انبیاء کے خد ا کے ساتھ رابطے کے ذ رائع

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
جیساکہ سورت کے آغازمیں بتایاجاچکاہے کہ اس سورت میں زیادہ تروحی ونبوت جیسے مسئلہ پر زور دیا گیاہے ، سورت کا آغاز بھی وحی کے مسئلہ کے ساتھ ہو ااور. اس کااختتام بھی اسی مسئلہ پر ہورہا ہے۔
گزشتہ آ یات میں خدائی نعمتوں کاتذکرہ تھا لیکن ان آیات میںعالم انسانیت میں پر وردگار کی تمام نعمتوں میں سے اہم ترین نعمت اور تمام مہر بانیوں میں سے بالاترین مہر بانی کے لائق نہیں ہے کہ خدااس سے باتیں کرے (اوراس کے آمنے سامنے آئے ، کیونکہ وہ جسم وجسمانیت سے منزہ اور مبراہے ) مگر اس کے دل پر وحی اورمخفیانہ ہرآیت کے ذریعے (وَ ما کانَ لِبَشَرٍ اٴَنْ یُکَلِّمَہُ اللَّہُ إِلاَّ وَحْیاً ).
” یاپردے کے پیچھے سے “ خداکی باتیں سننے کے ذریعے (اٴَوْ مِنْ وَراء ِ حِجابٍ).
جیسے حضرت موسٰی علیہ السلام بن عمران کوہ طور پر خداسے باتیں کیاکرتے تھے اورجواب بھی سنا کرتے تھے . یہ باتیں لہروں کے ذریعے پیداہوتی تھیں جنہیں خدافضا میں ایجاد کردیتا تھا اوروہ خودخدا کونہیں دیکھا کرتے تھے کیونکہ وہ دکھائی دینے والا نہیں ہے۔
” یاکوئی پیغمبر بھیجنے کے ذریعے کہ جو اس تک خدا کاپیغام پہنچائے “ (اٴَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً ).
جس طرح کہ وحی کافرشتہ اورخدا کاقاصد ” جبرائیل امین “ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل ہو تاتھا ۔
’ ’ اس وقت خد ا کابھیجاہواحکم پروردگار کے مطابق جوکچھ خداچاہتا ہے اس کے پیغمبرپر وحی کرتاہے (فَیُوحِیَ بِإِذْنِہِ ما یَشاء ُ ) ۔
جی ہاں ! خدا کا اپنے بندوں کے ساتھ گفتگو کاذریعہ ان تین راستوں کے علاوہ اورکوئی نہیں ” کیونکہ وہ بلند مرتبہ اورصاحب ِ حکمت ہے “ (إِنَّہُ عَلِیٌّ حَکیمٌ).
اس کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ دیکھا جائے یازبان کے ساتھ بات کرے اوراس کے تمام افعال حکیما نہ ہیں اوراس کااپنے انبیاء کے ساتھ رابط حساب و کتاب پر مبنی ہے۔
یہ آیت ان لوگوں کے لےے ایک واضح جواب ہے جو شاید اپنی بے خبری کی بنا پر یہ خیال کریں کہ وحی کاآنااس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء کرام خدا کودیکھتے ہیں اوراس کے ساتھ باتیں کرتے ہیں . چنانچہ اس آیت نے وحی کی حقیقت اورروح کو خلاصے کی صورت میں اورجچے تلے الفاظ کے ساتھ منعکس کردیتاہے۔
آیت سے مجمو عی طور پر یہ نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ انبیاء کاخدا کے ساتھ رابط ان تین ذ ر یعوں ہی میں منحصر ہے :
۱۔ دل پرالقاء :
ایسابہت سے انبیاء کے ساتھ ہوتاتھا جیسے حضر ت نوح علیہ السلام کے بار ے میں ارشاد ہے :
فَاٴَوْحَیْنا إِلَیْہِ اٴَنِ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِاٴَعْیُنِنا وَ وَحْیِنا
ہم نے نوح کی طرف وحی کی کہ ہمار ی سامنے اورہمارے حکم کے مطابق کشتی تیار کر و ۔( موٴ منون / ۲۷)
۲۔ پردہ کے پیچھے سے :
جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ خدانے کوہ طورپر باتیں کیں. چنانچہ فرماتاہے۔
وَ کَلَّمَ اللَّہُ مُوسی تَکْلیماً
بعض مفسرین نے ” من وراء حجاب “ میں سچے خوابوں کو بھی شمار کیاہے۔
۳۔پیغامبروں کو بھیج کر :
جس طرح کہ اسلام کے عظیم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بار ے میں ہے :
قُلْ مَنْ کانَ عَدُوًّا لِجِبْریلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللَّہِ
کہہ دے جوشخص جبرائیل کادشمن ہے ( وہ خدا کادشمن ہے ) کیونکہ اس نے خدا کے حکم سے قرآن تیرے دل پر اتارا ہے۔ ( بقرہ / ۹۷) ۔
البتہ پیغمبراسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پروحی کانزول صرف اسی طریقے سے نہیں تھا بلکہ اوربھی طریقوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پروحی نازل ہوتی تھی ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے ک دل پر القا ء کے ذ ریعے وحی کانزول کبھی بیداری کی صورت میں انجام پاتا تھاجیسا کہ اُوپر بیان ہوچکا ہے اورکبھی نیند میں رؤ یائے صادقہ کے ذریعے عمل میں آ تاتھا ، جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جناب اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے کا حکم ہوا ۔(ہرچند کہ بعض مفسرین نے اسے ” من وراء حجاب“ کاایک مصداق شمار کیاہے ) ۔
اگر چہ نزو ل وحی کی اصل قسمیں وہی تین ہیں جومذکو رہ بالاآیت میں مذ کور ہوچکی ہیں لیکن ان تینوں قسموں میں سے بعض کی کئی فردعی قسمیں بھی ہیں . جیساکہ بعض حضرت کاعقیدہ ہے کہ فرشتے کے ذ ریعے وحی کانزول بذات خود مندرجہ ذیل چار طریقوں سے عمل میں آتاتھا :
(۱). فرشتہ پیغمبر پرظاہر ہوئے بغیر وحی ان کی روح میں القاء کردیتا تھا .جیساکہ خود رسول السلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ارشاد فرماتے ہیں :
ان روح القدس نفث فی روعی انہ لن تموت نفس حتی تستکمل رز قھا فاتقو االلہ واجملو افی الطلب
روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتاجب تک اپنی روزی مکمل طور پر نہ لے لے . اسی لیے تم خداسے ڈرتے رہو اور روزی طلب کرنے میںحریص نہ بنو ۔
(۲) ۔کبھی فرشتہ انسانی صورت میں ظاہر ہوتاتھا اور نبی کو مخاطب کرکے اس پروحی کرتاتھا ( جیساکہ جبرائیل کے بار ے میں حدیثیں ہیں کہ وہ وحیہ کلبی کی صورت ظاہر ہوتے تھے ( 1).
(۳) کبھی ایسا ہوتاتھا کہ وحی کانزول گھنٹی کی سی آواز پیداپونے کے ساتھ شروع ہو جاتاتھا اور یہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر وحی کے نزول کی سخت ترین صورت تھی . حتٰی کہ جب ایسا ہوتا توسخت سردی کے دنوں میں بھی آپ کی پیشانی اور چہرہ پسینے سے شر ابو ر ہوجاتا تھا . اگر کسی سواری پر سوار ہوتے توسواری اس قدر بوجھل ہوجاتی تھی کہ بے اختیار زمین پر بیٹھ جاتی ۔
(۴) ۔کبھی جبرائیل اپنی اس اصلی صورت میں ظاہر ہوتے تھے . جس میں خدا نے انہیں پیداکیا ہے اوریہ صورت حال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سا ری زندگی میںصر ف دوبار پیش آئی ( جیسا کہ آگے چل کر سورہ ٴ نجم کی ۱۲ ویں آیت کی تفسیر میں بیان ہوگا ) ( 2).
1۔ ” وحیہ بن خلیفہ کلبی “ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے رضاعی بھائی تھے اور اپنے زمانے کے خو بصورت ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے . جب جناب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس جبرائیل آتے تھے توا ن کی صورت اختیار کر کے آتے تھے . ( مجمع البحرین مادہ ” وحی “ ) ان کاشمار پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابہ میں ہوتاہے . وہ خوبصورت لوگوں میں شمار ہوتے تھے . آنحضرت نے ۶ھ یا ۷ھ میںانہیں اپناقاصد بنا کر قیصر روم ہر قل کے پاس بھیجا تھا . وہ معاویہ کی خلافت کے زمانے تک زندہ رہے۔ ( ملاحظہ ہوں لغتنا مہ دہخدا )
2۔ تفسیر فی ظلال القرآن جلد ۷ ،ص ۳۰۶۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma