چند اہم نکات :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

۱۔ بہشتی انسان کی صفات :

یہ آیت ایک ایسے بہشتی موٴ من کی تصویر کشی کررہی ہیں جوپہلے تواپنے جسمانی نشو ونما پھرعقلی کمال کے مرحلے کوطے کرنے کے بعد پروردگار ِ عالم کی نعمتوں کے شکرانے اور والدین کی طاقت فرسا تکا لیف کاشکریہ ادا کرنے کے مقام پر تک جا پہنچتا ہے ، اپنی لغزشوں سے برمحل توبہ کرتا ہے ، اولاد کی تربیّت سمیت نیک اعمال کی بجا آ واری کا ا ہتمام کرتا ہے اور آخر کا ر فر ما ن الہٰی کی تعمیل کے لیے اس کے آگے سرتسلیم خم کرکے دُنیا وآخرت کی سربلندی حاصل کرلیتا ہے ۔
یہی چیز اس بات کا باعث بن جاتی ہے کہ وہ خدا وندِ عالم گوناگوں نعمتوں اوراس کی رحمت ومغفرت کے دریا میں ہمیشہ مستغرق رہے ، ایک بہشتی انسان کوانہی صفات سے پہچانا جاسکتا ہے ۔

۲۔” وصینا الانسان “ :

( ہم نے انسان کوحکم دیا) کی تعبیراس بات کی طرف اشارہ ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی اِنسانی اصولوں میں سے ایک ہے یہاں تک کہ جولوگ کسِی دین ومذہب کے بھی پابند نہیں ہیں وہ بھی فطری ہدایت کے ذ ریعے اسی اصُول کی پا بندی کرتے ہیں ․ بنابریں جولوگ اس عظیم فریضے کوٹھو کر مار تے ہیں وہ نہ صرف صحیح معنوں میں مُسلمان نہیں ، بلکہ انہیں انسان کہنا بھی مناسب نہیں ہے ۔

۳۔ ” احساناً “ کی تعبیر :

اس بات کو پیشِ نظر رکھتے ہُوئے کہ اس قسم کے مقامات پر نکرہ کا استعمال کسی چیز کی عظمت کو بیان کر نے کے لیے آیا ہے ، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکم الہٰی کے تحت ماں باپ کی خدمت کے بدلے میں عظیم اور برجستہ نیکی انجام دینی چا ہیئے ۔

۴۔ ” اولاد کی پرورش میں ماں کی تکا لیف:

“ کا تفصیلی ذکر ایک تواس وجہ سے ہے کہ وہ تکالیف نہایت واضح اورنمایاں ہوتی ہیں اوردوسر ے اس لیے کہ ماں کی تکا لیف ، باپ کی نسبت زیادہ ا ہمیت کی حامل ہیں ، اسی لیے اسلامی روایات میں بھی ماں کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسُولِ پاک (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم ) کی خدمت ِ حاضر ہوکرعرض کی :
” من ابرّ ؟ قال امک ! قال ثم من ؟ قال امک ! قال ثم من ؟ قال امک ! قال ثم من ؟ قال اباک “۔
” یا رسُول اللہ ! کِس کے ساتھ نیکی گروں ؟
آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ارشاد فرمایا :
اپنی ماں کے ساتھ !
پھو چھا! بھر کس کے ساتھ ؟
فر مایا :
ماں کے ساتھ !
پوچھا ! پھر کس کے ساتھ ؟
آپ نے فر مایا :
جب اس نے چوتھی بارسوال کیاتوآپ (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم)نے فر مایا :
ماں کے ساتھ !
جب اس نے چوتھی بارسوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا :
اپنے باپ کے ساتھ ( 1) ۔
ایک اورروایت میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بوڑھی ماں کواپنے کندھوں پرسوار کرکے خانہ کعبہ کاطواف کروایا اوراسی اثنا مین رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کرآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے عرض کی ۔
” ھل ا دیت حقّھا “
” حضور ! کیا اس طرح سے میں نے اپنی والدہ کاحق ادا کردیا ہے “؟
آپ (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم )نے ارشاد فرمایا :
” لا ، ولا بز فرة واحدة “۔
” ہرگز نہیں ، تم نے توابھی ایک سانس کاحق بھی ادا نہیں کیا “ ( ۲) ۔

۵۔ ” قرآنی آیات میں خاندانی رشتے :

والدین کے احترام واکرام اوراولادکی تربیّت کوزبر دست ا ہمیّت دی گئی ہے اورمذ کورہ بالا آیات میں ان سب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ، یہ اس لیے کہ عظیم انسانی معاشرہ خاندان کی مختلف اورچھوٹی چھوٹی اکائیوں سے تشکیل پاتا ہے ، جس طرح ایک عظیم عمار ت کئی چھوٹے چھوٹے بڑے کمروں سے اور کمر ے مختلف پتھروں اوراینٹوںسے وجود میں آ تے ہیں ۔
ظا ہر سی بات ہے کہ ان چھوٹی اکائیوں میں با ہمی وحدت اوراستحکام جتنا زیادہ ہوگا اسی قدر معاشر ے کی بنیادیں مستحکم ترہوں گی ، ہمار ے صنعتی دور کے معاشرے کی بتا ہی کے اسباب میں سے ایک سبب خاندانی نظام کا بگاڑ ہے کیونکہ تو اولاد اپنے والدین کا احترام کرتی ہے، نہ ہی والدین کواپنی اولاد سے شفقت کا احساسِ ہے اور نہ ہی میاں بیوی کے ما بین مہر ومحبت کاحقیقی رابط ہے ۔
آج کے صنعتی معاشرے میں بڑ ے بو ڑھوں کے لیے جداگانہ آرام گاہیں ، جن میں ضعیف اور کمز ور والدین قیام پذیرہوتے ہیں ،نہایت ہی دردناک مناظر پیش کرتی ہیں کیونکہ کہ ان قیام گاہوں میں ایسے لوگ اقامت گزیںہوتے ہیں جوکسی کام کے نہیں رہتے اورخاندان والے انہیں وہیں چھو ڑ آتے ہیں ۔
وہ زن ومرد جوایک طویل مرصہ معاشرے کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں اوراپنی اولاد کومعاشر ے کی خدمت کے لیے وقف کرچکے ہیں ہوتے ہیں جب انہیں اپنی اولاد کی مہر و محبت کی ضرورت ہوتی ہے اوران کی امداد کے محتاج ہوتے ہیں توانہیں بُری طرح دھتکا ر دیاجاتا ہے اوروہ وہیں پرموت کے انتظا ر میں اپنی زندگی کے باقی دن پُور ے کرت رہتے ہیں ، ان کی آنکھیں ہمیشہ دروازے پرلگی رہتی ہیں کہ شاید کوئی واقف کار یہاں پر آجا تے اورایسا اتفاق سال بھر میں شاید ایک یادو مرتبہ ہی ہوتا ہے کہ کوئی دوست یاواقف شخص بھُولے سے وہاں چلاجاتا ہے ۔
سچ مچ جب انسان اس قسم کی زندگی کاتصوّر کرتا ہے تو اسی وقت جینا اس کے لیے دوبھر ہوجاتا ہے اورصرف مادی اورایمان ومذہب سے عاری ” مہذب“ دُنیا کے را ہ ورسم ایسے ہی ہوتے ہیں ۔
۶۔ ” ان اعمل صالحاً ترضا ہ “کا مفہوم :” احسن ماعملوا “ کوبیان کر رہا ہے کہ نیک اعمال ایسی چیز ہوتے ہیں جوخدا وندِ عالم کی رضا اورخوشنودی کا موجب ہوتے اور ” احسن ماعملوا “ بہتر ین کام جوانجام دیئے ہیں کی تعبیر قرآن مجیدکی متعدد آیات میں آچکی ہے اور یہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ خداوند عالم کا بے حساب فضل وکرم ، بندوں سے اجرو ثواب کے موقع پر ان کے بہترین اعمال کومعیار قراردیتا ہے اور سب اعمال اسی حساب سے قبول کرتا ہے ۔
1۔تفسیر روح المعانی، جلد۲۶، صفحہ ۱۶۔
2۔فی ظلال القرآن ، جلد۷، صفحہ ۴۱۵۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma