چاندی کے محل ۔ جُھو ٹی قدریں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ آ یات بھی اسلامی نظام کی اقدار کاذکر کررہی ہیں او ر بتار ہی ہیں کہ مال ودولت اورمادی جاہ ومنصب کو ئی معیار نہیں ہے . چنانچہ اس سلسلے کی سب سے پہلی آ یت میں ارشا دفر مایاگیا ہے : اگر کفار کامادی وسائل سے استفادہ اس بات کا سبب نہ ہوتاکہ تمام لوگ کفر کی طرف مائل ہوکر گمراہی میں ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے ، توہم ان لوگوں کے جو خداوند رحمان کاانکار کرتے ہیں ، گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے (وَ لَوْ لا اٴَنْ یَکُونَ النَّاسُ اٴُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ یَکْفُرُ بِالرَّحْمنِ لِبُیُوتِہِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ ) (۱) ۔
اور جن گھروں کی کئی منزلیں ہوتی ہیں ان کی ” سیڑ ھیاں بھی کہ جن پروہ چڑ ھتے ہیں (وَ مَعارِجَ عَلَیْہا یَظْہَرُون)(۲) ۔
بہت سے مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں پرمر اد چاندی کی سیڑ ھیاں ہیں اور لفظ ” فضہ “ (چاند ی )کودوبارہ اس لیے نہیںلایاگیا کیونکہ وہ واضح طورپر موجود ہے .اس طرح سے گویا انہوں نے صرف سیڑھیوں کے وجُود کوگھروں کی اہمیّت کی دلیل نہیں سمجھا ،حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ،کیونکہ بہت سی سیڑھیوں کاوجود ہی مکانات کی عظمت اور کئی منزلہ ہونے کی دلیل ہے ۔
” سُقف“ ( بروزن ” شتُر “ )” سَقف“ کی جمع ہے .البتہ کچھ مفسرین اسے ” سقیفہ “ (چھپی ہوئی جگہ ) کی جمع سمجھتے ہیں .لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے ۔
پھر فرمایاگیاہے کہ اس کے علاوہ ہم ” ان کے گھروں کے در واز ے اور وہ تخت قرار دیتے جن پروہ تکیہ لگاتے ہیں“ (وَ لِبُیُوتِہِمْ اٴَبْواباً وَ سُرُراً عَلَیْہا یَتَّکِؤُنَ) ۔
ممکن ہے کہ یہ جُملہ نقرئی در وازوں اور تختوں کی طرف اشارہ ہو کیونکہ سابقہ آ یت میں چھتوں کے نقرئی ہونے کاذکرہے اور یہاں پرنقرئی ہونے کودوبارہ ذکرنہ کیاگیاہو یہ بھی ممکن ہے کہ کئی در وازوں اور کئی تختوں کی طرف اشارہ ہو ( ابوابًا)اور” سرراً“چونکہ نکرہ ہیں اور یہاں پراہمیّت بیان کرنے کے لیے آئے ہیں جوبذات خودان محلّات کی عظمت کی ایک دلیل ہے . کیونکہ کسِی معمولی اورحقیر سے گھر میں متعدد دروازے نہیں ہوا کرتے . بلکہ بات بڑ ے بڑے محلات اوراونچی عمار توں ہی سے محفوظ ہو اکرتی ہے .اسی طرح تخت بھی ایسی ہی عما رتوں میں پائے جاتے ہیں ۔
پھر بھی اسی پر اکتفانہیںکیاگیا ، بلکہ آگے چل کرفرمایاگیاہے کہ اس کے علاوہ زیب وزینت کے دوسر ے وسائل بھی (وَ زُخْرُفاً )(۳) ۔
تاکہ ان کی پرتعیش زندگی ہرلحاظ سے مکمل ہوجائے . یعنی نقرئی چھتوں کی باشکوہ اورکئی منزلہ محلات اور عمارتیں، متعدددر وازے اور تخت ،زیب وزینت کے مختلف وسائل اورہر قسم کے نقش ونگارجو عام طورپر دُنیا پرستوں کے مطلُوب ، مقصُود اورمعدُود ہواکرتے ہیں ۔
پھر فرمایاگیاہے : لیکن یہ سب کُچھ دنیاوی مادی زندگی کے وسائل ہیں اور تیرے پروردگار کے نزدیک آخرت توصرف پرہیز گاروں کے لیے ہے ( وَ إِنْ کُلُّ ذلِکَ لَمَّا مَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقینَ ) ۔
” زخرف “ دراصل ہراس زینت اور آ رائش کوکہتے ہیں جس میں طرح طرح کے نقش و نگار ہوں اور چونکہ زینت کاایک اہم ترین ذریعہ ” سونا “ ہے لہٰذا اسے بھی ” زخرف “ کہتے ہیں اور فضُول باتوں کواس لیے ” زخرف“ کہاجاتاہے کیونکہ ان پر ملمع سازی کرکے پیش کیاجاتاہے ۔
المختصر مادی سر مایہ اور دنیاوی زینت کے یہ وسائل اللہ کی بار گاہ میں اس قدر بے قدر وقیمت ہیں کہ صرف کفّار ومنکرین حق جیسے بے قدر و قیمت افراد ہی کے شانِ شایان ہواسکتے ہیں .اگرکم ظرف اور دُنیا کے دل دادہ بے ایمانی اورکُفر کی جانب جھکاؤپیدا نہ کرلیتے تو خدا وند ِ عالم اس سر مائے کوصرف اپنی درگاہ سے دھتکار ے ہُو ئے لوگوں کے ہی نصیب کرتا تاکہ سب لوگوں کومعلوم ہوجاتا کہ ایسے امورانسانی قدر وقیمت اور شخصیت کا معیار نہیں ہوٴا کرتے ۔
۱۔ ”لِبُیُوتِہِمْ “ ” لِمَنْ یَکْفُرُ بِالرَّحْمن“ کابدل الاشتمال ہے اورلام کو بھی دوبارہ اسی لیے لایاگیاہے یاپھر” ِ لِبُیُوتِہِمْ “ کی ” لام“ ” علیٰ “ کے معنٰی میں ہے جس کامفہوم یہ ہوگا ” علی بیوتھم “ لیکن پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے ۔
۲” معارج “ کا معراج کی جمع ہے . ایسا ذریعہ جس کی وجہ سے انسان بالائی منزلوں پر جاتاہے ۔
۳۔بعض مفسرین ”زُخْرُفاً“ کو ” سقفاً “ پر عطف اور زینت کے مستقل وسائل کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جواس قسم کے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں اور بعض ” من فضة “ پرعطف جانتے ہیں جو اصل میں ” من زخرف “ ہے پھر اسے ” نزع خافض “ کی وجہ سے منصُوب کیاگیا ہے تو. ایسی صورت میں جُملے کامفہوم بس ہوگا ” ان کے گھروں کی چھتوں ، دروازوں اورتختوں میں سے کچھ کوتو ہم نے سونے کے اور کچھ کوچاندی کے بنایا ہے ( غور کیجئے گا ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma