” لیس کمثلہ شی ء “ میں ” کاف “ حرف تشبیہ ہے ، جس کامعنی ہے ” مثل “ اور یہ
پوراجملہ مل کریہ معنی دے گا ” اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں ہے “ اس لفظی تکرار کی
وجہ سے بہت سے مفسرین نے ” کاف “ کو زائدہ تسلیم کیاہے جوعام طور پر تاکید کے لیے
آتاہے . فصحاء عرب کے کلام میں ایسی ہزا روں مثالیں ملتی ہیں۔
لیکن یہاں پر ایک نہایت ہی لطیف حوادث سے نہیں ب بھا گناچاہیئے جن میں اس قدر شجاعت
، بہادری ،عقل اورہوش وخرد ہو. ( یعنی جن لوگوں میں تمہارے جیسی صفات پائی جائیں
انہیں یہ کام کرنا چاہیئے ).
زیر بحث آیات کایہ معنی ہوگا: خدا وند عالم کی مثل کی مثل کبھی نہیں ہوسکتی جس میں
وسیع علم اور عظیم و لا متناہی صفات پائی جائیں۔
یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ بعض ارباب لغت کے بقول چند الفاظ ایسے ہیں جو” مثل “
کامعنی دیتے ہیں . البتہ اس کے مفہوم کے جامع ہونے کو نہیں پہنچ سکتے ۔
” ند “ ( بروزن ضد ) کالفظ وہاں بولاجاتاہے جہاں پرصرف جو ہر اورماہیت میں شبا ہت
مقصود ہو ۔
” شبہ “ کالفظ وہاں بو لاجاتاہے جہاں کیفیت کی بات درپیش ہو ۔
” مسا وی “ کااطلاق وہاں ہوتاہے جہاں پرتعداد ( کمیّت ) کی بات کرنی مقصود ہو ۔
”شکل “ وہاں پر بولتے ہیں جہاں پر مقدار کی بات ہو ۔
لیکن ”مثل “ کا مفہوم وسیع اور عام ہے کہ جس میں سب مفاہیم جمع ہیں . یہی وجہ ہے کہ
جب خداوند عالم اپنی ذات سے ہرقسم کی شبیہ ونظیر کی نفی کرناچاہتا ہے توفرماتاہے ”
لیس کمثلہ شی ء “ ( 1).
1۔ مفردات راغب . مادہ ” مثل “ ۔