ہرجگہ اس کی نشانیاں موجُود ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ یہ چھٹی سُورت ہے جس کاآغاز حروف مقطعہ (حٰم ) سے ہو رہا ہے . بعد کی سُورت ( احقاف )سے مِل کریہ پُوری سات سورتیں ہوجاتی ہیں ، حروفِ مقطعات کے بارے میں ہم سُور ہ بقرہ ، سورہ ٴ آل ِ عمران ، سُورہ ٴ اعراف اوراسی طرح ” حٰم “ سورتوں کے آغاز میں تفصیلی گفتگو کرچکے ہیں ۔
مشہور مفسر طبرسی اس آ یت کے آغاز میں فرماتے ہین :
” بہترین قول یہ ہے کہ یہ کہا جائے ” حٰم “ اس سُورت کانام ہے ، ( پھر بعض مفسرین نے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ) اسے ” حٰم “ کے نام سے موسوم کرنااس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ قرآن جو سراپا اعجاز ہے ، حُروفِ تہجی سے تسکیل یافتہ ہے ۔
جی ہاں ! یہ کتاب جونو روہدایت ، را ہنما اور رہبر ہے اور پیغمبر اسلام کازندہ جاوید معجزہ ہے انہی سادہ سے حر فوں کی ترکیب سے وجُود میں آ ئی ہے . یہ اس کی نہایت عظمت کی دلیل ہے کہ اس قدراہم کتاب اس قدر سادہ سے حرفوں سے تشکیل پائی ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ فوراً قرآن کی عظمت کاتذ کرہ کرتے ہُوئے فرمایا گیاہے : یہ کتاب خداکی طرف سے نازل ہوئی ہے جو غالب و دانا ہے (تَنْزیلُ الْکِتابِ مِنَ اللَّہِ الْعَزیزِ الْحَکیم) (۱) ۔
” عزیز “ کامعنی صاحب قدرت اور ناقابلِ شکست ہے اور ” حکیم ‘ کامعنی ایسی ذات ہے جو تمام چیزوں کے اسرار سے آگاہ ہے اور جس کے تمام افعال جچے تُلے اور حکمت پر مبنی ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کی کتاب نازل کرنے کے لیے ہی بے انتہا حکمت اور غیر محدُود قدرت ضروری ہوتی ہے جو خداکے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ آ یت بعینہٖ قرآن مجید کی چار سُورتوں کی ابتداء میں آ ئی ہے ، جن میں سے تین حوامیم سورتیں ہیں ( موٴ من ، جاثیہ اوراحقاف )اورایک سُورہ ٴ زمر ہے ، جو حوامیم کے علاوہ ہے ، یہ تکرار اور تاکید اس لیے ہے کہ تمام لوگوں کی توجہ قرآنی اسرار کی گہرائی اور گیرائی اور اس کے مطالب کی عظمت کی طرف مبذُول کروائی جاء تاکہ وہ اس کی کسی تعبیر کومعمُولی نہ سمجھیں ،کسی کلمہ کو بے حساب وکتاب نہ سمجھیں اور نہ ہی فہم وادراک کی کسی حد پر قانع ہوجائیں ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ ” عزیز “ کے لفظ کے ساتھ بعض مقاما ت پرخود قرآن مجید کی بھی توصیف کی گئی ہے ، جیسے ” وانہ لکتاب عزیز “ یعنی قرآن مجید وہ کتاب ہے جوطاقت و راور ناقابلِ شکست ہے (حم سجدہ ۔ ۴۱) ۔
یا وہ لوگوں کی دسترس نہیں ہ وسکتی ، مر ور زمانہ کے ساتھ اس کی قدر وقیمت میں کمی نہیں آسکتی ، اس کے حقائق کبھی بوسیدہ نہیں ہوسکتے ،تحریف کرنے والوں کورسوا کرتے ہُوئے روز بروز آگے بڑھتا جائے گا ۔
بعض مقامات پرخود قرآن نازل کرنے والے کی توصیف کی گئی ہے ، جیسے زیرِ تفسیر آ یت میں ہے اور دونوں جگہ اس کااستعمال صحیح ہے ۔
پھر آفاق وانفس میںعظمت خداوندی کی آ یات اور نشانیوں کاذکر کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے : بے شک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں اورحق کے طلب گاروں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں (إِنَّ فِی السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ لَآیاتٍ لِلْمُؤْمِنینَ) ۔
آسمانوں کی عظمت ایک طرف اوراس کامحیرا لعقُول نظام کہ جس پرکر وڑوں سال گزرنے کے باوجُود اس میں سر مو انحراف نہ آنا دوسری طرف اور زمین کی ساخت اوراس کے عجا ئبات تیسری طرف ، سب مل جُل کرخدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔
زمین ، جوبعض دانش وروں کے بقول ۱۴ قسم کی حرک کی حامل ہے اور بہت تیزی کے ساتھ اپنے محور کے گِرد گھوم رہی ہے اور بڑی سرعت کے ساتھ سُورج کے گرد گھوم رہی ہے ، اور پھر منظومہ شمسی کے ہمراہ ایک اور حرکت بھی ہے جو کہکشاں کے ساتھ ہوتی ہے ، اس طرح سے وہ اپنی بے انتہا مسافرت سرگرم عمل ہے ،لیکن ان تمام حرکات کے باوجود اس قدر پُرسکون ہے کہ انسانی آسائش وآرام کاگہوا رہ اور تمام موجودات کے لیے باعث سکون واطمینان ہے اور کبھی یہ محسُوس نہیں ہوٴا کہ اس میں ذرّہ بھر بھی حرکت ہے ۔
نہ تو اس قدر سخت اورٹھوس ہے کہ اس میں ز راعت نہ کی جاسکے اور گھرنہ بنائے جاسکیں ،اور نہ ہی اس قدر نرم اور ملا ئم ہے کہ اس میں رہائش اختیار نہ کی جاسکے اوربقاٴ کے تسلسل کوآگے نہ بڑھایا جاسکے ۔
گذشتہ ، مُو جودہ اور آ یئندہ اربوں کھربوں انسانوں کے لیے ذخائر ، معد نیات اوروسائل زندگی اس میں فراہم کردیئے گئے ہیں اورپھر اس قدر جاذبِ نظر اور زیباہے کہ انسان کواپنا مسحُور بنالیتی ہے ، اس میں موجُود پہاڑ ہوں یادریا اور فضاٴ غرض ہرچیز خداکی اسرار آمیز آ یت اور نشانی ہے ، لیکن توحید اورعظمت ِ خالق کی نشانیوں کوصرف صاحبان ایمان یعنی ر اہِ خدا پرگامز ن اورحق کے طلبگار سمجھتے ہیں اور بے خبردل کے اندھے اور مغر ور لوگ ان کے ادراک سے محرُوم ہیں ۔
پھران ” آ فاقی “ آ یات کے بعد ” انفسی “ آیات کاتذ کرہ کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے : اور تمہار ی تخلیق میں بھی اور زمین میں پھیلے ہُوئے جانوروں کی خِلقت میں بھی یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں (وَ فی خَلْقِکُمْ وَ ما یَبُثُّ مِنْ دابَّةٍ آیاتٌ لِقَوْمٍ یُوقِنُون) ۔
امیر المومنین علیہ السلام کی طرف منسُوب ایک مشہور عبارت میں یہ جُملہ مِلتا ہے ۔
’ ’ یہ انسان ایک چھوٹا ساجِرم (جسم ) ہے جس میں ایک بہت بڑاعام سمایا ہوٴا ہے “۔
یعنی درحقیقت جوکچُھ ایک عالمِ کبیر میں موجُود ہے ، اس کا ایک نمونہ انسان ہی کے جسم وجان میں موجُود ہے ۔
اس کے خصائص وصفات تمام ذی رُوح اورمتحرک مخلوق کی صفات وخصائل کامرکب ہیں اور اس کی تنوع پرمبنی تخلیق اس عظیم کائنات کے مجموعی امور کانچوڑ ہے ۔
اس کے ایک خلیئے کی ساخت ایک اسرار آمیز علم صنعتی جیسی ہے ،اس کے ایک بال تخلیق اپنی مختلف خصوصیات کے ساتھ کہ جوعلمِ ودانش اورسائنس کے ذریعے دریافت ہوئی ہیں ،آ یات الہٰی میں سے خودایک عظیم آ یت ہے ۔
اس کے بدن میں ہز اروں کلو میٹر چھوٹی بڑی نہایت باریک، نازک اور لطیف رگیں ہیں اور ہزا کلو میٹر سلسلہ اعصاب کی کمیو نیکل اوراطلا عاتی تاریں ہیں اورا ن کادماغ کی کمانڈ کے مرکز کے ساتھ طاقت ور ، اسرار آمیز اور پیچیدہ رابط موجُود ہے ، بدن کی ہرایک داخلی مشینری کاطریقہ ٴ کار اور ناگہانی واقعات کے موقع پر ان کی عجیب و غریب ہم آہنگی اور خارجی عوامل کی یورش کے وقت بدن کی محافظ طاقتوں کازبر دست دفا ع ، ان میں سے ہرایک اپنے اپنے مقام پرخدا کی قدرت کاملہ کی ایک نشانی ہیں ۔
پھر انسان کے علاوہ زمین پرچلنے والے حیوانوں کی لاکھوں قسمیں ہیں ، خواہ وہ خو ربین سے دیکھی جانے والی ہوں یا غول پیکر ، ہرایک خداکی ایک آیت ہیں . ان کواپنی خصوصیات اور ساخت ہوتی ہے ، جوبالکل متنوع اورایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ، حتی کہ بعض قسمیں ایسی بھی ہیں ، جن میں سے کسِی قسم کے مطا لعہ پرسائنس دانوں اوردانش وروں کی ایک جماعت اپنی تمام عمریں صرف کردے یاان کے تخلیقی اسرار پر ہزا روں کتا بیں لکھی جائیں پھر بھی ان کے بارے میں ہمار ی معلومات کادائرہ مجہولات کی نسبت بہت کم ہوگا، ان میں سے ہرایک اپنے مقام پر مبدائے آفرینش کی حکمت اور اس کے بے پایاں علم کی ایک آ یت اور نشانی ہے ۔
تو پھر کیاوجہ ہے کہ کچھ لوگ بیسیوں سال ان آیات میں اپنی زندگی گز ار دیتے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کے بار ے میں بھی ذرہ برابر معلومات حاصل نہیں کرسکتے ؟تواس کی وجہ صرف وہی ہے ، جس کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں نشاندہی کردی ہے کہ ” یہ آ یات ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہیں ، جو صاحبان ِ ایمان ویقین ہیں اور غور وفکر کے مالک ہیں “ ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جواپنے دل کے دریچے باز کرتے اوراپنے تمام وجُود کے ساتھ علم ودانش اور یقین کے طلب گار ہوتے ہیں ، حتٰی کہ کسی تھوڑی سے تھوڑی حرکت اور چھوٹے سے چھوٹے موجُود کو بھی نظرا نداز نہیں کرتے بلکہ کئی کئی گھنٹے اس کے بارے میں سوچنے پرصرف کردیتے ہیں ، ” ذات ِ خداتک رسائی “ کے لیے اس سے زینے کاکام لیتے ہیں اور ” معرفت کر دگار “ کے لیے اسے ذریعہ بناتے ہیں ، پھراس سے راز ونیاز کرتے ہیں اوراپنے جامِ دل کو اس کے با دہٴ عشق سے لبر یز کرتے ہیں ۔
اگلی آ یت میں تین عظیم نعمتوں کاتذکرہ ہے جوانسان اوردوسری مخلوقات کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ہرایک آیاتِ خداوندی میں سے ایک آ یت ہے ، اور وہ نعمتیں ہین ،نور ،پانی اورہوا .چنانچہ ارشاد ہوتاہے : رات اوردن کے آنے جانے میں اور اس نے آسمان سے جو رزق نازل فرمایا ہے اوراس کے ذریعے زمین کومرنے کے بعد زندہ کیا ہے ، اس میں بھی اور ہو اؤں کے چلنے میں بھی عقل سے کام لینے والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں (وَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّہارِ وَ ما اٴَنْزَلَ اللَّہُ مِنَ السَّماء ِ مِنْ رِزْقٍ فَاٴَحْیا بِہِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہا وَ تَصْریفِ الرِّیاحِ آیاتٌ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ) ۔
” نوروظلمت “ اور رات دن کے آنے جانے کامسئلہ جوایک خاص نظم کے ساتھ ایک دوسرے کے خلیفہ اورجانشین ہوتے رہتے ہیں ، حساب شدہ تعجب آ ور ہے ،اگرہمیشہ دن رہتا یا بے انتہا یا بے انتہا لمبا ہوتا تواس کادرجہ حرارت اس قدر اُوپر چلا جاتا کہ تمام زندہ مخلوق جل کرراکھ ہوجاتی س اور اگر رات ہمیشہ رہتی یاحد سے زیادہ طولانی ہوتی توسردی کی شدت سے ہر چیز منجمد ہوجاتی ۔
آ یت کی تفسیر میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اختلاف کامعنی ایک دوسر ے کی جانشینی نہ ہوبلکہ اس فرق کی طرف اشارہ ہو جوسال بھرکے مختلف موسموں میں رات اور دن کے درمیان پیدا ہوتا رہتاہے ، جس کے نتیجے میں انسان کومختلف فوائد یعنی مختلف فصلیں ، درخت ، پھل ، برف و باراں کانزُول اوردوسر ی برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔
یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ سائنس داں کہتے ہیں کہ رُوئے زمین کے مختلف خطّوں میں شب وروز کی لمبائی میں جوفرق ہوتا ہے اگرسال بھر کے تمام دنوں کاحساب کیاجائے اوراسی حساب سے سُورج کی روشنی کوتقسیم کیاجائے توبالکل ٹھیک ٹھیک صُورت میں ہرایک خطہ دوسر ے خطّے کے برابر اسی روشنی سے استفادہ کرتاہے ( ۲) ۔
دوسرے مرحلے میں زند گی عطاکرنے والے آسمانی رزق یعنی بارش کاتذکرہ ہے کہ نہ توجس کی لطافت طبع میں کوئی حرف ہے اور نہ ہی اس کی زندگی عطا کرنے والی قدرت میں کوئی کلام ، ہرجگہ زندگی ، تر وتازگی اور زیبائی کی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔
ایساکیوں نہ ہو؟جب کہ انسانوں اور بہت سے دوسرے جا نورون اور نبا تات کے بدن کااصل حصّہ اسی پانی سے تشکیل پاتاہے ۔
تیسرے مرحلے پر ہواؤں کے چلنے کی بات ہورہی ہے . ایسی ہوائیں جوآکسیجن ایک سے دوسری جگہ پہنچا تی رہتی اور جا ند ا روں کی ضر ورت پوری کرتی رہتی ہیں ، کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آلودہ ہواؤں کوصاف کرنے کے لیے دشت وجنگل اورصحرا ؤں کی طرف بھیجتی رہتی ہیں اورصاف ہونے کے بعد انہیں دوبارہ شہروں اورآ بادیوں کی طرف لے آ تی ہیں ، عجیب بات ہے کہ کہ زندہ موجُود کے یہ دونوں گروہ یعنی ” حیوانات “ اور ” نبا تات “ بالکل ایک دوسر ے کے بر عکس عمل کرتے ہیں ، حیوانات آکسیجن گیس حاصل کرتے ہیں اور کار بن ڈائی آکسا ئیڈ خارج کرتے ہیں جبکہ نباتات کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں تاکہ نظام ِ زندگی میں توازن برقرا ر رہے اور مر ورایام کے ساتھ زمین پر موجُود مفید ہواؤں کے ذ خائر ختم نہ ہونے پائیں ۔
اس کے علاوہ یہی ہوائیں ہوتی ہیں جو نباتات میں نسل کشی کا کام دیتی ہیں ،انہیں ثمر آ ور بناتی ہیں ، مختلف زمینوں میں مختلف قسم کی تخم پاشی کرتی ہیں ، قدرتی چراگا ہوں اور جنگلوں کوپروان چڑھا تی ہیں . سمند روں کے دل میں موجیں ابھار تی ہیں ، جن سے سمندر وں کی حیات اور حرکت کاپتہ چلتاہے ، پانی کوبد بودار اورخراب ہونے سے بچاتی ہیں اور یہی ہوائیں ہیں جو سفینوں کوسمند روں کے سینوں پر رواں دواں رکھے ہُوئے ہیں ( ۳) ۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ مندرجہ بالا آ یات میں پہلے توآسمانوں اور زمین کے آیات ہونے کی بات ہوئی ہے اور آخر میں فرمایاگیاہے کہ اس میں ” اہل یقین “ کے لیے نشانیاں ہیں ، پھر دوسری زندہ مخلو ق کی تخلیق کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے کہ اس میں ” اہل یقین “ کے لیے نشانیاں ہیں اور نور وظلمت اور با د و باراں کے نظام کاذکر نے کے بعد فر مایاگیاہے کہ اس میں ” عقل سے کام لینے والوں “ کے لیے نشانیاں ہیں ۔
تعبیرات کے اس اختلاف کی وجہ شاید یہ ہو کہ انسان ” معرفة اللہ “ کی راہوں کو تین مراحل میں طے کرتاہے پھر کہیں جاکر منزلِ مقصُود تک پہنچتا ہے ، مثلا مرحلہ ” فکر “ کاہے دوسرا ” یقین وعلم “ کااور تیسرا مرحلہ ” ایما ن “ کا ہے ، جِسے اصطلاح میں قلبی عقیدہ کہتے ہیں ۔
اگرچہ مرتبے کے لحاظ سے ایمان پہلے مرحلہ پر ، ایقین دوسرے مرحلے پراور فکر تیسر ے مرحلے پر ہوتے ہیں اور آیات مذکورہ میں بھی اسی ترتیب سے ذکر کیے گئے ہیں ، لیکن خارجی وجُود کے اعتبار سے فکر تیسر ے مرحلے پر ہوتے ہیں اور آیات مذکورہ میں بھی اسی ترتیب سے ذکر کیے گئے ہیں لیکن خارجی وجُود کے اعتبار سے فکر پہلے مرحلے پر ، یقین دوسرے اورایمان تیسرے مرحلے پر ہیں ، بالفاظ دیگر جواہل ایمان ہوتے ہیں وہ آ یات الہٰی کے مشابد ے ہی سے اس اعلیٰ ترین مرحلے تک پہنچتے ہیں اور جواہل ایمان ہیں وہ کم از کم یقین یافکر کے مرحلے رسائی حاصل کرتے ہیں ۔
مفسرین نے اس بارے میں اور بھی وجوہات کوذکر کیا ہے لیکن جوکچھ ہم نے بیان کیاہے وہ زیادہ مناسب ہے ، اسی سلسلے کی آخر ی آ یت میںگزشتہ آیات کامجموعی طورپر نتیجہ نکالتے ہُوئے قرآنی آات کی عظمت واہمیّت کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے : یہ خداکی آ یات ہیں ، جن کوہم ٹھیک تمہارے سامنے پڑھتے ہیں (تِلْکَ آیاتُ اللَّہِ نَتْلُوہا عَلَیْکَ بِالْحَق) ۔
آ یا ” تلک “ کا کلمہ قرآنی آیات کی طرف اشارہ ہے یاآفاق وانفس میں خدا کی آ یات کی طرف جوگذ شتہ آ یات میں مذکورہ ہو چکی ہیں ؟ اس بارے میں مفسرین نے دونوں قسم کی آیات کااحتمال ذکرہے لیکن ” نتلو “ کے قرینے سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے قرآنی آیات مراد ہیں ، البتہ یہی قرآنی آیات ساری کائنات میں خداکی نشانیوں کوبیان کررہی ہیں تواس طرح سے دونوں قسم کی تعبیریں یکجاہونے کے قابل ہیں ( غورکیجئے گا ) ۔
بہرحال ” تلاوت “ ” تلو “ ( بروزن فکر ) کے ماد ہ سے ہے ، جس کامعنی بات کو مسلسل بیان کرناہے ، اسی لیے قرآنی آیات کی تلاوت کامعنی ان کا مسلسل اور پے درپے پڑ ھناہے ۔
” حق “ کی تعبیر ان آ یات کے مضامین ومندرجات کی طرف بھی اشارہ ہے اورپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نبوّت اور خدا کی وحی کی حقانیت کی طرف بھی ، باالفا ظ دیگر ” یہ آ یات اس حد تک واضح وآشکار اوراستد لال پر مبنی ہیں کہ بذات ِ خوداپنی اوراپنے بھیجنے والے کی حقا نیت کی دلیل بھی انہی میں مضمر ہے ۔
سچ مُچ اگر یہ لوگ ان آ یات پرایمان نہیں لائیں گے توپھر کِس چیز پر ایمان لائیں گے ؟اسی لیے آ یت کے آخر میں فرمایاگیاہے : توخدا اوراس کی آیتوں کے بعد کونسی بات ہوگی جس پر یہ کافر لوگ ایمان لائیں گے ( فَبِاٴَیِّ حَدیثٍ بَعْدَ اللَّہِ وَ آیاتِہِ یُؤْمِنُون) (۴) ۔
۱۔” تنز یل الکتاب “ ایک محذوف کی خبر ہے ، جس کی تقدیر ” ھٰذا تنز یل الکتاب “ ہے ساتھ ہی یہ بتاتے چلیں کہ ” تنز یل “ مصدر ہے اور یہاں پراسمِ مفعول کے معنی میں ہے اور موصُوف صفت کی طرف مضاف ہے ، جو تقدیری طورپر ” ھٰذا کتاب منزل ... “ ہے ۔
۲۔” رات اور دن کے اختلاف “ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل سورہٴ بقرہ کی آ یت ۱۶۴ کے ذیل ہیں ، جلد سو م سورہٴ آل ِ عمران کی آ یت ۱۹۰ کے ذیل میں ، جلد ہشتم ، سُورہ ٴ یونس کی آ یت ۶ کے ذیل میں اور جلد ۱۶ ، سُورہ ٴ قصص کی آ یت ۷۱ کے ذیل تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے ۔
۳۔ ” باد و باراں“ کے آثار کے سِلسلے میں تفسیر نمونہ کی سولہویں جلد میں سُورہٴ روم کی آ یت ۴۶ تا ۵۰ کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے ۔
۴۔ سچ مچ قرآن مجید توحید کے استد لال اور برہان و وعظ و نصیحت کے لحا ظ سے اس قدر مضامین کاحامل ہے کہ جس دِل میںذرہ بھر بھی آ ماد گی اور جس سر میں تھوڑی سی حق کی قبولیت کی آمادی گی موجُود ہے اسے خدا ، طہارت اورتقویٰ کی دعوت دیتے ہیں ، اگر یہ آیات بینات کسی پر اثر انداز نہیں ہو تیں تواس کی ہدایت کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیئے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma