خداکی رحمت سے مایوس لوگ :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

یہ آیا ت معاد کی بحث کے بعد آئی ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصّے کے وسط میں جملہ معترضہ کے طور پر ہیں ۔
یہ پہلی بار نہیں ہے . کہ ہم قرآن میں اس قسم کی طرز بحث کاسامنا کر رہے ہیں . قرآن کی روش یہ ہے کہ جس وقت کسی قصّے کابیان ایک حساس مرحلے پر پہنچتاہے تو اس قصے سے مفید نتائج اخذ کرنے کے لیے اصل قصّہ چھوڑ کر ان نتائج کاذکر کرنے لگتاہے ۔
بہر حال زیربحث آیات میں سے پہلی آیت میں مسئلہ معاد کے سلسلے میں دنیا کی سیر کی دعوت دی گئی ہے . جب کہ اس سے پہلے کی آیت کارخ ”سیرانفس “ کی طرف تھا ۔
خدا فرماتاہے : ان سے کہو کہ روئے زمین کی سیر کریں . زندگی موجودات کس طرح ایجاد کیاہے : (قل سیر وافی الارض فانظر واکیف بد االخلق ) ۔
وہی خداجو رنگارنگ موجودات اورمختلف کو پید ا کرنے کے قدرت رکھتاہے ، آخرت می بھی زندہ کرے گا : ( ثم اللہ ینشیٴ قدیر ) ۔
یہ آیت اور اس سے ماقبل کی آیت قدرت الہٰی کی وسعت دلیل سے معاد کے امکان کو ثابت کرتی ہیں ۔
کیونکہ اس نے پہلی بارخلق کرکے سب پر اپنی قدرت ثابت کردی ہے . ٹھیک ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر اور تواناہے : ( ان اللہ علی کل شی ٴ قدیر ) ۔
دونوں آیات میں فر ق یہ ہے کہ آیت ماسبق میں خود انسان اورجو کچھ اس کے لطف و جوانب میں اس کی خلقت اول کا ذکر ہے اوردوسری آیت میں انسان کواقوام عالم اوردوسری موجودات کے مطالعے کی دعوت دی گئی ہے . تاکہ وہ خدا کی ایجاد اول کو مختلف مظاہر اور مختلف حالات و شرائط میں مشاہد ہ کریں اورخدا کی لامحدود قدرت سے آشناہوں اور یہ سمجھیں کہ اس میں اعاد ہٴ حیات کی طاقت بھی ہے ۔
جس طرح سے کہ کبھی ” آیات ا نفس“ کے مشاہدے سے توحید کااثبات ہوتاہے . اور کبھی ”آیات آفاتی “ کے مشاہد ے سے ، اسی طرح ان دونوں طریقوں س ے معادکابھی اثبات ہوتاہے ۔
اس زمانے میں یہ آیت سائنسد انوں کے لیے دقیق تر اور عمیق تر مفہوم رکھتی ہے . اور وہ یہ کہ وہ سیا حت کریں اوران موجودات ذی حیات کے آثار دیکھیں جو کبھی روئے زمین پر موجو تھے اور اب وہ سمندر کی گہرائیوں ، پہاڑ وں کی چٹانوں اور زمین کے طبقات میں ڈھانچوں و غیرہ کی شکل میں موجود ہیں . اس طرح و ہ زمین پر آغاز حیات کے اسرار اورخدا کی عظمت وقدرت سے آگاہ ہوں اور یہ بھی جانیں کہ وہ اعادہٴ حیات پرقدرت رکھتا ہے (۱) ۔
کلمہ ” نشاٴ ة “ کے حقیقی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں . کبھی دنیا کو ” نشاة اولی “ اور قیامت کو ” نشاة آخرت “ سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔
اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ آیت نمبر۹ میں ” ان ذالک علی اللہ یسیر “ آیاتھا . اور یہاں” ان اللہ علی کل شی ٴ قدیر “ آیاہے . اظہار بیان کایہ فرق ممکن ہے اس وجہ سے ہو کہ آیت ماقبل میں محدود مشاہدہ کا ذکرہے اور اس آیت میں ایک وسیع مشاہدہ کا ئنات کی دعوت دی گئی ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ان مسائل میں سے جومعاد سے ،متعلق ہیں ،ایک مسئلے کاذکر ہے اور وہ ہے رحمت اور عذا ب کا مسئلہ . چنانچہ مذکور ہے کہ : ”وہ قیامت میں جس شخص کو مستحق سزا سمجھے گا اسے سز دے گا اورجس شخص کو لائق۱ رحمت سمجھے گا اس پررحم فرمائے گا ، اور تم سب اسی کی طرف لوت جاؤ گے : ( یعذّب من یشاء ویرحم من یشاء والیہ تقلبون ) ۔
باوجود یکہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے . لیکن اس آیت میں پہلے عذاب کا ذکر ہے اورپھر رحمت کا .کیونکہ یہ بطور تہدید ہے اور تہدید کے لیے یہی مناسب ہے ۔
اس مقام پرایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اول عذاب ورحمت کا ذکر ہے اور اس کے بعد اس کی طرف باز گشت کا . ایسا کیوں ہے ؟ جب کہ قضیہ اس کے برعکس ہے یعنی اول لوگ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اور اس کے بعد و ہ مستحق عذاب ورحمت قرار پائیں گے . شاید اسی سبب سے بعض لوگ اس عذاب ورحمت کودنیا کا عذاب اور رحمت سمجھے ہیں ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ آیات مابعد کے قرینے سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جس عذاب ورحمت کا یہاں ذکر ہے اس کا تعلق روز قیامت ہی سے ہے اور ” الیہ تقلبون “ اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے . یعنی جب کہ ہم سب کی باز گشت اسی کی طرف ہے اور یہی اعمال کا حساب لینے والا ہے . تو عذاب ورحمت بھی اسی کے اختیار میں اور اسی کے اراد ے سے ہوگی ۔
یہ بھی بعید نہیں ہے کہ اس آیت میں عذاب ورحمت وسیع تر معنی ہوں جن دنیا و آخر ت دونوں کا عذاب ورحمت شامل ہو ۔
یہ نکتہ بھی روشن ہے کہ ” من یشاء “ ( وہ جیسے چاہے گا ) سے مراد وہ مشیت الہٰی ہے جو حکمت ہم آہنگ ہے . یعنی وہ جسے مستحق عذاب ورحمت سمجھے گا . کیونکہ مشیت الہٰی اندھی نہیں ہے بلکہ وہ ہر شخص کے استحقاق کے مطابق ہے ۔
کلمہ ”تقلبون “ کا مادہ ” قلب “ ہے . اس کے وضعی معنی ہیں ، بلکہ کسی چیز کی صورت کو بد ل دینا ۔
چونکہ قیامت کے دن انسان خاک بے جاں کی صورت سے ایک ایسے زندہ موجود کی شکل اختیار کرلے گا جو ایک موجود مکمل ہوگا لہذا اس کی تجدید آفرینش کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے . ممکن ہے کہ کلمہ ” تقلبون “ سے اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ سرائے آخر ت میں انسان اس طرح دگرگوں اور منقلب ہو جائے گا کہ اس کاباطن ظاہر ہو جائے گا . اوراس کے دل کے بھید آشکارا ہو جائیں گے .سورہ طارق کی آیت ۹ ” یوم تبلی السرا ئر “ ( وہ دن جب کہ دل کے بھید کھل جائیں گے ) ا ن معنی سے ہم آہنگ ہے ۔
اس بحث کو مکمل کرتے ہوئے کہ عذاب اوررحمت خدا کے اختیار میں ہے اور سب لوگوں کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، یہ اضافہ کیاگیاہے : اگر تم یہ خیال کرو کہ تم خدا کی حکومت سے باہر نکل جاؤ گے اوراس کا دست عدالت تمہارا گریبان نہ پکڑ ے گا ، توتم سخت غلطی پرہو . کیونکہ تم خدا کے ارادے پر ہر گز غالب نہیں آسکتے اوراس کے دائرہ ٴ ااختیار سے زمین آسمان میں فر ارنہیں کرسکتے :(وما انتم بمجزین فی الارض ولافی السماء ) (۲)۔
اوراگر تم سمجھتے ہو کہ کوئی سرپرست اور مدد گاراس وقت تمہاری یا وری کرے گا تویہ بھی محض غلط فہمی ہے .کیونکہ تمہارے لیے خدا کے علاوہ کوئی ولی اور یادرنہیں ہے : ( وما لکم من دون اللہ من ولی ولا نصیر ) ۔
درحقیقت خداکے عذاب سے اسی وقت مل سکتی ہے کہ یا اس کی حکومت سے باہر نکل جاؤ . یا اس کے دائرہٴ فرمان روائی میں رہ کر دوسروں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو بچاؤ مگر نہ تو اس کی سلطنت سے باہرنکلنا ممکن ہے ( کیونکہ ہر مقام پراسی کی حکومت ہے اور تمام عالم ہستی اسی ملک ہے ) اور نہ کسی میں یہ صلاحیت ہے کہ اس کی قدرت کے مقابلے میں علم اختیار بلند کرے یا کوئی تمہاری مدافعت کرسکے ۔
دوسوال اوران کا جواب :
پہلاسوال یہ ہے کہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس میں مشرکین اور کفار سے خطاب ہے اور یہ لوگ زمین کے ساکن ہیں تو یہ کہنا کہ ” ولا فی السماء “ کیامعنی رکھتاہے ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ یہ تعبیرایک طرح کی تاکید اور مبالغہ ہے . یعنی تم نہ توحدود زمین میں خدا کے احاطہء قدرت سے نکل سکتے ہو اور نہ آسمانوں میں . یعنی بالفرض اگر تم اتنی قدرت رکھتے ہوکہ آسمان پرچڑھ جاؤ پھر بھی اس کے دائرہ قدرت ہی میں رہو گے . یایہ کہ نہ توتم اہل زمین کے وسیلہ سے خد اکو اس کی مشیت میں عاجز کرسکتے ہو اورنہ اپنے ان معبود وں کے وسیلے سے جنہیں تم سمجھتے ہو کہ وہ آسمانوں میں ہیں .جیسے فرشتے یا جنات (البتہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ) ۔
دوسراسوال یہ ہے کہ ”ولی “ اور ”نصیر “ میں کیافرق ہے ؟
علامہ طبرسی مرحوم نے مجمع البیان میں لکھاہے کہ ” ولی “ وہ ہے جوبغیر درخواست کے انسان کی مدد کرے . لیکن ” نصیر “ عمومیت رکھتا ہے . وہ کبھی درخواست پر ست اور کبھی بغیر درخواست کے مدد کرتاہے . ان دونوں کلمات کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہو ئے کہا جاسکتاہے کہ ” ولی“ وہ سرپرست ہے جو بدون تقاضامدد کرتاہے اور ” نصیر “اس فریادرس اوریادرس کو کہتے ہیں جو طلب اور درخواست کے بعد انسان کی مدد کرتاہے ۔
اس عنوان سے قرآن میں ان مجرموں کے لیے مجازات الہٰی سے فرار کے تمام دروازے بند کردئے گئے ہیں ۔
خدا آیت مابعد میں بطور قطع فرماتاہے کہ : جو لوگ آیات الہٰی اور اس کی لقاکے منکر ہوئے وہ میری رحمت سے مایوس ہیں :
ّ ( والذین کفرو ا بایات اللہ والقاء اولئک یسئوامن رحمتی ) ۔
اس کے بعد تاکید کے طور پر یہ اضافہ کیاگیا ہے . ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : ( واولئک لھم عذاب الیم ) ۔
یہ عذاب الیم رحمت خداسے مایوس ہونے کالازمہ ہے ۔
” ایات اللہ “ یا ” ایات تکوینی“ سے نظامّ آفرینش میں عظمت الہٰی کے آثار مراد ہیں . اس صورت میں ان کلمات سے اشارہ مسئلہ توحید کی طرف ہوگا .” لقائہ “ سے اشارہ مسئلہ معاد کی طرف ہے ۔
یعنی منکر مبدا ء بھی ہیں اور منکر معاد بھی ۔
یا ... ” ایات اللہ “ سے آیات تشریعی مرا د ہیں . یعنی و ہ آیات جو خدانے اپنے پیغمبروں پر نازل کیں . جن میں ، مبداء و معاد اور نبوت کا ذکر ہے . اس صورت میں کلمہ ” لقائہ “ اسی طرح کی تعبیر ہے جیسے خاص کے بعد عام ذکر کیاجائے ۔
اس کا امکان بھی ہے کہ ” آیات اللہ “ سے وہ تمام آیات الہٰی مراد ہو ں جو عالم آفرینش اور احکامات تشریعی میں ہیں ۔
اس نکتہ کا ذکر بھی لازم ہے کہ ” یسئو ا “ (وہ مایوس ہوگئے ) فعل ماضی ہے ، ہر چند کہ مقصود کلام زمانہ آئندہ یعنی روز قیامت ہے کیونکہ عربوں کاشیوہ ٴ کلام یہ ہے کہ وہ حادثہ ٴ آئندہ ، جو سو فیصد حتم الوقوع ہو اس کے لیے فعل ماضی استعمال کرتے ہیں ۔
۱۔ ہم نے اس تفسیر کی جلد سوم میں سورہ آل عمران کی آیت ۱۳۷ کے ذیل میں سیراض ِ کے متعلق مفصل بحث کی ہے لیکن وہ زیادہ تر گز شتہ فرمان قوموں کے انجام سے درس عبرت حاصل کر نے کے سلسلہ میں تھی ۔
۲ ۔ ” معجزین “ کامادہ ”عجز “ ہے . اس کے معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانے کے ہیں . لہذا ناتوانی کے وقت ( جو کہ پیچھے رہ جانے کاباعث ہوتی ہے ) اس کلمہ کو استعمال کرتے ہیں . معجزہ وہ شخص ہے جودوسرے کو عاجز کردے اس لیے جو آدمی کسی قلم وقدرت سے بھاگ کر اسے اپنا پیچھا کرنے سے عاجز کردیتاہے ،اسے بھی معجزکہتے ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma