حمیّت جاہلیت کیاہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

ہم بیان کرچکے ہیں کہ حمیت اصل میں حمی کے مادہ سے حرارت کے معنی میں ہے ،اوراس کے بعد غضب کے معنی میں اور بھر نحوت و غضب کی آمیزش رکھنے والے تعصب کے معنی میں استعمال ہواہے ۔
یہ لفظ کبھی تو اسی مذ موم معنی میں ( جاہلیّت کی قید کے ساتھ یا اس کے بغیر )اور بعض اوقات ممدوح اور پسندیدہ معنی میں استعمال ہوتاہے ، اورمنطقی غیرت اور مثبت اوراصلاح امور میں ڈٹ جانے کی طرف اشارہ ہوتاہے ۔
منیت بمن لایطیع اذ اامرت ولا یجیب اذا دعوت ... امادین یجمعکم ولا حمیة تحمشکم۔
میں ایسے لوگوں میں پھنس گیاہوں ، جنہیں اگرحُکم دیتاہوں تووہ اطاعت نہیں کرتے ،اوراگردعوت دیتاہوں توقبول نہیں کرتے ... کیاتم دین نہیں رکھتے ہو ، جوتمہیں اکٹھا ر کھے ؟ یاایسی غیرت جوتمہیں غصّہ میں لے آ ئے (اور تمہیں اپنی ذمہ داری پورا کرنے پر آ مادہ کردے ) ( ١) ۔
لیکن یہ عام طورپر اسی مذموم معنی میں استعمال ہواہے ،جیساکہ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے خُطبہ قاصعہ میں بارہا اس معنی میں استعمال کیاہے اور ابلیس کی مذمت میں جومستکبرین کاپیشوا تھا ۔
فرماتے ہیں ۔
صدقہ بہ ابناء الحمیة واخوان العصبیة وفرسان الکبر و الجا ھلیة ۔
اس کی نحوت وحمیّت کے بیٹوں اورعصبیت کے بھائیوں اورکبر وجہالت کے مرکب کے سوا روں نے تصدیق کی ہے ( ٢) ۔
اسی خُطبہ میں ایک دوسری جگہ ،جہاں آ پ لوگوں کوجاہلیّت کے تعصبات سے ڈ رارہے ہیں ، فرماتے ہیں:
فاطفئوا ماکمن فی قلو بکم من نیران العصبیة واحقاد الجا ھلیة ، فانما تلک الحمیہ تکون فی المسلم من خطوات الشیطان ونخوواتہ ونز عاتہ ونفثا تہ !۔
تعصّب کے وہ شرار ے اورجاہلیّت کے وہ کینے جوتمہارے دلوں میں ہیں انہیں بجھا دو ، کیونکہ یہ نخوت وحمیّت اورنا رواتعصب مسلمانوں میں شیطان کی نحوت اوروسوسوں میں سے ہے ( ٣) ۔
بہرحال اس میں شک نہیں ہے کہ کسی فر د جماعت میں اس قسم کی حالت کاہونا اُس معاشرے کی پسماند گی اور گراوٹ کاباعث ہے . یہ انسان کی عقلی وفکر پر سنگین پردے ڈال دیتاہے ، اوراُسے صحیح اوراک اورکامل سُوجھ بُوجھ سے باز رکھتاہے اور بعض اوقات قو م کی طرف غلط رسو مات اور طریقوں کامنتقل ہونااس طرفداری ٔ جاہلیّت کے منحوس سائے میں صورت پذیر ہو تاہے ، اورانبیاء اورخدائی رہبروں اورپیشوائوں کے مقابلہ میں منحرف اقوام کی مخالفت بھی عام طورپر راستہ سے ہوتی ہے ۔
ایک حدیث میں امام علی بن الحسین علیہ السلام سے بیان ہواہے کہ جب آپ سے کسی نے عصبیت کے بار ے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
العصبیة الّتی یأ ثم علیھا صاحبھا ان یری الرّ جل شرار قومہ خیرا عن خیار قوم! خرین ولیس من العصبیة ان یحب الرجل قومہ والکن من العصبیة ان یعین قومہ علی الظلم ۔
وہ تعصب جوگناہ کاموجب ہے یہ ہے کہ اس کی وجہ سے اپنی قوم کے بُرے افراد کودوسری قوم کے نیک اور اچھے افراد سے برتر مجھے ،لیکن اپنی قوم سے محبت کرنا اور انہیں دوست رکھنا تعصب نہیں ہے ، تعصب یہ ہے کہ ظلم وستم میں ان کی مددکرے ( ٤) ۔
اس بُری عادت کے لڑنے ، اوراس عظیم مہلکہ سے نجات حاصل کرنے کا بہترین راستہ ہرقوم اورہرمعاشرے کی فکر وایمان ، اور تہذیب و تمدن کی سطح کواُونچا کرنے کے لیے کوشش کرناہے ۔
درحقیقت قرآن مجید نے اس درد کی دوااسی زیربحث آ یت میں یبان کی ہے ، جہاں وہ اس کے نُقطہ ٔ مقابل میں مؤ منین کے بارے میں بحث کرتاہے ، کہ وہ اطمیان و قا راوررُوح تقویٰ کے حامل ہیں اور اس بناء پر جہان ، اطمینان اور تقویٰ ہے ،وہاں حمیّت جاہلیّت نہیں ہے ، اورجہاں حمیّت جاہلیّت ہے ، وہاں ایمان ، اطمینان اور تقویٰ نہیں ہے ۔
١۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ٣٩۔
٢۔ "" نہج البلاغہ "" خطبہ ١٩٢ (خطبہ ٔ قاصعہ ) ۔
٣۔ نہج البلاغہ خُطبہ . ١٩٢ (خطبہ قاصعہ ) ۔
٤۔ تفسیر نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٧٣ حدیث ٧٠۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma