ہواؤں اور کشتیوں کی روانی ... خدا کی نشانی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

قرآن مجید نے ان آیات میں ایک بار پھر پروردگار عالم کی نشانیوں اور توحید کے دلائل کوبیان کیاہے ،اوراس سلسلے کی گزشتہ گفتگو کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہاں پر ان چیزوں کوبیان کیاجارہاہے جن سے انسان کواپنی مادی زندگی میں ہر روز ہر سرو کار رہتاہے .خاص کر جو لوگ ساحل پر رہتے ہیں یادر یائی سفر اختیار کرتے ہیں .فرمایاگیا ہے :خدا کی آ یات اور نشا نیوں میں سے وہ کشتیاں ہیںجوپہاڑ وں کی طرح سطح سمندر پر رواں دواں ہیں(وَ مِنْ آیاتِہِ الْجَوارِ فِی الْبَحْرِ کَالْاٴَعْلامِ).
’ ’ جوار “ ” جاریة “ کی جمع ہے ، جو”سفن “ یعنی ” سفینة “بمعنی کشتی کی جمع کی صفت ہے کہ جو عبارت کے اختصار کے پیش نظرحذف ہے . اور چونکہ آیت کشتیوں کی حرکت کوخاص طورپر بیان کررہی ہے لہٰذا اسی صفت کو بطور خاص موضوع سخن بنایا گیاہے۔
یہ جولغت عرب میں ان لڑکیوں کو” جاریة “ کہاجاتاہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کہ وجود میں نشاط جوانی جاری ہوتاہے۔
” اعلام “ ” علم “ (بروزن قلم) کی جمع ہے ، جس کامعنی ” پہار“ ہے . لیکن اصولی طورپر علم کامعنی ایسی علامت اور نشان ہوتاہے جوکسی چیز کی خبردیتاہے جیسے ” علم الطر یق “ ( نشا ن راہ ) اور” علم الجیش “ ( لشکر کانشان ) وغیرہ اور اگر پہاڑ کو ” علم “ کہاجاتاہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ دور سے نمایا ہوتاہے اوربعض اوقا ت اس کی چوٹی پرآگ جلائی جاتی تھی تاکہ مسافروں کے لےے کوئی نشانی موجود ہو . لیکن اگ کے ہونے یانہ ہونے کااس کی وجہ تسمیہ میں کوئی کردار نہیں ہے۔
اس طرح سے قرآن مجید نے متعدد دوسری آیا ت کے مانند اس آیت میں بھی منظم ہواؤں کی وجہ سے سطح سمندر پرکو ہ پیکر کشتیوں کی حرکت کوخدا کی نشانیوں میں شمار کیاہے۔
اگرچھوٹی چھوٹی کشتیاں ہواؤں کی وجہ سے سطح آپ پرحرکت کریں تو کوئی اہم بات نہیں ہے ، اہم بات تویہ ہے کہ کوہ پیکر بحر ی جہاز ہوا کی لطیف لہروں کے ذ ریعے بڑی تعداد میں مسافروں اور سامان کے ساتھ ہزاروں میل کاسمندر ی سفر کریں اور منزل مقصود تک جاپہنچیں۔
سچ مچ کس ذات نے ان گہر ے اور عمیق سمندروں کو اس خصوصیت کاحامل بنا کر پیدا کیاہے ؟ کس ذات نے لکڑ ی اور کشتی کے دوسر ے مواد کواس مخصوص انداز میں پیداکیاہے کہ اس سے کشتیاں بنا کر انہیں پانی کی سطح پر چلا یاجاتاہے ؟ کس ذات نے ہواؤ ں کوحکم دیاہے کہ وہ پانی اور سمندر وں کی سطح پرایسی منظم صورت میں چلیں کہ جس شخص کاجیسے جی چاہے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک پہنچنے کے لیے اس سے استفادہ کر ے ؟
نظم وانضبا ط ہرجگہ عقل کی علامت ہے اوریہا ں پر بھی یہی صورت حال ہے۔
اصولی طورپر اگران نقشوں کوغور سے دیکھاجائے جوسمندر ی سفرکرنے والے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ ہواؤں کے چلنے کے اندر کس قدر منظم اورباقاعدہ حساب وکتاب کے مطابق ہیں . ان نقشو ں میں ہواؤں کے چلنے کے بار ے میں جو معلوما ت درج ہو تی ہیں ان سے پتہ چلتاہے کہ ان کے یہ راستے قطب شمالی اورقطب جنوبی سے خط استو اء اورخط استواء سے قطب شمالی اورقطب جنوبی کی طرف ، اسی طرح حاحل اورخشکی سے سمندر وں کی طرف اور سمندروں سے خشکی کی جانب ہوتے ہیں ، جنہیں دیکھ اور سمجھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔
البتہ موجودہ دور میں کشتیوں اور بحری جہازون کوچلانے کے لیے زبردست طاقتور انجنون سے کام لیاجاتاہے جوجہازوں کے پروں کومتحرک کرتے اورانہیں چلاتے ہیں لیکن پھر بھی ان جہاز وں کے چلانے میں ہواؤں کابڑاعمل دخل ہے۔
میز یدتاکید کے طور پر فر مایاگیاہے :اگر خدا چاہے تو ہواؤں کو روک دے اور کشتیاں سطح سمندر پرٹھہر جائیں (إِنْ یَشَاٴْ یُسْکِنِ الرِّیحَ فَیَظْلَلْنَ رَواکِدَ عَلی ظَہْرِہ).
آیت کے آخر میں نتیجے کے طور پر اشارہ فرمایا گیاہے : اس میں ہر شخص کے لیے نشانیاں ہیںجوصبر اور شکر کرتاہے ( إِنَّ فی ذلِکَ لَآیاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُور).
یقینا ہواؤں کی ا س حرکت ، کشتیوں کے چلنے ، سمندر کی تخلیق اوران امورمیں حکم فرمانظا م اور ہم آہنگی میں خدا کی پاک ذات کے لیے گو نا گون نشانیاں ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہواؤں کی حرکت پہلے مرحلے میں ، روئے زمین پردو نقاط کے درجہ حرار ت کے اختلاف کی وجہ سے عمل میں آ تی ہے . کیونکہ حرارت کی وجہ سے ہواپھیلتی ہے . پھروہ اوپر کی طرف اٹھتی ہے جس کی وجہ سے ایک تواطراف کی ہوامیں دباؤ پیدا ہوجاتاہے کہ جواسے متحرک کرتاہے اور دوسر ے جب وہ اوپر کواٹھتی ہے تواپنی جگہ اطراف کی ہوا کودے دیتی ہے ، لہٰذا اگرخدا وند عالم صرف پھیلاؤکی خاصیت کو سلب کرلے توفضا ء پر ٹھہرا ؤ اورسکوت حکم فر ماہو جائے اوربا د بانوں سے جانے ولی کشتیاں بے جس وحرکت سطح سمندر پرکھڑ ی رہ جائیں۔
”صبا “ اور” شکور “ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیںایک زیادہ صبر اور دوسرا زیادہ شکر کامعنی پایاجاتا ہے۔
زیر تفسیر آیت اورقرآن کی دوسری آیات میں (۱) ا ن دونوں صیغوں کااستعمال چند لطیف نکات کی طرف راہنمائی کرتاہے :
۱۔ یہ دو اوصاف مجموعی صورت میں حقیقت ایمان کی منہ بولتی تصویریں ہیں.کیونکہ مومن مشکلات اورمصائب میں صبور ہوتا ہے اور نعمتوں پرشکور . یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں :
الا یمان نصفان:نصف صبر و نصف شکر
ایمان کے دوحصے ہیں،ایک صبر ہے اوردوسراشکر (۲).
علاوہ ازیں تخلیق کائنات کے نظام کے اسرار میں مطالعہ اورغور وفکر کے لیے جہاں صبر اورحوصلے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر یہ منعم حقیقی کے شکر کاموجب بھی ہوتاہے۔
جب یہ دونوں صفات مل جاتی ہیں توانسان کوان آیات کے مطالعے کے لیے آمادہ کرتی ہیں بلکہ اصولی طورپر تواسر ار آفر ینش کامطالعہ بذات خود شکر کی ایک قسم ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جب انسان کشتی پر سوار ہوتاہے تو اس میں یہ دونوں صفتیں دیگر اوقات کی نسبت زیادہ نمایاں ہوتی ہیں صبر، سمندر کی مشکلات اورحادثات کے موقع پر اور شکر ، ساحل مقصود پر پہنچ جانے کے موقع پر ۔
بعد کی آیت میںاس نعمت کوا یک بار پھر اجاگر کرنے کے لیے ارشاد فر مایاگیاہے :
یااگراللہ چاہے تو ان کشتیوں میں سوار افراد کے انجام شدہ اعمال کی وجہ سے انہیں تبا ہ و بر باد کردے (اٴَوْ یُوبِقْہُنَّ بِما کَسَبُوا ).
جیساکہ ہم گزشتہ آیات میں بھی پڑ ھ چکے ہیں کہ جومصیبتیں انسان پرنازل ہوتی ہیں عام طورپر اس کے اپنے اعمال ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں .لیکن پھر بھی لطف خداوند ی انسان کے شامل حال ہوتاہے ” اور وہ بہت سے لوگوں کومعاف کردیتاہے “ (وَ یَعْفُ عَنْ کَثیر).
اگروہ معاف نہ کرے تو اس کے خاص و پاک بندوں اور معصو مین کے علاوہ کوئی بھی شخص اس کی سزا سے نہ بچ سکے جیساکہ سورہ فاطر کی آیت ۴۵ میں ہے :
وَ لَوْ یُؤاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِما کَسَبُوا ما تَرَکَ عَلی ظَہْرِہا مِنْ دَابَّةٍ وَ لکِنْ یُؤَخِّرُہُمْ إِلی اٴَجَلٍ مُسَمًّی
اگرخدا لوگوں کوان کے کئے کی سزادیناشروع کردے تو زمین پرکوئی بھی چلنے والی چیزباقی نہ رہے لیکن ( اپنی مہر بانی کی وجہ سے ) وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتاہے۔
جی ہاں ! اگروہ چاہے توہواؤں کو چلنے سے روک دے جس کی وجہ سے کشتیاں سمندر وں کے بیچ میں رکی رہیں اوراگر چاہے تو ہواؤں کو زبردست طوفانوں میںتبدیل کردے جن کی وجہ سے کوہ پیکر جہازایک دوسرے سے ٹکراکر پاش پاش ہوجائیں اورسمندر کی موجوں میں تنکوں کے مانند اڑتے پھریں ،لیکن اس کالطف وکرم ان چیزوں سے مانع ہے۔
” تاکہ جولوگ ہماری آیات کے بار ے میں جھگڑاکرتے ہیں اورمخالفت اورانکار پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں وہ جان لیں کہ (ذات خدا کے علاوہ ) ان کو کوئی بھی پناہ گاہ نہیں ہے “ (وَ یَعْلَمَ الَّذینَ یُجادِلُونَ فی آیاتِنا ما لَہُمْ مِنْ مَحیص) (۳).
کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو عفوالہٰی کے مستحق نہیں ہیں ، اس لیے کے وہ سوچ سمجھ کراورجان بوجھ کرمخالفت پرکمر بستہ ہوچکے ہیں اور دشمنی اورہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی ستیزہ کاری جاری رکھے ہوئے ہیں ، لہٰذا وہ خداکے عفو ورحمت کے فیضان سے محروم ہیں اور عذاب کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔
” محیص“ ”حیص“ ( بروزن ”حیف“) کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ،باز گشت ، لوٹ آنااور کسی چیزسے کنارہ کشی اختیار کر لینا اور چونکہ ”محیص“ کالفظ اسم مکان ہے لہٰذا فرار کی جگہ یاپناہ گاہ کے معنی میں آتاہے ( ۴).
اس سلسلے کی آخری آیت میںروئے سخن تمام لوگوں کی طرف کرتے ہوئے فرما یاگیاہے :
جوکچھ تمہیں عطاکیاگیاہے وہ دنیا وی زندگی کا ناپا ئیدار مال و متا ع ہے ( فَما اٴُوتیتُمْ مِنْ شَیْء ٍ فَمَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا ).
مباد ادنیاتمہیں فریب دے کرغفلت میں ڈال دے اور تم یہ سمجھتے رہو کہ وہ ہمیشہ تمہار ے پاس رہے گی ،وہ تو بجلی کی ایسی روہے جو ایک لمحے میں گز رجاتی ہے،ایساشعلہ ہے جو ہوا کے ایک جھونکے سے بجھ جاتاہے ،سطح آپ پرایک بلبلہ ہے اور طوفانوں کی راہ میں ایک غبار ہے ” لیکن جوکچھ پروردگار کے پاس ہے وہ ایماند اروں اوراپنے رب پر بھر وسہ کرنے والوں کے لیے زیادہ بہتر اور زیادہ پائیدار ہے (وَ ما عِنْدَ اللَّہِ خَیْرٌ وَ اٴَبْقی لِلَّذینَ آمَنُوا وَ عَلی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ).
اگر تم کرسکتے ہو تو اس مادی کائنات کی پست،محدوداور چند روزہ متاع زندگی کااس جاد وانی سرمائے سے تبا دلہ کرلو ، یہی تمہار ی سودمند تجار ت اور بے مثال کامیابی ہے۔
کیونکہ اس دنیا کی نعمتیں سر دردی سے خالی نہیں ،ہمیشہ ہرگل کے ساتھ خا ر اور ہر نوش کے ساتھ نیش ہوتا ہے . جب کہ خدا کی جزا خیر ہی خیر اور ہر قسم کی ناخوشگوار چیز وں سے بالکل پاک ہوتی ہے پھریہ دنیا وی نعمتیں جس قدر اور جیسی بھی ہیں دیر پا نہیں ہیں لیکن وہ نعمتیں پائیدار اور جا ودانی ہیں،کونسی عقل اس با کی اجازت دے گی کہ انسان اس قسم کے سود مند سود ے کو چھوڑ کر غرور و غفلت کاشکار ہو جائے اور دنیا وی رزق بر ق کے فریب میں آجائے ؟
یہی وجہ ہے کہ سور ہٴ توبہ کی ۳۸ ویں آیت کہتی ہے :
الْاٴَرْضِ اٴَ رَضیتُمْ بِالْحَیاةِ الدُّنْیا مِنَ الْآخِرَةِ فَما مَتاعُ الْحَیاةِالدُّنْیا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلیلٌ
اے وہ لوگو ! جوجہاد سے روگردانی کرتے ہو ! آ یاتم آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی پر راضی ہو گئے ہو ؟ حالانکہ د نیاوی زندگی کی متاع آخرت کے مقابلے میں بہت ہی معمولی ہے۔
اصولی طور پراگردیکھا جائے تو ”الحَیاةِالدُّنْیا “ (اس کے وصفی معنی کوپیش نظررکھتے ہوئے ) پست اور گھٹیا زندگی کی طرف اشارہ ہے اورواضح سی بات ہے کہ ایسی زندگی سے بہرہ مند ہونے کے وسائل اورمال ومتاع بھی ایسا ہی ناچیز ہوگا ۔
اسی لیے تو اسلام کے عظیم الشان پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فر ماتے ہیں :
واللہ ما الدنیا فی الاٰ خر ة الامثل ان یجعل احدکم اصبعة ھٰذہ فی الیم فلینظر بم ترجع
خداکی قسم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کوسمندر میں ڈبو ئے اورپھر اسے نکال کردیکھے کہ اس سے اسے کیاملا ہ ؟(۵).
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں زیادہ زور خدا پر ایمان اور بھرو سے پر دیا گیاہے کیونکہ خدا کی سزا وجزا کی امید ان لوگوں کو ہوتی ہے جوخدا پرا یمان کے علاوہ اپنے کاموں کو بھی اسی کے سپرد کردیتے ہیں . اس گروہ کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جودنیا سے محبت اوراس کی ناپا ئیدار متاع سے دلچسپی کی وجہ سے خدائی آیات کے بار ے میں جھگڑ ے پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں اورحقائق کو پامال کردیتے ہیں . توا س طرح یہ آخر ی آیت علت کے بیان کی وجہ سے پہلی آیت کے ساتھ بالکل ملتی جلتی ہے جس میں آیات الہٰی کے بار ے میں مجادلہ کرنے والوں کی بات کی گئی ہے۔
۱۔ سور ہٴ ابراہیم آیت ۵، سور ہٴ لقمان آیت ۳۱ و سورہ ٴ سباآیت ۱۹ اور آیت زیر بحث ۔
۲۔ تفسیر صافی ،تفسیر مجمع البیان ،تفسیر فخرر ازی اور تفسیر قر طبی ، سورہٴ لقمان کی آیت ۳۱ کے ذیل میں۔
۳۔ تفسیر کشاف میں زمخشر ی کے بقول ” وَ یَعْلَمَ الَّذینَ یُجادِلُونَ...“ کاجملہ اس لیے منصوب ہے کیونکہ اس کاعطف ،محذوف تعلیل پر ہے جس کی تقد یریوں ہے ” و لینتقم منھموَ یَعْلَمَ الَّذینَ یُجادِلُون“یعنی جس کامقصد یہ ہے کہ خدا اس گروہ سے انتقام لے اور ہدف یہ ہے کہ مجادلہ کرنے والے جان لیں کہ نجات کاکوئی راستہ نہیں ہے۔
۴۔ تفسیر نمونہ جلد دہم صفحہ ۲۶۴ پر یہ کلمہ ”محص “ کے مادہ کے طورپر ذکر ہواہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے ۔
۵۔ تفسیرروح البیان ، جلد ۳ ،ص ۴۲۹ (سورہٴ توبہ کی ۳۸ ویں آیت کے ذیل میں ) ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma