با استقا مت موٴمنین پر فرشتوں کا نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

ہم جانتے ہیں کہ مطالب سمجھانے اور واضح کرنے کے لیے قرآن مجید کاطریقہ کار یہ ہے کہ دومتضاد چیزوں کوتقابل کے طورپر ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کرتاہے ، تاکہ ان کاباہمی موازنہ کیاجائے اوران کی اچھی طرح سے شناخت ہوجائے اور چونکہ گزشتہ آیات میںضدی مزاج اور ہٹ دھرم منکرین کاتذ کرہ تھا جو اپنے کفر پرڈٹے ہوئے تھے اورخداوند عالم بھی انہیں درد ناک عذاب اورمختلف سزاؤں کی دعید دے رہا تھا ، لہذا ان آیات میں ان موٴ منین کے بار ے میں گفتگو ہو رہی ہے جو اپنے ایمان میں پکے اور مستقل مزاج ہیں . اورخدا وند عالم بھی انہیں سات قسم کی نعمتوں اورع جزاؤں سے نواز نے کی طرف اشارہ کررہاہے جوغالبا ًگزشتہ سزاؤں کانقطہ مقابلہ ہیں۔
سب سے پہلے فرمایاگیاہے :جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پر وردگار اللہ ہے پھروہ اپنے اس کہے پرڈٹ جاتے ہیں اور ان میں ذرہ بھر لغزش پیدانہیں ہوتی اور جو اس کالازمی نتیجہ ہوتاہے اس کاوہ اپنے گفتار وکردار کے ذریعے اظہار کرتے ہیں تواللہ کے فرشتے ان پرنازل ہوتے ہیں کہ نہ توڈرو اور نہ ہی غم کرو (إِنَّ الَّذینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلائِکَةُ اٴَلاَّ تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا )۔  
کیاہی جامع اور دلکش تعبیر ہے جس میں درحقیقت تمام نیکیاں اوراہم صفات اکھٹی ہیں . سب سے پہلے خداکے ساتھ د ل لگا نااوراس پر پختہ ایمان رکھنا ، پھر تمام زندگی کوایمان کے رنگ میں رنگ دینا اور اُسے اپنے تمام امور میں قرار دینا ہے (۱)۔ 
دنیامیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جوعشق الہٰی کادم توبھرتے ہیں لیکن میدان عمل میں ثابت قدم دکھائی نہیں دیتے . وہ ایسے سست اور ناتواں ہوتے ہیں جب انہیں خواہشات نفسانی کے طوفانوں کامقابلہ کرناپڑ تا ہے توایمان کوبھی خیر باد کہ دیتے ہیں اور میدان عمل میں بھی مشرک بن جاتے ہیں . اور جب مفادات کوخطرات میں گھر ادیکھتے ہیں تو برائے نام ایمان کوبھی ضائع کر دیتے ہیں۔
حضرت علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد اس کی واضح ترین اور پُرمعنی تفسیرفرماتے ہیں :
وقد قلتم ”ربنااللہ“ فا ستقیموا وعلی کتابہ و علی منھاج امر ہ و علی الطر یقة الصا لحة من عبادتہ ، ثم لاتمر قوامنھا ،ولا تبتد عوا فیھا ، ولاتخا لفواعتھا
جب تم نے کہہ دیاہے کہ ” ہمارا رب اللہ ہے “ تو اس پرثابت قدم رہو . اس کی کتاب کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل کرو ، جس راستے پرچلنے کااس نے حکم دیاہے اور جس طریقے سے اس نے عبادت کاحکم دیا ہے اس پر استقامت اور پامردی کے ساتھ چلتے رہو . اس کے دائرہ فرمان سے کبھی باہر نہ نکلو ، اس کے دین میں کبھی بدعت نہ کرو اورکسی بھی موقع پراس کی مخالفت نہ ہرو (۲)۔ 
ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا :
قد قا لھاالنا ،ثم کفر اکثرھم ،فمن قالھا حتی یموت فھو ممن استقام علیھا
کچھ لوگوں نے یہ بات کہی پھر ان میں سے اکثر کافرہوگئے لیکن جو شخص یہ کہے اوراس پر مرتے دم تک ثابت قدم رہے تووہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے استقامت کاثبوت دیاہے ( ۳)۔ 
حضرت امام رضا علیہ السلام سے ” استقامت “ کی تفسیر کے بار ے میں پوچھاگیا ہے توآپ علیہ السلام نے فرمایا :
ھی واللہ ماانتم علیہ
واللہ ! استقامت ولایت ہی تو ہے جس پر تم قائم ہو ( ۴)۔ 
اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ آیت کامفہوم ولایت ہی پرموقوف ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت اور رہبر ی کوقبول کرلینا خط توحید اورصحیح وحقیقی اسلام کی بقا اور عمل کے تسلسل کاضامن ہوتاہے لہذا مام علیہ السلام نے ” استقامت “ کی اس معنی میں تفسیر کی ہے۔
مختصر یہ کہ کسی انسان کی قدرو قیمت اس کے ایمان اور عمل صالح میں ہی منحصر ہے اور وہ آیت کے اس جملے ” قا لو اربنا اللہ ثم استقا موا “ میں منعکس ہے لہذا ایک روایت میں اسلام کے عظیم الشان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ ایک شخص آپ علیہ السلام کی خدمت بابر کت میں حاضر ہو کرعرض کرنے لگا ۔
اخبر نی با مرا عتضم بہ
مجھے کوئی ایساحکم دیجئے جسے میں مضبوطی سے تھا مے رکھو ں اور دنیا و آخرت میں نجات پاجاؤں ؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قل ربی اللہ ثم استقم
تم کہو میراپروردگار اللہ ہے ، اورپھر اس پر مضبوطی سے قائم رہو ۔
سائل نے پھرپوچھا :
ارشاد فرما ئیے کہ کونسی چیزسب سے زیادہ خطرناک ہے جس سے مجھے پرہیز کرناچاہیئے ؟
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی زبان پکڑ کرفر مایا کہ
یہ ( ۵)۔  
اب دیکھنا یہ ہے کہ جولوگ ان دواصو لوں پر قائم رہتے ہیں وہ خدا کے کن انعامات کے مستحق قرار پاتے ہیں ؟
ا س با ر ے میں قرآن مجید میںخدا کی سات عظیم عنایات کی طرف اشارہ ، کیاگیاہے، ایسی عنایات کہ اللہ کے فرشتے ان پرنازل ہو کر انہیں ان کی خوشخبر ی سناتے ہیں۔
پہلی اور دوسری خوشخبری کے بعد جوکہ ” خوف “ اور” حزن“ کو دل میںراہ نہ دینا ہے.تیسرے مرحلے پر ارشاد ہوتاہے : تمہیں اس بہشت کی خوشخبر ی ہو جس کاتم سے وعدہ کیاگیاہے (وَ اٴَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ)۔ 
چوتھی خوشخبری یہ ہے کہ ”ہم تمہارے دنیاوی زندگی میں بھی یار و مدد گار ہیں اورآخرت میں بھی “ ہم تمہیں کہیں بھی اکیلانہیں چھوڑیں گے ،نیکیوں میں تمہاری امداد کریں گے اور لغزشوں سے تمہیں بچائیں گے حتٰی کہ تم بہشت میں پہنچ جاؤ گے (نَحْنُ اٴَوْلِیاؤُکُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ فِی الْآخِرَة)۔ 
پانچویں بشار ت کے سلسلے میں کہتے ہیں : تمہارے لیے بہشت میں غیر مشروطور پر وہ سب کچھ مہیا ہے جو کچھ تمہارا جی چاہے گا (وَ لَکُمْ فیہا ما تَشْتَہی اٴَنْفُسُکُمْ)۔ 
چھٹی کوخوشخبری یہ ہے کہ نہ صرف مادی نعمتیں تمہاری حسب منشاء تمہیں ملیں گی بلکہ ” جوروحانی نعمتیں مانگوگے وہ بھی تمہیں ملیں گے “ ( وَ لَکُمْ فیہا ما تَدَّعُونَ )۔ 
آخر میں ساتویں اور آخری نعمت کوخوشخبری انہیں یہ ملے گی کہ چونکہ تم جاودانی بہشت میں خدا کے مہمان ہوگے اور یہ سب نعمتیں تمہاری خاطر تواضع کے طورپر تمہیں عطاہوں گی جس طرح کسی معز ز مہمان کی کسی معز ز میز با ن کی طرف سے خاطر تواضع کی جاتی ہے لہذا ” یہ سب غفور ورحیم اللہ کی طرف سے میز بانی کے طورپر ہوگا “ (نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحیمٍ )۔ 
۱۔ ”استقا موا “کا کلمہ ” استقامت “ کے مادہ سے لیاگیاہے جس کامعنی سیدھے راستے پر بر قرار اورصحیح راہ پر ثابت قدم رہنا ہے . بعض صاحبان لغت نے اس کی ” اعتدال“سے بھی تفسیر کی ہے اور بعید نہیں کہ دونوں معانی صحیح ہوں۔
۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶۔
۳۔ مجمع البیان اسی آیت کے ذیل میں۔
۴۔ مجمع البیان اسی آیت کے ذیل میں۔
۵۔روح البیان جلد ۸ ،ص ۲۵۴۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma