گناھگار جھوٹے پر پھٹکار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گزشتہ آیات سے معلوم ہوتاتھا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جوخدا کے کلام کومختلف توحید ی دلائل اور وعظ ونصیحت کے ساتھ سنتے توہیں لیکن ان کے دِل پران کاکوئی اثر نہیں ہوتا ۔
زیرتفسیر آ یات میں ایسے لوگوں سے متعلق اوران کے انجام کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہو رہی ہے .سب سے پہلے ارشاد ہوتاہے : ہرجُھوٹے گناہگار پرافسُوس ہے (وَیْلٌ لِکُلِّ اٴَفَّاکٍ اٴَثیمٍ) ۔
” افّاک “ مبالغے کاصیغہ ہے اورایسے شخص کے معنی میں ہے جوبہت جُھوٹ بولتاہے اور کبھی بڑے جُھوٹ کے معنی میں بھی آ تاہے ہرچند کہ زیادہ نہ ہو ۔
” اثیم “ ”اثم “ کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی ہے مجرم اور گنا ہگار . یہ لفظ بھی مبالغے کامعنی دیتاہے ۔
ان آ یات سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ آیاتِ الہٰی کے مقابلے میںمعاد ندانہ ردِّ عمل ان لوگوں کاکام ہوتا جوسر سے پاؤں تک گناہوں میں غرق اورجُھوٹ سے آلودہ ہوتے ہیں ، نہ کہ پاک طینت اور نیک سیرت لوگوں گا ۔
پھران کی معاند انہ روش کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے قرآن کہتاہے : اس پرخدا کی آ یات مسلسل پڑھی جاتی ہیں اوروہ انہیں سُنتا رہتاہے پھر وہ غرور کے باعث مخالفت پراڑارہتاہے گویااس نے ان کوسُناہی نہیں(یَسْمَعُ آیاتِ اللَّہِ تُتْلی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِراً کَاٴَنْ لَمْ یَسْمَعْہا) (۱) ۔
اس طرح سے گناہ ،جھوٹ تکبر اور خو دپسند ی اس بات کاسبب بن جاتی ہے کہ وہ ان آ یات کوآن سُنا کردے اورخود کوبہرابنادے ،جیساکہ سُور ہ ٴ لقمان کی آ یت ۷ میں بھی بیان ہوا ہے : کہ
”وَ إِذا تُتْلی عَلَیْہِ آیاتُنا وَلَّی مُسْتَکْبِراً کَاٴَنْ لَمْ یَسْمَعْہا کَاٴَنَّ فی اٴُذُنَیْہِ وَقْراً “
” جب اسے ہمار ی آ یات سنائی جاتی ہیں مستکبر ین کراُن سے رو گردانی کرلیتاہے گویااس نے کچھ نہیں سنا ، گو یااس کے کان بالکل بہرے ہیں “۔
زیرتفسیر آ یت کے آخر میں انہیں زبردست تہدید کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے : ایسے شخص کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دے (فَبَشِّرْہُ بِعَذابٍ اٴَلیمٍ) ۔
جس طرح اس نے رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے دلوں کودکھایا ہے اسی طرح ہم بھی اسے دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے ، کیونکہ قیامت کاعذاب دُنیا میں انسان کے اعمال کاتجّم ہے ، یعنی دُنیا میں انجام دیئے ہوئے اعمال آخرت میں مجسّم ہوکر سامنے آ جائیں گے ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے اس آ یت اوراس کے بعد کی آ یت کی شانِ نزُول ذکر کرتے ہوئے انہیں ابوجہل یانصر بن حارث کی طرف اشارہ سمجھاہے جو عجمیوں کے افسانوں اورداستانوں کواکٹھا کرکے لوگوں کوسنایا کرتے تھے تاکہ اس طرح سے وہ انہیں ایسے ہی قصّے کہانیوں کے ساتھ بہلائے پھسلائے رہیں اور آ ئین ِ حق سے منحرف کیے رکھیں ،لیکن ظاہرسی بات ہے کہ یہ صرف انہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، بلکہ ہردور کے تمام جُھوٹے مجرمین اور مستکبرین کے بارے میں ، وہ لوگ جوآ یات ِ الہٰی خدائی انبیاٴ اورعظیم پیشواؤں سے سُنی ہو ئی باتوں کوان سُنی کردیتے ہیں ، کیونکہ ایسی باتیں انکی نفسانی خواہشات اورمیلانات سے میل نہیں کھا تیں اوران کے شیطا نی افکاران کی تائید نہیں کرتے ، ان کی غلط رسُوم وعا دات اوراندھی تقلید کے موافق نہیں ہیں ، جی ہاں ! ایسے سب لوگوں کے درد ناک عذاب کی خوشخبر ی سُنا دیجئے ۔
اگر چہ ” عذا ب “ کی ”بشارت “ (خوشخبر ی ) سے مناسبت نہیں ہے ، لیکن یہ تعبیرایسے لوگوں کی توہین ،تحقیر اور تمسخر کیلئیے استعما ل ہوتی ہے ۔
پھرفر مایا گیاہے : جب یہ ہٹ دھرم مستکبر ہمار ی آیات میں سے کسی آ یت سے واقف ہوجاتاہے اوراسے جان لیتاہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے (وَ إِذا عَلِمَ مِنْ آیاتِنا شَیْئاً اتَّخَذَہا ہُزُوا) (۲) ۔
درحقیقت ان خود غرض جاہلوں کی دوحالتیں ہوا کرتی ہیں ،پہلی تویہ کہ وہ زیادہ خداکی آ یات کے سُنتے ہیں لیکن سُنی ان سُنی کردیتے ہیں ، بڑ ی بے پرواہی سے گز رجاتے ہیں گو یاانہوں نے کُچھ سُناہی نہیں دوسری یہ کہ اگر سنتے بھی ہیں اوران کی طرف توجہ بھی دیتے ہیں اوراس پر اپنے ردّ عمل کااظہار بھی کرتے ہیں تویہی کہ ان کامذاق اڑاتے ہیں اورمسخر ہ بازی سے کام لیتے ہیں وہ سب لوگ ان دونوں کاموں میں شریک ہیں ، کبھی وہ اور کبھی یہ ،( اِسی لیے اس آ یت میں اور اس سے پہلی آ یت میں کسی قسم کا تضاد نہیں پایاجاتا ) ۔
پھراہم بات یہ ہے کہ پہلے فر مایاگیاہے کہ ” اگرہمار ی آ یات میں سے کسِی سے واقف ہوجاتاہے “ لیکن بعد میں یہ نہیں فرمایا کہ جسے جان چکا ہے اس کااستہزاء کرتاہے ، بلکہ فر مایاگیاہے کہ ہمار ی سب آ یات کا ( خواہ انہیں جان چکا ہے یانہیں ) مذا ق اڑاتاہے ۔
جبکہ یہ جہالت اور بے علمی کی انتہائی ہے کہ انسان کسی ایسی چیز کاانکار کرے یااس کامذاق اڑائے جِسے وہ سر ے سے نہیں سمجھتا اوریہ ان کی ہٹ دھرمی اور عناد کی بہت بڑی دلیل ہے ۔
آ یت کے آخر میں ایسے لوگوں کی سزا کو ان لفظوں میں بیان فرمایاگیاہے ہے : ان کے لیے ذلیل و خوار کر نے والا عذاب ہے (اٴُولئِکَ لَہُمْ عَذابٌ مُہینٌ ) ۔
ایسا کیوں نہیں ہوجبکہ وہ آ یات ِ الہٰی کامذاق اڑا کراپنی شخصیّت اورمقام ومنزلت بنانا چاہتے ہیں ،لیکن خداتعالیٰ انہیں اس کا م کی سزا دے کرا نہیں ذلیل وخوار اور پست و بے قیمت کردے گا ، انہیں ایسے رسواکُن اورتحقیر آمیز طریقے پرعذابِ قیامت میںگرفتار کرے گا کہ انہیں مُنہ کے بل زمین پرگھسیٹا جائے گا اورعذاب کے فرشتے طوق وزنجیر پہنا کراور ملامت وسرزش کرتے ہُوئے جہنّم میں لے جائیں گے ۔
یہیں پر یہ بات بھی اچھی طر ح سے واضح ہو جاتی ہے کہ گزشتہ آ یت میں عذاب کی صفت ” الیم “ اوراس آ یت میں ” مھین “ اور بعد کی آ یت میں ” عظیم“ کیوں بیان کی گئی ہے ؟ درحقیقت ان میں سے ہر صت ان کے گناہوں کی کیفیت سے مناسبت رکھتی ہے ۔
بعد کی آ یت اس ” عذاب مھین “ کی یوں تشریح کرتی ہے : اور جہنم ان کے پیچھے ہی پیچھے ہے (مِنْ وَرائِہِمْ جَہَنَّمُ ) ۔
” پیچھے ہی پیچھے “ کی تعبیر کیوں اختیار کی گئی ہے حالانکہ جہنم تو ان کے آگے آگے ہوگی اوروہ آگے جاکر ہی وہاں پہنچیں گے ؟ ممکن ہے یہ اس لحاظ سے ہو کہ وہ دُنیا کی طرف مُنہ کرکے آخر ت اور خدا کے عذاب کوپسِ پشت ڈال چکے ہیں، ایسے موقع پر اس قسم کی تعبیر عام طورپر استعمال ہوا کرتی ہے ، جب انسان کسی چیز سے بے اعتنائی کرتاہے توکہتے ہیں وہ اسے پسِ پشت ڈال چکاہے ، قرآن مجید بھی سُور ہ ٴ دھرکی آ یت ۲۷ میں فر ماتاہے :
”إِنَّ ہؤُلاء ِ یُحِبُّونَ الْعاجِلَةَ وَ یَذَرُونَ وَراء َہُمْ یَوْماً ثَقیلاً“
’ ’ وہ لوگ دُنیا کی ز ود گزر زندگی کوپسند کرتے ہیں اوراس سنگین دن کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں “ ۔
کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ ” وراء “ کہاجاتا ہے اور سامنے کی چیز کو بھی جو دور اورپوشیدہ ہو، اس طرح سے کلمہ ” وراء “ کاایک جامع مفہوم ہے جودو متضاد مصداقوں پر بولا جاتاہے ( ۳) ۔
یہ تفسیر بھی بعید معلوم نہیں ہوتی کہ ہم کہیں کہ ” وراء “ کی تعبیر سے ” علت و معلُول “ کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہے ،مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ” اگرتم نے یہ مضر غذااستعمال کی تواس کے پیچھے پیچھے بیماری ہے “ یعنی مِضر غذا کھانا اس بیماری کی علّت ہے اور بیماری اس کی معلُول ، اسی طرح یہاں پر بھی ان کے اعمال بھی دوزخ کے رسُو ا کُن عذاب کاسبب او ر عامل ہیں ۔
بہرصُورت ،آیت کے سلسلے کوآگے بڑ ھاتے ہُوئے فرمایاگیاہے کہ اگران کایہ گمان ہو کہ بے پناہ مال ودولت ، بُت اور مصنوعی خداانہیں عذاب سے نجات دلائیں گے تویہ ان کی بھُول ہے ،کیونکہ ” جوکچھ وہ کما چکے ہیں وہ انہیں عذاب سے نجات نہیں دلائے گا اور نہ ہی وہ کہ جنہیں انہوں نے خدا کو چھوڑ کراپنا سرپرست بنایاتھا “ (وَ لا یُغْنی عَنْہُمْ ما کَسَبُوا شَیْئاً وَ لا مَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّہِ اٴَوْلِیاء َ ) ۔
چونکہ فرار اورنجات کی کوئی راہ نہیں ہوگی لہٰذاانہیں خدا کے قہرو غضب کی آگ میں ہمیشہ جلنا ہوگا ” اور ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے “
(وَ لَہُمْ عَذابٌ عَظیمٌ) ۔
ان لوگوں نے دُنیا میں خدائی آیات کومعمول سمجھا لہٰذاخدانے ان کے عذاب کوبڑا کردیا ،وہ بڑ ائی کااظہار کرتے تھے لہذا خدابھی ان کو عذاب عظیم دے گا ۔
ایساعذاب ہرلحاظ سے عظیم بھی ہوگا اور جا ودانی بھی ،شدید بھی ہوگا اوررُسو اکُن بھی اور گناہ گار وں کے دِل کی گہرائیوں اور ہڈ یوں کے جوڑ وں تک جاپہنچے گا،جی ہاں ! خداوند ِ عظیم کے سامنے گناہ عظیم کی سزا بھی عذاب ِ عظیم ہوگی ۔
۱۔ ”یَسْمَعُ آیاتِ اللَّہِ “ ممکن ہے کہ ” جملہ مستانفہ “ ہو یاپھر ” کل “ کی دوسری ’صفت “ ہو ۔
۲۔ توجہ رہے کہ ” اتخذ ھا“ میںموجود ضمیر ” شیئا ً “ کی طرف نہیں بلکہ ” اٰ یاتنا“ کی طرف لوٹ رہی ہے ۔
۳۔بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اگر ” وراء “ کوفاعل کی طر ف مضاف کیاجائے تو اس کامعنی پس ِپُشت ہوتاہے اور اگر مفعول کی طرف مضاف ہوتوسامنے کے معنی دیتاہے ۔( دیکھو تفسیرروح البیان ، جلد ۸،ص ۴۳۹ ) لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma