بحث کے لیے بہترین روش اختیار کرو :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
گزشتہ آیات میں جاہل اور آمادہ بجنگ بت پر ستوں کے متعلق گفتگو تھی ، جس کا لہجہ مقتضائے حال کے مطابق اور سخت تھا . ان میں ان کے معبودوں کوتار عنکبوت سے بھی زیادہ گمزور بتایاگیاتھا ۔
لیکن آیات زیر بحث میں اہل کتاب سے بحث و مباحثہ کاذکر ہے کہ وہ عمدہ طریقہ سے ہونا چاہیئے . کیونکہ انھوں نے کتب آسمانی اورانبیاء کے احکامات کچھ توسنے تھے .اورمدلل بات سننے کے لیے وہ کچھ زیادہ آمادہ تھے .یوں بھی ہر آدمی سے اس کی عقل و علم اور اخلاق کے معیار کے مطابق گفتگو کرنی چاہیئے ۔
اس سلسلے میں پہلے یہ فرمایاگیا ہے کہ بجز اس روش جو سب سے بہتر ہے اہل کتاب سے بحث نہ کرو (ولا تجادلو ااھلالکتاب الا بالتی ھی احسن) (۱)۔
” لاتجادلو ا “ کامادہ ” جدال “ ہے . اس کے حقیقی معنی رسی کو بٹنے ، بل دینے اوراسے مضبوط کرنے کے ہیں . یہ کلمہ مضبوط عمارت و غیرہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
جب دو آدمی کسی موضوع پر بحث کرتے ہیں . تو ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو اس کے عقیدے سے موڑ دے اس وجہ سے اس عمل کو ” مجادلہ “ کہتے ہیں . کشتی لڑنے کوبھی ” جدال “ کہتے ہیں .بہر کیف اس مقام پر ” تجادلوا “ سے مراد مدلل گفتگو ہے ۔
اس مقام پر ” التی ھی احسن“ کہنا نہایت جامع تعبیر ہے کیونکہ یہ الفاظ مباحثے میں ہرلحاظ سے صحیح اور مناسب طریقہ اختیار کرنے کامفہوم لیے ہوئے ہیں ، خواہ وہ الفاظ کا استعمال ہو ، خواہ گفتگوکے مشمولات ہوں ،خواہ طرز گفتگوہو ، خوا ہ گفتگو کے دوران میں دیگر امور ہوں ۔
بنا بریں اس جملے کامفہوم یہ ہے کہ بدوران مباحثہ ، تمہارے الفاظ مئو دبانہ ہوں ، گفتگو کا لہجہ دوستانہ ہو اور مضمون مدلل ہو .آہنگ صدا میں شور و غل،خشونت اورہتک ِ احترام کا شائبہ نہ ہو . اسی طرح ہاتھوں او رچشم و ابرو کی حرکات جن سے انسان اپنا مطلب واضح کرتا ہے نہایت مہذب ہوں ۔
تعبیرات قرآن بھی کسی جامع ہیں کہ ایک مختصر سے جملے میں معنی کی ایک دنیا ، پوشیدہ ہے ۔
نہ نصیحت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ کی طرف ثانی کے دل میں ہمارے کلام کااثر ہو اور حق اس کی روح کی گہرائی میں اتر جائے. یہ مقصود بہترین طور پر اسی انداز گفتگو سے حاصل ہو سکتا ہے جس کی قرآن میںنصیحت کی گئی ہے ۔
حتی کہ ایسا کرنا ہوتا ہے کہ انسان کسی کے سامنے قو ل حق کواگر اس طرح پیش کرے کہ طرف ثانی کو خیال پیدا ہو کہ یہ تومیری ہی دل کی بات ہے ، تو وہ حق کی طر ف بہت جلد مائل ہوجاتا ہے کیونکہ انسان اپنے افکار سے ااپنی اولاد کی طرف پیار کرتا ہے ۔
اسی وجہ سے کہ قرآن مجیدمیں بہت سے مسائل سوالیہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں .تاکہ سوال کاجواب مخاطب کے دل سے موج زن ہو او ر وہ اسے اپنی ہی بات سمجھے ۔
مگر ہر قانون میں استثناء بھی ہوتا ہے . مثلا اسی اسلامی بحث کے تحت نرم گفتار اور حسن تکلم کوبعض اوقات فریق مخالف مئوقف کی کمزوری پر محمو ل کرسکتاہے یاممکن ہے کہ یہ مبنی برانسانیت شیوئہ گفتار طرف مقابل کی جرائت اورجسارت میں اضافہ کردے .اسی لیے آیت کے آخری میں ان الفاظ کااضافہ کیاگیاہے .مگران لوگوں کے ساتھ یہ اسلوب گفتگو اختیار کرو جنہوں نے ان میں س ے ظلم کیا ہے : ( الاالذین ظلموا منھم ) ۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اوپر اور دوسروں پر ظلم کیا اور انھوں نے بہت سی آیات الہٰی کو چھپایاتا کہ لوگ پیمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف سے آشنا نہ ہوں ۔
وہ لوگ کہ جنھوں نے ظلم کیا . اور.خداکے ان احکامات کی توہین و تحقیر کی جو ان کے مفاد ات دنیا کے خلاف تھے . وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیااور مشرکین کی طرح دین میںخرافات شامل کرلیں مثلا : محضرت مسیح یاعزیز کوخدا کابیٹا کہنے لگے ۔
مختصر یہ کہ ... ان لوگوں کے ساتھ نرم گفتاری لاحاصل ہے کہ جنہوں نے ظلم کیا ہے اوراستدلال گفتگو کی بجائے تلوار کھینچ لی اوردلیل کی بجائے طاقت پر بھروسہ کیا اور امن و صلح کی بجائے شیطنت اور شرارت پر اتر آئے ۔
آیت کے آ خر میں ” مجادلئہ احسن “ کی ایک ایسی مثال پیش کی گئی ہے . کہ وہ اس قسم کی بحثوں کے لیے ہمیشہ ایک نادر نمونہ ہے ۔
چنانچہ فرمایاگیا ہے : تم ان سے کہوکہ ہم اس پر جو خدا کی طرف سے ہم پر اورتم پرنازل ہوا ہے ، ایمان رکھتے ہیں ، تمہارا اورہمارا معبو د ایک ہے اور ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں : ( و قولواامنا بالذی انزل الینا و انزل الیکم والھنا و الھکم واحد و نحن لہ مسلمون ) ۔
اس آیت میں گفتگو کاکیا ہی دلچسپ اسلوب او ر کیسا ہی پیار اطرز ہے .اس شے پر جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے ایمان اورعقیدہ کی ہم آہنگی ہے . تماتعصبات کو دور کردیاگیا .ہم اورتم کاتفرقہ مٹادیاگیاہے . آخر میں توحید باری تعالی کااقرار ہے اور غیرمشروط طور پر اس کی اطاعت کااقرار ہے ۔
”مجادلئہ احسن “ کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جو کوئی اسے سنتاہے وطبعا پسند کرتا ہے . یہ اسلوب گفتگو ثابت کرتا ہے کہ اسلام ” گروہ بندی “ نہیں چاہتا ہے اور نہ وہ بنی نوع میں تفرقہ انداز ی کو پسند کرتاہے . اسلام توصرف وحدت کی دعوت دیتا ہے اور ہرحق بات کو مان لینے کی نصیحت کرتاہے ۔
اس قسم کی بحث کے نمونے قرآن میں بکثرت ہیں .ان میں سے ایک وہ ہے جس کی طرف امام صادق علیہ اسلام نے ایک حدیث میں اشارہ کیا ہے . چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
سلسلے میں آئی ہے ۔
وہ منکر ین جب ایک بوسیدہ ہڈی کورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے لائے اور کہا کہ کس میں یہ قدرت ہے کہ اسے دوبارہ زندہ کردے ؟ توجواب میں آنحضرت نے فرمایا :
یحیلیھا الذی انشاء ھا اول مرة ...
وہی خداجس نے پہلے پید اکیاتھا زندہ کر ے گا . وہی خداجوسبز درخت تمہارے لیے آگ پید اکرتاہے (۲) ۔
اس کے بعد کی آیت ان چار اصولوں کی تاکید کے طور پر آئی ہے جو آیت ماقبل میں بیان ہو ئے ہیں . چنانچہ خدا فرماتا ہے :
ہم نے تم پر اس طرح کتاب نازل کی ہے : ( وکذلک انزلنا الیک الکتاب ) ۔
اس قرآن کے نزول کی اساس یہ ہے کہ ذات معبود واحد یکتاہے ، تمام پیمبران برحق کی دعوت کی غایت ایک ہی تھی ، فرمان الہٰی کی بے چون و چرااطاعت کی جائے اور لوگوں سے مجادلہ و مباحثہ بہترین طریقہ پر کیا جائے ۔
بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس جملے میں پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرنزول قرآن کو ،انبیاء ماقبل پرنازل ہونے والی کتابوں سے تشبیہ دی گئی ہے . یعنی جس طرح ہم نے گزشتہ پیمبروں پر آسمانی کتابیں نازل کیں اسی طرح تم پر بھی قرآن نازل کیاہے ۔
مگر پہلی تفسیر زیادہ معنی معلوم ہوتی ہے . ہر چند کہ دونوں تفاسیر کوقبول کرلینا بھی ممکن ہے ۔
اس کے بعدقرآن اضافہ کرتاہے : وہ لوگ جنہیں ہم نے اس سے قبل آسمانی کتاب دی تھی ( او ر وہ واقعی اس کی اتباع کرتے ہیں ) و ہ اس کتاب پر ایمان لے آئیں گے : ( فالذین اتینا ھم الکتاب یئو منون بہ ) ۔
کیونکہ انھوں نے اس کتاب کی صداقت کی نشانیاں اپنی کتاب میں دیکھی ہیں . نیز یہ کہ وہ اصولی طورپر ا س کتاب کے مضامین کو اپنی کتاب کے مضامین سے ہم آہنگ چاتے ہیں ۔
مگر ہم جانتے ہیں کہ تمام اہل کتاب ( یہودی و نصاری ) پیمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں لائے . اس بناء پر یہ جملہ ا ن حقیقی اور طالبان حق مومنین کے لیے آیاہے جو ہر قسم کے تعصبات سے پاک تھے اورجن کے لیے درحقیقت ” اہل کتاب “ کی صفت موزون تھی ۔
اس کے بعدمزید کہاگیا ہے : ان میں سے بھی ایک گروہ( اہل مکہ و مشرکین عرب ) اس (قرآن ) پرایمان لے آئیں گے (3) ۔
آیت کے آخرمیں دونوں قسم کے کفار کے متعلق کہاگیاہے : ہماری آیات کاکفار کے علاوہ کوئی بھی انکار نہیں کرتا .( و ما یجحد بایاتنا الا الکافرون ) (4)۔
” جحد “ کامفہوم یہ ہے کہ انسان کسی چیز کامعتقد تو ہو مگر بظاہراس کاانکار کرتاہو .لہذا مذکورہ بالا جملے کامفہوم یہ ہوگا کہ درحقیقت کفار اپنے دل میں ان آیات کی عظمت کے معترف توہیں . اوروہ اس کلام صداقت وراستی کی علامات کا ادراک بھی کرتے ہیں . نیز جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت اوران کے پیرو کاروں کے مخلصانہ کردار کو دیکھ کروہ اس کلام کی حقانیت کے قائل ہیں مگربزرگوں کی کورانہ تقلید ، جاہلانہ تعصب ،اور نا مشروع اوروقتی دنیاوی مفاد کا خیال انھیں انکار پر آمادہ کردیتاہے . اورکلمتہ الحق کہنے سے روک رکھتا ہے ۔
اس تر تیب سے خدا نے قرآن کے مقابلہ میں مختلف اقوام کے مواقف کوبیان کیا ہے ۔
ان میں سے ایک صف میں اہل ایمان ہیں چاہے وہ علما ئے اہل کتاب اوران میں س ے راست باز مومنین ہوں . یاوہ مشرک ہوں ، جو تشنہ ٴ حق تھے مگر جب انھوں نے حق کوپالیا تواس سے دل لگالیا
دوسری صف میں ہٹ دھرم منکرین ہیں . جنھوں نے حق کودیکھامگر چمگادڑ کی طرح اس نور سے چھپ گئے کیونکہ ان کے تاروپود میں کفر کی ظلمت سمائی ہوتی تھی ، اس لیے انھیں نورایمان سے وحشت تھی ۔
یہ امرقابل توجہ ہے کہ گروہ ثانی نزول آیات سے پہلے بھی کافرہی تھا . لیکن ان کے کفرپر تاکید مزید ممکنہے کہ اس وجہ سے ہوکہ اس سے قبل ا ن پر اتمام حجت کے بعد ان کاکفر حقیقی ثابت ہوگیاہے . وہ یہ کہ علم و آگا ہی کے باوجود وہ راہ مستقیم کو چھوڑ کر دانستہ گمراہ ہوئے ہیں ۔
اس کے بعد پیمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ کی حقانیت کوثابت کرنے کے لیے ( جو حقیقت میں آیہ ٴ گزشتہ کے مضمون پر تاکید ہے ) فرمایاگیا ہے :
اے رسول ( ص) ! تم نے قرآن نازل ہونے سے قبل کوئی کتاب نہیں پڑھی اور تم ہر گز اپنے ہاتھ سے کچھ نہ لکھتے تھے ، تاکہ ایسانہ ہو کہ تمہارے وہ دشمن جو ہر وقت تمہاری دعوت کے تکذیب کی فکر میں ر ہتے ہیں ، انھیں شک وتردد کاموقع مل جائے اور وہ کہیں کہ جو کچھ یہ شخص کہتاہے . وہ پرانی کتابوں کے مطالعے اوران سے اخذ و نقل کا نتیجہ ہے : ( و ماکنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا لارتاب المبطلون ) (5) ۔
اے رسول ( ص) ! تم ہر گز مکتب میں نہیں گئے اور کبھی عبارت نہیں لکھی لیکن وحی الہٰی کے ذریعے مدرسین کو پڑھانے والا معاملہ ہوگیا .بھلا اس بات کاکیسے یقین کیاجاسکتاہے کہ ایک شخص نے نہ تو کبھی سبق پڑھا ہو . نہ کبھی کسی استاد اور مکتب کی شکل دیکھی ہواور وہ اپنی طرف سے ایک کتاب تصنیف کرکے لے آئے اور تمام بنی نوع انسان کو مقابلہ کاچیلنچ کردے اورسب لوگ اس جیسی کتاب تصنیف کرنے سے عاجز ہو جائیں ؟
کیا ... رسول کایہ اعجاز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی لامحدود قدرت کی وجہ سے ظہور میں آرہاہے اورانہوں نے جوکتاب پیش کی ہے وہ آسمانی ہے جو کہ خدا کی طرف سے ان پرنازل ہوئی ہے ۔
اگرکوئی شخص بطور اعتراض یہ کہے کہ ہم یہ کیونکر جانیں کہ پیمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ کبھی کسی مکتب میں گئے اور نہ لکھنا ہی سیکھا ؟
تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں .کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں ر ہتے تھے جس میںلکھے پڑھے لوگ بہت ہی محدود اور گنے چنے تھے . چنانچہ کہتے ہیں کہ تمام شہر مکہ میں س ترہ آدمیوں سے زیادہ لکھنے پڑھنے کے قابل نہ تھے . ایسے معاشر ے میں آگر کوئی مکتب میں جائے اور پڑ ھنا لکھنا سیکھے تو وہ اپنے آپ کو نہیں چھپاسکتا .وہ تو ہر طرف مشہور ہوجائے گا اوراسے تعلیم دینے والے استاد کوبھی لوگ جانتے ہوں گے ۔
بلا ایسا آدمی کیونکر یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں پیمبربرحق ہوں اور کیونکہ ایساسفید جھوٹ بول سکتاہے ؟
بالخصوص یہ آیات مکہ میں نازل ہوئی تھیں جہاں پیمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پلے پڑھے تھے اوروہ بھی ان ہٹ دھرم دشمنوں کے سامنے جن کی نظرسے چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی چھپی نہیں رہ سکتی تھی ۔
اس کے بعدکی آیت میں حقانیت قرآن کے اور دلائل بیان کئے گئے ہیں . نچانچہ کہاگیاہے : یہ کتاب آسمانی ایسی آیات بینات مجموعہ جن کی جگہ اہل علم کے سینوں میں ہے : ( بل ھوایات بینات فی صدور الذین او تو االعلم) ۔
کلمہ ” ایات بینا ت “ اس امر کامظہر ہے کہ حقانیت قرآن کے دلائل خود اسی میں موجود ہیں ، وہ آیات ہی سے روشن ہیں اوریہ آیات خود اپنی صداقت کی دلیل ہیں۔
یہ آیات قرآن خدا کی آیات تکوینی کی طرح ہیں کہ انسان جن کے لطالعے سے کسی دوسری چیز کی احتیاج کے بغیر حقیقت کو پالیتا ہے . یہ آیات تشریعی اگر انھیں بغور دیکھاجائے تواپنے مشمولات کے لحاظ سے خود ہی اپنی صداقت کی دلیل ہیں . علاوہ بریں آیات کے طرف دار اور گرویدہ وہ لوگ ہیں جنھیں علم و معرفت حاصل ہے . ہر چند کہ وہ تہی دست اور پابرہنہ ہیں ۔
زیادہ واضح الفاظ میںیہ کہا جاسکتاہے کہ کسی فکر و خیا ل کی وقعت اورقدر کی شناخت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ دیکھاجائے کہ اس مکتب فکر کے حامی کون لوگ ہیں . اگر اس کے بانی کے گرد نادان یاچالاک و عیار لوگ جمع ہو گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ بھی اسی قماش کا ہوگا .لیکن اس مکتب فکر کے حامی وہ لوگ ہیں جن کے سینے میں اسرار علوم پوشیدہ ہیں تویہ اس فکر کی حقانیت کی دلیل ہے .چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صداقت قرآن کے حامیوں اور عاشقوں میںعلمائے اہل کتاب کایک گروہ اورحضرت ابوذر حضرت سلیمان ، حضرت مقدار ، حضرت عمار یاسر اورحضرت علی علیہ السلام جیسی بلند شخصیتیں تھیں ۔
اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات مروی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے مگر آیت کا مفہوم اسے مخصر نہیں کرتا اس لیے یہ روایات ” الذین اوتو العلم “ کا واضح مصداق بتاتی ہیں (6) ۔
اگر چہ بعض رویات میں یہ تصریح موجو د ہے کہ اس آیت میں ” الذین اوتو االعلم “ سے خصوصیت سے مراد آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں . درحقیقت یہ قرآن کے علم کامل کے مرحلے کی طرف اشارہ ہے جو انھیں عطاہوا ہے . لیکن اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے . کہ دیگر علماء اورصاحبان عقل وخرد بھی علوم قرآنی سے بہرہ ور ہوں ۔
ضمنا : اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ علم ودانش کاانحصار صرف کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے اور کتا ب پرھنے پرنہیں ہے کیونکہ آیات گزشتہ سے صریحایہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی مکتب میںنہیں گئے تھے اورانھوں نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا مگر پھر بھی وہ ” الذین اوتو االعلم “ کے بہترین اورافضل ترین مصداق ہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ علم رسمی کے ماورا ایک برترعلم ہے جو خدا کی طرف سے انسان کے قلب میں بصورت نور ودلیعت کیاجاتا ہے :
العلم نور یقذفہ اللہ قلب من یشاء
اوردرحقیقت جو ہر علم یہی ہے .باقی توپوست اور چھلکار ہے ۔
اس آیت کے آخر میں مزید فرمایاگیاہے . عناد پیشہ ستمگر وں کے علاوہ کوئی بھی ہماری آیات کاانکار نہیں کرتا ( و ما یجحد بایاتنا الا الظالمون ) ۔
کیونکہ ان آیات کے معانی ومفاہیم روشن ہیں اوروہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انھیں لایاہے .جس نے کبھی سبق پڑھا اور امی ہے . اور صاحبان فکر اہل علم پر ایمان لائے ہیں ۔
علاوہ بریں مجموعی طو ر پر ان آیات کے مضامین اورمشمولات روشن و آشکار ا ہیں .اسی وجہ سے انھیں بینات کہتے ہیں . او ر گزشتہ آسمانی کتابوں میں بھی ان کے مضامین آئے ہیں ۔
ان سب باتوں کے باوجود کیاسوائے ان لوگوں کے جونہ صرف اپنے آپ پر بلکہ معاشرے پرظلم کرتے ہیں ، کوئی شخص بھی ان کاانکار کرسکتاہے ؟ ( بطورتکرار تحریر ہے کہ کلمہ ” حجد “ اس مقام پر بولاجاتاہے کہ انسان کسی چیز کاجان بوجھ کرانکار کر ے ) ۔
۔ تفسیر نورا لثقلین ،جلد ۲ ،ص ۱۶۳۔
۲۔ بعض مفسرین نے جملہ ” الذین اتیناھم الکتاب “ کااشارہ مسلمانوں کی طرف سمجھا ہے اور ” من ھئو لاء من یئو من بہ “ سے ا ہل کتاب مراد لی ہے . مگر یہ تفسیر بہت بعید نظر آتی ہے . کیونکہ ” الذین اتینا ھم الکتاب “ اوراسی جیسی تعبیر ات قرآن میں یہود و نصاری کے سوا کسی اور کے لیے استعمال نہیں ہوئیں ۔
۳ ۔ راغب ، مفردات میں کہتے ہیں ” جحود “ کے معنی ہیں اس بات کی نفی جس کادل میں اثبات ہو اور اس بات کااثبات جس کی دل میںنفی ہو
۴۔ ” من قبلہ “ میں چو ضمیر ہے اس کا مرجع قرآن ہے اور کلمہ ”یمین “ ( دایاں ہاتھ ) اس لیے اس کہاکہ عام طوپر انسان داہنے ہاتھ سے لکھتے ہیں ”مبصلون “ ” مبطل “ کی جمع ہے اور یہ اس آدمی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کوباطل کرنے کے درپے ہو۔
۵ ۔ یہ روایات تفصیلی طور پر تفسیر برہان کی جلد ۳ ،ص ۲۵۴ پر مذ کور ہیں ۔
۶ ۔ فتوح البلدار بلاذری طبع مصر ص ۴۵۹۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma