۱۔ مشہور مفسر ” آلوسی “ سے کچھ باتیں :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
یہاں پر ایک سوال جوبہت سے لوگوں کے پیش نظرہے اور مشہورمفسر آلوسی نے اسے شیعوں پرایک اعتراض کی صورت میں اپنی تفسیر روح المعانی میں پیش کیاہے ،بیان کرکے اس کے تجزیہ وتحلیل کریں گے آلوسی کی گفتگو کاخلاصہ کچھ یوں ہے :
” بعض شیعوں نے اس آیت کو علی علیہ السلام کی امامت پردلیل کے طور پر پیش کیاہے اور کہاہے کہ علی علیہ السلام کی محبت واجب ہے اور جس کی محبت واجب ہوتی ہے اس کی اطاعت بھی واجب ہوتی ہے اورجس کی اطاعت واجب ہوتی ہے وہ امام ہوتاہے . اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ علی علیہ السلا م مقام امامت کے مالک ہیں اوراسی آیت کوانہوں نے دلیل کے طورپرپیش کیاہے۔
لیکن ان کی یہ باتیں کئی لحاظ سے قابل اعتراض ہیں پہلے تویہ کہ اس آیت کو محبت کے وجوب پردلیل ہم اس وقت مانیں گے ... جب ہمیںیہ معلوم ہوجائے کہ یہ آ یت پیغمبر خداکے اقرباء کی محبت کے معنی میں ہے جب کہ بہت سے مفسرین نے اس معنی کوتسلیم نہیں کیاان کی دلیل ہے کہ یہ بات مقام نبوت کے شایان شان نہیں ہے کیونکہ اس سے آپ کی ذات پر تہمت آتی ہے کہ آپ کا یہ مقام دنیا پر ستوں کے کام جیساہوگاکہ پہلے تووہ کسی کام کو شروع کردیتے ہیں پھر اس کے فوائد اورمنافع کااپنی اولاد اوررشتہ داروں کے لیے مطا لبہ کرتے ہیں . علا وہ ازیں یہ بات سورہ ٴ یوسف کی آیت ۱۰۴ کے بھی منافی ہے جس میں ارشاد ہے ” وَ ما تَسْئَلُہُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ “ یعنی اے پیغمبر ! تم ان لوگوں سے اپنی اجرت طلب نہیں کرتے ۔
دوسرے یہ کہ :ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ محبت کا وجود اطاعت کی دلیل بن سکے کیونکہ ابن بابویہ اپنی کتاب ” اعتقادات “ میں کہتے ہیں کہ :امامیہ کااس پر اتفاق ہے کہ علو یوں کی محبت لازم ہے جبکہ وہ ان سب کو واجب الاطاعت نہیں سمجھتے ۔
تیسرے یہ کہ : ہم یہ بات بھی نہیں مانتے جس شخص کی اطاعت واجب ہوتی ہے وہ امام یعنی زعا مت کبر ی کا مالک بھی ہو و گرنہ پیغمبر اپنے زمانے میں امام ہوتاہے ، جب کہ ہم جناب طالوت کی داستان میں پڑھتے ہیں کہ و ہ ایک گروہ کے امام ہوئے جبکہ اس زمانے میں ایک اور پیغمبر بھی موجود تھے ۔
چوتھے یہ کہ : آ ی کاتقاضا ہے کہ تمام اہلبیت واجب الاطاعت ہوں،اوراسی بناپروہ سب اما م ہوں جبکہ امامیہ کاایسا عقیدہ نہیں ہے ( 1).


اعتراض پرا یک تحقیقی نظر


آ یہٴموٴدت اوردوسر ی آیات میں بہت سے موجود قرائن میں غور کرنے سے ان میں سے کئی اعراض کاجواب واضح طور پر معلوم ہوجاتاہے۔
کیونکہ ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ یہ محبت کوئی معمولی اور عام چیز نہیں ہے بلکہ یہ تونبوت کی جزااور رسالت کا اجر ہے اور فطرة ً اس محبت کوبھی نبوت ورسالت کے ہم پلّہ ہونا چاہیئے.تاکہ اس کااجر قرار پاسکے ۔
پھر دوسری آیات سے معلوم ہوتاہے اور قرآ مجید گواہی دیتا ہے کہ اس محبت کافائدہ کوئی ایسی چیزنہیں ہے جو خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچنے بلکہ اس کاسوفیصد فائدہ خود موٴ منین کوپہنچتا ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسامعنوی امرہے جومسلما نوں کی ہدایت کے ارتقاء میں موٴ ثر ہے۔
اس طرح سے اگرچہ آیت کے ظاہر سے محبت کے وجوب کے علاوہ اورکوئی چیزمعلوم نہیں ہوتی لیکن اس محبت کے وجوب کے لیے جوقرائن مذکور ہوئے ہیں وہ مسئلہ امامت کوواضح کرتے ہیں کہ جومقام نبوت ورسالت کامددگار اور پشت بناہ ہے۔
مندرجہ بالا مختصر سی وضاحت کے بعدہم مذکورہ اعتراض کاجواب پیش کرتے ہیں۔
پہلے تو یہ کہ : آلوسی کہتے ہیں کہ بعض مفسرین اس آیت سے مودّت اہلبیت مراد نہیں لیتے . یہ بات ماننی پڑے گی کہ پہلے سے کئے ہوئے فیصلے اوررسومات ایساکرنے میں حامل ہوئی ہیں . مثال کے طور پر کچھ لوگ تو” قربیٰ “ کامعنی ” خداکا تقرب کرتے ہیں جب کہ قرآن مجید کی تمام آیات میں جہاں جہاں بھی یہ کلمہ استعمال ہواہے وہاں پر” قر یبی رشتہ دارو“ کے معنی میں ہے۔
یابعض لوگ اس کی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی عرب قبائل کے ساتھ رشتہ داری سے تفسیرکرتے ہیں جب کہ یہ تفسیر آیت کے نظام کومکمل ورپر درہم برہم کردیتی ہے . کیونکہ اس صورت میں اجر رسالت ان لوگوں سے طلب کیاجارہا ہے جنہوں نے رسالت کوقبول کرلیاہے اورجولوگ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی رسالت کو قبول کرچکے ہوں پھر کیا ضرورت ہے کہ ان سے یہ تقاضاکیاجائے کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی رشتہ داری کاپاس کرتے ہوئے انہیں تکلیف دینے سے باز رہیں۔
پھر کیاوجہ ہے کہ جب بے انتہا روایات آیت کوا ہلبیت علیہم السلام کی ولایت سے تفسیر کرتی ہیں انہیں چھوٴ اتک نہ جائے ؟
اس لیے یہ بات قبول کرناپڑے گی کہ مفسرین کے اس گر وہ نے ہرگز خالی الذ ہن ہوکر آیت کی تفسیر نہیں کی ، ورنہ کوئی پیچیدہ بات آ یت کے مطلب میں موجود نہیں ہے۔
اسی سے واضح ہو جاتاہے کہ مودّت اہلبیت علیہم السلام کاتقاضانہ تومقام نبوت کے منافی ہے اورنہ ہی اسے دنیا پرستوں کے طریقہ کارپرقیاس کیاجاسکتاہے.اوریہ معنی سورہ ٴ یوسف کی آیت ۱۰۴ سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہے جو ہر قسم کی اجر ت کی نفی کررہی ہے،کیونکہ اہلبیت علیہم السلام کی مودت کااجر حقیقت میں ایسااجر نہیں ہے جس سے خود رسول اللہ کوکوئی فائدہ ہو،بلکہ اس میں خود مسلمانوں کااپنافائدہ ہے۔
دوسرے یہ کہ :یہ صحیح ہے کہ عام اورمعمولی محبت اطاعت کے وجوب کی ہرگز دلیل نہیں بن سکتی لیکن جب ہم اس بات کوپیش نظرلاتے ہیں کہ یہ محبت کوئی عام محبت نہیں بلکہ نبوت ورسالت کے ہم پلہ ہے تو یقین ہوجاتاہے کہ اطاعت کا وجوب بھی اسی میںپوشیدہ ہے اور یہیں پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ابن بابو یہ (شیخ صدوق ) کی گفتگو بھی اس امر کے منافی نہیں ہے۔
تیسرے یہ کہ:یہ ٹھیک ہے کہ ہراطاعت کاوجوب زعامت کبری اورامامت کی دلیل نہیں بن سکتی لیکن یہ بات بھی تو مدنظر ہونی چاہیئے کہ جس اطاعت کا وجوب ، رسالت کااجر قرار پارہاہے وہ امام کے علاوہ کسی اور کے شایا ن شان نہیں ہوسکتی ۔
چوتھے یہ کہ:امام بمعنی رہبر وپیشوا ... ہردور میں صرف ایک ہی شخصیت ہوسکتی ہے اوربس لہٰذا تمام اہلبیت کی امامت کاکوئی معنی نہیں ہے . اس کے علاوہ آیت کامعنی سمجھنے میں روایات کے تعلق کوبھی بہر صورت پیش نظر رکھنا چاہیئے ۔
پھر یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آلوسی نے ذاتی طورپر مودت اہلبیت کوبہت بڑی اہمیت دی ہے اورمندر جہ بالا بحث سے چند سطو ر پہلے وہ لکھتے ہیں :
حق با ت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اقر باء کی مودت بوجہ ان کے پیغمبرکارشتہ دار ہونے کے واجب ہے اور قرابت جتنی زیادہ قوی ہوگی محبت کاوجوب اس قدر بیشتر ہوگا ۔
آخرمیں کہتے ہیں :
اس مودت کے آثارپیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اقرباء کی تعظیم،احترام اوران کے حقوق کی ادائیگی سے ظاہر ہوتے ہیں.جبکہ بعض لوگ اس بار ے میں سستی سے کام لیتے ہیں حتٰی کہ اقرباء پیغمبر ( صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ) سے محبت کو ایک قسم کی رافضیت سمجھتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کہتا بلکہ وہی کہتاہوں جوامام شافعی نے اپنے جاذب اور دل نشین اشعار میں کہا ہے۔
پھر وہ امام شافعی کے مذ کورہ اشعار نقل کرتے ہیں اورکہتے ہیں :
اس کے ساتھ میرایہ بھی عقیدہ ہے کہ میں اہلسنت کے بزرگوں کے عقائد سے باہر نہیں ہوں جووہ صحابہ کرام کے بار ے میں رکھتے ہیں اوران کی محبت کوبھی واجب سمجھتا ہوں ( 2).
1۔ تفسیرروح المعانی جلد ۲۵،ص ۲۷(اسی آیت کے ذیل میں ) ۔
2۔ روح المعانی ، جلد ۲۵ ،ص ۲۸۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma