۲۔ ظاہربین لوگ :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
اصولا ایک مومن اورصاحب معرفت انسان اور ایک مادہ پرست یامشرک بصیرت میں بہت فرق ہے ۔
مقدّم الذکر انسان اپنے عقیدہ ٴ توحید کی بناء پر کائنات کو خدا ئے حکیم و دانا کی مخلوق سمجھتا ہے . اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے تمام افعال ایک پیش نظر غایب کے تحت حکمت پر مبنی ہیں . اوراسی دلیل سے وہ عالم کو نہایت دقیق اسرار و رموز کا مجموعہ سمجھتا ہے . وہ خیال کرتا ہے ، اس عالم میں کوئی چیز بھی غیر اہم نہیں ہے . اس کتاب کائنات کے تمام کلمات پرمغز و پر معنی ہیں ۔
یہ بصیرت توحید ی اسے متنبہ کرتی رہتی ہے کہ دنیا کے کسی واقعے اورکسی امر سے سرسری نہ گزرجانا کیونکہ ممکن ہے کہ جو بات بالکل سادہ نظر آتی ہے اس میں پیچیدہ ترین راز ہوں ۔
توحید پرست انسان کی نظر میں دنیا کی گہرائی کو دیکھتی ہے ، صرف اس کے ظاہر قناعت نہیں کرتی .اس نے مکتب توحید میں یہ سبق پڑھا ہے . وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا کاکوئی فعل بھی عبث نہیں ہے اور تخلیق عالم کی کوئی غایت ہے . اس لیے کائنا ت کے ہر جزء کو اسی غایت کے نقطہٴ نظر سے دیکھتا ہے ۔
اس کے مقابلہ میں مئو خر الذکرمادّہ پرست بے ایمان انسان دنیا کواندھے ،بہر ے اور بے مقصد واقعات کاایک مجموعہ سمجھ کرصرف اس کے ظاہر کو دیکھتا ہے اور اس حقیقت کاقائل ہی نہیں ہے کہ اس کا باطن اورعمق بھی ہے ۔
اس گروہ کاخیال ہے کہ بالفرض ایک کتاب ہے جس کے اوراق پرایک طفل نادان نے اپنی انگلیوں سے بے مقصد لکیر یں اور خطوط کھینچ دیئے ہیں تو کیا اس کتاب کی کوئی اہمیت ہوگی ؟ یاس میں کچھ معنی ہوں گے ؟ ان کی نظر میں یہ دنیا بھی ایسی ہی ہے ۔
یہاں تک کے بعض عظیم سائنس دانوں کاقول ہے کہ بنی نوع انسان میں س ے ہرطریقہ اورہر گروہ کے وہ منکرین جونظام کائنات کے متعلق غور وفکر کرتے رہے ہیں وہ منذ ہبی ذہن رکھتے تھے . ( غور کیجئے گا ) ۔
چنانچہ دانش مند معروف معاصر آئن سٹائن یوں کہتا ہے (1) ۔
دنیا کے مغز ہائے متفکر ( thinking brains )میں سے بمشکل کوئی ایسا شخص مل سکتا ہے جو ایک قسم کامخصوص مذہبی احساس نہ رکھتا ہو . اگرچہ اس کامذہب عامتہ الناس کے مذہب سے مختلف ہوتا ہے ۔
اس عالم کامذہب کائنات کے عجیب و دقیق نظام پرغور کرنے کے بعد ایک مسرت بخش حیرت پرمبنی ہوتاہے . جب کبھی ان اسرارسے پر وہ اٹھتا ہے تومعلوم ہوتاہے کہ انسان نے اب تک اپنی منظم کوشش اور غور فکرسے اس کائنات کے متعلق جوکچھ جانا ہے ، وہ علم کے ایک ہلکے عکس سے زیادہ نہیں ہے ۔
آئن سٹائن ایک دوسری جگہ کہتا ہے :
سائنس دانوں ، متفکرین اورنکشاف کرنے والوں کے لیے وہ شے جواس بات کا سبب ہوئی کہ وہ عمر ہاعمر اورسالہا سال تک گوشہٴ تنہائی میں بیٹھ کرکائنات کے دقیق اسرار کامطالعہ کرتے رہیں ،ان کایہی مذہبی اعتقاد تھا (2) ۔
ایک و ہ آدمی ہے جواس دنیا ہی کو آخر ی مرحلہ اورمقصود حیا ت سمجھتا ہے ۔
دوسراوہ شخص ہے جس کانقطہٴ نگاہ ہے کہ یہ دنیا اوراس کی زندگی تو ایک کھیت اور اس حیات جاودانی کے لیے میدان امتحان ہے جواس کے بعد آنے والی ہے . بھلا ان دونوں آدمیوں کادنیا کے متعلق طرز عمل یکساں کیسے ہوسکتا ہے ؟
ان میں سے ایک کی نظر صرف اس کے ظاہری پرہوتی ہے اوردوسرااس کی عمیق حقیقت پرغور و فکر کر تا ہے ۔
اور زاویہٴ نظر کا یہ اختلاف ان لوگون کی تمام زندگی کومتاثر کرتا ہے ۔
ظاہر بیں انسان راہ خدا میںخرج کرنے کو نقصان مایہ سمجھتا ہے .جب کہ مرد موحدّ ِ اسے پرمنفعت تجارت خیال کرتاہے .ان میں سے ایک سود خوری کواپنی آمدنی میں افزائش کاذریعہ خیال کرتاہے اوردوسرااسے باعث وبال و بدبختی و زبان سمجھتا ہے . ان میں سے ایک جہاد کواپنے لیے باعث زحمت اور شہادت کوبہ معنی فناسمجھتا ہے اور دوسرا جہاد کورمز سربلند ی اورشہادت کوحیات جاودان خیال کرتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ بے ایمان لوگ دنیا کی صرف ظاہری زندگی کودیکھتے ہیں اورآخر ت سے غافل ہیں :
یعلمو ن ظاھرا من الحیوة الدنیاوھم عن الا خرة ھم غافلون
1 آئن سٹائن ( einstsein) کانتقال ۱۹۵۵ ء میں ہوا ۔
2 ۔ از کتاب ” دنیای کہ من بینم “ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma