فساد فی الارض اور ہوس، اقتدار کا نتیجہ :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

گزشتہ آیات میں ایک گنہگار و متکبرثروت ( یعنی قارون ) کے عبرت انگیز واقعہ کے ذکر کے بعد اب زیربحث آیات میں س ے پہلی آیت میں چو بیان کیاگہاہے ،درحقیقت و ہ اس ماجرے کاایک کلی نتیجہ ہے . چنانچہ رب العزت فرماتاہے :
ہم سرائے آخرت صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں جو دنیا میں ہوس اقتدار نہیں رکھتے اور نہ فاد کرتے ہیں :
(تلک الدار الاخرة نجعلھا للذین لایرید ون علوا فی الارض ولا فسادا ) ۔
صریہی نہیں کہ وہ بڑا بننے کے خواہشمنداور مفسد نہیں ہیں بلکہ ا ن چیزوں کا ارادہ بھی نہیں کرتے . ان کادل ان آلائشوں سے پاک اور ان کی روح اس قسم کی آلودگیوں سے منزہ ہے ۔
انسان کے لیے جوچیزیں نعمات ِ آخرت سے محرومی کاسبب بنتی ہیں وہ درحقیقت یہی دو ہیں :
اول : بڑا بننے کی طلب ۔
دوم :” فساد فی الارخ “ . تمام گناہ ان ہی دوچیزوں میں جمع ہیں . کیونکہ خدانے جن منکرات سے نہی کی ہے ، و ہ انسان کیلئے تحصیل شرف وکمال اخلاق میں مانع اور اس کی منشائے تخلیق کے خلاف ہیں ۔
حتٰی کہ ہوس اقتدار بجائے خود ان چیزوں میں س ے ہے جنہیں ” فساد فی الارخ “ کہتے ہیں .اسی لیے اس کی غیرمعمولی اہمیت کی وجہ سے اس کا خصوصیت سے ذکر کیاگیاہے ۔
ہم نے ’ قارون ‘ کے تفصیلی حالات اوراس کی سر نوشت میں دیکھا ہے کہ جوبات اس کی بدبختی ، ہلاکت اور نیستی کاباعث ہوئی وہ اس کاتکبراو ربرتری کی ہوس تھی ۔
اسلامی روایات میں اس مسئلے پرخصوصیت سے زوردیاگیاہے یہاں تک کہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے :
ان لرجل لیعجبہ ان یکون شراک نعلہ اجود من شراک نعل صاحبہ فید خل تحتھا ۔
کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ انسان کواس بات سے خوشی حاصل ہوتی ہے کہ اس کی جو تی کے نبد اس کے دوست سے بہتر ہوں . تووہ شخص اس جذبہ برتری سے ا س آیت کے مفہوم میں داخل ہوجاتاہے (۱) ۔
قابل توجہ یہ امر کہ مفسرتفسیر کشاف اس حدیث کاذکر کرنے کے بعد ایک افادہ کااضافہ کرتاہے : ۔
بعض اہل طمع آیہ ٴ زیربحث میں جذبہ کبرذات او ر برتری کونہ متقضائے آیہٴ آیہ ( قصص ، ۴ ) ” ان فرعون علافی الارض “ محض فرعون ہی سے منسوب کرے ہیں .اور یہ متقضائے آیہ (قصص ، ۷۷) ”ولاتبغ الفساد فی الارض “ فسادکوقارو ن سے مخصوص کرتے ہیں .اور کہتے ہیں کہ جو آدمی فرعون اور قارو ن کی مانند ہو ، بہشت اور دائمی گھراس کی ملکیت ہے . اس طرح وہ لوگ صرف تنہافرعون وقارو ن اور ان جیسے افراد کوبہشت سے خارج کرتے ہیں .اور باقی نعمات آخرت کواپنی ملکیت سمجھتے ہیں .ان حضرات نے اس آیہ کے اخیرمیں ” والعاقة للمتقین “ پراس طرح پرغورنہیں کیا جس طرح اس پر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے غور فرمایاتھا (۲) ۔
اس مقام پر” مفسرتفسیرکشاف “کے قول پر ہم اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ان اہل طمع حضرات نے فرعون اور قارون کی حقیقت کو بھی نہیں پہچانا . کیونکہ فرعون نے اپنے آپ کو برترو عالی سمجھااور وہ مفسد بھی تھا :
”انہ کان من المفسدین “ ( قصص ،۴) ۔
قارون نے بھی اس کی مانند زمین میں فساد کیا اور جذ بہ ٴ برتری بھی رکھتاتھا . یہ مقتضائے آ یتہ:
” فخرج علی قومہ فی زینتہ “ ( قصص ۷۹) ۔
اس روایت میں جنا ب امرالمومنین علی علیہ السلام کے متعلق مذکورہ ہے کہ خلافت ظاہری کے زمانے میں آپ بذات خود بازاروں میں تشریف لاتے تھے . جولوگ راستہ بھول گئے ہوتے ان کے رہنمائی کرتے تھے ،ضعیف لوگوں کومدد کرتے تھے .آپ سود اگروں او رکاسبین کے قریب سے گزرتے تھے اورا نھیں یہ سناتے جاتے تھے ۔
تلک الدار الا خرة نجعلھا الذین لایرید ون علوافی الارض ولافساد ا
اس کے بعد آپ یہ فرماتے تھے :
نزلت ھذہ الایة فی اھل العدل والتواضع من الولاة واھل القدرة من الناس
یہ آیتہ عادل ومتواضع سر براہان مملکت اور حکا م نیز قوم کے صاحبان قدرت واختیار افراد کے متعلق نازل ہوئی ہے (۳) ۔
کا سبین اور سودا گروں کواس تنبیہ سے آپ کامقصود یہ تھا کہ جس طرح میں نے حکومت کواپنے لیے سبب برتری نہیں سمجھا ن،تمہیں بھی چاہیئے کہ اپنی فراوانی دولت کو دوسروں پر تحکم کاسبب نہ بناؤ .کیونکہ انجام نیک صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن میں احساس برتری نہیں اور نہ وہ زمین پرفساد کرتے ہیں ۔
جیساکہ قرآن میں اس آیت کے آخر میں مذکور ہے ” والعاقبة للمتقین “ عاقبت پرہیز گاروں کے لیے ہے . ”عاقبت “ ایک وسیع المفہوم کلمہ ہے . جس میں اس جہان کی پیروزی اور نیک انجام اور دار آخرت میں بہشت اوراس کی نعمتیں ،سب کچھ شامل ہے ۔
چنانچہ ہم نے دیکھا کہ قارون اور فرعون کا کیا انجام ہوا . باوجود یکہ وہ بے مثال طاقت رکھتے تھے . مگر ،چونکہ ان میں تقوی نہ تھا .لہذا وہ درد ناک عذاب میں مبتلا ہوئے ۔
اب ہم اس آیتہ کے متعلق اپنے بیان کو امام جعفرصادق علیہ السلام کی ایک حدیث سے نقل کرکے ختم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کہ جس وقت امام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو آپ کی آنکھ سے آنسوجاری ہوگئے اور فرمایا :
ذھبت واللہ الامانی عندھذہ الا یة
اس آیتہ نے دنیا میں میری تمام آرزوؤں کوختم کردیاہے اور پیروزی ٴ آخرت بھی مشکل ہے (۴) ۔
اس حقیقت کے بیان کے بعد کہ سرائے آخرت اوراس کی نعمات دوسروں پر تسلط جمانے والوں مستکبر ین کے لیے نہیں ہیں بلکہ متواضع اورحق طلب پر ہیز گاروں کے لیے ہیں ، زیر نظر آیات میں سے دوسرآیتہ میں ایک قانون ِ کلی کاذکر کیاگیاہے جس میں پاداش اعمال او ر کیفر کردار کے متعلق خدا کے عدل اور تفضل کاذکر ہے . یعنی جو آدمی نیک کام کرے گا اس کابہتر بدلہ پائے گا : ( من جاء بالحسنة فلہ خیر منھا ) ۔
جزائے خیر کا موقع خداکا مقام تفضل ہے . ذات الہٰی دنیا کے تنگ چشم لوگوں کی طر ح نہیں ہے کہ جب وہ کسی کے عمل کاصلہ دینے لگتے ہیں توان کے نزدیک عدالت کا یہی مفہوم ہے کہ وہ صلہ ٹھیک اس کام کے مطابق ہو . مگر ذات الہٰی کا مقام اس سے ارفع ہے . وہ کبھی بمقابلہٴ عمل اپنے لطف بیکراں سے دس گنا ، کبھی سوگنا اور کبھی ہزار گنا صلہ دیتا ہے . کم از کم گنا توضرور ہی دیتاہے . جیساکہ ہم سورہ ٴ انعام کی آیتہ میں پڑ ھتے ہیں :
من جاء بالحسنة فعلہ عشرامثالہ
مگر ... اس صلہ کی حد آخر کوخدا کود ہی جانتاہے . جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آ یتہ ۲۶۱ میں راہ خق میں نفاق کے صلہ میں ضمناآیاہے ۔
البتہ ... اس اجر وصلہ کوکئی گنا کردینا بے حساب نہیں ہے . اس کاانحصار پاکی عمل ، اخلاص ،حسن نیت اورصفائے قلب کے معیار پر ہے ۔
نیکو کاروں کے متعلق خدا کے اس فضل و لطف کا ذکر بد کاروں کے اعمال کی سزا کے بعد آیاہے . چنا نچہ فرمایا گیا ہے :
جو لوگ گناہ کرتے ہیں انہیں ان کے اعمال کے مطابق ہی سزا دی جائے : ( ومن جاء بالسیئة ولا یجزی الذین عملو السیئا ت الا ماکانوا یعملون ) ۔
یہ اس پروردگار کا مقام عدل ہے کہ گنہگار اپنے عمل سے ایک ذرہ بھی زیادہ سزا نہیں پائیں گے . اس مقام پر یہ جملہ جاذب توجہ ہے کہ :
ان کے اعمال ہی خود ان کا صلہ ہیں :
یعنی ان کے عمل کے آثار ، ( عالم ہستی میں بقائے موجودا ت کے قانون کے مطابق ) ان کے نفوس اورعالم کارجی میں باقی رہ جاتی ہیں اوربررز قیامت ،جس روز ہر راز پنہاں آشکار ہوجائے گا ،یہ اعمال سیسہ مجسم ہو کر گنہگار و ں کے ساتھ ہونگے اورا ن کے لیے آزار د اذیت کاموجب ہوں گے ۔
اس مقام پر تین سوال پیدا ہوتے ہیں ، جن کاجواب دنیا ضروری ہے :
۱۔ اس آیتہ میں کلمہ ” سیئة “ کی دو مرتبہ تکرار کیوں ہوئی ہے ۔
ممکن ہے کہ اس کی جمع یہ ہو کہ اس امر کا بیا ن حتمی مقصود ہو کر ” سیئات “ میں ہر گنہگار کو صرف اسی عمل بد کی سزا ملے گی جواس نے انجام دیاہے . بالفاظ دیگر : خود کردہ را علا جے نیست
۲۔ کیاآ یتہ قوق میں کلمہ ” حسنہ “ میں ایمان اور توحید بھی شامل ہیں ؟
اگر یہ درست ہے توپھر اس جملہ کے کیا معنی ہیں ؟ جو کہاگیاہے :
”ہم اس سے بہتر کو ، اس کی جزا قراردیں گے “ ۔
کیااس سوال سے بہےر بھی کوئی شے ہوگی جو اس کی جز ا ہوجائے گی؟
ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ بدون تردید کلمہ ” حسنہ “ کے معنی بہت وسیع ہیں . اس میں انسان کے معتقد ات ، گفتار و گردار سب کچھ شامل ہے . لیکن” پرور دگار کی رضا و خوشنودی “ توحید کے صرف ساعتقاد سے بہتر ہے اور یہی نیکو گاروں کی جزاٴ ہے .جیسا کہ ہم سورہ ٴ توبہ کی آیتہ ۷۲ میں پڑ ھتے ہیں :
ورضوان من اللہ اکبر
خداکی خوشنودی ہرجزاء سے بہتر ہے ۔
۳ ۔ آیتہ توق کلمہ ” حسنہ “ مفردہ کیوں استعمال ہوا ہے اور کلمہ ” سیئا ت “ جمع کیوں استعمال ہوا ہے ؟
اس سلسلے میں بعض حضرات کاخیال ہے کہ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ لحاظ شمار گنہگار ون کی تعدار زیادہ ہے اور نیکو کاروں کی کمی ہے ۔
اس مقام پر یہ امکان بھی ہے کہ جملہ حسنات ” حقیقت توحید “ میں مجتمع ہوجاتی ہیں . نیز یہ کہ اگر ” حسنات “ کاتجزیہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد عقیدہ توحید ہے جبکہ سیئا ت کی بنیاد شرک ہے اور شر ک میں مخلاف ” توحید “ پر اگندہ گی اور کثرت پائی جاتی ہے ۔
۱۔ تفسیر ” جوامع الجامع “ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۲۔ تفسیر فخررازی : زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۳ ۔ اس روایت کو ” زاذان “ نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے متعلق نقل کیاہے . تفسیر مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل مین ۔
۴ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma