جہنمی دوست کی تلاش

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
۱۔ جنتیوں کا دوزخیوں کے ساتھ ربطسوره صافات / آیه 50 - 61

گزشتہ آیات میں پروردگار کے مخلص بندوں کاذکر تھا جو جنت کی طرح طرح کی نعمتوں میںغرق ہوں گے انھیں قسم قسم کے پھل میسّر ہوں گے ،جنت کی حو ریں ان کی خدمت میں ہوں گی . شراب طہور کے جام ان کے گرد گردش میں ہوں گے اوروہ جنّت کے تختوںپر تکیہ لگائے ہوئے با صفا دوستوں کے ساتھ راز ونیاز کی باتوں میں مشغول ہوں گے .ایسے میں اچانک ان میں سے بعض اپنے ماضی اور دنیا کے دستوں کی سوچ میں پڑ جائیں گے و ہی دوست جنھوںنے اپنی راہ الگ کرلی تھی اورجنت میں جن کی جگہ خالی پڑی ہو گی وہ ان کاانجام جانتے کی کوشش کریں گے ۔
ہاں ! اس وقت جبکہ ” وہ گفتگو میں محوہوں گے اور مختلف موضو عات پر بات کررہے ہوں گے اوربعض دوسرے بعض کی طرف رُخ کرکے سوال کررہے ہوں گے اوران کے جواب سن رہے ہوں گے (فَاٴَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلی بَعْضٍ یَتَساء َلُونَ)۔
اچانک ان میں سے ایک کوکچھ باتیں یاد آئیں گی ، وہ دوسروں کی طرف منہ کرکے کہے گا : دنیا میں میرا ایک دوست اور ہمنشین تھا (قالَ قائِلٌ مِنْہُمْ إِنِّی کانَ لی قَرینٌ) ۔
لیکن افسوس وہ انحراف کی راہ پرچل پڑااورمنکر ین قیامت کے ساتھ ہوگیا ” وہ ہمیشہ مجھ سے کہا کر تاتھا کیاسچ مچ تونے بھی اس بات کو با ور کر لیا ہے اور تو بھی اس کی تصدیق کرتاہے “ (یَقُولُ اٴَ إِنَّکَ لَمِنَ الْمُصَدِّقینَ)۔
” کہ جس وقت ہم مرجائیں گے اور خاک اورہڈیاں ہوجائیں گے تو ( دوبارہ ) زندہ ہوں گے اورحساب و کتاب کے کٹہر ے میں کھڑ ے ہوں گے اوراپنے اعمال و کردار کے جواب میں ہمیں مجازات کردار کا سامنا کرنا پڑے گا . میں توان باتوں کو باور نہیں کرتا (اٴَ إِذا مِتْنا وَ کُنَّا تُراباً وَ عِظاماً اٴَ إِنَّا لَمَدینُونَ ) (۱) ۔
اے دوستو! کاش مجھے معلوم ہوتا کہ اب وہ کہاں ہے اورکن حالات میں ہے ؟ افسوس اس کی جگہ ہمارے درمیان خالی پڑ ی ہے۔ !
اس کے بعد وہ مزید کہے گا :اے دوستوں! کیا تم اِدھر اُدھر نظردوڑاکردیکھ سکتے ہو اوراس کاپتہ لگاسکتے ہو ؟(قالَ ہَلْ اٴَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ) (۲) ۔
اس موقع پر وہ خود بھی تلاش کے لیے کھڑا ہوجائے گا اور جہنم کی طرف ایک نگاہ ڈالے گا تو اچانک اپنے دوست کو وسطِ جنہم میں دیکھے گا (فَاطَّلَعَ فَرَآہُ فی سَواء ِ الْجَحیمِ ) ۔(۳) ۔
اسے مخاطب کرتے ہوئے ” آ وازدے کرکہے گا :خداکی قسم کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی کہ تومجھے بھی آ گرادے اورہلاکت کی طرف کھینچ لے جائے “ (قالَ تَاللَّہِ إِنْ کِدْتَ لَتُرْدین) (۴) ۔
کوئی کسرباقی نہیں رہ گئی کہ تیرے وسوسے سے میرے صاف دل پراثر انداز ہوجائیں اورمجھے بھی اسی کج راستے پرڈال دیں کہ جس پر توچل رہاتھا ” اگر لطفِ الہٰی میرا مددگار نہ ہوتا اورمیر ے پروردگار کی نعمت میری نُصرت کو نہ پہنچتی ، تومیں بھی آج تیرے ہی ساتھ جہنم کی آگ میں موجود ہوتا “ ( وَ لَوْ لا نِعْمَةُ رَبِّی لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرین) ۔
یہ توفیق الہٰی ہی تھی جو میری رفیق راہ بنی اوراسی کی ہدایت کے لطف و کرم کے ہاتھ نے مجھ پر نوازش کی اورمیر ی رہبری کی ۔
اس موقع پر وہ اپنے جہنمی دوست کی طرف رُخ کرے گا اور یہ بات سرزنش کے طورپر اسے یاد دلاتے ہوئے کہے گا :-کیاتو ہی دنیا میں یہ نہیں کہاکرتاتھا کہ ” ہم کبھی نہیں مریں گے “ (اٴَ فَما نَحْنُ بِمَیِّتینَ)۔
سوائے اس پہلی دنیا وی موت کے اوراس کے بعد نہ کوئی نئی زندگی ہوگی اورنہ ہی ہمیں عذاب دیاجائے گا (إِلاَّ مَوْتَتَنَا الْاٴُولی وَ ما نَحْنُ بِمُعَذَّبینَ)۔
اب تو دیکھ اورسوچ کہ تجھ سے بڑی غلطی ہوئی ہے ؟موت کے بعد اس قسم کی زندگی تھی اور اس طرح کا ثواب وجزا اورسز او عذاب تھا . اب تمام حقائق تیرے سامنے آ شکار ہوئے ہیں . لیکن کیافائدہ کیوں کہ لوٹنے کی اب کوئی راہ نہیں ہے۔
اس تفسیر کے مطابق حقائق دوآخری آیات اس جنتی شخص کی اپنے دوزخی ساتھ کے ساتھ گفتگو ہے .وہ قیامت کے انکار کے سلسلے میں اس کی کہی ہوئی باتیں اسے یا د دلار ہا ہے۔
لیکن بعض مفسرین نے ان دو نوں آیات کی تفسیر میں ایک اوراحتمال ذکر کیاہے اور وہ یہ کہ بہشتی شخص کی گفتگو دوزخی دوست کے ساتھ ختم ہوگئی ہے اور بہشتی دوست آپس میں باتیں دوبارہ کرنے لگیں گے .ان میں سے ایک فرطِ مسرت سے پکار کرکہے گا :” کیا واقعاً اب ہم نہیں مر یں گے“ اور یہاں ہماری حیات جاودانی ہے ، کیا پہلی موت کے بعداب کوئی موت نہیں آ ئے گی اور یہ لطفِ الہٰی ہم پرہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور ہمیں ہرگز عذاب نہیں ہوگا ؟
البتہ یہ باتیں شک وشبہ کی بنا ء پر نہیں ہوں گی . بلکہ فرط وودجدو سرور سے ہوں گی ۔بالکل اسی طرح کہ جیسے بعض اوقات انسان طویل آ رز و اورانتظا ر کے بعد کوئی وسیع اوراچھا مکان حاصل کرتاہے تو تعجب کے ساتھ کہتاہے کیایہ میری ملکیت ہے ؟اے میرے خدا ! یہ کتنی اچھی نعمت ہے،کیایہ مجھ سے لے تو نہیں لی جائے گی ؟
بہرحال اس گفتگو کو ایک پُر معنی اوربہت ہی احساس انگیز جملے پرختم کیاگیاہے ، جس میں بہت سی تاکید ات بھی موجود ہیں ارشاد ہوتاہے :
” واقعاًیہ ایک عظیم کامیابی ہے (انّ ھٰذالھو الفوز العظیم ) ۔
اس سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی کہ انسان نعمت جا وداں اورحیات ابدی میں مستغر ق ہو اور انواع و اقسام کے الطافِ الہٰی اس کے شامل ِحال ہوں.اس سے برتر و بالا اور کس چیز کاتصّور ہوسکتاہے۔
اس کے بعد خداوند عظیم ایک مختصر،بیدارکن اور معنی خیز جملے پر اس بحث کو ختم کرتاہے . اس مثال کے مطابق لوگوں کو عمل کرنا چاہیے (لِمِثْلِ ہذا فَلْیَعْمَلِ الْعامِلُونَ ) ۔
یہ جو بعض مفسرین نے احتمال پیش کیا ہے کہ آخری آیت بھی جنتیوں کی ہی گفتگو کاحصّہِ ہے ، بہت بعید نظر آتا ہے کیونکہ اس دن اورکوئی عمل نہیں ہوسکتا . دوسرے لفظوں میں اس دن عمل کاکوئی محل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو یہ کہہ کرعمل کرنے کا شوق د لائیں . جبکہ آیت کاظا ہر اس بات کی نشا ندہی کرتاہے کہ مقصد یہ ہے کہ یہ کہہ کر تمام گزشتہ آیات سے نتیجہ اخذ کیاجائے اور لوگوں کو ایمان و عمل کی طرف دعوت دی جائے ، لہذا مناسب یہی ہے کہ اس بحث کے آ خر میں یہ خدا ہی کی گفتگو ہو ۔

۱۔ ” مدینون “ دین کے مادہ سے جزا کے معنی میں ہے یعنی کیاہمیںجزادی جائے گی ؟
۲۔” مطلعون “ ” اطلا ع “ کے مادہ سے سرا و نچا کرکے جستجو اور تلاش کرنا اور اور کسی چیزکے لیے جھا نکنا اوراس کے بار ے میں آگاہی حاصل کرنا ہے۔
۳۔ ”سواء “ وسط اوردرمیان کے معنی میں ہے۔
۴۔ ” تردین “” ارداء “ کے مادہ سے بلندی سے گر نے کے معنی میں ہے جس سے عام طور پر ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔
۱۔ جنتیوں کا دوزخیوں کے ساتھ ربطسوره صافات / آیه 50 - 61
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma