سب تیر ے لیے سرگر داں اور تیر ے زیرِ فرمان ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
گزشتہ آ یات میں آ یات الہٰی کی عظمت کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی ، زیرتفسیر آ یات بھی اس موضوع پر گفتگو کر رہی ہیں ، ارشاد ہوتاہے : یہ قرآن مجید سبب ِ ہدایت ہے (ہذا ہُدیً ) ۔
حق کو باطل سے جدا کرتاہے ، انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کواُجا گر کرتاہے ، راہ حق کے راہیوں کاہاتھ پکڑ کرانہیں منزل مقصود تک پہنچا تاہے ، لیکن جن لوگوں نے اپنے پیرو کار کی آیتوں کاانکار کیا ہے ، ان کے لیے سخت اور درد ناک عذا ب ہے (وَ الَّذینَ کَفَرُوا بِآیاتِ رَبِّہِمْ لَہُمْ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ اٴَلیمٌ ) ۔
کتاب مفرادت میںراغب کے بقول ” رجز“ (بروزن ” حرص “ ) کااصلی معنی اضطراب ، لرزہ اور بد نظمی ہے ، خاص کر جب اُونٹ بیمار ہوتاہے توزبردست کمزور ی کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے اور غیر منظم قدم اٹھاتا ہے ، ایسی حالت کوعرب اپنی زبان میں ” رجز “ کہتے ہیں ۔
طاعون کی بیماری سخت مصیبت یازبردست برف باری اور ژالہ باری کو ” رجز “ کہتے ہیں، اِس طرح شیطانی وسو سوں وغیرہ پر بھی اس کلمہ کااطلاق ہوتا ہے ۔، کیونکہ یہ سب ا ضطراب وبے چینی ، تزلزل اور بد نظمی کاباعث ہوتے ہیں اور اگر جنگی اشعار کو ” رجز “ ( بر وزن ” عرض ‘ ‘ )کہتے ہیں تواس کی وجہ یہ ہے کہ ان اشعار کے مقطع چھوٹے اورقریب ہوتے ہیں ( یاپھر دشمن کے پیکر میں تزلزل اوراضطراب پیدا ہو نے کی وجہ سے کہتے ہیں ۔
پھر سلسلہٴ گفتگو کوتوحید کی بحث کی جانب موڑ دیاگیا ہے ، اس سُورت کی ابتدائی آیات میں بھی اسی ضمن میں گفتگو موجُود ہے مشرکین کوتوحید اور خدا شناسی کے موثر درس دیئے گئے ہیں ۔
کبھی قرآن ان کے احساسات کوجھنجوڑ تے ہو تے کہتاہے : خداہی تو ہے ، جس نے د ریاکو تمہار ے لیے مسخر کردیاتا کہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور اس کے فضل سے تم اپناحِصّہ حاصل کرو ، شاید کہ اس کی نعمتوں کاشکر بجالاؤ (اللَّہُ الَّذی سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فیہِ بِاٴَمْرِہِ وَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِہِ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ) ۔
کس ذات نے بحر ی جہازوں اورکشتیوں میں یہ خاصیّت خلق فرمائی ہے کہ وہ پانی میں ڈو بتی نہیں ہیں اور کس نے ان کی حرکت کے لیے پانی کوایسانرم بنایاہے کہ وہ آ رام سے اس پرچلتی رہتی ہیں اور کس نے ہواؤں کوحکم دیا ہے کہ وہ منظم صُورت میں سمندر وں کی سطح پرچلتی رہیں اور کشتیوں کواس پر رواں دواں رکھیں ( یاکس نے بخارات کی طاقت کوہواؤں کاجانشیں بنایا ہے ، تاکہ وہ ان عظیم جہازوں کو بڑ ی تیزی کے ساتھ جاری وساری رکھیں ؟
ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ اورموجود ہ دور میں انسان کے وسائل کی حمل ونقل کاعظیم ترین اوراہم ترین ذریعہ چھوٹی بڑی اور غول پیکرکشتیاں اور بحر ی جہاز ہیں جوسالہ بھر لاکھوں انسانوں اوران سے زیادہ تجارتی مال کو دنیا کے دور دراز ترین علاقوں سے دوسر ی جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں ، بلکہ بعض بحری جہاز تو ایسے بھی ہیں جوایک چھوٹے سے شہر جتنی وسعت اور آبادی کے حامل ہوتے ہیں اور تمام قسم کے وسائل اور ہرقسم کی چیزیں اُن میں موجود ہوتی ہیں ۔
یقینا اگر یہ تینوں طاقتیں موجود نہ ہو تیں تو انسان اپنی دوسری معمول کی سوار یوں کے ذریعے حمل ونقل کی مشکلات کوکس طرح حل کر سکتا ؟ ہرچند ک دوسر ے ذرائع آمد ورفت بھی اس کی نعمت ہیں اوراپنی اپنی جگہ پرمفید ہیں ۔
پھر یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ سُورہٴ ابراہیم علیہ السلام کی بتیسویں آ یت میں فر مایا گیاہے :
”وَ سَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاٴَمْرِہِ “
” کشتیوں کوتمہار ے تابع فرمان کردیاہے اس کے حکم کے مطابق دریامیں چلتی رہیں “۔
لیکن یہاں پر فر مایاگیاہے : ” دریا کو تمہارے تابع فرمان بنادیاہے اس میں کشتیاں چلتی رہیں “ کیونکہ وہاں پرزیادہ نظر تسخیر پر ہے ،لہذا اس کے فوراً بعد فرمایاگیا ہے :
”وَ سَخَّرَ لَکُمُ الْاٴَنْہار “
” اوراس نے نہروں کوبھی تمہار ے لیے مسخر کردیاہے “۔
لیکن یہاں پرکشتیوں کی تسخیر پیش نظر ہے ، صُورت حال خواہ کچُھ ہو دونوں چیزیں حکم ِ خداکے مطابق انسان کے لیے مسخر اوراس کے تابع ہیں اور اس کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہیں ۔
اس تسخیر کامقصد یہ ہے کہ تم ” فضل خداوند ی سے اپنا حِصّہ پاؤ “ کیونکہ اس قسم کی تعبیر عام طورپر تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے ، البتہ مسافرین کی نقل وحرکت اورانہیں ایک جگہ سے دوسر ی جگہ پہنچانے کی تعبیر بھی اس میں پائی جاتی ہے ۔
اور خدا وند تعالیٰ کے فضل سے بہرہ بر داری کااصل مقصد یہ ہے کہ انسان کے احساس شکر گزاری کو متحرک کیاجاسکے اوراس کے تمام احساسات کوایک جگہ مر تکز کیاجاسکے تا کہ اس طرح سے انسان ” معرفة اللہ “ کی راہوں کوطے کرسکے ۔
در یا ؤں ،کشتیوں اوران کے فائد وں اور برکتوں کی بیشتر وضاحت کے لیے تفسیر نمونہ کی گیار ہویں جلد سورہٴ نحل کی ۱۴ ویں آ یت کی تفسیر کامطالعہ فرمائیں ۔
کشتیاں اور بحر ی جہاز ایسی نعمت ہیں جوانسان کی روز مرّہ کی زندگی سے زیادہ قریب کاتعلق رکھتی ہے . اس کے ذکر کے بعد تمام مخلوق کی تسخیر کو کلی طورپر بیان فر ماتے ہُوئے کہتاہے : اورجوکچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچُھ زمینوں میں ہے سب کواپنی طرف سے تمہار ے لیے مسخر کردیاہے (وَ سَخَّرَ لَکُمْ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ جَمیعاً مِنْہ) (۱) ۔
بعض مفسرین نے ایک اوراحتمال بھی ذکر کیاہے اوروہ یہ ہے کہ یہ جملہ ” ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْض“ کی تاکید ہے ۔
اس نے تمہیں اس قدر حیثیت ،قدر وقیمت اور عظمت عطافر مائی ہے کہ کائنات کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی ہیں اور وہ تمہار ے مفادات کی نگرانی کررہی ہیں .آ فتاب اور ماہتاب ، باد اور باران ،پہا ڑ اور درّے ، جنگل اور صحرا ، درخت اور حیوان ، معد نیات اور زیر ِ زمین ذ خائر غرض اس کائنات کی تمام چیزوں کواس نے تمہار ی خدمت کے لیے وقف کررکھا ہے اورہر چیز کوتمہار ے زیر فر مان کردیا ہے تاکہ تم اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ اور غفلت کاشکار نہ ہو جاؤ ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ وہ فرماتاہے : ” جمیعاً منہ “ یہ تمام چیزیں خصوصیات اوراختلاف کے باوجُود اسی ذات کی پیدا کردہ ہیں اوراسی کے زیر فرمان تمہار ی خدمت کے لیے حاضرہیں ۔
جب تمام نعمتیں اس کی جانب سے ہیں اور ساری کائنات کی خالق ، مدبر اور پر وردگار اسی کی ذات پاک ہے توپھر انسان دوسروں کے پیچھے کیوں جائے اوراپنا سرضعیف مخلوق کے آستانے پرکیوں جھکائے اور منعم حقیقی کی معرفت سے کیوں غافل ہو ؟
اسی لیے آ یت کے آخر میں فرمایاگیاہے : اس میں اہل فکر کے لیے اہم نشایاں ہیں (إِنَّ فی ذلِکَ لَآیاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون) ۔
پہلی آ یت میں انسانی احساسات سے استفادہ کیاگیاہے اوراس آ یت میں ان کے عقول وافکار سے کام لیاگیا ہے ۔
کیونکہ خداوند مہربا ن ہرممکنہ زبان کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ باتیں کرتا ہے ،کبھی تودل کی زبان کے ساتھ عقل وفکری زبان کے ساتھ ، ان سب میں سوائے ایک ہدف کے اور کچھ بھی مطلوب ومقصُود نہیں اوروہ ہے غافل انسانوں کی بیداری اورانہیں خدائی راستے پر گامزن کرنا ۔
کائنات کی مختلف موجودات کی تسخیر کے بارے میں تفسیرنمونہ جلد دہم میں سُورہٴ ابراہیم کی آ یات ۳۱ تا ۳۳ کی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے ۔
پھر کفّار کے ساتھ میل جُول کے موقع پر مومنین کوایک اخلا قی سبق دیاجارہاہے تاکہ سابق منطقی بحثوں کواس کے ذریعے سے پایہٴ تکمیل تک پہنچا یاجائے .اسی لیے روئے سخن پیغمبر ِ السلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے : مومنین سے کہہ دے کہ جولوگ خداکے دنوں ( روز ِ قیامت )کی توقع نہیں رکھتے ، ان سے در گز رکریں اور سخت گیری سے کام نہ لیں (قُلْ لِلَّذینَ آمَنُوا یَغْفِرُوا لِلَّذینَ لا یَرْجُونَ اٴَیَّامَ اللَّہِ ) ۔
ممکن ہے کہ وہ ایمان اور خدائی تربیّت کی مباد یات سے دُور ہونے کی وجہ سے سخت اورنا مناسب روش اپنائے ہوئے ہوں اس لیے غلط الفاظ استعمال کرتے ہوں ،لہذا تمہارا فرض بنتا ہے کہ تم اپنی طرف سے عظمت کاثبوت دو اور کھلے دل کے ساتھ ایسے لوگوں سے ملاپ رکھو ، مباداان کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہو اورحق سے ان کا فاصلہ بڑ ھتاجائے .تمہار ی طرف سے حسن خلق اور کھلے دل کے ساتھ میل ملاپ کامظاہرہ ایک توان کے دباؤ میں کمی کردے گا اور دوسر ے ممکن ہے کہ ان کی ایمان کی طرف کشش کاموجب بن جائے ۔
اس طرح کاحکم قرآن مجیدمیں کئی مرتبہ آ یاہے ، مثلاً سُورہ ٴ زخرف آیت ۸۹ میں ہے ۔
’ ’ فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَ قُلْ سَلامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُون“
ان سے چشم پوشی کیجیے ٴ اور کہہ دیجیےٴ ” سلام ہوتو پر ، لیکن بہت جلد وہ اپنا انجام جان لیں گے “۔
اصو لی طورپر بے سمجھ لوگوں کے ساتھ سختی کابرتاؤ اورسزا پراصرار ،عام طورپر کسی خاطرخواہ نتیجے کاباعث نہیں بن سکتا اوران سے بے پرواہی اور عظمت کامظاہرہ ہی انہیں بیدار کرنے کا ذ ریعہ اورہدیت کاعامل بنتا ہے ۔
البتہ یہ کوئی کلیہ قاعدہ نہیں ہے ، کیوں کہ اس بات سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا ہے کہ کچھ مقام ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں پر سختی اور سزا کے سوا کوئی اور چارہٴ کار نہیں ہوتا، لیکن ایسااتفاق کم ہوتاہے ۔
ایک نُکتہ یہ بھی ہے کہ ویسے توتمام دن خدا کے دن ہوتے ہیں لیکن ” ایام اللہ “ کااطلاق خاص دنوں پر ہوتاہے ،کیونکہ یہ ان کی اہمیّت اور عظمت کی علامت ہے ۔
اس قسم کی تعبیر قرآن مجیدمیں دو مقام پر آ ئی ہے ، ایک تواسی آ یت میں اور دوسرے سُورہٴ ابراہیم میں ، جہاں اس کے وسیع معانی ہیں ۔
احادیث میں ” ایام اللہ “ کی تفسیر میںمختلف دنوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، ان میں سے علی بن ابراہیم کی تفسیر میں مذ کور ہے کہ ” ایام اللہ “ سے تین روز مراد ہیں ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا دن ، موت کادن اورقیامت کادن ( ۲)
ایک حدیث پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ۔
” ایام اللہ نعمائہ وبلا ئہ ببلا ئہ سبحانہ “۔
” ایام اللہ “ خدا کی نعمتوں کے دن ہیں اوراس کی طرف سے آ زمائش ابتلا ؤں کے ذ ریعے ہوتی ہے ( ۳) ۔
بہرحا ل یہ تعبیر روز قیامت کی اہمیّت کی علامت ہے ، خدا وند عالم کی آشکار اورواضح صورت میں ہر چیزاورہر شخص پر حاکمیت کادن ، عظیم عدل وانصاف کادن ۔
تاکہ اس قسم کے لوگ اس عظمت اور عفو و درگزر سے ناجائز فائدہ اٹھائیں ، اس لیے آ یت کے آخر میں فر مایاگیاہے : تاکہ خداوند عالم اس دن ہرقوم کواس کے ان اعمال کی جزا دے جووہ انجام دیتی رہی ہے (لِیَجْزِیَ قَوْماً بِما کانُوا یَکْسِبُون) ۔
کچھ مفسرین نے اس جُملے کوکفّار اورمجرمین کے لیے ایک قسم کی دھمکی مراد لیاہے جبکہ بعض نے اسے مومنین کے عفو و در گزر کی جزا ء کے معنوں میں لیاہے ۔
لیکن اس بات سے کوئی چیزمانع نہیں ہے کہ یہ کفار کے لیے دھمکی اور مومنین کے لیے خوشخبری ہو، جیساکہ بعد کی آ یت کی جزا کے معنو ں میں لیاہے ۔
ارشاد فر مایاگیا ہے : جوشخص نیک کام کرتاہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے کرتا ہے اور بُرا کام کرتاہے تواس کاو بال اسی پر ہوگا، پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے اوراپنے اعمال کانتیجہ پالو گے (مَنْ عَمِلَ صالِحاً فَلِنَفْسِہِ وَ مَنْ اٴَساء َ فَعَلَیْہا ثُمَّ إِلی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ ) ۔
یہ تعبیر جوقرآنی آ یات میں کئی بار ذکرہوئی ہے اور مختلف عبارتوں کے ساتھ بیان ہوئی ہے اُن لوگوں کاجواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمار ی اطاعت یانا فرمانی خداکو کیانفع یانقصان پہنچا سکتی ہے اوراس کی اطاعت یامعصیت سے نہی پر اصر ار کے کیا معنی ہیں ؟
یہ آ یت کہتی ہے کہ یہ سب نفع یانقصان تمہارے ہی لیے ہے اور تم ہی اپنے اعمال صالحہ کے پر تو میں ارتقائی مراحل طے کرو گے اورقربِ الہٰی کے آسمان تک پرواز کرو گے ،یاجرم وگناہ کے نتیجے میںپستی میں جاگر وگے اور غضب ِ الہٰی کے گڑھوں اور رحمتِ خداوند ی کے بعد اس کی ابدی لعنت کی تھاہ گہرائیوںمیں جاگروگے ۔
ادائے فرض کے تمام پر وگرام ، انبیاء کی بعثت اور کتا بوں کانزُول بھی اسی لیے ہے .اسی لیے قرآن مجید ایک جگہ پرفر ماتاہے ۔
”وَ مَنْ یَشْکُرْ فَإِنَّما یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَ مَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمیدٌ “
” جوشخص شکر بجا لاتاہے اپنے فائدہ ہی کے لیے شکرگز اری کرتاہے اور جوشخص کفر کرتاہے توخد ا غنی وحمید ہے (لقمان /۱۲) ۔
ایک اور جگہ پرفر مایاگیاہے :
”فَمَنِ اہْتَدی فَلِنَفْسِہِ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّما یَضِلُّ عَلَیْہا “
” جوشخص ہدایت حاصل کرتاہے اپنے ہی فائدہ کے لیے کر تاہے اور جوگمراہی اختیار کرتاہے ،اس کا نقصان بھی اسے ہی ہوگا “ ( زمر /۴۱) ۔
ایک اورمقام پر ہے :
” وَ مَنْ تَزَکَّی فَإِنَّما یَتَزَکَّی لِنَفْسِہِ وَ إِلَی اللَّہِ الْمَصیرُ“
” جو شخص پاکیزہ گی اپناتاہے اپنے ہی فائدے کے لیے اپناتاہے اور سب لوگوں کی بازگشت خداہی کے طرف ہے “ ( فاطر / ۱۸) ۔
خلاصہ یہ کہ اس قسم کی تعبیر یں اس حقیقت کوواضح کرتی ہیں کہ ” خداکی طرف بلانے والے افراد “ کی دعوت ، ہرپہلو سے انسانیت کی ایک عظیم خدمت ہے نہ کہ خدا کی ، جو ہرچیز سے بے نیاز اور نہ ہی خودانبیاء کی خدمت ہوتی ہے ،کیونکہ ان کا اجر توصرف خداکے پاس ہے ۔
اس حقیقت کی طرف توجہ ، اطاعت الہٰی کی طرف اقدام اور گناہوں سے پر ہیز کاایک نہایت موٴ ثر عامل ہے ۔
۱۔” جَمیعاً مِنْہ“ کے اعراب اور اس کی ترکیب میں متعد داحتمال مِلتے ہیں .زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں دواحتمال ذکر کیے ہیں ، پہلا یہ کہ ” جَمیعاً مِنْہ“ ” ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْض“ کاحال واقع ہورہاہے .یعنی یہ سب کچھ تمہار ے لیے مسخر ہے ، حالا نکہ اُسی کی طرف سے ہے دوسرایہ کہ مبتدا محذوف کی خبر ہے جو تقد یری صورت میں یوں ہے ” ھیجَمیعاً مِنْہ “ ۔
۲۔ تفسیر نورالثلقین ،جلد ۲،ص ۵۲۶۔
۳۔ تفسیر نورالثلقین ،جلد ۲،ص ۵۲۶۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma