تم تمام جہان والوں کے لیے مبعوث کےے گئے ہو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
سوره سبأ / آیه 31 - 33سوره سبأ / آیه 28 - 30

پہلی زیرِبحث آیت پیغمبرِ السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبّوت کے بارے میں گفتگو کرتی ہے اوراس کے بعد والی آیات معاد وقیامت کے سلسلہ میںبحث کرتی ہیں ، اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ گزشتہ آیات میں گفتگو توحید سے متعلق تھی ، عقائد دینی کے ایک کامل مجموعہ کوبیان کیاجارہا ہے کہ جو سورہٴ سبا جیسی مکّی سورتوں کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے ۔
پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کی وسعت اور تمام انسانوں کے لیے ان کی نبوت کی عمومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ” ہم نے تجھے نہیں بھیجا ہے مگر تمام جہان کے لوگوں کے لیے ، درآنحالیکہ تم سب کو خدا کی عظیم جزاؤں کی بشارت دیتے ہو ،اور عذاب ِ الہٰی سے ڈراتے ہو ، لیکن اکثر لوگ اس معنی سے بے خبر ہیں “ (وَ ما اٴَرْسَلْناکَ إِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لا یَعْلَمُونَ ) ۔
” کا فّة “ مادہ ” کف ‘ ‘ سے ہاتھ کی ہتھیلی کے معنی میں ہی ہے ، اور چونکہ انسان اپنے ہاتھ سے چیزوں کوپکڑ تا ہے ، یااپنے سے دور کرتاہے لہٰذا یہ لفظ کبھی ” جمع کرنے “ کے معنی میں آتا ہے اور کبھی ” منع کرنے “ کے معنی میں ۔
مفسرین نے زیربحث آیت میں دونوں احتمال دئے ہیں ، پہلایہ کہ جمع کرنے کے معنی میں ہو ، اوراس صورت میں آیت کامفہوم وہی ہوگا کہ جو ہم نے اوپر بیان کیاہے ” کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا ہے مگر جہان کے تمام لوگوں کے لیے ” یعنی یہ پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے عالمی اور جہانی ہونے کی بیان کرتاہے ۔
متعدد روایات کہ جو شیعہ اورسُنّی طرق سے اس آیت کی تفسیر میں نقل ہوئی ہیں وہ بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں ۔
اس بناء پر آیت کامفہوم ومطلب سورہٴ فرقان کی آیہ ،۱ کی طرح ہے کہ جو یہ کہتی ہے کہ (تبارک الذی نز ل الفرقان علیٰ عبدہ لیکون للعالمین نذیراً) ” ہمیشہ ہی برکتوں والا ہے وہ خدا کہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیاتاکہ سار ے جہان کے تمام لوگوں کوڈرائے “ ۔
اورسورہٴ انعام کی آیہ ۱۹ کی طرح ہے کہ جو یہ کہتی ہے کہ : ( واوحی الیّ ھٰذا القراٰن لانذرکم بہ ومن بلغ ) ” یہ قرآن مجھ پروحی ہوا تاکہ میں تمہیں بھی ، اور تمام ان لوگوں کوبھی ،کہ جن تک یہ بات پہنچے ، ڈراؤں “ ۔
ایک حدیث میں ، کہ جسے بعض مفسرین نے اوپر والی آیت کی مناسبت سے ذکر کیاہے ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی عمومیت ، ان کے ایک عظیم اعزاز و افتخار کی حیثیت سے منعکس ہورہی ہے . آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ :
”اعطیت خمساً . ولااقول فخراً . بعثت الی الا حمر والا سود ، و جعلت لی الارض طھوراً ومسجداً ،واحل لی المغنم ولا یحل حد قبلی ، نصرت بالرعب فھو یصیر امامی مسیرة شہر ،و اعطیت الشفاعة فاد خرتھا لامتی یوم القیامة ‘ ‘
” خدانے مجھے پانچ چیزیں عطافرمائیں ہیں .اور میں اس بات کی فخر ومباہات کے طور پر نہیں کہتا . ( بلکہ شکرِ نعمت کے طور پر کہتاہوں ) میں تمام انسانوں کے لیے ، خواہ وہ گورے ہوں یاکالے ، مبعوث ہواہوں ،اورمیرے لیے زمین کوپاک وپاکیزہ اوراس کی ہرجگہ کومسجد وعبادت گاہ قرار دیاگیا ہے ، جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت میرے لیے حلال ہے ، جومجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی حلال نہیں کی گئی تھی . دشمنوں کے دل میں دہشت اوررعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے ، ( اورخدانے ہمارا رعب ہمارے دشمن کے دل میں ڈال دیاہے ) اس طور سے کہ وہ ( رعب ) میرے آگے آگے ایک مہینہ کی راہ کے برابربڑھتا ہے اور مجھے مقامِ شفاعت دیا گیاہے ، اور میں نے اسے اپنی امت کی خاطر قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کیاہوا ہے (۱) ۔
اگرچہ اوپر والی حدیث میں آیت کی تفسیر کے طور پر تصریح نہیں ہوئی ہے ، البتہ اس سلسلہ میںاور بھی احادیث ہمارے پاس موجود ہیں کہ جن میں یاتو آیت کی تفسیر کی تصریح ہوئی ہے اور یا ” للناس کافّةً “ کی تعبیر ہے کہ جو وہی اوپر والی آیت کی تعبیرہے (۲) اور یہ سب کی سب اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اوپر والی آیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے جہانی ، ہونے کوبیان کررہی ہے . دوسری تفسیر ، جو اس آیت کے لیے بیان کی گئی ہے ” کف “ کے دوسرے معنی منع کرنے سے لی گئی ہے ، اس تفسیر کے کے مطابق ” کافة “ پیغمبرکی صفت ہے (۳) اوراس سے مراد یہ ہے کہ : خدانے پیغمبرکوانسانوں کے لیے کفرومعصیت وگناہ سے روکنے والا بناکر بھیجا ہے ، لیکن پہلی تفسیر زیادہ نز دیک نظر آتی ہے ۔
بہرحال چونکہ تمام انسان جلبِ منفعت اوردفع ضرر کی خواہش رکھتے ہیں ، لہٰذا پیغمبر بھی مقام ”بشارت “ و ” نذارت “ کے حامل تھے ، تاکہ وہ ان دونوں خواہشات کومجتمع رکھیں ، اور انہیں حرکت میں لے آئیں ، لیکن غافل اور بے خبراکثر یت اپنے انجام پرتوجہ کیے بغیران کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ، اور خدا کی ان عظیم نعمتوں کاانکار کردیتی ۔
چونکہ گزشتہ آیات میں اس معنی کی طرف اشارہ ہوا تھا کہ خدا قیامت کے دن تمام لوگوں کوجمع کرنے کے بعد ان کے درمیان فیصلہ کریگا ، لہٰذا بعدوالی آیت میں منکرین معا د کی طرف سے ایک سوال کو اس صورت میں نقل کرتاہے کہ : ” وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر یہ قیامت کاوعدہ کس زمانہ میں پورا ہوگا “ (وَ یَقُولُونَ مَتی ہذَا الْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صادِقین) ۔
یہ سوال منکرین ِ معاد ، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یادوسرے تمام پیغمبروں سے با رہاکیا کرتے تھے ، جوکبھی تومطلب کوسمجھنے کے لیے ہوتاتھا ، اور شاید اکثر استہزاء اور تمسخر کے طور پر ہوا کرتا تھا کہ آخر یہ قیامت جس کا تم ہمیشہ سہارا لیتے ہو ، اگرتم سچ کہتے ہو تو بتلاؤ کہ وہ کب آئے گی . ان کا یہ پوچھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچ بولنے والے آدمی کو اس مطلب کے تمام جز ئیات کاجس کی وہ خبردے رہاہے علم ہو ناچاہیئے اوراس کے کم وکیف اورز مان ومکان سے بھی آگاہ ہوناچاہیئے ۔
لیکن قرآن ہمیشہ اس مطلب کے صریح جواب اور قیامت کے وقوع کے زمان کی تعین سے پہلو تہی کرتاہے اور تاکید کرتاہے کہ یہ ان امور میں سے ہے کہ جس کاعلم خدا کے ساتھ ہی مخصوص ہے ، اور اس کے علاوہ کوئی بھی اس سے آگاہ نہیں ہے ۔
لہٰذا بعد والی آیت میں اسی مطلب کو ایک دوسری عبارت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” کہہ دو کہ تمہاراوعدہ اس دن ہوگا کہ نہ ایک گھڑی اس سے تاخیر ہوگی اور نہ ہی ایک لمحہ بھر اس سے آگے بڑھو گے “ (قُلْ لَکُمْ میعادُ یَوْمٍ لا تَسْتَاٴْخِرُونَ عَنْہُ ساعَةً وَ لا تَسْتَقْدِمُون) ۔
یہ قیامِ قیامت کی تاریخ کامخفی ہونا . یہاں تک کہ پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی . جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے ، اس بناء پر ہے کہ خدا چا ہتاہے کہ لوگ ایسی آزادی عمل . جو انہیں ہمیشہ آمادہ رہنے کی حالت میں تیار رکھے . کے حامل ہوں کیونکہ اگر قیامت کی تایخ معین ہوجائے تو اگر اس کازمانہ دور ہوتاتو سب کے سب غفلت ، غرور اور بے خبری میں جاپڑتے ، اور اگر اس کازمانہ نزدیک ہوتا ، توممکن تھا کہ وہ آزادی ٴ عمل کو ہاتھ سے کھو بیٹھتے اوران کے اعمال اضطراری صورت اختیار کر لیتے اور دونوں صورتوں می انسان کے تر بیتی ہدف بے نتیجہ رہ جاتے ، اسی بنا ء پر قیامت کی تاریخ تمام لوگوں سے پوشیدہ ہے ، جیساکہ شب قدر کی تاریخ وہی را ت کہ جو ہزار ماہ کی فضیلت رکھتی ہے ، یاحضرت مہدی علیہ السلام کے قیام کی تاریخ ۔
وہ تعبیر کہ جو سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۵ میں آئی ہے : ” ان الساعة اٰتیة اکاد اخفیھالتجزٰی کل نفس بما تسعٰی “ (قیامت یقینی طور پر آئے گی ، میں چاہتا ہوں کہ اسے مخفی رکھو تاکہ ہرشخص کو اس کی اپنی سعی وکوشش کے مقابلہ میں جز ادی جائے ) اسی معنی کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے ۔
اس ضمن میں کہ وہ یہ تصور کرتے تھے ، کہ پیغمبرجوقیامت کے بارے میں خبردے رہا ہے ، اگر وہ سچ کہہ رہا ہے تواسے اس کی یقینی تاریخ کا بھی علم ہوناچاہیئے . یہ ان کی انتہائی غلط فہمی ہے ، اوران کے وظیفہ ٴ نبوت سے بے خبری اورلاعلمی کی دلیل ہے ، کیونکہ وہ توصرف احکام کوپہنچا نے اور بشارت و انذار پرمامور تھے ، باقی رہاقیامت کامسئلہ تووہ خدا سے مربوط ہے ، اورصرف وہی اس کے تمام جزئیات سے آگاہ ہے ، اورصرف اسی حصّہ کوجسے مسائل تربیتی کے لیے اُس نے ضرور ی سمجھا پیغمبرکے اختیار میں دیاہے ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے ، اوروہ یہ کہ قرآن مخالفین کی تہدید کے مقا م میں کہتا ہے کہ : ” تم قیامت کے مقررہ وعدہ سے ایک لحظ کے لیے بھی تاخیر نہیں کروگے “ ( لاتستاخرون ) لیکن یہ کیوں کہتاہے کہ ایک لحظ کے لیے مقدم بھی نہیں ہوگی ، قرآن کے ہدف میں اس بات کاکیااثر ہے ؟
اس کے جواب میں دو نکات کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے : پہلا یہ ہے کہ ا ن دونوں کو اکٹھا ذکر کرنا ہمیشہ کسی چیز کی تاریخ کے قطعی اوریقینی ہونے کی طرف اشارہ ہے ٹھیک اسی طر ح جیسے کہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں کام میں دیری یاجلدی نہیں ہے بلکہ اس کے وعدہ کاوقت قطعی ویقینی ہے ۔
دوسرا یہ کہ ہٹ دھرم کفار کی ایک جماعت ہمیشہ پیغمبروں پردباؤ ڈالتی رہتی تھی کہ یہ قیامت آتی کیوں نہیں ،دوسرے لفظوں میں انہیں اس کے لیے جلدی تھی ، خواہ استہزا ء کے طور پر یا بغیر استہزاء کے ، قرآن انہیں کہتا ہے کہ تم جلدی نہ کرو ، اس کی تاریخ اور وقت وہی ہے جو خدا نے مقرر کیاہوا ہے ۔
۱۔ تفسیر مجمع البیان ذیل آیات زیر ِ بحث ، یہ حدیث درالمنثور میں بھی ابن ِ عباس سے نقل ہوئی ہے ۔
۲۔ تفسیر نوالثقلین ، جلد ۴ ،ص ۲۵۵ ،۲۵۶۔
۳۔ کبھی ”تا“ ” اسم فاعل سے ملحق ہوتی ہے ، اور مبالغہ کامعنٰی دیتی ہے ، نہ کہ تانیث کامثلا ً ” راویہ“ ۔
سوره سبأ / آیه 31 - 33سوره سبأ / آیه 28 - 30
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma