ظالموں کے ہر گروہ کی سزا مختلف تھی :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
حضرت لوط علیہ السلام اوران کی قوم کے تذکرے کے بعد دوسری قومون کاذکر آتا ہے مثلا:قوم شعیب ، عاد ثمود ، قارون اورفرعون زیر نظر آیات میں ان می سے ہرایک کی طرف مختصر اور نتیجہ خیزاشارہ ہے ۔
پہلے یہ کہاہے : ہم نے ان کے بھائی شعیب کو مدین کی طرف بھیجا : ( والی مدیناخاھم شعیبا ) (۱)۔
حضرت شعیب علیہ السلام کو ” بھائی “ کہاگیا ہے . ہم نے اس کے متعلق بارہا کہا ہے کہ اس کلمہ کی وجہ استعمال یہ ہے کہ ان پیغمبروں کو اپنی امتوں سے انتہائی محت تھی اوروہ ان پر تفوق حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے .نیز یہ کہ ان پیغمبروں کی اپنی قوموں سے رشتہ داری بھ تھی ۔
”مدین “ اردن کے جنوب مغرب میں ایک شہر ہے .آجکل اس کانام” معان “ ہے . یہ شہر خلیج عقبہ کے مشرق میں ہے . حضرت شعیب اوران کی قوم وہیں ر ہتی تھی (۲) ۔
حضرت شعیب علیہ السلام پیغمبران بزرگ کی طرح مبداؤ معاد کے اعتقاد سے ( جو کہ ہر دین کی اساس ہے ) اپنی دعوت کا آغاز کیا . او ر کہا : اے میری قوم : ! تم خدا کی عبادت کرو اور روز قیامت کی امید رکھو : ( فقال یاقوم اعبدواللہ وارجوا الیوم الاخر) ۔
” مبد اء ” پرایمان رکھنے سے انسان کویہ احساس رہتاہے کہ خدا دائمی طور پر اور مسلسل میرے اعمال کی نگرانی کررہا ہے ۔
اور معاد پرایمان رکھنے سے انسان کو پر وقت یہ خیال رہتاہے کہ اس روزبے کم وکاست میرے جملہ اعمال کے متعلق باز پرش ہوگی . ان باتوں کااعتقاد انسان کی اخلاقی تربیت اور اصلاح میں غیر معمولی اثررکھتا ہے ا۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی تبلیغ کاتیسرا حکم جامع عملی اصول تھا جس میں معاشرتی اوراجتماعی پرو گرام شامل تھے .آپ علیہ السلام نے فرمایا :
زمین پرفساد کرنے کی کوشش مت کرو : ( ولا تعثوافی الارض مفسدین ) ۔
فساد کامفہوم بہت وسیع ہے . اس میں ہر قسم کی تخریب کاری ، ویران گری ، راہ راست سے انحراف اورظلم شامل ہے .اس تصور کی ضد ”صلاح و اصلاح “ ہے کہ جس کے مفہوم میں ہروہ عمل شامل ہے جو تعمیری اوربنی نوع انسان ک ی منفعت کے لیے ہو ۔
کلمہ ” تعثوا“ کامادہ ”عثی “ ہے . جس کے معنی ہیں دنیامیں فساد بر پاکرنا مگر یہ کلمہ زیادہ ترمفاسد ا اخلاقی کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔اسی لیے اس کے بعد کلمہ ”مفسدین “ کا استعمال بطور تاکید ہے ۔
مگر قومعیب نے اس کے بجائے اس مصلح بزرگ کی نصائح کو ش دل سے سنتے ، الٹی ان کی تکذیب کرنی شروع کردی :
(فکذبو ہ ) . ان کی یہ بدعملی اس بات کا سبب ہوئی کہ انھیں شدید زلزلے نے آپکڑا : ( فاخذتھم الرجفة ) ۔
اوروہ لوگ اس حادثے سے اپنے گھرون میں اندھے منہ گرگئے اورمرگئے ( فاصبحوا فی دارھم جاثمین ) ۔
کلمہ ” جاثم “ کامادہ ” جثم “ سے ( برورزن چشم ) اس کے معنی میں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھنا . اور ایک مقام پر ٹھہر نا . کچھ بعید نہیں کہ اس کلمہ کے استعمال کرنے سے یہ مراد ہو کہ جب یہ زلزلہ آیاتووہ سورہے تھے . جھٹکا محسوس کرکے وہ ناگہانی طور پر اٹھے جیسے ہی وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے توحاد ثے نے انھیں جان بچانے کی مہلت نہ دی . دیواریںگربڑین اوربجلی جواس زلزلہ ٴ مرگ بار کے ساتھ ہی چمک رہی تھی گرتی رہی اوروہ سب لوگ مرگئے (۳) ۔
اس کے بعد کی آیت میں قوم عاد ثمود کاذکر ہے .مگران اقوام سے ان کے پیغام کاکوئی ذکر نہیں ہے . اس لیے کہ یہ وہ قومیں تھیں جنھیں ا س وقت کے مخاطبین قرآن خوب جانتے تھے . نیز یہ کہ قرآن کی دوسری آیات میں ان کے پیغمبروں کاذکر مکرر آیاہے . خداتعالی فرماتاہے . کہ ہم نے عاد ثمود کو ہلاک کردیا : ( و عادا و ثمودا ) (۴)۔
اس کے بعد یہ اضافہ ہے کہ ان اقوام کی بستیوں اوران کے مقامات کوتم خوب جانتے ہو ( ان کے شہروں کے ویرانے سرزمین حجراور یمن میں تمہاری راہوں کے کنارے واقع ہیں ) وقد تبین لکم من مساکنھم ) ۔
تم ہرسال اپنے تجارتی قافلوں کے ساتھ یمن اور ملک شام کی طرف سفر کرتے ہو . سرزمین ” حجر“ سے جوکہ جز یزة العرب کے شما ل میں ہے اوراحقاف سے جو کہ یمن کے قریب بجانب جنوب ہے گزرتے ہو اور عاد وثمود کے شہروں کے گھنڈرات کواپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو .پس تم ان کے انجام سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟
اس کے بعد ان اقوام کی اصل بدبختی کی طرفاشارہ کیاگیا ہے . کہ شیطان نے ان کے اعمال کوان کی نظروں مزین کردیاتھا اورانجام کار انھیں راہ حق اختیار کرنے سے روک دیاتھا : ( وزین لھم الشیطان اعمالھم فصدھم عنالسبیل ) ۔
حالانکہ وہ اقوام چشم بنیاد اورعقل و خرد رکھتی تھیں اورتوحید تقویٰ ان کی فطرت میں تھا اوپیامبران الہٰی نے بھی انھیں اچھی طرح راہ راست کی طرف رہبری کی تھی : ( وکانوا مستبصرین ) ۔
بعض مفسرین نے ” و کانو امستبصرین “ کا معنی یہ سمجھے ہیں کہ وہ اقوام چشم بنیاد اورعقل و فہم رکھتی تھیں . بعض نے خیال کیاہے .کہ وہ فطرت سلیم کی مالک تھیں . بعض نے یہ معنی سمجھے ہیں کہ انھیں پیغمبروں کی رہنمائی میسر آئی تھی ۔
اگر اس آیت سے مذکورہ تمام معانیاخذ کیے جائیں تو کو ئی امر مانع نہیں ہے . آیت کامطلب ہے کہ وہ لوگ قطعی جاہل نہ تھے . بلکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حق کیا ہے .ان کاوجدان بیدار تھا ، عقل وخرد سے بھی بہرہ مندتھے اورپیمبران الہٰی ان پر اتمام حجت کرچکے تھے .لیکن ...ان تمام باتو ں کے باوجو د انھوں نے عقل ضمیر کی آواز کی طرف سے کان بندکرلیے اورانبیاء کی دعوت سے منہ موڑ لیا اور شیطانی وساوس کی پیروی کرنے لگے . اور روز بروز انھیں اپنے غلط اعمال زیبا ترنطر آنے لگے . یہاں تک کہ وہ عصیان کی اس منزل پرپہنچ گئے جہاں سے لوٹنانا ممکن ہوگیا ۔
اب قانون فطرت نے ان بے باروبے ثمر خشک لکڑیاں کوپھونک دیا .ہر وہ درخت جوپھل نہیں لاتا اس کی سزا یہی ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ان تین نافرمانوں کاذکر ہے جن میں سے ہرایک شیطانی طاقت کا واضح نمونہ تھا .وہ تھے قارون:
فرعون اور ہامان ... فرمایاگیاہے : ہم نے قارون،فرعون اور ہامان کوبھی ہلاک کردیا : ( وقارون فرعون و ھامان ) (۵)۔
قارون اس ثروت کامظہر ہے جس میں غرو ر ،غفلت اورخود غرضی بھ پائی جاتی تھی ۔
فرعون ایسی متکبر انہ طاقت کامظہر ہے جس میں شیطان آمیختہ تھی اور ہارون مستکبرظالموں کی معاونت کانمونہ ہے ۔
اس کے بعد مذکورہ ہے کہ : موسٰی ان تینوں کے پاس روشن دلائل لے کر آئے اور ان پراتمام حجت کی : (ولقد جائھم موسٰی بالبینات ) ۔
مگرانھوں نے زمین پر غرور ،تکبر اورسرکشی کی راہ اختیار کی : ( فاستکبرو افی الارض ) ۔
فارون اپنی دولت ،خزانوں ،علمو ہنر پربھروسہ کرتا تھا ۔
فرعون وہامان اپنے لشکر ،فوجی طاقت ،اورجاہل عوام میں اپنے پروپیگنڈے پر بھروسا کرتے تھے ۔
مگر وہ لوگ ان اسباب ظاہری کے باوجود خدا پر سبقت نہ لے جاسکے اور اس کی قدرت کے پنجے سے نکل کے کہیں فر ار نہ کرسکے (وما کانوا سابقین ) ۔
خدانے اسی زمین کو قارون کوفناکرنے کاحکم دیاجواس کے آرام وراحت کا گہوارہ تھی اورفرعون اور ہامان کونابود کرنے کا حکم اس پانی کودیا جو انسان کے لیے سبب حیات ہے ۔
خدا نے ان سرکشوں نابود کرنے کے لیے زمین و آسمان کے لشکر جمع نہیں کیے بلکہ ان ہی چیزوں کو جوان کی بقائے حیات کاموجب تھیں انھیں نیست کرنے پر مقرر کردیا (۶) ۔
انحراف کاگزشتہ دو آیات میں ذکر آچکا ہے . مگر اس مقام پران کی سزاؤں کاذکر نہیں تھا ۔
لیکن ... بعض مفسرین نے اس مقام پر جویہ احتمال ظاہر کیا ہے . کہ ان سزاؤں میں دوسری اقوام بھی شامل ہوسکتی ہیں ( مثلا: کلمہ ٴ ” غرق “ میں قوم نوح بھی شامل ہے اورقوم لوط بھی سنگ باری ہوئی تھی ) ، ان مفسرین کا یہ خیال حقیقت سے بہت بعیدہے . کیونکہ قرآن میں جس مقام پران کا حال بیان کیاگیاہے ، وہیں ان کی سزاؤں کاذکر بھی ہے .توپھر سزاؤں کے ذکر کی تکرار کی ضرورت نہ تھی . زیرنظر سلسلہ ٴ آیات میں جس چیزکاذکر نہ تھا وہ ان چارگرد ہوں کی سزائیں ہیں .جنہیں آخری دو آیات میں بیان کیاگیاہے ۔
آیت کے آخیر میں اس حقیقت کی تاکید کے لیے یہ لوگ اپنے ہی اعمال سیہٴ کے رد عمل کے طورپر ان عذابوں میں مبتلا ہوئے .اور انھوں نے جوبیج بویاتھا . اس کی فصل کاٹی . خدا فرماتا ہے : خدا نے ہرگز ا ن پر ظلم و ستم نہیں کیا . بلکہ لوگوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا تھا : ( وماکان اللہ لیظلمھم و لکن کا نوا انفسھم یظلمون ) ۔
گناہ گاروں کو خواہ اس دنیا میں س زادی جائے . یااس دنیامیں ،درحقیقت وہ ان ہی کے گناہوں کارد عمل ہوگا اوراس مقام پر جہاں اصلاح احوال اور بازگشت کی تمام راہیں ان پر بند ہوجائیں گی وہ بد اعمالیاں ان کے سامنے مجسم ہوجائیں گی ۔
خدا اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ وہ انسانوں پرحقیر سے حقیر ترین ظلم بھی نہیں روارکھے ۔
قرآن کی دیگر متعدد آیات کی طرح اس آیت سے بھی انسان کی آزادی ٴ ارادہ اورآزادی ٴ اختیار ثابت ہوتی ہے .اور یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ فیصلہ ٴ عمل خودانسان کے اپنے اختیار میں ہے .خدانے انسان کو آزاد پیدا کیاہے اوراسے آزاد ہی دیکھنا چاہتا ہے ۔
اس بناء پر جو لوگ کہ ” جبر “ کے معتقد ہیں (افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی اس عقیدے کے لوگ موجو د ہیں ) قرآ ن کے اس توانا استدلال سے ان کا عقیدہ باطل ٹھہر تا ہے ۔
۱۔” مدین “ کے متعلق سورہ قصص کی آیت ۲۳ کے ذیل میں تشریح کی گئی ہے ۔
 یہ جملہ” ولقد ارسلنا نوحا “ کے جملہ اورا س کے بعد کے جملہ پرعطف ہے ۔
۲ ۔” مدین “ کے متعلق سورہ قصص کی آیت ۲۳ کے ذیل میں تشریح کی گئی ہے ۔
۳ ۔ قوم شعیب کی تباہی کادردناک حال تفصیل سورہٴ ھود کی آہا ت ۸۴ تا ۹۵ ،جلد نہم میں آیا ہے ۔
۴ ” عاد ا و ثمود “ فعل ” اھلکنا “ کامفعول ہے جو کہ مقدر ہے ، یہ بات آیت ماقبل سے سمجھ میں آتی ہے .بعض مفسرین نے اسے (اذکر )کامفعول سمجھا ہے ۔
۵ ۔ یہ تینوں کلمات بھی فعل مقددر ” اھلکنا “ کامفعول ہیں . جیساکہ گزشتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے .بعض نے انھیں فعل ” اذکر “کامفعول سمجھا ہے ۔
۶۔ قارون کی زندگی کے حالات سورہ قصص کی آیتوں۷۴ تا ۸۱ میں مفصل ذکر ہو چکے ہیں . اورفرعون اوراس کے ساتھیوں کی ہلاکت کاواقعہ سورة قصص کی تفسیر میں اسی جلد میں اورسورہٴ اعراف کی تفسیر ،جلد ششم میں بیان کیاجاچکا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma