سوره الم سجده کی فضیلت اور مضامین

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
سوره الم سجده / آیه 1 - 5۳۔ یہ پانچ علوم خدا کے ساتھ مخصوص ہیں
سورہٴ الٓمٓ سجدہ
اس سورت کی ۳۰ آیات ہیں اور مکہ نازل ہوئی ہیں
کل آیات ۳۰

اس سُورة کے نام

مشہوریہ ہے کہ یہ سورہ مکہّ میں نازل ہوئی ہے۔ بعض مفسرین نے تو اس کی کسی آیت کا استثناء بھی نہیں کیا ہے۔ لیکن بعض نے آیہ ۱۸تا ۲۰ کومدنی سمجھاہے اوران کا نظریہ ہے کہ یہ تین آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔ حالانکہ ان آیات میں ان کے مدنی ہونے کا کوئی قرینہ اور نشانی نظر نہیں آتی۔
اس سورہ کا نام بعض روایات میں اور مشہور مفسرین کی زبان میں ”سورئہ سجدہ“ یا ”الم سجدہ“ ہے۔ اورکبھی اسے ”حم سجدہ “ سے جدابیان کرنے کے لیے اور ”سجدئہ لقمان“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ کیونکہ یہ سورئہ لقمان کے بعدقرارپایاہے۔
بعض روایات میں اسے ”الم تنزیل“ کے نام سے یادکیا جاتاہے۔
”فخررازی“ اور ”آلوسی“ نے تواس کے ناموں میں سورئہ ”مضاجع“ کا نام ذکرکیاہے (اس سورہ کی آیت نمبر۱۶ ”تتجافیٰ جنوبھم عن المضاجع.“ کی مناسبت سے )۔
سورئہ سجدہ کی تلاوت کی فضیلت:
ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی الله وآلہ وسلّم سے یوں ندکور ہے:
”من قراٴ الم تنزیل وتبارک الّذی بیدہ الملک، فکانّما احیا لیلة القدر۔“
”جو شخص سورئہ الم تنزیل اور ”تبارک الّذی “ کو پڑھے تو گویا اس نے شبّ قدر جاگ کر گزاری“ ۔ (۱)
ایک دوسری حدیث میں امام جعفربن محمد صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوا ہے:
”من قرء سورة السجدة فی کلّ لیلة جمعة اٴعطاہ الله کتابہ بیمینہ، ولم یحاسبہ بما کان منہ، وکان من رفقاء محمّد واٴہل بیتہ“
”جو شخص سورئہ سجدہ ہر شب جمعہ پڑھے خدا اس کا نامہٴ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دے گا اور اس کے گزشتہ گناہوں کو بخش دے گا اور محمدواہل ِ بیت محمدعلیہم السلام کے دوستوں میں ہوگا۔ (2)
چونکہ اس سُورہ میں مبدء ومعاداور قیامت کے دن مجرمین کے عذاب وسزا اور ہو شیارو بیدار کرنے والے دروس موٴمنین اور کافرین سے متعلق وسیع اور تفصیلی مبا حث آئی ہیں، یقینا اس کی تلاوت انسان کی حدتک اصلاح کر سکتی ہیں کہ ان تمام فضائل اور اعزازات کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اور اس کا بیدار کرنے والا اگر شب قدر کی بیداری کے مانند ہوتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اصحاب یمین کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے اور پیغمبر اوران کی آل کی دوستی اور فاقت کے اعزاز وافتخار کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن تلاوت ایسی جو سوچ وبچار کا سرچشمہ ہواورسوچ وبچارایسی جو نچتہ ارادے اور تحرک کا منبع ہو۔

سورہ سجدہ کے مندرجات:

یہ سورہ چونکہ ”مکّی “سورتوں میں سے ہے ۔لہٰذا دوسری مکّی سورتوں کی طرح اپنے اصلی خطوط یعنی ”مبدء ومعاد“ اور ”بشارت وانداز“ کے مباحث پر مشتمل اور بطور مجموعی اس چند مباحث توجہ طلب ہیں :
۱۔ سب سے پہلے عظمت قرآن کے بارے میں گفتگو ہے اور اس کا پر وردگار عالمین کی طرف سے نازل ہونے اور دشمنی کے الزامات کی نفی ہے ۔
۲۔ اس کے بعدآسمان وزمین میں خدا کی نشانوں اور اس کائنات کے چلانے کے سلسلہ میں بحث ہے۔
۳۔ایک اور بحث انسان کی ”مٹی“ اور ”نطفہ کے پانی“ اور ”خدا کی رُوح“ سے خلقت اور علم ودانش کو حاصل کرنے کے ذرائع یعنی آنکھ، کان اور عقل کا خدا کی طرف سے عطیہ ہو نا ہے۔
۴۔اس کے بعدقیامت اور اس کے پہلے کے حوادث یعنی موت اور اس کے بعد یعنی سوال وجواب حساب کے بارے میں گفتگو ہے۔
۵اور ۶۔ موٴثراور ہلادینے والی بشارت دانداز کی مباحث ہیں۔ جن میں مومنین کو جنّة المادیٰ کی نو یددیتا ہے اور فاسقین کو جہنّم کی آگ سے ڈراتاہے۔
۷۔ اسی منا سبت سے بنی اسرائیل کی تریخ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت اور اسی امّت کی کامیابیوں کی طرف مختصرسا اشارہ بھی ہے۔
۸۔ دوبارہ بشارت وانداز کی بحث کے پیش نظر گزشتہ اُمتوں میں سے ایک گروہ کے حالات اور اس کے درد ناک انجام کی طرف اشارہ ہے۔
۹اور ۱۰۔ دوبارہ مسئلہ توحید اور عظمت خدا کی نشانیوں کی طرف لوٹتا ہے اور ”ضدی وہٹ دھرم دشمنوں“ کو متنبہ کرنے کے بعد سُورت اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
تو اس طرح سے اس سورہ کا اصل مقصد مبدء ومعاد پرایمان کی بنیادوں کو مضبوط کرنا اور اس کے ذریعے تقویٰ کی طرف تحرک کی ایک قوی موج ایجاد کرنا ہے، جس سے لوگ طغیان اور سرکشی سے بازآجائیں اور اپنے بلند انسانی مرتبہ کی قیمت کو پہچانیں۔ جس کی اسلام کی ابتدائی تحریک کے ایاّم میں سرزمین مکہّ کے ماحول کے لیے از حد ضرورت تھی۔
۱۔ مجمع البیان، ج۸، ض۳۲۵.
2۔ مجمع البیان، ج۸، ض۳۲۵.
سوره الم سجده / آیه 1 - 5۳۔ یہ پانچ علوم خدا کے ساتھ مخصوص ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma