۱۔ تمام اشیا کس طرح فناہوں گی ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
آیات فوق کے ذیل میں جوسوالات پیدا ہوتے ہیں ا ن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر دنیا کے آخرمیں سب چیزیں فناہوئیں گی تو اس مٹی کوبھی فنا ہوجاناچاہیئے جوانسان کے جسم کی بن گئی ہے . جب کہ قرآن میں بطور مکرر یہ صراحت موجود ہے کہ ہم جسم کی ان ہڈیوں کو جمع کرکے ان سے دوبارہ انسان پید کریںگے .یا ...بر وز قیامت انسان اپنی قبروں س ے نکلیںگے ۔
نیز جیسا کہ آیات قرآنی کے ظاہر معنی سے مترشح ہو تا ہے ، بہشت اور دوزخ بھی پید اکیے جاچکے ہیں جیساکہ کلمات” اعدت للمتقین “ یاان ہی جیسے اور کلمات سے یہ اشار ہ ملتاہے کہ ” بہشت پرہیز گاروں کے لیے ہے “ چنانچہ قرآن میں دو مقامات پر یعنی سورہ آل عمران کی آیت ۱۳۳ اور سورة حدید کی آیت ۲۱ میں یہ بیان ہے . اور دو مقامات پر دوزخ کاذکر ” اعدت للکافرین “ کے الفاظ میں کیاگیاہے . وہ ہیں سورہ بقرہ آیت ۲۴ اور سورہ آل عمران آیت ۱۳۱ ۔
ا ب سوال یہ ہے کہ اگر بہشت ودوزخ مخلوقات میں س ے ہیں تو کیا وہ بھی بروز قیامت فنا اور نابود ہوجائیں گی ؟ قطع نظر ا ن امور کے ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ انسان کے لیے ایک حیات برزخی بھی ہے جیساکہ ” ارواح “ کے ذکر کے وقت ہم نے اسے آیات قرآنی سے ثابت کیاہے ،توکیا وہ ساکنان برزخ بھی فنا ہوجائیں گے ؟
ذیل کی توضیحات سے ان تمام سوالا ت کے جوابات واضح ہوجائیںگے :
اکثر ایساہوتاہے کہ کلمات ” ہلاک“ نابودی اور فنا “ سے کسی نظم وترتیب کازیر زبر ہو جانامراد ہوتاہے نہ کہ اس شے کے موار اصلی کافنا ہو جانا . مثلا . اگر ایک عمارت زلزلہ کی وجہ سے مسمار ہوجائے تواس کیفت پر ہم کلمات ” وھلاک “ کااطلاق کرتے ہیں حالانکہ اس عمار ت کااصلی مواد موجود ہوتاہے .اس مواد کی صرف نظم و ترتیب درہم برہم ہوگئی ہوتی ہے ۔
نیز یہ کہ دنیا کے آخر وقت میں ... خورشید بے نور ، چاند تاریک اور پہاڑ زیزہ ریزہ ہوجائیں گے . اور زمین پر ہر زندہ موجود کو موت آجائے گی .اور پہلو سے ان اشیا کے لیے ہلاکت کامفہوم یہ ہے :
دوسر ے پہلو سے ہلاکت اورفناکااطلاق دنیا اوراس کے مافیہاپر ہے ۔
لیکن بہشت اور دوزخ ( خواہم انھیں اسی دنیا میں سمجھیں ،خواہ اس دنیا سے باہر ) اس دنیا کاجز نہیں ہیں کہ انھیں فنا اور نابود ی کے حکم میں شامل کیاجاسکے .ان چیزوں کا تعلق آخرت اور دوسری دنیا سے ہے نہ کہ اس دنیا سے ۔
تیسرے بات یہ ہے کہ جیساکہ ہم نے سطور بالامیں کہاکہ موجودات امکانی کے لیے ہلاکت اورفنا کاانحصار صرف دنیا کے خاتمے پر ہی نہیں ہے بلکہ یہ مو جو دات بحالت موجودہ بھی فانی ہیں . کیونکہ اول توان کاوجود قائم بالذات نہیں ہیں بلکہ اپنے وجو د کے لیے دوسرے کی محتاج ہیں . دوسرے یہ کہ جملہ کا ئنات ہمہ وقت حالت تغیرااورحرکت میں ہے اورہم جانتے ہیں کہ حرکت کے معنی ہیں فنا ئے تدریجی. جس کے مطابق ہروقت وجود عد م کی دونو ں کیفیات موجود رہتی ہیں .ان توضیحات سے محولا بالا سوالات کو جواب واضح ہوجاتاہے ۔
۲۔ ” ولا تدع مع اللہ الھا اکر “کی غلط تفسیر :وہابی لوگ جن کااس عقیدے پراصرار ہے کہ ” توسل اور شفاعت “ کامسئلہ حقیقت توحید سے ہم آہنگ نہیں ہے ، کبھی تووہ ّیت مافوق سے اور کبھی اسی کے مشابہ دوسری آیات سے استد لال کرتے ہیں .وہ لوگ کہتے ہیں کہ :
قرآن میںصریحاغیر خداکی عبادت و پر ستش ، یا کسی غیر کا نام خدا کے نام کے ساتھ لینے سے نہی کی گئی ہے ” فلا تدعو امع اللہ احد ا .“ ( سورہ جن.۱۸ ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی آیات کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ہم کسی کو ہر گز نہ پکاریں . ایسی آیات کا مفہوم و ہی ہے جو کلمہ ” مع اللہ “سے سمجھا جاتا ہے . یعنی اگر کوئی شخص خداکے اختیااوراس کی صفت خلافی میں کسی او ر کو دخیل سمجھے اور مستقل طور پر یہ سمجھے کہ کوئی دوسری ذات بھی خدا کے کاموں کوانجام دے سکتی ہے ،تو مشرک ہے ۔
لیکن ...اگر ہم تمام اختیارات کو خدا سے مخصوص سمجھیں اور کسی کو بھی اس کی قدرت میں شریک یاموثر خیال نہ کریں... مگر یہ عقیدہ رکھیں کہ اولیاء اللہ اس کے اذن اور فرمان سے شفاعت کرتے ہیں اوراس نیت سے ہم ان سے متوسل ہوں کہ وہ خدا کے حضور میں ہماری شفاعت کریں گے تو یہ عین توحید ہے اور یہ ہی چیز ہے جس کی طرف قرآن میں مکرّ ر اشارہ ہوا ہے ۔
آیا ... جب براداران یوسف نے اپنے باپ سے کہاتھا کہ ” یاابانا استغفرلنا
اے باپ تو ہمارے لیے خداسے مغفرت طلب کر (سورہ یوسف ، ۹۷) ۔تو کیایہ شرک تھا ؟ !
ی... جس مقام پرقرآن شریف میںیہ ذکر آتاہے :
ولو انھم اذ ظلمو اانفسھم جا ء و ک فاستغفرو ا اللہ واستغفرلھم الر سول و جد واللہ توا با رحیما
جس وقت اپنے نفوس پرظلم کر تے ہیں ،اگر وہ تیرے پاس آتے ہیں اور خدا سے مغفرت طلب کرتے ہیں . اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرے تو وہ خدا کوتواب اور رحیم پا ئیں گے ۔ ( سورہ نساء ، ۶۴ ) ۔
تو کیا یہ کفر کی طر ف دعوت ہے ؟
شفاعت اور توسل حقیت اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے (1) ۔
۴پروردگار ! ... تو ہمارے دلوں کو توحید اورمعرفت کے نو ر سے منوّ ر کر تاکہ ہم تیرے سوا کسی کو نہ دیکھیں ،تیرے سوا کسی کی جستجو نہ کریں اور تیرے سوا کسی کی آرزو نہ کریں ۔
خدا وندا ... تواپنی ذاتِ پاک سے ہمارے ارتباط کوروز بروز محکم کرتاجا . تاکہ اس طریقے سے ہماری روح پرتیری ذات کی بقائے جاو دانی کا پر تو پڑ ے ۔
بار الہٰا ... تو ہمارے دلو ں سے دنیا کی محبت ، بڑائی کو خواہش اورفساد فی الارض کو دوررکھ اور تو ہمیں ان پر ہیز گارون کی صف میں جگہ دے جن کے لیے ” عاقبت نیک “ ہے (والعاقبةللمتقین ) ۔
 1۔ اس مسئلے کی زیادہ توضیح کے لیے جلد چہارم میں سورہ مائدہ کی آیت ۳۵ کے ذیل میں اور جلد میں س ورہ بقرہ کی آیت کے ذیل میں رو جو ع کریں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma