۴۔ عرش کیاہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 10- 12۳۔ دعاؤں کا آغاز ”ربّنا“ سے کیوں ؟
ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے یہ الفاظ جوہماری محدودو ناچیز زندگی کی کیفیت بیان کرنے کے لیے وضع کیے گئے وہ خدا وند جل وعلاکی عظمت تو بجائے خوداس کی عظیم مخلوق کی عظمت کو بھی بیان نہیں کرسکتے یہی وجہ ہے کہ ہم ان الفاظ کے کنایہ پر مبنی معانی سے استفادہ کرتے ہوئے اس دھندلکے سے اس عظمت کو کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ان الفاظ میں سے ایک”عرش “ بھی ہے جس کا لغوی معنی ”چھت “ پا”لمبی ٹانگوں والاتخت“ ہے جو کرسی کے مقابلے میں آتا ہے کیونکہ اس کی ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں .پھر یہ لفظ قدرتِ خدا کے تخت کے بار ے میں ”عرشِ پر ور دگار “ کے نام سے بولا جانے لگا ۔
عرشِ خدا وندی سے کیامراد ہے اور یہ کلمہ کس معنی کے لیے کنایہ ہے ؟اس سلسلے میں مفسرین ،محدّثین اور فلاسفہ کے مختلف نظر یات ہیں ۔
بعض نے اس کامعنی ” خدا وند عالم کا بے انتہا علم “ سمجھاہے ۔
بعض نے ” خدا کی مالکیت اورحاکمیت “ کامعنی بتایاہے ۔
بعض نے کہاہے کہ اس سے مراد خداکی کمالی اور جلالی صفات ہیں کیونکہ ہرایک صفت اس کے مقام کی عظمت کو بیا ن کرتی ہے ،جیساکہ بادشاہوں کے تخت ان کی عظمت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا تینوں تفاسیر کی رو سے ” عرش “ کامفہوم پر ور دگار عالم کی صفات کی طرف لوٹ جاتاہے نہ کہ کسی اورخارجی وجود کی طرف ۔
بعض روایات جواہل بیت اطہار علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں .جیساکہ ” حفص بن غیاث “ بیان کرتے ہیں :
” کسی نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے ” وسع کر سیہ السماوت والارض “ کی تفسیر کے متعلق سوال کیاتو آپ علیہ السلام نے فرمایا :
” اس سے مراد خداکاعلم ہے “ ( 1)۔
ایک اور حدیث میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
” عرش “ سے مراد خداکا وہ علم ہے جس سے اس نے ابنیاء کوواقف کیا اور ” کرسی “ سے مراد وہ علم ہے جس سے کسی کو بھی آگاہ نہیں کیا ( 2)۔
جبکہ بعض دوسرے مفسرین نے کچھ اور روایات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ”عرش“ اور” کرسی “ خلاّق عالم کی دوعظیم مخلوقات ہیں ۔
بعض مفسرین نے کہاہے کہ عرش سے مراد مجموعہ ٴ کائنات ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ زمین و آسمان مجموعی طو ر پر کرسی کے اندر موجودہیں بلکہ زمین و آسمان کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے صحرائے عظیم میں ایک عدد انگشتری اور کرسی عرش کے سامنے ایسے ہے جیسے اس انگشتری کے سامنے زمین و آسمان۔
کبھی”عرش “ کااطلاق انبیاء ، اوصیاء اور کامل مومنین کے دلوں پر کیاگیاہے. جیسے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ
ان قلب الموٴمن عرش الرحمن موٴمن کادل خدا کاعرش ِ الرحمن (3)۔
نیز حدیث قدسی میں آیاہے :
لم یسعنی سمائی ولا ارضی وو سعنی قلب عبدی الموٴ من
میرے آسمان و زمین مجھے اپنے اندر نہیں سماسکتے لیکن میرے مومن بندے کادل میراٹھکانا ہے ( 4)۔
لیکن معنی عرش کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ... جہاں تک انسانی بس کی بات ہے ... بہترین طریقہٴ کار یہ ہے کہ قرآن میں اس کے استعمال کے مقامات کااچھی طرح سے جائزہ نہیں ۔
قرآن پاک کی بہت سی آیات میں یہ تعبیر دیکھنے میں آتی ہے :
ثم الستوٰی علی العرش
خدا وند عالم ( تخلیق کائنات کے بعد ) عرش پر مسلّط ہوگیا( 5)۔
اس سلسلے کی بعض آیات کے فوراً بعد ” ید بر الامر “ کاجملہ ملتاہے یاایسی تعبیریں جوخداوندعالم کے علم وتدبیرپرکچھ اورآیات میں ” عرش“ کی صفت بھی بیان کی گئی ہے جیسے سورہ ٴ توبہ کی آیت ۱۲۹میں: وھورب العرش العظیم
کچھ آیات میں ان ملائکہ کاتذ کرہ ہے جو عرش کے ارد گرد رہتے ہیں جیسے
وَ تَرَی الْمَلائِکَةَ حَافِّینَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْش
کہیں پر فرمایا گیاہے :
وکان عرشہ علی المآء
ان تعبیروں سے اوران کے علاوہ دوسری تعبیروں سے جو اسلامی روایات میں وارد ہوئی ہیں یہ نتیجہ بخوبی نکالا جاسکتاہے کہ عرش کے لفظ کامختلف معانی پر اطلاق ہوتاہے ہرچند کہ ان سب کی بنیاد ایک ہے ۔
”عرش “کاایک معنی تو وہی ” حکومت ، مالکیت ور کائنات کانظام چلانا “ ہے . کیونکہ عام طورپر معمولی گفتگو میں بھی عرش کالفظ کسی صاحبِ اقتدار کے اپنے ملک پر مکمل کنٹرول کے لیے کنایہ کے طورپر استعمال ہوتاہے . مثلاً عام طور پر کہتے ہیں ” فلان ثل عرشہ “ جو اس بات کا کنایہ ہے کہ ” اس کاراج سنگھاسن ڈول گیا ۔
فارسی میں بھی کہاجاتاہے :
” پا یہ ہای تخت اور ہم شکست “ ۔
اس کے تخت کے پائے ٹوٹ گئے ہیں ۔
عرش کاایک اورمعنی ” پوری کائنات “ ہے کیونکہ تمام کائنات ہی اس کی عظمت کی نشانی ہے ۔
کبھی ” عرش “ کا اطلاق ”عالم بالا“ پر اور” کرسی “ کا ”عالم زیرین“ پر ہوتاہے ۔
بعض او قات ” عالم ماوراء ِطبیعت “ کو ”عرش “کہتے ہیں اورعالم مادی خواہ زمین اورآسمان ہوں سب کو ” کرسی کہتے ہیں ،جیساکہ ” آیت الکرسی “ میں آیاہے :
وسع کرسیہ السماوات والارض
نیز چونکہ خداکی معلومات اور مخلوقات اس کی پاک ذات سے جدانہیں ہیں لہذا کبھی” علم الہٰی “ پر بھی ”عرش “ کاطلاق ہواہے ۔
اگر مومن بندوں کے پاک و پاکیزہ دل کو ”عرش الرحمان“ کہاگیاہے تواس لئے کہ وہ اس کی پاک ذات کی معرفت کامقام اوراس کی عظمت اور قدر ت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
بنابریں قرائن سے ہی سمجھا جائے گا کہ کون سامعنی کس موقع پرمراد لیاجاسکتاہے ؟لیکن یہ بات بھی بہرحال اپنے مقام پر مسلّم ہے کہ معنی خواہ کوئی مراد لیاجائے عرش کالفظ خداوند ذو الجلال کی بزرگی اورعظمت کو ہی بیان کرے گا ۔
جس آیت کی ہم تفسیر کررہے ہیں اس میں حاملین عرش کاتذکرہ ہے ممکن ہے یہاں پر عرش سے مراد خدا وندعالم کی حکومت اور نظمِ کائنات کو چلاناہواورحاملین ِعرش سے مراد اس کی حاکمیت اور تدبیر عالم کے نافذ کرنے والے ہوں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد تمام کائنات ہویاپھر ” عالم ماورا ء طبیعت “ ہو اوراس کے حامل وہ فرشتے ہوں جو اس کا ئنات کی تدبیرکے ستونوں کوبحکم خدااپنی دوش پر اٹھائے ہو ئے ہیں۔
1۔ بحارالانوار جلد۵۸ ،ص ۲۸ (حدیث ۴۶ .۴۷)۔
2۔ بحارالانوار جلد۵۸ ،ص ۲۸ (حدیث ۴۶ .۴۷)۔
3۔ بحارالانوار جلد ۵۸ ،ص ۳۹۔
4۔ بحارالانوار جلد ۵۸ ،ص ۳۹۔
5۔سور ہ اعراف ، ۵۴ . سورہ یونس ، ۳ . سورہ رعد ، ۲ . سورہ فرقان ،۵۹ . سورہ سجدہ ،۴. اور سورہ حدید۴۔
سوره مؤمن/ آیه 10- 12۳۔ دعاؤں کا آغاز ”ربّنا“ سے کیوں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma