ظالموں کاانجام :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16


اس مقام پرہم اس تاریخ کے نویں سبق آموز حصّے کامطالعہ کرتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ فرعون نے حضرت موسٰی (علیه السلام) میدان مقابلہ سے ہٹانے کے لیے ایک برج بنانے کامنصونہ بنایا ۔
ہم جانتے ہیں کہ مجھے ہوئے سیاستد انواں کایک طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ ان کی میلان طبع کے خلاف پیش آجاتاہے تووہ عوام کی توجہ اس سے منحرف کرنے کے لیے فورا کوئی نئی چال چلتے ہیں . تاکہ عوام کی توجہ ان ہی کی طرف رہے ۔
یوں لگتاہے کہ فرعون نے نہایت بلند برج بنانے کاحکم حضرت موسٰی (علیه السلام) کے جادو گروں سے مقابلے کے بعد دیاہوگا . کیونکہ قرآن مجید میں سورہ مومن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ منصوبہ اس اس وقت بنا یاگیاتھا جب کہ فرعون کے اہل کار موسٰی کو قتل کرنے کی تجویز کررہے تھے اور مومن آل فرعون انھیں بچانے کی تدابیر کررہاتھا . نیز یہ ظاہرہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کے ساحروں سے پہلے اس تجویز کی ضرورت نہ تھی بلکہ وہ حضرت موسٰی کی صدا قت کی تحقیق اورانھیں جادوگروں سے شکست دلانے میں مشغول تھے ۔
قرآن مجید سے میں سے حضرت موسٰی (علیه السلام) کے ساحروں سے مقابلے کاحال سورہ طٰہٰ ، اعراف یونس اورشعراء میں بیان کیاگیا ہے مگر اس مقام پر اس تفصیل سے قطع نظر کرکے ہم صرف تعمیر برج کے واقعے کاذکر کرتے ہیں جوصرف اس سورة اورسورة مومن میں بیان ہواہے ۔
جادو گروں پر حضرت موسٰی (علیه السلام) کی فتح کاحال تمام مملکت مصر میں مشہور ہوگیا تھا . جادوگروں کے حضرت موسٰی (علیه السلام) پرایمان لانے سے خطر ہ اوربھی بڑح گیاتھا . اورحکومت فرعون کی پوزیشن سخت خطرے سے دوچار ہوگئی تھی . ملک کے عوام جنہیں غلام بنا رکھاتھا ، ان کے بیدار ہونے کا احتمال ہونے لگاتھا . اس لیے اس نازک وقت میںلازم تھاکہ ہرقیمت پر عوام کی توجہ اس مسئلے سے ہٹا ئی جائے . اوران کے ذہن کو کسی اورطرف مشغول کرنے ، انھیں اصل مسئلے سے غافل کرنے اور بے و قوف بنانے کے لیے کوئی تدبیر کی جائے اورساتھ ہی ساتھ حکومت کی طرف سے ان کے لیے عطا و بخشش کاسلسلہ بھی جاری ہو ۔
فرعون نے اس معاملے میں اپنے اہل دربار سے مشورہ کیا .وہ اس نتیجے پر پہنچا جس کا ذکر بحث پہلی آیت میں آیاہے : فرعون نے کہا : اے میرے امراء و وز را ء ! مجھے تمہارے لیے اپنے سواکسی خدا کاعلم نہیں :
( وقال فرعون یا ایھا الملا ء ماعلمت لکم من اللہ غیری ) ۔
مسلمہ طور پر زمین کاخدامیں ہوں . رہا آسمان کاخدا اس کے وجود پرکوئی دلیل نہیں ہے . لیکن میں احتیاط سے گریز نہیں کرتا اورآسمانی خداکے متعلق تحقیق کرتاہوں اس کے بعداس نے ھامان کی طرف رخ کیااورکہا : ا ے ھامان ! تو آگ جلاکرینٹیں پکا :
( فاو قد لی یاھامان علی الطین )۔
اس کے بعد تو میرے لیے ایک بہت بلند برج بنا تاکہ میں اس پر چڑھوں او رموسٰی کے خدا کو تلاش کرو ں ، ہر چند کہ مجھے یقین نہیں آ تا کہ وہ سچّا ہے اورمیں سمجھتاہوں کہ وہ جھوٹوں میں سے ہے :
( فاجعل لی صرحا لعلی اطلع الی الہ موسی وانی لاظنہ من الکاذبین ) ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ فرعو ننے ” اینٹ “ کالفظ کیوں استعمال نہیں کیا اورصرف یہ کہا کہ ” مٹی پر آگ جلا “ ؟
اس کے متعلق بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اس زمانے میں ابھی پختہ اینٹیں بنانے کارواج نہ تھا . اینٹ فرعون کے دور میں ایجاد ہوئی .مگر بعض کاخیال ہے کہ یہ طرز بیان بھی متکبرانہ ہے جیساکہ جابر بادشاہوں کاطرز گفتگو ہوتاہے ۔
بعض علما ء یہ کہتے ہیں کہ کلمہ
” آجر “ (بمعنی اینٹ) کوئی فصیح نہیں ہے کہ قرآن میں استعمال ہوتا اس کی بجائے کلمہ ’ ’ طین “ (مٹی ) استعمال کیاگیا ہے ۔
اس مسئلے میں مفسرین کے ایک گروہ نے ( مثلا فخر رازی اور آلو سی نے ) یہ سوال بھی اٹھا یاہے کہ آیا ! فرعون نے اپنا مجوزہ بلند مینار تعمیر کر ایاتھا یانہیں ؟
ان مفسرین کاذہن اس طرف اس لیے منتقل ہواکہ مینار کی تعمیرکا کام کسی طرح بھی عاقلا نہ نہ تھا .کیا اس عہد کے لوگ کبھی بلند پہاڑ وں پرنہیں چڑھے تھے ؟ اور نھوں نے آسمان کے منظر کوویسا ہی نہیں دیکھا تھا . جیسا کہ وہ زمین سے نظر آتاہے ؟ کیا انسان کابنایا ہوا مینا ر پہاڑ سے زیادہ اونچا ہوسکتاہے ؟ کیاکوئی احمق بھی یہ یقین کرسکتاہے کہ ایسے مینار پر چڑھ کرآسمان کو چھواجاسکتاہے ؟ لیکن وہ مفسرین جنہوں نے یہ اشکالات پیدا کہے ہیں ان کی توجہ ان انکات کی طرف نہیں گئی کہ اول توملک مصر کو ہستانی نہیں ہے . دوم یہ کہ انہوں نے اس عہد کے لوگوں کی سادہ لوحی کوفراموش کردیا کہ ان سید ھے سادے لوگوں کوایسے ہی مسائل سے غافل کیاجاسکتاتھا . یہاں تک کہ خود ہمارے زمانے میں جسے عصر علم ودانش کہاجاتاہے ، لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا نے کے لیے کیسے کیسے مکر و فریب اورحیلہ سازیاں کی جاتی ہیں ۔
بہر کیف بعض تواریخ کے بیان کے مطابق ، ھامان نے حکم دیا کہ ایسا محل اور برج بنانے کے لیے زمین کاایک وسیع قطعہ انتخاب کریں اوراس کی تعمیر کے لیے پچا س ہزار معمار اورمزدور روانہ کردے اوراس عمارت کے واسطے میڑیل فراہم کرنے کے لیے ہزاروں آدمی مقرر کیے گئے . اس نے خزانہ کامنہ کھول دیااور اس مقصد کے لیے کثیر رقم خرچ کی . یہاں تک کہ تمام ملک مصرمیں اس عظیم برج کی تعمیر کی شہر ت ہوگئی ۔
یہ عمارت جس قدر بھی بلند ترہوتی جاتی تھی .لوگ اتنے ہی زیادہ اسے دیکھنے آتے تھے اورمنظر تھے کہ دیکھئے فرعون یہ عمارت بناکر کیاکرتاہے ؟
یہ عمارت اتنی بلند ہوگئی کہ اس سے دور دور تک اطراف و جوانب نظرآنے لگے . بعض موٴ رخین نے لکھا ہے کہ معمار وں نے اس کی مارپیچ سیڑھیاں ایسی بنائی تھیں کہ آدمی گھوڑے پرسوار ہوکر اس پر چڑ سکتاتھا ( ۱) ۔
جب وہ عمارت پایہ تکمیل کوپہنچ گئی اوراسے مزید بلند کرنے کا کوئی امکان نہ رہا توایک روز فرعون پوری شا ن وشوکت سے وہاں آیا اور مذاب خود برج پر چڑھ گیا . جب وہ بر ج کی چوٹی پرپہنچا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے آسما ن ویسا ہی نظر آیاجیساکہ وہ زمین سے دیکھا کرتاتھا . اس منظر میںذرا بھی تغیّر و تبدیلی نہ تھی ۔
مشہور یہ ہے کہ اس نے مینار پر چڑھ کے کمان میںتیر جوڑا اور آسمان کی طرف پھینکا یاتووہ تیرکسی پرندے کے لگا یاپہلے سے کوئی سازش کی گئی تھی کہ تیر خون آلودہ واپس آتا . تب فرعون وہاں سے نیچے اتر آیااور لوگوں سے کہا :جاؤ مطمئن رہو اور کسی قسم کی فکر نہ کرو میں نے موسٰی کے خداکومارڈالا ہے ( ۲)۔
یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ سادہ لوحوں اوراندھی تقلید کرنے والوں کےایک گروہ نے اوران لوگوں نے جن کی آنکھیں اورکان حکومت وقت کے پرو پیگنڈ ے سے بند ہوگئے تھے ، فرعون کے اس قول کا یقین کرلیا ہوگااور ہرجگہ اس خبر کوعام کیاہوگا اورمصر کی رعایاکو غافل رکھنے کاایک سبب پیدا ہوگیا ہوگا ۔
مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمارت دیرتک قائم نہیں رہی ( اوراسے رہنابھی نہ چاہیئے تھا ) تباہ ہوگئی .بہت سے لوگ اس کے نیچے دب کے مرگئے .اس سلسلے میں اہل قلم نے اوربھی طرح طرح کی داستانیں لکھی ہیں لیکن ان کی صحت کی تحقیق نہ ہوسکی اس لیے انھیں قلم زد کردیاگیا ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ فرعون نے یہ جملہ کہہ کر کہ :
ماعلمت لکم من الہ غیر ی
مجھے تمہارے لیے اپنے سواکی خداکاعلم نہیں
بڑی شیطنت کاثبوت دیاتھا جملے سے ظاہر ہے کہ وہ اپنی الو ہیت کوتو مسلم سمجھتاتھا اورقابل بحث صرف یہ پہلو چھوڑدیاکہ اس کے علاوہ کوئی اور خدا بھی ہے یانہیں ۔
اور چونکہ خدائے برحق کے عدم وجود کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں نہ تھی اس لیے یہاں ایک مغالطہ پیدا کرتا ہے اور اپنے علاوہ کسی اور دوسرے خداکا عدم وجود ثابت کرنے کے لیے ایک بلند بر ج بنانے کا حکم دے کر لوگوں کو توجہ اصل مسئلہ سے ہٹاناچاہتاہے ۔
یہ سب باتیں اس حقیقت کی علامت ہیں کہ وہ معاملے کو خوب سمجھتاتھا مگر مصر کے لوگوں کوبے وقوف بنانے کے لیے اوراپنی پوزیشن بچانے کے لیے بہانوں سے کھیل رہاتھا ۔
اس کے بعد قرآن مجید میںفرعون اوراس کے ساتھیوں کے تکبر اور ان کے مبدا ٴ ومعادسے انکار کاذکر ہے . کیونکہ ان کے تمام گنا ہوں کا سر چشمہ ان ہی دو حقائق کاانکار تھا .چنا نچہ قرآن شریف میںیہ ذکر اس طرح ہے : فرعون اوراس کے فوجیوں نے ناحق زمین پرتکبّر کیا اور خدا کا(جو زمین و آسمان کاپیدا کرنے والا ہے ) انکار کیا . انھوں نے یہ گمان کیاکہ قیامت آنے والی ہے نہیں ہے اوروہ ہمارے پاس لوٹ کرنہیں آئیں گے :
( واستکبر ھو جنودہ فی الارض بغیرالحق و ظنور انھم الینا لایرجعون ) ۔
ایسا انسان ضعیف البنیان جوکسی وقت اوپر سے مچھربھی نہیں اڑا سکتا اورکبھی ایک جراثیم (جو صرف خورد بین ہی سے نظر آتاہے قوی ترین انسان کوتہہ خاک پہنچا دیتاہے ، کیونکہ اپنی ذات پرغرور کرسکتاہے اور اکس طرح الو ہیت کا دعوی کرسکتاہے ؟
مشہور حدیث قدسی میں خدا فرماتاہے :
الکبریاء ردائی والعظمة ازاری ، فمن نازعنی واحد ا منھما القیتہ فی النا
بزرگی میری ردا ہے اورعظمت میرالباس ہے جومیری قامت کبریائی پرسلاہواہے جوشخص ان دوچیزوں میں مجھ سے منازعت کرے گا ، میں اسے دوزخ میںڈال دوں گا ( ۳)۔
ظاہرہے کہ خدا کو توان تو صیفات کی ضرورت نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ انسان کی سر گشی اورعصیان کوشی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنی حقیقت کوبھو ل جاتاہے اور اس کاسر کبرو غرور سے بھر جاتاہے ۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کبرو غرور کا انجام کیاہوا . قرآن میںیوں فرمایاگیا کہ : ہم نے اسے اور اس کے فوجیوں کو پکڑ ا اور دریامیں ڈبودیا :
( فاخذ ناہ وجنودہ فنبذ ناھم فی الیم ) ۔
البتہ وہ در یاجو ان کی حیات کاباعث تھا (یعنی اہل مصر کی معاشی کامدار جس کے پانی اورا س کے سیلاب پرتھا ) ہم نے اسی کو ان کو موت کاسبب بنا دیا . اور دریائے نیل کوجوان کی قدرت اورعظمت کاباعث تھا ، ہم نے اسے ان کاقبر ستان بنا دیا ۔
اس آیت میں کلمہ
” نبذ ناھم “ استعمال ہواہے .اس کامادہ ” نبذ “ ہے ( بروزن ” نبض ) اس کے معنی ہیں ” بے قدر اور بیکار چیزوں کو دور پھینک دینا “ یہاں قرآن کو بلاغت جاذب توجہ ہے کہ ہم نے ان بے قدر اوربیکار چیزوں (فرعون اور اس کے ساتھیوں ) کو دور پھینک دیا اور ز مین کوان کے ناپاک وجود سے پاک کردیا ۔
آیت میں کلمہ
” انظر “ چشم ظاہر کے لیے نہیں بلکہ چشم باطن کے لیے ہے اورکلمہ ” ظالمین “ صرف زمانٴہ ماضی کے سرکشوں کے لیے نہیں بلکہ اس زمانے کے ستمگروں کاانجام یہی ہے ۔
آیت نمبر ۴۱ میںفرمایاگیا ہے : ہم نے ان کوایسا پیشوا بنایا ہے جو آتش دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اورقیامت کے روز کوئی بھی ان کامدد گار نہ ہوگا :
( وجعلنا ھم ائمة یدعون الی النار ویوم القیامة لاینصرون ) ۔
مفسرین کواس آیت کی تفسیر میں یہ مشکل پیش آئی ہے کہ خدا کاکام توخیر کی طرف دعو ت دینا ہے اورایسے امام مقر ر کرنا ہے جو پیشوایان حق ہوں . اس صورت میںیہ کیسے ممکن ہے کہ خد ا ایسے پیشوایان باطل مقرر کرے جو اس کی مخلوق کو آگ کی طرف دعوت دیں ۔
لیکن غور کیاجائے تویہ مشکل لایخل نہیں ہے . کیو نکہ
” ائمہ نار “ دوزخیوں کے پیشواہیں . جس وقت ضالین کے گروہ دوزخ کی طرف کریں گے تو وہ ان کے آگے آگے ہوں گے . نیز جس طرح وہ دنیا میں ” آئمہ ضلال “ تھے آخرت میں بھی دوزخیوں کے پیشواہوں گے کیونکہ وہ جہان اس جہاں کی ایک وسیع ترتجسیم ہے ۔
دو م یہ کہ
” آئمہ ضلال “ خدانہیں بناتابلکہ یہ خود انہی کانتیجہ اعمال ہوگا یہ مسلم ہے کہ ہر علّت کامعلوم اور ہر سبب کامسبب فرمان الہٰی سے ظہور میں آتاہے .چونکہ انھوں نے وہراہ عمل اختیار کی جوامامت ضالین پرمنتہی ہوتی تھی لہذا نتیجتا وہ داعی الی النار ٹھہر ے اوران کی یہ وضع بروز قیامت ہوگی ۔
پھرتاکید مزید کے لیے قرآن میں ، دنیا اور آخر ت میں ان کے چہرے کی کیفیت کویوں بیا ن کیاگیاہے : اس دنیا میں ہم نے ان کے نصیب میںلغت کی ہے اور بروز قیامت ان کے چہرے مکرو ہ وسیاہ ہوں گے ؛
۰ واتبعنا ھم فی ھذہ الدنیا العنة ویوم القیامة ھم من المقبوحین ) (۴)۔
” لغت خدا “ کامطلب ”رحمت الہٰی “ سے محروم ہوناہے اورلعنت فرشتگان و مومنین سے مراد نفریں ہے جو صبح وشام ان پر نازل ہوتی ہے . ظالمین و مستکبر یں کبھی توعام لعنت کے حقدار ٹھہر تے ہیں اورکبھی ان پرخصوصیت سے لعنت و نفریں ہوتی ہے کیونکہ جو آدمی بھی تاریخ میں ان کے حالات پڑ ھتا ہے ان پر لعنت و نفرین بھیجتاہے ۔
بہر حال دنیا کے یہ ند سیرت اس جہان میں بد صورت ہوں گے .کیونکہ وہ دن
” یوم البروز “ ہوگا اوراس رو ز ہر شخص کے حال سے پردہ اٹھ جائے گا ۔

۱۔ یہ موٴ رخین کا طبع زاد فسانہ ہے . موجود قاہرہ کے جنوب میںفرعون کے دارلسطنت کے کھنڈارت موجود ہیں .وہاں اس قسم کی عمارت کاکوئی نشان نہیں ہے ۔
۲۔ اقتباس از تفسیر ابواالفتوح رازی زیر بحث آتات کے ذیل میں ، جلد ۸ ، صفحہ ۴۶۲۔
۳۔ تفسیر توح المعانی ، تفسیر کبیراز فخر رازی ، تفسیر المیزان نیز دیگر تفا سیر ، اس آیت کے متعلق ۔
۴۔ ” مقبوح “ کامادہ ” قبح “ ہے جس کے معنی ہیں ” ز شتی “ اور یہ کہ بعض مفسرین نے جو ” مقبوح “ کے معنی ” دھتکار اہوا “ رسوا یا مغضوب یااور اسی طرح کے لکھے ہیں ، یہ سب تفاسیر مجازی ہیںجسے لزومی ہیںجسے لزومی کہتے ہیں . وگرنہ ” مقبوح “ کے معنی وہی ہیں جوہم نے بیان کیے ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma