بر ے ساتھی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں ” اعداء اللہ“ (دشمنان خدا ) کے انجام کاذکر تھا، اور مند رجہ بالادونوں آیات میں دنیااور آخرت میں ان کی دردناک سزاکا ذکرموجودہے۔
سب سے پہلے فر مایاگیاہے : وہ صبرکریں یانہ کریں آتش جہنم ان کاٹھکاناہے اوراس سے ان کاچھٹکاراناممکن ہے (فَإِنْ یَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْویً لَہُمْ )(۱ )۔ 
” مثوی “ ” ثوی“ (بروزن .” ھوی “) کے مادہ سے ہے جس کامعنی رہائش گاہ اورٹھکاناہے۔
درحقیقت یہ آیت سورہٴ طور کی آیت ۱۶ کے مشابہ ہے جس میں خدا فرماتاہے :
اصلوھافاصبر وااولاتصبرو ا سوا ء علیکم
جہنم کی آگ میں داخل ہوجاؤ . صبر کرو یانہ کر وتمہارے لیے کوئی فرق نہیںپڑے گا ۔
اسی طر ح سورہ ٴ ابراہیم کی آیت ۲۱ میں ہے :
سَواء ٌ عَلَیْنا اٴَ جَزِعْنا اٴَمْ صَبَرْنا ما لَنا مِنْ مَحیصٍ
ہم صبرکریں یانہ کریں ہمارے لیے ایک ہی بات ہے کہ نجات کاکوئی راستہ نہیں ہے۔
پھر اسی مطلب کی تاکید کے طورپر فرمایاگیاہے : اگر وہ خداسے معافی کردرخواست بھی کریں ، قبول نہیں ہوگی اورانہیں معافی نہیں ملے گی (وَ إِنْ یَسْتَعْتِبُوا فَما ہُمْ مِنَ الْمُعْتَبینَ)۔  
”ْ یَسْتَعْتِبُون “ دراصل ” عتاب “ کے مادہ سے لیاگیاہے جس کامعنی غصّے کااظہار ہے اوراس کامفہوم یہ ہے کہ گناہگار شخص خود کوصاحب حق کی سر زنش کے سامنے پیش کرکے سرتسلیم خم کردے تاکہ اس طرح سے وہ اس پرراضی ہوجائے اوراس کی خطائیں معاف کردے . لہذا یہ مادہ ” استعتاب “ استر ضاء اور معافی مانگنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ( ۲)۔ 
اس کے بعد ان کے درد ناک دنیا وی عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : ہم نے بداندیش اوربُری سیرت کے لوگوں کوان کاساتھی اورہم نشین مقرر کیاہے جوہر چیز کوان کی نگاہوں میں مزیّن کرچکے ہیں . انہوں نے برائیوں کواچھا ئیوں کی صورت میں اوربدصورتی کوخوبصورتی کے رنگ میں پیش کیاہے (وَ قَیَّضْنا لَہُمْ قُرَناء َ فَزَیَّنُوا لَہُمْ ما بَیْنَ اٴَیْدیہِمْ وَ ما خَلْفَہُمْ)۔  
” قیضنا “ ” قیض “ ( بروزن ”فیض“ ) کے مادہ سے ہے جس کاصل معنی انڈے کاچھلکاہے، پھراس کااستعمال ان لوگوں پرہونے لگا جوکسی پرمکمل طورپر مسلط ہوتے ہیں جس طرح چھلکا انڈے پرمسلط ہوتاہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس طر ح کے فاسد اور مفسد دوست انہیں ہرطرف سے گھیرے ہوئے ہوتے ہیں جوکہ ان کے افکار کوغارت کردیتے ہیں اوران پراس حد تک تسلط قائم کئے ہوتے ہیں کہ وہ اچھے اوربُرے کے درمیان تمیز بھی نہیں کرسکتے . اچھا ئیاں ان کی نگا ہوں میں برائیاں اورخوبصورتی ،بدصورتی میں تبدیل ہوچکی ہوتی ہے اور یہ حالت انسان کے لیے کس قدر درد ناک ہوتی ہے . کیونکہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ گرداب فساد کی لپیٹ میں آجاتاہے اور پھر اس کاوہاں سے نکلنامحال ہوجاتاہے کیونکہ نجات کے تمام رستے اس پربند ہوجاتے ہیں۔
بسا اوقات ” قیضنا“ کامادہ ایک چیزسے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کے لیے بھی استعمال ہوتاہے . بنابریں آیت میں تفسیر یوں ہوگی کہ ہم نیک دوست ان سے چھین کران کی جگہ انہیں بُرے دوست دے دیتے ہیں۔
یہ معنی نہایت واضح صورت میں سورہ ٴ زخرف کی ۳۶ ویں اور ۳۷ ویں آیات میں ہے :
وَ مَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطاناً فَہُوَ لَہُ قَرینٌ،وَ إِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبیلِ وَ یَحْسَبُونَ اٴَنَّہُمْ مُہْتَدُونَ۔
جولوگ ذکرخدا سے منہ مو ڑ تے ہیں ہم بھی ان کے لیے شیطان مقرر کردیتے ہیں جوہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اوریہ شیاطین انہیں راہ حق سے روکتے رہتے ہیں جب کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔
سچ مچ جب ہم ظالموں ، مفسدوں اور تباہکاروں کے ٹولوں پرنگاہ ڈالتے ہیں توان کی زندگی میں شیطان کی علامات بخوبی دکھائی دیتی ہیں گمراہ ساتھی انہیں ہرطرف سے گھیر ے ہوتے ہیں اوران کی عقل وفکرپرمکمل طورپر چھا ئے ہوتے ہیں اورحقائق کوان کی نگاہوں میں الٹ پھیر کر پیش کرتے ہیں۔
” ما بَیْنَ اٴَیْدیہِمْ وَ ما خَلْفَہُم“ ( جوکچھ ان کے سامنے اوران کے پیچھے ہے ) یہ جملہ ممکن ہے شیاطین کے ہرجانب سے احاطے کی طرف اشارہ ہوجوہربرائی کوان کے لیے بھلائی بناکر پیش کرتے ہیں۔
یہ احتمال بھی ہے کہ” ما بَیْنَ اٴَیْدیہِم “ سے مراددنیا وی چکاچوند اور عیش وعشرت ہواور” وَ ما خَلْفَہُم“ سے مراد قیامت اورمعاد کاانکار ہو ۔
یہ تفسیر بھی ممکن ہے کہ ”ما بَیْنَ اٴَیْدیہِمْ “ سے ان کی دنیاوی کیفیت کی طرف اشارہ ہو اور” وَ ما خَلْفَہُم “ ان کے مستقبل اوران کی اولاد کے مستقبل کی طرف اشارہ ہو اور یہ لوگ بہت سے جرائم کا ارتکاب اپنے مستقبل کے لیے کرتے ہیں۔
پھرفر مایاگیاہے :
اس افسوسناک صورت حال کے پیشِ نظر عذاب کے بار ے میں خدا کافرمان برحق ثابت ہوااوروہ اپنے سے پہلے جن وانس کی اقوام کے انجام سے دوچار ہوئے ( وَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فی اٴُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْس)(۳)۔  
آیت کوان الفاظ پرختم کیاگیاہے :
یقینا وہ نقصان اٹھانے والے تھے (انھم کانوا خاسرین )۔  
اس قسم کی تعبیردرحقیقت ان تعبیرات کانقطہ مقابل ہیں جو بعد میں آنے والی آیات میں با استقا مت اور دھن کے پکے موٴ منین کے بار ے میں بیان ہوتی ہیں.کہ دنیا و آخرت میں جن کے دوست اور ساتھی خدا کے فرشتے ہیں اور انہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ ان کے لیے کسی قسم کارنج وغم نہیں ہوگا ۔
۱۔ یہ آیت تقدیری طور پر یوں ہے ” فان یصبرو ااولا یصبر وا فالنار مثوی لھم “ ۔
۲۔ ” مفردات راغب “ ” و لسان العرب “ مادہٴ عتبہ ۔
۳۔ ” فی اھم “ کاجملہ فعل محذوف سے متعلق ہے جس کی تقدیریوں ہے :
کائنین فی امم قد خلت...
اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہاں پر ” فی “ ” مع“ کے معنی میں ہو ۔ 
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma