فرعون کی آغوش میں :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

اس جگہ سے قرآن مستکبر یں پر مستضعفین کی فتح و غلبہ کوذہن نشین کرانے کے لیے موسٰی اورفرعون کے قصّے کوبالشرح بیان کر تاہے . بالخصوص واقعہ کا وہ حصّہ جس میں حضرت موسٰی (علیه السلام) ضعیف ترین حالات میں تھے اورفرعون قوی تر ین اسباب وشرائط کاحامل تھا ، وضاحت سے بیا ن کیاگیا ہے تاکہ جابروں اور ظالموں کے ارادے پر مشیّت الہٰی کے غلبے آشکار کیاجاسکے .
اس سلسلے میں قرآن شریف میںپہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ ” ہم نے موسٰی کی والدہ کووحی کی کہ موسٰی کو دودھ پلا اورجس وقت تمہیں اس کے بارے میں کچھ خوف ہو تو اسے دریا میںڈال دو : “
( واو حینا الی ام موسٰی ان ارضیعہ فاذاخفت علیہ فالقیہ فی الیم ) . او ر تم اپنے دل میں کسی قسم کاخوف اور ملا ل نہ آنے دینا : ( ولاتخافی ولاتحزنی ) .کیونکہ ہم اسے یقینا تمہارے پاس لوٹادیں گے اور اسے رسولوں میںسے قرار دیں گے : ( انا راد وہ الیک جاعلوہ من المرسلین ) ۔
اس مختصر سی آیت میں دو
” امر “ ہیں دو ” نہی“ ہیں اور دوبشارتیں ہیں . یہ آیت بحیثیت مجموعی خلاصہ ہے ایک پراز واقعات داستان کا،جس کاماحصل یہ ہے :
حکومت فرعون نے بنی اسرائیل کے ہاں جونومولود بیٹے ہوتے تھے انہیں قتل کرنے کاایک وسیع پروگرام بنایاتھا یہاں تک کہ فرعون کی مقر ر کردہ دائیاں بنی اسرائیل کی باردار عورتوں کی نگرانی کرتی رہتی تھیں ۔
ان دائیوں میں سے ایک والدئہ موسٰی کی دوست بن گئی تھی .شکم مادر میں موسٰی کاحمل مخفی رہااوراس کے آثار ظاہر نہ ہوئے جس وقت مادی موسٰی کو یہ احساس ہواکہ بچے کی ولادت کاوقت قریب ہے تو اس نے کسی کو اپنی دوست دائی کو بلانے بھیج.جب وہ آگئی تواس سے کہا . ” میر ے پیٹ میں ایک فرزند ہے آج مجھے تمہاری دوستی او ر محبت کی ضرورت ہے “ ۔
جس وقت حضرت موسٰی پیداہوئے توآپ کی آنکھوں سے ایک خاص نور چمک رہاتھا چنانچہ اسے دیکھ کروہ دایہ کانپنے لگی اور اس کے دل کی گہرائی میں محبت کی ایک بجلی سماگئی ،جس نے اس کے دل میں تمام فضاکو روشن کردیا ۔
یہ دیکھ کر . وہ دایہ مادر موسٰی (علیه السلام) سے مخاطب ہوکر بولی کہ میراخیال تھا کہ حکومت ک دفتر میں میںجاکے اس بچے کے پیداہونے کی خبر دوںتاکہ جلاد آئیں اوراسے قتل کردیں اپنا انعام پالوں .مگر میں کیا کروں کہ میں اپنے دل میں اس نوزائید بچے کی شدید محبت محسوس کرتی ہوں . یہاں تک کہ میں یہ نہیںچاہتی کہ اس کابال بھی بیکا ہو . اس کے اچھی طرح حفاظت کرو . میراخیال ہے کہ آخر کار یہی ہمارا دشمن ہوگا ۔
وہ دایہ مادر موسٰی کے گھر سے باہر نکلی . توحکومت کے بعض جاسوس ں نے اسے دیکھ لیا انھوں نے تہیہ کرلیا کہ وہ گر میںداخل ہوجائیں گے .موسٰی کی بہن نے اپنی ماں کواس خطرے سے آگاہ کردی.ماں یہ سن کے گھبرائی .اس کی سمجھ میں نہ آتاتھا کہ اب کیاکرے ۔
اس شدید پریشانی کے عالم میںجب کہ وہ بالکل حواس باختہ ہورہی تھی ،اسی کوایک کپڑے میں لپیٹا اور تنور میں ڈال دیا . اس دوران میںحکومت کے آدمی آگئے .مگر وہاں انھوں نے روشن تنور کے سواکچھ نہ دیکھا .انھوں نے مادر موسٰی سے تفتیش شروع کردی . پوچھا . دایہ یہاں کیاکر رہی تھی . ؟ موسٰی (علیه السلام) کی ماں نے کہاکہ وہ میری سہیلی ہے مجھے ملنے آئی تھی حکومت کے کارندے مایوس ہوکے واپس ہوگئے ۔
اب موسٰی کی ماں کوہوش آیا .اس نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ بچہ کہاں ہے ؟ اس نے لا علمی کااظہار کیا . ناگہاں تنور کے اندر سے بچے کے رونے کی آواز آئی .اب ماں تنور کی طرف دوڑی .کیا دیکھتی ہے کہ خدانے اس کے لیے آتش تنور کو ” ٹھنڈا اورسلامتی کی جگہ “ بنادیاہے ، وہی خدا جس نے ابراہیم (علیه السلام) کے لیے آتش نمرود کو
” بردو سلام “ بنادیا تھا .اس نے اپنا ہاتھ بڑھا یااور بچے کو صحیح وسالم باہرنکالیا ۔
لیکن بھربھی ماں محفوظ نہ تھی .کیونکہ حکومت کے کارندے دائیں بائیں پھر تے رہتے اورجستجور میںلگے رہتے تھے .کسی بڑے خطرے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ ایک نوازئیدہ بچے کے رو نے کے کی آواز سن لیتے ۔
اس حالت میںخداکے ایک الہا م نے ماں کے قلب کوروشن کردیا . وہ الہام تھاکہ ماں کو بظاہر ایک خطرناک کام پر آمادہ کررہاتھا .مگر پھر بھی ماں اس ارادے سے اپنے دل میں سکون محسوس کرتی تھی ۔
اس نے کہا ” خداکی طرف سے مجھ پر یہ فرض عاید ہواہے .میں اسے ضرور انجام دوں گی “ . اس نے پختہ اراد ہ کرلیا کہ میں اس الہام کو ضرور عملی جامہ پہناؤں گی اوراپنے نوزائیدہ بچے کو دریائے نیل میں ڈال دوں گی ۔
اس نے ایک مصر ی بڑھئی کو تلاش کیا ( وہ بڑھئی قبطی اورفرعون کی قوم میں سے تھا ) ا س نے اس بڑھئی سے درخواست کی کہ میرے لیے ایک چوٹا ساصندوق بنادے ۔
بڑھئی نے پوچھا : جس قسم کاصندوقچہ تم بنواناچاہتی ہواسے کس کام میںلاؤگی ؟
موسٰی کی ماں جودورغ گوئی کی عادی نہ تھی اس نازک مقام پر بھی سچ بولنے سے باز نہ رہی .اس نے کہا : میں بنی اسرائیل کی ایک عورت ہوں . میراایک نوازئید ہ بچہ لڑکا ہے .میں اس بچے کواس صندوق میںچھاپانا چاہتی ہوں ۔
اس قبطی بڑھئی نے اپنے دل میں یہ پختہ ارادہ کرلیا کہ جلادوں کہ یہ خبرپہنچادے گا . وہ تلاش کرکے ان کے کاس پہنچ گیامگر جب وہ انہیں یہ خبر سنانے لگا تواس کے دل پر ایسی وحشت طاری ہوئی کہ اس کی زبا ن بند ہوگئی .وہ صرف ہاتھوں سے اشارے کرتاتھا اور چاہتاتھا کہ ان علامتوں سے انھیں اپنا مطلب سمجھا دے .حکومت کارندوں نے اس کی خرکات دیکھ کریہ سمجھا کہ یہ شخص ہم سے مذاق کر رہاہے . اس لیے اسے مارااور باہر نکال دیا ۔
جیسے ہی وہ اس دفتر سے باہر نکلا اس کے ہوش و حواس بجاہوگئے . وہ پھر جلادوں کے پاس گیا اوراپنی حرکات سے پھر مار کھائی . آخر اس نے یہ سمجھا کہ اس واقعے میںضرور کوئی الہٰی را ز پوشیدہ ہے .چنانچہ اس نے صندوق بناکے حضرت موسٰی (علیه السلام) کی والدہ کو دے دیا ۔
عالباً صبح کاوقت تھا .ابھی اہل مصرمحو خواب تھے. مشرق سے پوپھٹ رہی تھی .ماں اپنے نوازئیدہ بچے اور صندوق کو درمائے نیل کے کنارے لائی .بچے کو آخر ی مرتبہ دودھ پلایا . پھر اسے مخصوص صندوق میں رکھا (جس میں یہ خصوصیت تھی کہ ایک چھوٹی کشتی کی طرح پانی پرتیرسکے ) پھر اس صندوق کونیل کی موجوں کے سپر د کردیا ۔
نیل کی پرشور موجوں نے اس صندو ق کوجلدی ہی ساہل سے دور کردیا . ماں کنارے پرکھڑی دیکھ رہی تھی .معااسے ایسا محسوس ہواکہ اس کادل سینے سے نکل کرموجوں کے اوپر تیر رہاہے . اس وقت ، اگر الطاف الہٰی اس کے دل کو سکون و قرار نہ بخشتا تو یقینا وہ زور زور سے رونے لگتی . اور . بھر سارا راز فاش ہوجاتا ۔
کسی آدمی میںیہ قدرت نہیں ہے کہ ان حساس لمحات میں ماں پرجو گز رہی تھی . الفاظ میں اس کانقشہ کھینچ سکے مگر . ایک فارسی شاعرہ نے کسی حد تک اس منظر کواپنے فصیح اور پر از جذبات اشعار میں مجسّم کیا ہے ۔
۱۔ مادر موسٰی چو موسٰی رابہ نیل
درفگند از گفتئہ ربّ جلیل
۲۔ خود ز ساحل کر وباحسرت نگاہ
گفت کای فرزندخرد بی گناہ !
۳۔ گرفراموشت کند لطف خدای
چون رہی زین کشتی بی ناخدای
۴۔ وحی آمد کاین چہ فکر باطل است
رہرو مااینک اندر منزل است
۵۔ ماگرفتیم آنچہ را انداختی
دست آب از گا ہوارش خوشتر است
۶۔ سطح آب از ہوارش خوشتراست
دایہ اش سیلا ب وموجش مادراست
۷۔ رودھا از خودنہ طغیان می کنند
آنچہ می گوئیم ماآں می کنند
۸۔مابہ دریا حکم طوفان می دھیم
مابہ سیل وموج فرماں می دھیم
۹۔ نقش ہستی نقشی از ایوان مااست
خاک وباد و آب سرگر دان ماست
۱۰ ۔ بہ کہ برگردی بہ مابسپاریش
کی تو از ما دوستر می داریش ( ۱) ۔
۱۔ جب موسٰی کی ماں نے حکم الہٰی کے مطابق موسٰی کودریائے نیل میںڈال دیا ۔
۲۔ وہ ساحل پرکھڑ ی ہوئی حسرت سے دیکھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اے میر ے بے گناہ ننھے بیٹے !
۳۔ اگر لطف الہٰی تیر ے شامل حال نہ ہوتو ، تواس کشتی می کیسے سلامت رہ سکتا ہے جس کاکوئی ناخدانہیں ہے ۔
۴۔ حضرت موسٰی (علیه السلام) کی ماں کواس وقت وحی ہوئی کہ تیر ی یہ کیاخام خیالی ہے . ہمارا مسافر تو سو ئے منز ل رواں ہے ۔
۵۔ تونے جب ا س بچے کو دریامیںڈالا تھا تو ہم نے اسے اسی وقت سنبھال لیا تھا . تونے خداکا ہاتھ دیکھا مگر اسے پہنچا نانہیں ۔
۶۔ اس وقت پانی کی سطح (اس کے لیے ) اس کے کہوارے سے زیادہ راحت بخش ہے دریا کاسیلاب اس کی دایہ گیری کررہا ہے اوراس کی موجیں آغوش مادر بنی ہوئی ہیں ۔
۷۔ دیکھودریاؤں میں ان کے ارادہ اختیار سے طغیانی نہیں آتی .وہ ہمارے حکم کے مطیع ہیں وہ وہی کرتے ہیں جوہمارا امرہوتاہے ۔
۸۔ ہم ہی سمند ر وں کو طوفانی ہونے کاحکم دیتے ہیں اور ہم ہی سیل دریا کو روانی اورامواز بحر کوتلاطم کافرمان بھیجتے ہیں ۔
۹۔ ہستی کانقش ہمارے ایوان کے نقو ش میںسے ایک نقش ہے جوکہ کچھ ہے یہ کا ئنات تو اس کا مشتے از خرواری نمونہ ہے . اورخاک ، پانی ، ہوااور آتش ہمارے ہی اشارے سے متحر ک ہیں ۔
۱۰۔بہتر یہی ہے کہ تو بچے کو ہمارے سپر د کردے اورخود واپس چلی ج. کیونکہ تو اس سے ہم سے زیادہ محبّت نہیں کرتی ۔
یہ منظر تو یہیں ختم ہوتاہے ۔
اب دیکھناچا ہیئے کہ فرعون کے محل میں کیاہورہاتھا ؟
روایات میں مذکورہے کہ فرعون کی ایک اکلوتی بیٹی تھی .وہ ایک سخت بیماری سے شدید تکلیف میںتھی . فرعون نے اس کا بہت کچھ علاج کریا مگر بے سود . اس ن کاہنوں سے پوچھا .انھوں نے کہا : ” اے فرعون ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ اس دریامیںسے ایک آدمی تیر ے محل میںداخل ہوگا . اگراس کے منہ ک یرال اس بیمار کے جسم پر ملی جائے گی تواسے شفاہوجائیگی ۔
چنانچہ فرعون اوراس کی ملکہ آسیہ ایسے واقعے کے انتظار میںتھے کہ اناگہانی ایک روز انھیں ایک صندوق نظر آیا جوموجوں کی سطح پرتیر رہاتھا . فرعون نے حکم دیا کہ سرکاری ملازمین فورا ً دیکھیں کہ یہ صندوق کیساہے اوراسے پانی سے نکال لیں دیکھیں کہ اس میں کیاہے ؟
نوکروں نے وہ عجیب صندوق فرعون کے سامنے لاکے رکھ دیا .کسی کواس کاڈھکناکھولنے کی ہمت نہ ہو ئی . مطابق مشیت الہٰی یہ لازمی تھاکہ حضر ت موسٰی کی نجات کے لیے صندوق کاڈھکنا فرعو ن ہی کے ہاتھ سے کھولاجائے ، چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔
ان دونوں . نے بالخصوص فرعون کی ملکہ کے دل میں اس بچے کی محبت نے گھر کرلیااورجب اس بچے کاآب دہن اس کی لڑکی کے لیے موجب شفا ہوگیا تو یہ محبت اور بھی زیادہ ہوگئی ( ۲)۔
اب ہم پھر قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں اوراس سرگزشت کاخلاصہ قرآن کی زبان سے سنتے ہیں ۔
قرآن میںیہ وقعہ اس طرح مذکورہ ہے کہ : فرعون کے اہل خانہ نے موسٰی کونیل کی موجوں کے اوپر س پکڑ لی. تاکہ وہ ان کادشمن اوران کے لیے باعث اندرہ ہوجائے :
( فالتقطہ ال فرعون لیکون لھم عدوا وحزنا ) ۔
” التقط “ مادہ ” التقاط “ سے مشتق ہے .جس کے وضعی معنٰی ہیں . ” کسی شی کوبغیر تلاش و کوشش پالینا “ اسی وجہ سے اگرانسان کسی گم شدہ چیز کوپالے تواسے ” لقط “ کہتے ہیں ۔
یہ امر بدیہی ہے کہ فرعون کے اہل خانہ نے اس بچے کے قنداقہ ( وہ کپڑا جس میں بچہ کولپیٹتے ہیں ) کواس نیت سے دریا سے نہیں نکالاتھا کہ اپنے جانی دشمن کواپنی گود میں پالیں .بلکہ وہ لوگ بقول ملکہ فرعو ن ، اپنے لیے ایک نور چشم حاصل کرنا ، چاہتے تھے ۔
لیکن انجام کار ایساہی ہوا . علمائے ادب کی اصطلاح میں
” لیکون ‘ ‘ میں جو ” لام “ سابق ہے وہ ” لام “ عاقبت کہلاتاہے نہ کہ ” لام علّت “ اوراس معنٰی و مراد کی تعبیر میںلطافت یہی ہے کہ خدااپنی قدرت کااظہار کرناچاہتاہے کہ وہ کس طرح اس گروہ کو جنہوں نے اپنی تمام قوتیں اوروسائل ، بنی اسرائیل ک یاولاد ذکورہ کوقتل کرنے کے لیے وقف کردیئے تھے ،اس خدمت پرمامور کرے کہ جس بچّے کو نابود کرنے کے لیے انھوں نے یہ پرو گرام بنایاتھا ،اسی کووہ اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں اوراسی کی پرورش کریں ۔
قرآن مجید میں کلمہ
” ال فرعون “ استعمال ہواہے . یہ اس امرکی علامت ہے کہ صندوق موسٰی کوصرف ایک آدمی نے نہیں نکالا ، بلکہ اس کے نکالنے میںخاندان فرعو نکے متعدد افراد شریک تھے .اوریہ عمل اس امر کاشاہد ہے کہ وہ کسی ایسے واقعے کے منتظر تھے ۔
آیت کا اختتام اس آیت پر ہوتا ہے کہ
” مسلمافرعون “ ھامان اوران دونوں کے اہل لشکر خطارکار تھے : -- “
( ان فرعون وھامان وجنود ھما کانوں خاطئین ) ۔
وہ دونوں پرجہت سے خطاکار تھے . اس سے بڑی خطا اورکیا ہوگی کہ انھوں نے حق و عدالت ک راہ سے رو گر دانی کرکے اپنی حکومت کی بنیاد ، ظلم ، جور اورشرک پررکھی تھی .اس سے زیادہ عر یاں خطااورکیا ہوگی کہ انھوں نے ہزار وں بچوں کے سرقلم کردیئے تاکہ
” کلیم اللہ “ کوصفحئہ ہستی سے مٹا دیں مگر خدانے اسے انھیں کے سپرد کیا اورفرمایا :
اپنے اس دشمن کو لو ، اسے پالو او ر بڑا کرو ( ۳) ۔
اس کے بعد کی آیت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس بچّے کی بابت فرعون ،اس کی ملکہ اور دیگر اہل خاندان میں باہم نزاع اور اختلا ف بھی ہوا تھا . کیونکہ قرآن شریف میںیہ بیان ہواہے : فرعو ن کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ میری اورتیری آنکھوں کانور ہے .اسے قتل نہ کرو .ممکن ہے یہ ہمارے لیے نفع بخش ہو یاہم اسے متبنٰی کرلیں
( و قالت امرات فرعون قرّت عین لی ولک لاتقتلو ہ عسٰی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا ) ۔
ایسامعلوم ہوتاہے کہ فرعو ن بچے کے چہرے اوردیگر علامات سے ،من جملہ ا ن کے اسے صندوق میں رکھنے اور دریا ئے نیل میں بہادینے سے یہ سمجھ گیاتھا کہ یہ بنی اسرائیل میںسے کسی کا بچہ ہے ۔
یہ سمجھ کرنا گہاں ، بنی اسرائیل میںسے ایک آدمی کی بغاوت اوراس کی سلطنت کے زوال کا بوس اس کی روح پرمسلّط ہوگیا اور وہ اس امر کاخواہاں ہواکہ اس کا وہ ظالمانہ قانون ، جوبنی اسرائیل کے تمام نوزائیدہ اطفال کے لیے جاری کیاگیا تھا اس بچے پربھی نافذہے ۔
فرعون کے خوشامدی دراریوں اور رشتہ داروں نے بھی اس امرمیںفرعون کی تائید وحمایت کی اور کہا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ایہ بچہ قانون سے مستثنی رہے ۔
لیکن فرعون کی بیوی آسیہ جس کے بطن سے کوئی لڑکانہ تھا اوراس کا پاک دل فرعون کے درباریوں کی مانند نہ تھا ،اس بچے کے لیے محبت کی کان بن گیا تھا .چنا نچہ وہ ان سب کی مخالفت پرآمادہ ہوگئی اور چونکہ اس قسم کے گھر یلواختلافات میںفتح ہمیشہ عورتوں کی ہوئی ہے ، وہ بھی جیت گئی ۔
اگراس گھریلو جھگڑے پر ، دختر فرعون کی شفایابی کے واقعے کابھی اضافہ کرلیا جائے تواس اختلاف باہمی میں آسیہ کی فتح کاامکان روشن تر ہو جاتاہے ۔
مگر آیت کے اخیر میں ایک بہت ہی پر معنٰی فقرہ ہے : ” وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کرہے ہیں “ :
( وھم لایشعرون ) ۔
البتہ وہ بالکل بے خبر تھے کہ خداکاواجب النفوذ فرمان اوراس کی شکست ناپذیر مشیت نے یہ تہیہ کرلیاہے کہ یہ طفل نوزاد انتہائی خطرات میں پرورش پائے .اور کسی آدمی میں بھی ارادہ و مشیت الہٰی سے سر تابی کی وجرائت نہیں ہے ۔
اللہ کی عجیب قدرت
اس چیز کانام قدرت نمائی نہیں ہے کہ خداآسمان و زمین کے لشکر وں کو مامور کرکے کسی پرقوّت اور ظالم قوم کونیست ونابود کردے ۔
بلکہ ... قدرت نمائی یہ ہے کہ ان ہی جباران مستکبر سے یہ کام لے کہ وہ اپنے آپ کوخود ہی . نیست ونابود کر لیں اوران کے دل و دما غ میں ایسے خیالات پیدا ہوجائیں کہ بڑے شوق سے لکڑیاں جمع کریں اورا ن کی آگ میں جل مریں ،اپنے لیے خودہی قید خانہ بنائیں اوراس میں اسیر ہوکے جان دے دیں ،اپنے لیے خود ہی صلیب کھڑی کریں اوراس پرچڑھ مریں ۔
فرعون اوراس کے منداورظالم ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی پیش آی.چنانچہ تمام مراحل میںحضر ت موسٰی (علیه السلام) کی نجات اور پرورش ان ہی کے ہاتھوں سے ہوئی :
حضرت موسٰی (علیه السلام) کی دایہ قبطیوں میںسے تھی ،
صندوق موسٰی کوامواج نیل سے نکالنے اورنجات دینے والے متعلقین فرعون تھے ۔
صندوق کاڈھکنا کھولنے والا خود فرعون یااس کی اہلیہ تھی ۔
اور ... آخر کار فرعون شکن اور مالک غلبہ و اقتدار موسٰی کے لیے امن و آرا م پرورش کی جگہ خود فرعو ن ہی کا محل قرار پایا یہ ہے پرو ردگار عالم خداکی قدرت !
۱۔ پردین اعتصامی کے دیوان سے لئے گئے ہیں
۲۔روایت کایہ حصّہ ابن عباس سے منقول ہے جوتفسیر فخر رازی میں مذکورہ ہے .دوسری روایاات تفسیر ابوالفتاح اورمجمع البیان میںسے لی گئی ہے ۔
۳۔ امام راغب اصفہانی نے مفردات میںلکھا ہے کہ ” خاطی “ اور ” مخطی “ میں یہ فرق ہے کہ ” خاطی “ وہ شخص ہے جو کسی کا م کو اچھی طرح نہ کرسکے او ر ” مخطی “ اپنے کا م کو اچھی طرح کرتاہے مگر اس سے اتفاقا غلطی ہوجاتی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma