تعصب اورحمیت جاہلیت ، کفّار کے لیے بزرگ ترین سدّ راہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

ان آ یات میں پھر حدیبیہ کے ماجرے سے مربوط مسائل بیان کیے جارہے ہیں اوراس عظیم ماجرے کے دوسرے مناظر کومجسم کررہاہے ۔
پہلے کفار کوخداو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرایمان لانے اورحق و عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روکنے والے ایک اہم ترین عامل کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہتاہے : اس وقت کویاد کر و جب کافراپنے دلوں میں جاہلیّت کاغصّہ اور لخوت رکھتے تھے )ْجَعَلَ الَّذینَ کَفَرُوا فی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجاہِلِیَّةِ )(١) ۔
اوراس کی وجہ سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اورمومنین کے خانہ ٔ خدا میں داخل ہونے ، اور عمرہ و قربانی کے مراسم کے انجام دینے سے مانع ہُوئے ،اور یہ کہا کہ اگر یہ لوگ جنہوںنے میدان جنگ میں ہمارے آ باء و اجداد اوربھائیوں کوقتل کیاہے .ہماری سرزمین اورہمارے گھروں میں وارد ہوں اورصحیح وسالم پلٹ جائیں تو عرب ہمارے بارے میں کیاکہیں گے اور ہماری کیا حیثیت اوراعتبار باقی رہ جائے گا ؟
یہی کبرو غر ور وتعصب اورخشم جاہلی ، اس بات تک سے مانع ہو اکہ حد یبیہ کے صلح نامہ کی ترتیب وتنظیم کے وقت خدا کانام بسم اللہ الرحمن الرحیم کی صورت میں لکھا جاناقبول کریں ،حالانکہ ان کے آداب وسنن کہتے تھے کہ خانہ خداکی زیارت سب کے لیے جائز ہے اور سر زمین مکہ حرم امن ہے ،یہاں تک کہ اگرکوئی شخص اپنے باپ کے قاتل کواس سرزمین میں یاحج وعمرہ کے مراسم میں دیکھتا تھاتواس سے مزاحم نہ ہوتاتھا ۔
انہوںنے اس عمل کے ذ ریعہ خانہ خدااوراس کے حرم امن کے احترام کوبھی توڑا ، اور اپنے سُنن و آداب کو بھی زیر پارند ا ، اوراپنے اورحقیقت کے درمیان ایک ضخیم پردہ بھی کھینچ دیا، اور جاہلیّت کی حمیتوں کے مر گبارا ثر ات ایسے ہی ہوتے ہیں ۔
حمیّت اصل میں حمی (بروزن حمد ) کے مادہ سے ،اُس حرارت کے معنی میں ہے ،جو آگ یاسُورج یاانسان بدن اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے پیدا ہوتی ہے ، اسی بناء پر بخار کی حالت کو حمی (بروزن کبری )کہاجاتا ہے ، اورغیض وغضب کی حالت کو، اسی طرح نخوت اور خشم آلود تعصبکوبھی حمیّت کہتے ہیں ۔
یہ ایسی حالت ہے جو جہالت ،کوتاہی فکر اور علمی انحطاط کے زیر اثر خصوصیّت کے ساتھ جاہل قوموں میں بہت زیادہ ہوتی ہے ،اوران کی بہت سی جنگوں اورخُون ریزیوں کاسبب بنتی ہے ۔
اس کے بعدمزید کہتاہے : اس کے مقابلہ میں خدانے اپنے رسُول اور مومنین پراپنا اطمینان اورقرار نازل فرمایا ( فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکینَتَہُ عَلی رَسُولِہِ وَ عَلَی الْمُؤْمِنین) ۔
اس آرام وسکون نے ، جو خداپر ایمان اوراعتقاد اوراس کے لُطف سے پیدا ہواتھا ، انہیں ضبط اورنفس پرتسلط کی دعوت دی اور ان کے غصّہ کی آ گ کوٹھنڈاکردیا ، یہاں تک کہ اپنے بزرگ مقاصد کی حفاظت کے لیے تیار ہو گئے ،اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے جُملہ کوہٹا کرجو کاموں کے شروع کرنے کے لیے اسلام کی نشانی تھا.اس کی جگہ بسمک اللّھم جوعربوں کے ماضی دور کی یاد گار تھی، حدیبیہ کے صلح نامہ کے آغاز میں لکھنے پر آمادہ ہوگئے یہاں تک کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے محترم نامہ کے ہمراہ رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کالقب حذف کرنے پر بھی تیار ہوگئے اوراس عشق اور دلی تعلق کے برخلاف . جو دہ خانہ خدا کی زیارت اورمراسم عمرہ سے رکھتے تھے ، اسی حدیبیہ سے مدینہ کی طرف لوٹ جانے پر آمادہ ہوگئے اوراپنے قربانی کے اُونٹ حج وعمرہ کی سُنت کے برخلاف اسی جگہ قربان کرنے اورانجام مناسک کے بغیر ہی احرام سے باہر نکل آ نے پرتیار ہوگئے ۔
ہاں!وہ ضبط ِ نفس کرنے ، اوران تمام خوشگوار اورخلافِ طبیعت امور کے مقابلہ میں صبرو شکیبائی اختیار کرنے ،پرآ مادہ وتیار ہوگئے ، حالانکہ اگر حمیّت جاہلیّت اورجاہلا نہ غیض وغضبکی دعوت دیتاہے ، لیکن اسلام کی تہذیب و تمدّن ، قرار و آرام اور ضبط نفس کی طر ف بلاتاہے ۔
اس کے کے بعد مزید کہتاہے : خدانے ان کے لیے تقویٰ کولازم وواجب قرار دے دیا، او ر وہ ہرشخص سے زیادہ اس کے حقدار ، لائق شائستہ اوراصل تھے (وَ أَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوی وَ کانُوا أَحَقَّ بِہا وَ أَہْلَہا) ۔
کلمة یہاں روح کے معنی میں ہے ،یعنی خدانے تقویٰ کی رُوح ان کے دلوں میں ڈال دی اوران کے ہمراہ کردی ، جیساکہ سُورہ نساء کی آ یہ ١٧١ میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آ یاہے : ِنَّمَا الْمَسیحُ عیسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللَّہِ وَ کَلِمَتُہُ أَلْقاہا ِلی مَرْیَمَ وَ رُوح مِنْہ : مسیح علیہ السلام صرف خداکے بھیجے ہُوئے (رسول ) اور اس کا کلمہ اوراس کی طرف سے ایک روح ہے جسے مریم پرالقاء فرمایاہے ۔
بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ کلمہ تقویٰ سے مراد وہ دستور و فر قان ہے ،جوخدانے اس سلسلہ میں مومنین کو دیاہے ،لیکن مناسب وہی رُوح تقویٰ ہے جو تکوینی پہلو رکھتاہے اورایمان و قرار اور احکام ِ خدا وندی سے تعلق قلبی کی پیدا وار ہے ۔
لہٰذا بعض روایات میں جوپیغمبر گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل ہوتی ہیں ، کلمۂ تقویٰ کی لا الہٰ الّا اللہ کے ساتھ ( ٢) ۔
اورایک روایت میں جوامام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ایمان کے ساتھ تفسیر ہوئی ہے ( ٣) ۔
پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ایک خُطبہ میں یہ آ یاہے :
نحن کلمة التقوٰی وسبیل الھدٰی !
ہم تقوٰی کا کلمہ اور ہدایت کی راہ ہیں ( ٤) ۔
اسی معنی کے مشابہ امام علی بن موسٰی رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
نحن کلمة التقوٰی والعروة الوثقٰی ۔
ہم کلمہ تقویٰ اورخدا کی مضبوط رسّی ہیں (٥) ۔
یہ بات واضح ہے کہ نبوّت و و لایت پرایمان لانا ، اصل توحید اورمعرفتِ خدا وندی کی تکمیل کرتاہے ، کیونکہ وہ سب ہستیاں اللہ کی طرف دعوت دینے والی ، اور توحید کی منادی کرنے والی ہیں ۔
بہرحال مُسلمان ان حساس لمحات میں ،خشم وعصبانیت اورتعصب ونحوث میںگرفتار نہیں ہُوئے ، اور وہ درخشاں سرنوشت جوخدا نے ماجرا ئے حدیبیہ میں ان کے لیے رقم کی تھی، اُسے اُنہوںنے جہالت اورغصّہ کی آگ سے نہیں جلایا۔
کیونکہ وہ کہتاہے ، مسلمان تقویٰ کے سب سے زیادہ سزاوار اورلائق تھے ، اور اس کے اہل اورحق دار تھے ۔
یہ بات ظاہر وواضح ہے کہ مُٹھی بھربے ہُودہ ، نا دان اور بت پرست جمیعت سے جاہلیّت کی حمیت کے سوا اورکسی چیز کی توقع نہیں تھی ، لیکن ان موحد مسلمانوں سے جوایک عرصہ سے مکتب قرآن میں تربیت پاچکے تھے ، اس قسم کی عادت اورجاہلا نہ خلق کی امید نہ تھی ، ان سے جس چیز کی توقع تھی وہ وہی وقار وتقویٰ اورصبر و قرار تھا ،جس کاانہوںنے حدیبیہ میں اظہار کیا، اگرچہ قریب تھاکہ بعض بے صبر ے تند مزاج ،جوشاید گزشتہ زمانہ کی رسُوم و عادات کے عادی تھے ،اس سد کوتوڑ دیں اور کوئی جھگڑاکھڑا کردیں ،لیکن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کااطمینان اوروقار پانی کی طرح اُس آگ پر پڑا ،اوراُسے خاموش کردیا ۔
آ یت کے آخر میں فر ماتاہے ۔ اور خداہر چیزسے آگاہ اوراس کاعالم تھا اور ہے (وَ کانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلیما) ۔
وہ کفار کی بُری نیتوں کو بھی جانتاہے ، او ر سچے مومنین کے دلوں کی پاکیزگی کوبھی ، یہاں پرتووہ اطمینان وتقویٰ کونازل کرتاہے اوروہاںجاہلیت کی حمیّت کومسلط کردیتاہے ، کیونکہ خداہر قوم وملّت کوان کی لیاقت وقابلیت کے مطابق ہی اپنے لطف ورحمت کامشمول قرار دیتاہے ، یااپنے خشم وغضب کا ۔
١۔ "" جعل "" کبھی ایک مفعول لیتاہے : اور یہ اس موقع پر ہوتاہے ،جہاں ایجاد کے معنی میں ہو ،جیساکہ زیربحث آ یت میں کہ اس کافاعل "" الّذ ین کفرو ا"" ہے ،اوراس کامفعول "" الحمیة "" ہے، اور یہاں الیجاد سے مراد اس حالت کی حفاظت ، اوراس کی پابند ی اورلازم بنانا ہے ، اور کبھی دومفعول لیتاہے ، اور وہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں ہو نے کے معنی میں ہو ۔
٢۔دُر ِ المنثور ، جلد ٦،صفحہ ٨٠۔
٣۔""اصول کافی "" مطابق نقل نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٧٣۔
٤۔خصال صدوق نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ٧٣۔
٥۔خصال صدوق نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ٧٣۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma