ماں باپ کی نست بہترین نصیحت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16


خداکی ایک اہم آزمائش ا تضاد سے عہدہ برآہوناہے جوراہ ایمان و تقویٰ اورعزاو اقارب سے جذباتی تعلق میں ہے قرآن مجید میں اس موضوع پرمسلمانو ں کے فرض کے متعلق واضح ہدایت موجو د ہے ۔
قرآن میں س ب سے پہلے اس قانون کلی کو بیان کیاگیاہے جس کی بنیاد انسانی جذبات اورحق شناسی ہے . اس ضمن میں فر مایا گیاہے :
ہم نے انسان کووصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے : ( ووصینا الانسان بو الد یہ حسنا ) ۔
اگر چہ بظاہر یہ ایک حکم تشریعی ہے . مگراس سے پہلے یہ تصور ایک ” قانون تکوینی “کے طور پر ہرشخص کی فطرت میں موجود ہے .بالخصوص .. . اس مقام پر جو کلمہ ” انسان “ استعمال ہوا ہے وہ لائق توجہ ہے . اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ قانون صرف مومنین سے مخصوص نہیں ہے .بلکہ جس فرد پر بھی کلمہ ” انسان “ صادق آتاہے ، اسے لازم ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے احسانات کاحق شناس ہو اورساری عمر ان کے احترم وتکریم اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کونہ بھولے . اگر چہ انسان ان تمام اعمال کے باوجود ان کے قرض کوادا نہیں کرسکتا۔
اس کے بعد ایک صریح استثنا ء کے ساتھ فرمایاگیا ہے کہ : اگر والدین یہ کوشش و اصرار کریں اوراولاد سے کہیں کہ :
تومیرے لیے کسی شریک کاقائل ہو جب کہ تواس شریک کوجانتابھی نہ ہو ،تواس حالت میں والدین کی اطاعت نہ کرنا :
(وانجاھداک لتشر ک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما ) ۔
یہ استثنااس لیے ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ماں باپ سے جذباتی تعلق ،انسان کے خدا سے تعلق پرفوقیت رکھتاہے . اس مقام پر کلمہ ” جاھداک “ کا مفہوم والدین کی کوشش اوراصرار ہے ۔
اس کے بعد ” مالیس لک بہ علم “ کہاگیاہے . یعنی جس کا تجھے علم نہیں ہے .یہاس جانب اشارہ ہے کہ شرکوئی منطقی امرنہیں ہے . کیونکہ اگر شرک واقعی درست ہوتاتواس کے لیے کوئی دلیل بھی مود ہوتی .اس کی ایک اورتعبیربھی ہو سکتی ہے کہ انسان کسی شی کا علم ہی نہ رکھتاہو تواسے چاہیئے کہ اس کی پیروی بھی نہ کرے . کجایہ کہ انسان کیس شی کے باطل ہونے کاعلم رکھتاہو اوعرپھر بھی اس کی پیروی کرے . ایسی شی کی پیروی توجہالت پرمبنی ہے . اس لیے اگر تیرے ماں باپ تجھے جہالت ک پیروی اختیار کرنے کی طرف مائل کریں توان کی اطاعت نہ کر ۔
اصولی طور پر اندھی تقلید توایمان کے معاملے میں بھی غلط ہے پھر شرک وکفر کے معاملے میں تو اس کی ضلالت کی کوئی انتہا ہی نہیں۔
ماں اورباپ کے متعلق یہی نصیحت سورہ ٴ لقمان میں بھی آئی ہے اس میں یہ کلمات مزید ہیں :
” وصاحبھما فی الدنیا معروفا “
اس حالت میں کہ شرک کے معاملہ میں ان کا کہانہ مان . پھر بھی دنیا وی معاملات میں ان کے ساتھ مہربانی اور نرمی کاسلوک کر اور رہن سہن میں ان کے ساتھ نیکی کر . یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ مباد اکوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ شرک کی طرف دعوت دینے کے معاملے میں والدین کی مخالفت کے یہ معنٰی ہیں کہ ان کے ساتھ معاملات دنیا میں بھی کج خلقی اور برا سلوک کیاجائے . اس سے ثابت ہوتاہے کہ والدین کے احترم کی اسلام میں کتنی تاکید ہے ۔
اس پوری بحث سے ایک اصول کلی اخذ ہوتاہے کہ خدا سے انسان کے تعلق پرکوئی سے بھی اثر انداز نہیں ہوسکتی کیونکہ تعلق بذات الہٰی ہر شے پر مقدم ہے . یہاں تک کہ وہ والدین کے ساتھ محبت پر بھی ( جو قریب ترین رشتہ ہے ) مقدم ہے ۔
اس سللے میں ایک مشہور حدیث ہے :
لاطاعةلمخلوق فی معصیةالخالق
مخلوق کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی روا نہیں ہے ۔
یہ حدیث امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے اورایسے مسائل میں یہ ایک روشن معیار ہے ۔
آیت کے آخیر میں یہ اضافہ ہے کہ ” تم سب کی باز گشت میری طرف ہے میں تم کو ان اعمال سے آگاہ کروں گا جوتم انجام دیتے رہے ہو “ اوران اعمال کی جزاو سز بے کم و کاست تمہیں ملے گی : ( الی مرجعکم فانبئکم بما کنتم تعملوم ) ۔
درحقیقت یہ جملہ ان لوگوں کے لیے ایک تہدید ہے جو شرک کی راہ اختیار کرتے ہیں اوران لوگوں کے لیے جودوسروں کو بھی شرک کی طرف بلاتے ہیں .کیونکہ صریحا کہاگیاہے کہ :
خدا ان سب کے اعمال کاحساب اپنی نظروں میں ر کھتاہے اور موقع پرانھیں ان سے باخبر کرے گا ۔
آیت مابعد میں پھراس حقیقت کوان لوگوں کے متعلق جوایمان لائے ہیں اور اعمال صالح بجالاتے ہیں مکرر اور تاکید ابیان کیاگیاہے . چنانچہ اس آیت میں فر مایاگیاہے : وہ لوگ جوایمان لائے ہیں اوراعمال صالح بجالاتے ہیں ہم انھیں زمرہ صالحین میں داخل کریںگے : ( والذین امنو وعملوالصالحات لند خلنھم فی الصالحین ) ۔
نفسہاتی نقظہٴ نظر سے انسان کے عمل کااس کی سیرت پر رد عمل ہوتاہے . یعنی انسان کاعمل صالح اس کی سیرت کوصالح بناتا رہتاہے .اس طرح سے وہ زمرہ ٴ صالحین میں داخل ہو جاتاہے اوراس کاعمل سوء اس کی سیرت کوناپوک کردیتاہے اور وہ بدوں اورغیرصالح لوگوں کے زمر ے میں شامل ہو جاتاہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ : اس آیت میں اس مضمون کی تکرار سے کیامقصود ہے ؟
اس کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آیات ماقبل میں ان لوگوں کی طرف اشارہ تھا .جوراہ حق پر گام زن ہیں اوراس آیت میں ہادیان دین اور رہنمایان طریق توحید کی طرف اشارہ ہے .کیونکہ عموما جب کلمہ” صالحین “استعمال ہوتاہے تواس سے مراد ” انبیا ء “ ہی ہوتے ہیں جوخدا سے دعاکرتے تھے .کہ وہ انھیں صالحین سے ملحق کردے ۔
اس مقام پر اس احتمال کی بھی گنجایش ہے کہ آیات ماقبل میں مومنین کے لیے ان کے گناہوں کی بخشش اوران کے اعمال صالحہ کی اچھی جزا کاذکر تھا .لیکن اس مقام پران کے اعلیٰ مرتبہ کاذکر ہے جوبجائے خود ایک قسم کی جزاہے . وہ یہ کہ یہ لوگ صالحین ، انبیاء ، صدیقین اور شہداء کی صف میں شامل ہوں گے اور ان کے ہمدم وہم نشین ہوں گے ۔
ماں باپ سے حسن سلوک :
یہ کوئی پہلی بارنہیں ہے کہ قرآن مجید میں انسانی زندگی کے اس اہم مسئلہ کوبیان کیاگیاہے . اس سے قبل بھی سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۲۳ میں اس مسئلہ کی جانب اشارہ ہو چکا ہے اورآپ آئندہ سورہ ٴ لقمان کی آیت ۱۴ ،۱۵ اور سورہٴ احقاف آیت ۱۵ میں بھی اس موضوع کے متعلق بیانا ت پڑھیں گے ۔
درحقیقت اسلام ماں باپ دونوں کے لیے نہایت ہی احترام کاقائل ہے . یہان تک کہ اس صورت میں بھی کہ وہ مشرک ہوں اوروہ اولاد کوشرک کی طرف دعوت دیں ( جوکہ اسلام کی نظر میں بدترین کام ہے ) پھر بھی ان کے حفظ احترام کوملحوظ رکھتاہے . قرآن حکم دیتاہے کہ ان کی دعوت ِ شرک کو توہر گز قبول نہ کرو مگر ان کے احترم کوواجب جانو ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی خداکی طرف سے انسان کاایک بہت بڑا امتحان ہے (جس طرف اس سورة کے آغاز میں اشارہ ہوا ہے ) کیونکہ انسان بعض اوقات عمر کی ایسی منزل میں پہنچ جاتاہے کہ پھر اس کی نگہدار ی بہت مشکل ہوجاتی اور حالت پیری میں بوجہ ناتوانی اس کی احتیاجات کاپورا کرنابہت دشوار ہوجاتاہے . یہی وہ وقت ہوتاہے جب اس کی اولاد اس کی حق شناسی اوس کے متعلق فرمان الہٰی کی اطاعت کرکے امتحان سے عہدہ بر آہو ۔
جناب رسولخدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کی ایک حدیث اس طرح منقول ہے کہ :
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورسوال کیا :
میں کس شخص کے ساتھ نیکی کروں ؟
رسولخد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جواب دیا : اپنی ماں کے ساتھ ۔
اس نے دوبارہ سوال کیا: اس کے بعد کس کے ساتھ ؟میں کس شخص کے ساتھ نیکی کروں ؟
رسولخد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جواب دیا : اپنی ماں کے ساتھ ۔
اس نے دوبارہ سوال کیا: اس کے بعد کس کے ساتھ ؟
پھر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ۔
اس کے بعد پھر ا س نے سوال کیا : اس کے بعد کس کے ساتھ ؟
پھر آپ علیہ السلام نے ارشا د فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ
البتہ جس اس نے بار چہارم سوال کیاتوحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسکے بعد باپ کے ساتھ نیکی کی ہدایت کی اوراس کے بعد تمام رشتہ داروں کے ساتھ ان کی قربت کی ترتیب کے لحاظ سے (1)۔
جناب رسالت مآب کی ایک اور حدیث بہت سی کتابوں میں درج ہے کہ :
الجنةتحت اقدام الا مھات
بہشت ماؤں کے کے پاؤ کے نیچے ہے ۔
مراد یہ ہے کہ ماں کی خدمت میں فر وتنی اور عاجزی کرنے اوران کے حضور مثل حاک راہ ہونے ہی سے انسان کو بہشت نصیب ہو سکتی ہے (2) ۔


1 ۔تفسیر مجمع البیان ،ذیل آیات زیر بحث ۔
2۔تفسیر مجمع البیان ، ذیل آیات زیر بحث ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma