیرصافی زیربحث آ یات کے ذیل میں ۔
١٤۔تفسیرصافی زیربحث آ یات کے ذیل میں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma