توحید کے کچھ دلائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہاں سے توحید اور شرک کی گفتگو شروع ہوتی ہے اور سب سے پہلے انسانی فطرت اور سرشت کوپیش ِ نظر رکھ کر توحید پر اثبات کیاجاتاہے اور کائنات پرحکم فرما نظام ِ کے دلائل کوذکر کرنے اور پروردگار عالم کی پانچ نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد انسانوں کی شُکر گزاری کی حس کو بیدار کیاگیاہے اورپھربُت پرستی اور دوسری مُشر کانہ عقائد اورخر افا نی نظر یات کو باطل کیاگیاہے ۔
آ یت کے پہلے حِصّے میں فر مایاگیاہے : اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کوکس نے پیدا کیا تو یقیناوہ جواب میں یہی کہیں گے کہ انہیں عزیز و حکیم خدانے پیداکیا ہے ۔ (وَ لَئِنْ سَاٴَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ لَیَقُولُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزیزُ الْعَلیمُ ) ۔
اس قسم کی تعبیر کہ جو قرآن مجید کی چار آ یات میں مختصر سے فرق کے ساتھ بیان ہوئی ہے ( سورہٴ عنکبوت آ یت ۶۱ ، سُورہ ٴ لقمان آ یت ۲۵ ، سُورہ ٴ زمر آ یت ۳۸ اور سُورہ ٴ زخرف کی اسی آ یت میں ) (۱) جہاں خدا شناسی کی فطر ی دلیل اورانسانی فطرت میں نورِ الہٰی کی تجلّی کی غماز ہے ، وہاں پراس بات کی دلیل بھی ہے کہ مشر کین اس بات کے معترف بھی تھے کہ آسمانوں اور زمین کاخالق خداہے اور سوائے شاذ و نادر مواقع کے اپنے معبُود وں کے لیے خالقیّت کے قائل نہیں تھے ۔
تیسری طرف ان کا یہ اعترا ف بتوں کی عبودیت کے باطل ہونے کی بنیاد ہے ، کیونکہ عبادت کے لائق وہی ہے ، جو کائنات کاخالق اور مدّبر ہے ، نہ کہ وہ چیزیں جن کااس سِلسلے میں کوئی حِصّہ ہی نہیں ، بنابریں ان کااللہ تعالیٰ کی خالقیت کااعتراف خُود اُن کے فاسد اور غلط مذہب کے خلاف د ندا ن شکن دلیل ہے ۔
” عزیز وحکیم “ کی تعبیر جو کہ پروردگار ِ عالم کی مطلق قدرت ، علم اورحکمت کوظاہر کرتی ہے ، اگر چہ ایک قرآنی تعبیر ہے ، لیکن یہ کوئی ایسامطلب نہیں ہے کہ مشر کین جس کاانکار کرسکتے ہوں . کیونکہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی خدا کی طرف نسبت کے اعتراف کالازمہ ہی اس کے عز یز و حکیم ہونے کا اعتراف کرناہے . وہ تو بُتوں کے علم و قدرت کے قا ئل تھے ، چہ جا ئیکہ خدا کے کہ جس تک رسائی کے لیے بتوں کواپنا وسیلہ سمجھتے تھے ۔
پھر خدا کی ان پانچ عظیم نعمتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے : وہی خدا توہے جس نے تمہار ے لیے زمین کو گہوارہ اور سکون کامقام بنایا ہے ( الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْاٴَرْضَ مَہْداً) ۔
” مھد“ اور ” مھاد “ دوایسے کلمے ہیں جو اس جگہ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو بیٹھنے ، سونے اور آرام کرنے کے لیے بنائی جائے . اصل میں یہ ایسی جگہ کوکہا جاتاہے جہاں پر بچّے کوسلا یاجاتاہے خواہ اگہوارہ ہو یاکوئی اور چیز ۔
یقینا خداو ندِ عالم نے زمین کوانسان کے لیے گہوارہ قرار دیاہے حالانکہ اس کی کئی قسم کی حر کتیں ہیں کشش ثقل کے قانون اور ہو ا کے ہر طرف دباؤ اور دوسر ے کئی مختلف عوامل کے باوجود اس قدر ساکن و ساکت ہے کہ اس پر رہنے والے ذرہ بھر بھی اضطراب کااحساس نہیں کر تے اورواضح سی بات ہے کہ آرام وسکُون اورامن و امان ہی دوسری نعمتوں سے استفادہ کی اصل بنیاد ہے . یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اگر یہ مختلف عوامل ایک دوسر ے کے ساتھ نہ ملتے تو یہ سکون بھی کبھی وجُود میں نہ آ تا ۔
دوسری نعمت کو بیان کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے : اس نے زمین میں تمہار ے لیے راہیں مقرر کی ہیں تاکہ تم ہدایت پاجاؤ اور منزل مقصُود تک پہنچ جاؤ (وَ جَعَلَ لَکُمْ فیہا سُبُلاً لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون) ۔
یہ نعمت کہ جسے قرآن مجید میں بار ہا بیان کیاگیاہے ( ملاحظہ ہو سورہ ٴ طہ ۵۳ ، انبیاء ،۱۳۱ اور نحل ، ۱۵ ) ان نعمتوں میں سے ہے جس سے بہت سے لوگ غافل ہیں . کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تقریباً تمام خشکی کو بہت سے نشیب وفراز نے اپنے گھیر ے میں لے رکھّا ہے ، اور چھوٹے بڑے پہاڑوں اور مختلف ٹیلو ں نے اسے ڈھانپ رکھّا ہے ، پھر دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دُنیا کے بڑ ے بڑ ے پہاڑ ی سلسلوں کے درمیان عام طورپر کٹاؤ موجود ہیں جن کے درمیان میں سے انسان اپنی راہیں بناسکتا ہے اور بہت کم اتفاق ہوگا کہ یہ پہاڑ مکمل طورپر زمین کے مختلف حصّوں کے درمیان جدائی کاسبب بنے ہُو ئے ہوں ۔
یہ نظام آفرینش کے اسرا ر میں سے ایک راز اور بندوں پر خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔
اس کے علاوہ زمین کے بہت سے حصّے در یائے رستوں کے ذریعے ایک دوسر ے سے مر بُوط ہیں اور یہ بات بھی آ یت کے عمومی مفہوم میں شامل ہے ( ۲) ۔
اس تمام گفتگو سے یہ نتیجہ نکلا کہ ” لعلکم تھتدون “ سے مراد منزل ِ مقصُود تک ہدایت اور زمین کے مختلف علا قوں کوتلاش کرنا ہے . ہرچند کہ مفسر ین نے اس سے امر توحید اورخدا شناسی کے سلسلے میں ہدایت مرادلی ہے . ( البتہ دونوں معانی کو جمع کرنے میں کوئی مانع موجود نہیں ) ۔
تیسری نعمت بارش کانزول ہے کہ جو مُردہ زمینوں کوزندہ کرتی ہے . بعد کی آ یت میں اس با ت کو یوں بیان کیا جارہا ہے وہی خدا تو ہے جس نے مقررہ مقدار میں آسمان سے پانی نازل کیاہے (وَ الَّذی نَزَّلَ مِنَ السَّماء ِ ماء ً بِقَدَرٍ ) ۔
” اوراس کے ذ ریعے ہم نے مُر دہ زمین کوزند گی عطا کی “ ( فَاٴَنْشَرْنا بِہِ بَلْدَةً مَیْتاً ) ۔
جس طرح مردہ زمینیں بارش کے پانی کی وجہ سے زندہ ہوجاتی ہیں تم بھی مرنے کے بعد اسی طرح زندہ ہو کر قبروں سے باہر آ جاؤ گے (کَذلِکَ تُخْرَجُونَ) ۔
” قدر “ کالفظ اس خاص نظام کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے جونزول باران پر حکم فرماہے . بارش اسی حد تک ہو تی ہے جومفید اورثمر بخش ہو نہ کہ مضر اور نقصان دہ ۔
یہ ٹھیک ہے کہ بعض اوقات سیلاب بھی آتے ہیں اور زمینوں کو ویران کردیتے ہیں .لیکن یہ استثنائی صُور ت ِ حال ہوتی ہے جو ایک قسم کی سرزنش کی حیثیت رکھتی ہے . جہاں تک کہ اکثر وبیشتر بار شوں کاتعلق ہے وہ سُود مند اور مفید ہو ا کرتی ہیں . اصُولی طورپر تمام درختوں ، سبز ہ زاروں ، پھولوں ، پُر ثمر باغوں کی رونق بارش کے مقدار کے مطابق نازل ہونے کی برکت سے ہی ہے . اگر بارش کاکوئی نظم و نظام نہ ہوتا تویہ تمام برکتیں بھی حاصل نہ ہو پا تیں ۔
آ یت کے دوسر ے حِصّے میں لفظ ” انشو نا“ آ یاہے جو ” نشور “ کے مادہ سے لیاگیاہے . جس کامعنی پھیلنا اوروسعت اختیار کرنا ہے . اس سے نباتات کی دُنیا کاروزِ محشر نگاہوں کے سامنے مجسم ہوجاتاہے ، خشک زمینیں نباتات کے بیجوں کواپنے دِل میں ویسے ہی جگہ دیئے ہوئے ہوتی ہے جس طرح مُر دوں نے چھپا یاہو تاہے اور جونہی ” نزُول باران “ کا” صور “ پھونکا جاتا ہے تووہ حرکت میں آ جاتے ہیں اورمر دوں کی طرح نباتات اور سبزہ کے اندر سے اپنا سر باہر نکا لتے ہیں اور شادابی اور تر و تاز گی کاایک محشر بر پا ہوجاتاہے ، جو بذاتِ خود انسانوں کے محشر کاایک نمونہ ہے جس کی طرف اسی آیت کے آخر میں اور متعدد دوسری آ یات میں اشارہ ہوا ہے ۔
بارش کے نازل ہونے او ر نبا تات کی زندگی کے تذ کر ے کے بعد چوتھے مرحلے میں مختلف حیوانات کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے : وہی خداہے ،جس نے سب کوجوڑوں کی صُورت میں پیدا کیاہے (وَ الَّذی خَلَقَ الْاٴَزْواجَ کُلَّہا) ۔
” ازواج “ کے معنی ” جوڑے “ ہیں اور یہ لفظ مختلف قسم کے جا نور وں کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ اس سے پہلے کی آ یات میں نبا تات کاذکر آچکا ہے . اگرچہ بعض مفسرین نے اسے مو جودات کی تمام قسموں کی طرف اشارہ سمجھاہے خواہ وہ جمادات ہوں یانباتات ، حیوانات ہوں یا انسان . کیونکہ قانونِ زوجیّت ان سب میں حکم فر ما ہے اورہرایک کی مخالف جنس موجُود ہے .آسمان اور زمین ، رات اور دن ، نور اورظلمت ، تلخ اور شیریں، خشک اور تر ،سُورج اور چاند ،بہشت اوردوزخ ،غر ض سوائے خداکی ذات پاک کے کوئی بھی یگا نہ اور یکتا نہیں ہے . یہ صر ف خداہی ہے جس میں دوئی نہیں پائی جاتی ۔
لیکن جیسا کہ ہم ابھی بتاچکے ہیں ، قرینے سے ظاہر ہوتاہے کہ یہاں پر” حیوانات کے جوڑے “ مراد ہیں اور ہر ایک جانتاہے کہ زو جیّت کاقانون تمام جاندار وں میں حکم فر ماہے اوراگر کچھ شاذ ونادر قسم کے افراد اس سے مستثنٰی ہوں تو یہ بات قانون کے کلی ہونے سے مانع نہیں ہے ۔
بعض مفسرین نے ” ازواج “ سے مرا د حیوانات کی مختلف قسمیں مراد لی ہیں ، جیسے پرندے ، چو پائے ، آ بی جانور اورحشرات الارض وغیرہ ۔
پانچو یں مرحلے پراس سلسلے کی آخری نعمت کاتذ کرہ کرتے ہُو ئے ان سوار یوں کے بار ے میں گفتگو فرمائی گئی ہے ، جنہیں خداوندِ عالم نے برّی اور بحری راہیں طے کرنے کے لیے انسان کے اختیار میں دے دیاہے . چنانچہ ارشاد ہوتاہے: اس نے تمہار ے لیے کشتیوں اور چو پایوں میں سے سوار یاں بنائی ہیں کہ جن پر تم سوار ہوتے ہو (وَ جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الْفُلْکِ وَ الْاٴَنْعامِ ما تَرْکَبُون) ۔
یہ بنی نوع انسان پرخدا وندِ عالم کاایک بہت بڑا احسان اوراس کی کرم نوازی ہے کہ جو کسی دوسری زندہ مخلوق میں دیکھنے میں نہیں آ تی ، کیونکہ خداوند عالم نے بنی نوع انسان کوایسی سوار یاں عطا کی ہیں . جو برّی اور بحری رستوں کو طے کرنے میں اس کی معاون ومددگار ہیں ۔
جیساکہ سُورہ ٴ بنی اسرائیل کی آ یت ۷۰ میں ارشاد ہو رہا ہے ۔
” وَ لَقَدْ کَرَّمْنا بَنی آدَمَ وَ حَمَلْناہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْناہُمْ مِنَ الطَّیِّباتِ وَ فَضَّلْناہُمْ عَلی کَثیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضیلاً “
ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا کی اورانہیں برّر و بحر میں ( سوار یوں پر )سوار کیا اورانہیں پاک و پاکیزہ رزق عطا کیا اوراپنی دوسری مخلوق پر بر تری عطاکی ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان سوار یوں کی وجہ سے انسانی سرگر میوں اوراس کی زندگی کی تگ ودو میں کئی گنااضافہ ہوجاتاہے . حتی کہ مو جودہ دُور کی تیز رفتار سواریاں جومختلف چیزوں کے خواص سے استفادہ کر کے تیار کی گئی ہیں اور انسان سے بہر ہ برداری کررہاہے ، یہ بھی خدا وند عالم کی ایک بہت بڑی کرم نوازی ہے .یہ ایسے ذرائع آمد و رفت ہیں جنہوں نے زندگی کے چہر ے کو مکمل طورپر تبدیل کرکے رکھ دیاہے اور ہر چیز کو رفتاری عطا کردی ہے اور بنی نوع انسان کے لیے طرح طرح کی آسائش مہیا کردی ہے ۔
بعد کی آ یت میں اس قسم کی سوار یوں کے آخری تخلیقی مقصد کوبیان کرتے ہُو ئے فرمایاگیاہے : تاکہ تم ان سوار یوں کی پشت پربخوبی سوار ہوجاو ، پھر اپنے پروردگار کی نعمت کو یاد کرو اور کہو :پاک وپاکیزہ ہے وہ ذات کہ جس نے ان کو ہمارے لیے مسخر کردیا ور نہ یہ ہمار ے بس میں تونہ تھیں (لِتَسْتَوُوا عَلی ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَةَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَ تَقُولُوا سُبْحانَ الَّذی سَخَّرَ لَنا ہذا وَ ما کُنَّا لَہُ مُقْرِنینَ ) ۔
”لِتَسْتَوُوا عَلی ظُہُورِہِ “ کاجُملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدانے ان سوار یوں کو اس طرح سے پیدا کیاہے کہ تم ان پر سوار ہو کر آرام اور سکون کے ساتھ منزل مقصُود تک پہنچ جاؤ ( ۳) ۔
اس آ یت میں بری اور بحری سوار یوں کی تخلیق کے د و بنیاد ی مقاصد بیان ہوئے ہیں ایک توسوار ہو تے وقت خدا کی نعمتوں کی یاد آوری اور دوسرے اس خداکی ستائش جس نے ان کوانسان کے تابع فرمان بنایاہے . کشتیوں اور بحری جہاز وں کواس طرح سے بنا یاگیاہے کہ وہ سمند ر کے سینوں کوچیر کومنزلِ مقصُود تک پہنچاتے ہیں اور چوپا یوں کوانسان کے تابع فرمان بنادیاہے ۔
” مقر نین “ ” اقران “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ” کسی چیز پر قابُو پانا “ اور ” قدرت حاصل کرنا “ . بعض صاحبانِ لُغت نے یہ بھی کہاہے کہ ” اقران “ کامعنی کسی چیز کو ”ضبط “ کرنا اوراس کی حفاظت کرناہے جودراصل کسی چیز کے ” قرین “ (ساتھی )ہونے کے معنی میں پہناں ہے جس کالازمہ اس چیز کی حفاظت اوراپنے قابُو میں رکھنا ہوتاہے ( ۴) ۔
بنا بریں ” وَ ما کُنَّا لَہُ مُقْرِنینَ “ کا مفہو م یہ ہوگا ، کہ اگر خدا کالطف وکرم نہ ہوتا توہم میں ان سوار یوں کوقابو میں رکھنے کی طاقت نہیں تھی . مخالف ہوائیں ہمیشہ کشتیوں اور بحری جہازوں کواُلٹ کررکھ دیتیں اور ہم ہرگز ساحل نجات تک نہ پہنچ سکتے . یہ طاقت درسرکش جانور کی طاقت انسا ن سے کئی گنا ہ زیادہ ہوتی ہے ،اگران میں فر مانبر داری کی رُوح حکم فرمانہ ہوتی توانسان کے نزدیک بھی نہ پھٹک سکت. یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی جانور طیش میں آ جا تاہے اور فر مانبر داری کوپس پشت ڈال دیتاہے تووہ ایک ایسے خطرناک جانور میں تبدیل ہوجاتاہے ،جس کامقابلہ کئی انسان مل کر بھی نہیں کرسکتے ، جب کہ عام طورپر ممکن ہے،بیسیوں بلکہ سیکڑوں جانور وں کو رسی میں باندھ کر مُہار اگرایک بچے کے ہاتھ میں بھی دے دی جائے تووہ انہیں خاطر خواہ مقامات پر لے جائے ۔
گویاخدا تعالیٰ چو پایوں کے ان استثنائی حالات کو بیان کر نے کے ساتھ ساتھ ا کے معمُول کے حالا ت کو بھی واضح کرناچاہتاہے ۔
اسی آ یت کے آخر ی حِصّے میں سوار ہوتے وقت سچّے موٴ منین کی گفتگو کاذکر ہے ، اوراسی پریہ آیت مکمل ہو جاتی ہے وہ سوار ی پر سوار ہوتے وقت کہتے ہیں : اور ہم ہرصُورت میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جانے والے ہیں (وَ إِنَّا إِلی رَبِّنا لَمُنْقَلِبُونَ) ۔
یہ جُملہ گذشتہ آیات میں توحید کے با رے میں گفتگو کے بعد مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہے ،کیونکہ ہمیشہ خالق اور مبداء کی طرف توجہ انسان کو معاد کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔
نیز اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مباد اتم ان سوار یوں پرسوار ہوتے وقت اوران پر قابُو پانے کے بعد مغر ور اور دنیا و ی چکا چوندمیں مگن ہوجاؤ ، بلکہ تمہیں ہرحالت میں آخر ت کی فکر کرنی چاہیئے ،کیونکہ ایسے مواقع پرخاص طورپر انسان مغر ور اور متکبر ہوجاتاہے اوراپنی سواریوں کی فوقیت اور تکبر کاذریعہ قرار دینے والے افراد دُنیا میںکم نہیںہیں ۔
پھر تیسر ی بات یہ ہے کہ سوار یوں پرسوار ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف منتقلی ہمیں اس دُنیا سے دوسر ے جہان کی طرف عظیم انتقال کی جانب متوجہ کرتی ہے اورانجام کار ہمیں خداکی جانب منتقل ہو کرجاناہی ہے ۔

نعمتوں کے موقع پرخدا کی یاد

قرآنی آ یات میں قابلِ توجہ نکات میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ موٴ منین کوکُچھ دُعا ئیں بتا ئی گئی ہیں کہ جب وہ خدا کی نعمتوں سے استفادہ کریں تووہ دُعاؤں کوپڑھا کریں . یہ ایسی دُعا ئیں ہیں جواپنے تعمیری مطالب کی وجہ سے انسانی قلب کی رُو ح کی بالید گی کاسبب بنتی ہیں اورغرور و غفلت کے آثار مٹا دیتی ہیں ۔
جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلا م کوحکم ہوتاہے :
فَإِذَا اسْتَوَیْتَ اٴَنْتَ وَ مَنْ مَعَکَ عَلَی الْفُلْکِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذی نَجَّانا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمینَ
” جب تم اور تمہار ے ساتھی کشتی پرسوار ہوجاؤ توکہو کہ اس خدا کی حمد ہے ، جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات بخشی“ ۔
نیزحضرت نوح علیہ السلام ہی کو یہ حکم مِلتا ہے کہ کسی بابر کت منز ل پر اتر نے کے لیے یہ کہیں :
رَبِّ اٴَنْزِلْنی مُنْزَلاً مُبارَکاً وَ اٴَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلینَ
” پر وردگار ا ! مجھے بابر کت منزل پراُتا ر اور توبہتر ین اتار نے والا ہے “ َ ۔ ( مومنون ۔ ۲۹)
زیر تفسیر آ یات میں سواری پربیٹھ جانے کے وقت ہم کو پر وردگار کی نعمتوں کی طرف توجہ اوراس کی تسبیح کاحکم دیا گیاہے ۔
جب انسان کی یہ عادت ہوجائے کہ کسِی بھی نعمت سے بہرہ مندی کے وقت منعم حقیقی اورنعمت کے مبداء کو یاد کرے تو نہ وہ غفلت کی تاریکی میں ڈوبے گا اور نہ ہی غرور کی لغزش سے دوچار ہو گا . بلکہ مادی نعمتیں اس کے لیے پرور دگار عالم کی طرف پل کی حیثیت اختیار کر لیں گے ۔
حضرت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے حالات میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )جب اپنا پاؤ رکاب میں رکھتے تو ” بسم اللہ “ کہتے تھے اور جب سواری پراچھی طرح بیٹھ جاتے توفر ماتے :
” الحمد اللہ علیٰ کل حال ، سبحان الذی سخرلنا ھٰذا و ما کنّا لہ مقر نین وانّا الیٰ ربّنا لمنقلبون ( ۵) ۔
ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے سامنے ایک شخص نے سواری پرسوار ہوتے وقت کہا:” سبحا ن الذ ی سخر لنا ھٰذا “ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : تمہیں ایساکہنے کاحکم نہیں مِلا ، بلکہ یوں کہا کرو :
” الحمد اللہ الّذی ھداناللا سلام ، الحمد اللہ الّذی من علینا بمُحمّد والحمد اللہ الّذی جعلنامن خیر امة اخر جت لنّاس “ ۔
پھر کہو : سبحان الّذی سخر لنا ھٰذا ...( ۶) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمیں صرف ” سبحان الّذی سخرلنا ھٰذا----....“ کہنے کاحکم نہیں دیاگیا . بلکہ اس سے پہلے خداوند عالم کی عظیم نعمتوں کو یا د کرنے کا یہ حکم ہے ، جواسلام کی طرف ہدایت کی نعمت ،رسُول اللہ کی رسالت کی نعمت ہیں . پھراس سواری کو قابو میں لانے پرخدا کی تسبیح کاحکم ہے ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جوشخص سواری پر بیٹھتے وقت ” سبحان الّذی سخرلنا ھٰذا-------.. . الیٰ ربّنا لمنقلبون “ کہے تووہ ہر قسم کی مصیبتوں سے محفوظ رہے گا ۔
یہ بات اصُول ِ کافی کی ایک روایت میں آ ئمہ معصومین علیہم السلام سے بھی منقول ہے ( ۷) ۔
اسلامی تعلیمات اور مغرور ہوس پرست لوگوں کے رویے کے درمیان کتنا فرق ہے ، جواپنی سوار یوں کوخود نمائی اورفخر وغرور کاذ ریعہ سمجھتے ہیں بلکہ کبھی انھیں اپنے مختلف گناہوں کاذ ریعہ بنالیتے ہیں . جیساکہ ” زمخشری “ نے اپنی تفسیر ” کشاف “ میں ایک بادشاہ کے بار ے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی مخصوص سواری پر بیٹھ کر ایک شہر سے دوسر ے شہر کی طرف جارہاتھا ۔
شہر وں کادرمیانی فاصلہ ایک مادہ کا سفر تھا، اس نے اس سفر میں اس قدر شراب پی کی اسے سفر کاپتہ ہی نہیں چلا ، اور تب ہوش آ ئی ، جب وہ منزل مقصود تک پہنچ چکاتھا ۔
۱۔ قرآن مجید کے دو اور مقاما ت پر بھی ان کا” خدا کی خا لقیت “ کااعترف نقل ہواہے . البتہ ایک مقام پرآسمان سے بارش کے نُزول کے بار ے میں ۔ ( عنکبوت / ۶۳) اور دوسرے مقام پر ان کی اپنی ذات کے بار ے میں خداکی خالقیت کے بار ے میں ( زخرف / ۸۷) ۔
۲۔ لفظ ” سبل “ ” سبیل “ کی جمع ہے ، جس کاخشکی کے راستوں پر بھی اطلاق ہوتاہے اور تری کے راستوں پر بھی جیساکہ دُعا ئے جوشن کبیر میں ہے ۔ ( یامن فی البرو البحرسبیلہ)
۳۔ ” عَلی ظُہُورِہِ “ میں موجود ضمیر ” ما “ موصو لہ کی طرف لوٹ رہی ہے جو ” ما تر کبون “ میں ہے اور کشیوں اور چو پایوں دونوں قسموں کے لیے ہے اور ضمیر ظاہر ی لفظ کی وجہ سے مفرد ہے ۔
۴۔ کتاب ” لسان العرب “ میں آ یاہے کہ ” اقرن لہ “ اور ” قر ن علیہ “ کامعنی ہے . اطاق و قوی علیہ و اعتلا “ یعنی اس پر قابو پایا اور سوار ہوا . قرآن پاک میں ہے ” وَ ما کُنَّا لَہُ مُقْرِنینَ “ یعنی ” مطیقین “ ۔
۵۔ تفسیر فخر الرازی ، جلد۲۷،ص ۱۹۹۔
۶۔ تفسیر فخر الرازی ، جلد ۲۷، ص ۱۹۹۔
۷۔ تفسیر نورالثقلین ، جلد ۴، ص ۵۹۳۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma