آزمائش ایک دائمی سنت الہٰی ہے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
اس سورہ کی ابتدابھی ( الف . لام . میم ) حروف مقطعات سے ہوتی ہے . ہم نے بار ہا مختلف زادیہ ہائے نظر سے ان حروف کی تفسیر بیان کی ہے( 1)
اس سورہ میں حروف مقطعات کے بعد انسانی زندگی کے پیش آمدہ مسائل میں س ے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ ہے اوروہ ہے اللہ کی طرف سے بندے کا امتحان اوراس کی آزمائش ۔
سب سے پہلے یہ کہاگیا ہے کہ کیالوگوں یہ گمان کرتے ہیں کہ اگروہ صرف یہ کہنے پراکتفاکریں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور توحید ورسالت ِپیمبرکی شہادت دیں تووہ اپنے حال پرچھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کاامتحان نہ ہوگا : ( احسب الناس ان یتر کوا ن یقولوا امناوھم لایفتنون ) (۲)۔
اس کے بعد بلافاصلہ اس حقیقت کا ذکر ہے کہ اہل ایمان کا امتحان اللہ کی ایک دائمی اور جاودانی سنت ہے . یہ امتحان صرف امت اسلام ہی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ وہ سنت الہٰی ہے جو گزشتہ آمتوں کے لیے بھی جاری رہی ہے . چنانچہ فرمایاگیا ہے کہ :
ہم نے گزشتہ امتوں کی بھی آزمائش کی ہے : (ولقد فتنا الذین من قلبھم ) ہم نے گزشتہ امتوں کو بھی امتحان کی بھٹی میں ڈالا ہے وہ بھی تمہاری طرح بے رحم ،جاہل ، متعصب ، بے خبراو ر جنگ پسنددشمنوں کے نرغے میں گرفتار تھیں .الغرض امتوں کے لیے ہمیشہ میدان امتحان تیاررہاہے اور انھین اس میدان سے گزرنا پڑ تاہے ۔
ایساہونا بھی چاہئےے کیونکہ : ۔ ہر آدمی برترین مومن ،بالا ترین مجاہد اورفدا کار ترین انسان ہونے کا ادعا کر سکتاہے . اس لیے اس ادعا کی حقیقت اوراس کا وزن امتحان سے ثابت ہوناچاہیئے .امتحان ہی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مدعی کے دعو ے اوراس کی زہنی آمادگی باطنی خلوص میں ہم آہنگی ہے یا نہیں؟
امتحان کی اس لیے بھی ضرورت ہے تاکہ ا ن کے متعلق خداکا یہ علم ان میں کون سچاہے اور کون جھوٹا ،درست ثابت ہو :( فلیعلمن اللہ الذین صدقو ا ولیعلمن الکاذبین ) ۔
یہ امر بدیہی ہے کہ خداسب کے دلوں کا حال جانتاہے . یہاں تک کہ بنی نوع ِ انسانی کی خلقت سے پہلے بھی سب کچھ اس کے علم میں تھا . اس مقام پر ’ ’ علم الہٰی “ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ اس کے علم میں ہے و جود خارجی میں بطور عین الیقین اس کاثبوت مل جائے . یعنی اس گروہ کے متعلق خدا کاجو علم ہے ،لوگ اسے خارج میں بھی دیکھ لیں اور جس شخص کے دل میں چو کچھ ہے وہ نمایاں اور آشکار ہوجائے ۔
خداکے متعلق جہاں بھی کلمہ ” علم “ استعمال ہوا ہے اس کایہی مفہوم ہے ۔
یہ حقیقت قطعی واضح ہے کہ انسان کی نیت اوراس کا ارادہ جب تک عمل سے ظاہر نہ ہو تو اس کے لیے ثواب ،جزایا بدلے کاتعین نہیں ہو سکتا۔
آزمائش کاہونا اس لیے بھی ضرور ی ہے تاکہ انسان کی نیت اور اس کی نفسانی کیفیت کاحال معلوم ہو جائے ۔
اس مفہو م کو ایک اور پہلو سے بھی سمجھناچاہیئے کہ : ۔ اس عالم کی مثال ایک یو نیورسٹی یاایک کھیت کی ہے ( اسلامی احادیث میں یہ تشبیہات وارد ہوئی ہیں ) جب ایک طالب علم یونیورسٹی میں تحصیل کے لیے آتاہے تو دستور تعلیم یہ ہو نا چاہیئے کہ اس کی فطری استعداد کی کلی کھل جائے . جس قسم کی لیاقت بھی اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے ، اس کی پر ورش ہو او ر اس کی مخفی صلا حیتیں قوت سے فعل میں آجائیں ۔
نیز یہ کہ عالم ایک کھیت ہے . اس کھیت میں چو بیج بویاجائے تواس کی سرشت اورطینت کااظہار ہوناچاہیئے . اس کے اندر سے انکھوں ا پھوٹنا چاہیئے ،اسے خاک سنے ابھار نا چاہیئے . جب اس کی پرورش ہو تو وہ چھوٹا ساپود ا بن جائے پھر نشو و نما پاکر ایک تنومند اور بار آور درخت بن جائے .افراد اورقوم دونوں کواپنی نشو و نماکے لیے ا ن امتحانات سے گزرنا پڑ تا ہے ۔
اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ خدا کی طرف سے جو آزمائشیں آتی ہیں وہ محض افراد ک استعداد ات کی شناخت کے لیے نہیں ہیں . بلکہ انسان کی مخفی صلا حیتوں کی پرورش کے لیے ہیں ۔
یہ امر بھی محل لحاظ ہے کہ اگرہم کسی شے یا کسی انسان کو آز ماتے ہیں تووہ کسی مخفی یامجہول صفت کو معلوم کرنے کے لیے ہوتاہے . مگر خداکی آزمائش کشف مجہول کے لیے نہیں ہوتی . کیونکہ اس کا علم تو ہر شے پر محیط ہے بلکہ خدااس لیے آز ماتاہے تاکہ وہ انسانوں کی استعداد کی پردرش کرے اور جو صلاحیتیں اس میں مخفی ہیں وہ قوت سے فعل میں آجائیں (۳)۔
1۔ ان حروف کی تفسیر سورہ بقرہ جلد اول ،سورہ آل عمران ، جلد دوم ،اور سورہ اعراف جلد ششم کے آغاز میں ملا حظہ کیجئے

۲ ۔ ” یفتنون “ کامادہ ”فتنہ “ ہے جس کے معنی ہیں سونے کوآگ میں تپانا ،اس کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے .اس کے بعد مجاز ا اس کلمہ کو ہرطرح کی ظاہر ی اور باطنی آزمائش کے لیے بولنے لگے .مزید توضیح کے لیے جلد ۲ صفحہ۲۹ (اردو ترجمہ ) دیکھئے ۔
۳ ۔ خدا کی آزمائش اوراس کے مختلف جواب کی توضیح جلد اول آیت ۱۵۷ ،سورہ بقرہ کے ذیل میں بیان ہوئی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma