ماں باپ کا احترام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
۱۔ لقمان کون تھے ؟سوره لقمان / آیه 12 - 15

گزشتہ مباحث، توحید و شرک اور امہیں و عظمت قرآن اور اس آسمانی کتاب میں استعمال ہونے والی حکمت کے بارے میں تھے۔ اسی مناسبت سے زیر بحث اور چند بعد والی آیات میں”لقمان حکیم“ کے بارے میں اور اس مرد خد کے چند نصائح، توحید کی عظمت اور شرک سے بر سر بیکار رہنے کے سلسلے میں درمیان میں آئی ہیں۔ ارو اہم اخلاقی مسائل کہ جن میں لقمان کی اپنے بیٹے کو پند و نصائح کا بیان ہے۔ یہ دس نصیحتیں جو چھ آیات کے اندر بیان ہوئی ہیں اعتقادی مسائل کو بھی لکش طور پر بیان کرتی ہیں اور دینی فرائض اور ذمہ داریوں کے اصول اور اخلاقی مباحث کو بھی ۔
اس بارے میں کہ” لقمان“ کون تھے اور کن خصوصیات کے حامل تھے؟ انشاء الله آگے چل کر نکات کی بحث میں بیان کریں گے۔ یہاں پر تو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ و پیغمبر نہیں تھے۔ بلکہ وہ ایک سلجھے ہوئے، سنجیدہ اور مہذب انسان تھے جو ہوائے نفس کے میدان مقابلہ میں سرو اور کامیاب ہوئے۔ اور خدا نے ان کے دل پر علم و حکمت کے چشمے جاری کردیئے، ان کے مقام عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ خدانے ان کے پند و نصائح کو اپنے ارشادات کے ساتھ ذکر کیا ہے اور آیات قرآن کے اندر بیان فرمایا ہے۔ جی ہاں!جب انسان کا دل پاگیزہ اور تقویٰ کے زیر اثر نور حکمت سے روشن ہو جائے توخدا کے ارشادات اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں اور وہی کچھ کہتا ہے جو خدا کہتا ہے، اور وہی سوچتا ہے جو خدا پسند کرتا ہے۔
اس مختصر سی وضاحت کے ساتھ آیات کی تفسیر کی طرف لوٹتے ہیں۔
پہلی آیت میں فرماتا ہے” ہم نے لقمان کو حکمت دی اور انھیں کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کیونکہ جو شخص نعمت کا شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی نفع کے لیے کرتا ہے۔ اور جو شخص کفران نعمت کرتا ہے وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ خدا بے نیاز اور لائق تعریف ہے:(وَلَقَدْ آتَیْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَةَ اٴَنْ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ) ۔(۱)
رہا یہ سوال کہ حکمت کیا ہے؟ تو جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکمت کے بہت سے معانی بیان ہوئے ہیں مثلاً”عالم ہستی کے اسرار کی پہچان“، ”حقایق قرآن سے آگاہی“،”گفتار و عمل کے لحاظ سے حق تک پہنچنا“ اور” خدا کی معرفت اور پہچان“۔
لیکن ان تمام معانی کو ایک جگہ پر جمع بھی کیا جاسکتا ہے اور حکمت کی تفسیر میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس حکمت کے بارے میں قرآن نے گفتگو کی ہے اور خدا نے لقمان کو عطا فرمائی ہے، وہ مجموعہ ہے”معرفت علم پاکیزہ اخلاق، تقویٰ اور ہدایت کا نور“۔
ایک حدیث میں اسی آیت کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہشام بن حکم سے ارشاد فرماتے ہیں کہ”حکمت سے مراد فہم و عقل ہے“۔(۲)
ایک اور حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت میں تفسیر میں فرمایا:
”اوتی معرفة امام زمانہ“ یعنی حکمت یہ ہے کہ لقمان اپنے زمانے کہ امام اور خدائی رہبر کی معرفت رکھتے تھے۔(۳)
ظاہر یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا حکمت کے وسیع مفہوم میں شمار ہوتا ہے اور آپس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔
بہر حال ”لقمان “ نے اس حکمت کا حامل ہونے کی بناء پر اپنے پروردگار کا شکر شروع کیا، وہ نعمات الٰہی کے اہداف اور نتائج کو جانتے تھے۔ اور انھیں ٹھیک اسی میں کہ جس کے لیے وہ پیدا ہوئی تھیں استعمال میں لائے ۔، اور اصولی طور پر حکمت اسی چیز کا نام ہے۔
”ہر چیز کو اس کہ جگہ پر استعمال کرنا“ اس بناء پر”شکر “و” حکمت“ کی بازگشت ایک ہی نقطہ کی طرف ہوتی ہیں۔
ضمنی طور پر آیت میں نعمتوں کے” شکر“ اور”کفران“ کا نتیجہ اسی صورت میں بیان ہوا ہے کہ”شکر نعمت خود انسان کے اپنے فائدہ کے لیے ہے“ اور”کفران نعمت اس کے لیے اپنے نقصان میں ہے“ کیونکہ خداوند عالم تو تمام دنیا سے بے نیاز ہے اگر کائنات کی ہر چیز شکر گزاری کرے تو اس کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوگا اور” اگر تمام کائنات کافر ہوجائے تو اس کے دامن کبریائی پر گرد نہیں بیٹھ سکتی“۔

”ان اشکر الله“ کے جملے میں”لام“ ”لام اختصاص“ ہے اور لنفسہ کی ”لام“”لام نفع“ ہے۔ اسی بناپر شکر گزاری کا نفع اور فائدہ جو کہ آخرت کے ثواب کے علاوہ دوام نعمت اور اس کا اضافہ ہے، خود انسان کی طرف لوٹتا ہے۔ جیسا کہ ”کفران“ کا زیان اور نقصان صرف اسی کے دامنگیر ہوتا ہے۔
”غنی حمید“ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عام افراد کا شکر ادا کرنے والا یا تو کوئی چیز نعمت دینے والے کو دیتا ہے یا اگر نہیں دیتا تو اس کا مقام لوگوں کی نگاہ میں ضرر بلند کرتا ہے، لیکن خدا کے بارے میں ان دونوں میں سے کوئی چیز صادق نہیں آتی۔ وہ تو سب سے بے نیاز ہے اور سب تعریف کرنے والوں کی ستایش و تعریف کے لائق اور مستحق ہے۔ فرشتے اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور موجودات کے تمام ذرات اس کی حمد و تسبیح میں مشغول ہیں۔ اور اگر کوئی انسان ”زبان قال“ سے کفران کرے تو اس کا ذرہ برابر بھی اس پر اثر نہیں پڑتا۔ جبکہ اس کے وجود کے تمام ذرات ”زبان حال“ سے اس کی حمد و ثنا میں مشغول ہیں۔
قابل توجہ یہ نکتہ ہے کہ ”شکر“ ”مضارع کے صیغہ“ کے ساتھ آیا ہے جو کہ دوام اور استمرار کی علامت ہے اور ”کفر“”ماضی کے صیغہ“ کے ساتھ جو ایک مرتبہ پر بھی صادق آتا ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک بار کا کفران ممکن ہے کہ دردناک انجام کا سبب بن جائے۔ لیکن شکر گزاری ضروری ہے اور اسے ہمیشہ جاری رہنا چاہٴے تاکہ انسان ارتقاء کے تدریجی مراحل کو طے کرتا رہے۔
حضرت لقمان اور ان کے مقام علم و حکمت کے تعارف کے بعد ان کی پہلی نصیحت جو ان کے اپنے بیٹے کے لیے ہے وہ اہم ترین وصیت ہے اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے ”اس وقت کو یادکرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو موعظہ کرتے ہوئے کہا بیٹا! کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نہ دے کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے“: (وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہِ وَھُوَ یَعِظُہُ یَابُنَیَّ لَاتُشْرِکْ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ) ۔
لقمان کی حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ سب سے پہلے اہم اور دبنیادی اعتقادی مسئلہ کی طرف جائے اور وہ ہے ”توحید“ کا مسئلہ۔ تو حید تمام اطراف اور جہات سے کیونکہ تخریب پر مبنی اور خدا کے خلاف ہر تحریک کا سر چشمہ شرک ہے خواہ وہ دنیا پرستی ہو یا مقام پرستی ، ہوا پرستی اور اُن جیسے دوسرے امور جو شرک کا شعبہ شمار ہو تے ہیں جس طرح کہ تمام صحیح، تعمیری اور تربیتی تحریکوں کی اساس توحید ہے یعنی دل کو صرف خدا سے وابستہ رکھنا، اس کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے غیرسے ناتاڑنا اور تمام بتوں کو اس کی کبریائی کے آستان پر چکھنا چورکرنا۔
قابل تو جہ یہ بات ہے کہ لقمان حکیم نفی شرک کی دلیل ذکرکرتے ہیں کہ شرک ظلم عظیم ہے اور وہ بھی خدا کے بارے میں ایسی تعبیر کے ساتھ جو کئی لحاظ سے تاکید کی حامل ہے۔ (۴)
اور اس سے بڑھ کر اور ظلم ہو سکتا ہے کہ بے قدروقیمت چیز کو اس کے مقابلہ میں قرار دیاجائے اور مخلوق کے بارے میں یہ کہ اسے گمراہی کی طرف کھینچ کر لے جائیں اور اپنے مجرمانہ اعمال کے ذریعہ انھیں گمراہی کی طرف لائیں ، ان پر ظلم وستم کریں اور اپنے بارے میں یہ کہ پروردگار کی عبودیت کے شرف اور عزّت و عظمت سے ہٹ کر اس کے غیر کی پرستش کر کے خود کو قعر مذلت میں گردایں۔
بعد والی دونوں آیات در حقیقت جملہ معترضہ ہیں جو لقمان کے پند و نصائح کے در میان خدا کی طرف سے بیان ہوئی ہیں، لیکن بے ربط معانی میں نہیں بلکہ خداوند عالم کا کلام ہے جو لقمان کی باتوں سے واضح ربط رکھتا ہے، کیونکہ ان دو آیات میں ماں باپ کے وجود کی نعمت ان کی زحمات، خدمات اور حقوقات اور اللهکے”شکر“ کے ساتھ والدین”شکریہ“ کو بھی قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی ہیں وہ ان کے پر خلوص ہونے پر بھی دلالت کرتی ہیں کیونکہ اولاد کے ساتھ والدین کو دلی محبّت، قلبی لگاوٴ اور خلوص دل سے پیار ہوتا ہے، قطعاً ناممکن ہے کہ وہ اولاد کی بہتری کے علاوہ کچھ اور سوچھ بھی سکیں۔

پہلے فرماتا ہے کہ”ہم نے انسان کو ہم ماں باپ کے بارے میں شفارش اور وصیّت کی“۔(وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہ) ۔
اس کے بعد ماں کی حد سے زیادہ تکالیف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے” ان کی ماں نے اسے ایسی حالت حات میں حمل کیا کہ ہر روز اس کے ضعف اور کمزوری پے نئے ضعف کا اضافہ ہوتا:(حَمَلَتْہُ اٴُمُّہُ وَھْنًا عَلیٰ وَھْن) (5)
علمی لحاظ سے بھی اور تجربہ کی روسے بھی یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ مائیں ایام حمل کے دوران کمزوری اور سستی میں مبتلا ہو جاتی ہیں کیونکہ اپنی جان کا شیرہ اور ہڈیوں کا گورہ شکم میں موجود اپنے بچہ کی پرورش کے ساتھ مخصوص کردیتی ہیں اور اپنے وجود کے سارے حیاتیاتی مواد کا بہتریں حصہ اسے پیش کرتی رہتی ہیں۔
اسی بناء پر مائیں حمل کے زمانے میں مختلف قسم کے وٹا منز کی کمی کا شکار ہوجاتی ہیں اور اگر اس کی تلافی نہ کی جائے تو انھیں کئی تکالیف اور پریشانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ یہی عمل زمانہ رضاعت (یعنی دودھ پلانے) کے دوران میں بھی جاری رہتا ہے کیوکہ دودھ عورت کی جان کا شیرہ ہوتا ہے۔
لہٰذا اس کے بعد کہتا ہے کہ” اس کے دودھ پلانے کے اختتام کا زمانہ دو سال ہے“ (وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ) ۔
جیسا کہ قرآن کی ایک دوسری جگہ بھی اشارہ ہواہے: ”
<وَالوَالِدَاتُ یُرضِعنَ اٴَولَادَھُنَّ حَولَینِ کَامِلَینِ ”مائیں اپنی اولاد کو پورے دوسال دودھ پلائیں گی۔ “ (بقرہ ۔ ۲۳۳)
البتہ مرادمکّمل دودھ پلا نے کی مدّت ہے اگر چہ ممکن ہے کہ اس سے کم مدّت بھی انجام پائے۔
بہر حال مائیں ان ۳۳ ماہ (حمل اور دودھ پلانے کی مدّت) میں اپنے بچے کے لیے روحانی اور جسمانی ہر طرح سے خدمت کرکے عظیم ترین قربانی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
قابل توجہ یہ بات ہے کہ ابتدامیں تو ماں اور باپ دونوں کے بارے میں وصیت کرتا ہے لیکن تکالیف اور خدمات کے بیان کے موقعہ پر صرف ماں کی زحمات کا ذکر کرتاہے۔ تاکہ انسان کو ماں کے اثیاروقربانی اور عظیم حق کی طرف متوجہ کیا جائے۔
اس کے بعد کہتاہے کہ ”ہم نے اسے وصیت کی کہ میراشکر بھی اداکراور ماں باپ کا بھی: (اٴَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْک) ۔
میراشکر اداکر و کہ میں تمھاراخالق اور منعم ہو ں اور اسی قسم کے مہربان ماں باپ تجھے دیئے ہیں اور اپنے ماں باپ کا بھی شکریہ اداکرو جو اس فیض کا واسطہ اور تمھاری طرف میری نعمتوں کے منتقل کرنے کا ذریعہ میں ۔
کس قدرتوجہ طلب اور معنی خیز ہے یہ کہ مں باپ کے شکر یہ کو بالکل ہی خدا کے شکرکے ساتھ اور اس کے پہلومیں ذکرفرمایاہے۔
آیت کے آخرمیں جوایک قسم کی تنبیہ اور عتاب سے خالی نہیں، فرماتا ہے ”تم سب کی بازگشت میری طرف ہے ۔ (إِلَیَّ الْمَصِیرُ)
جی ہاں !اگر تم نے یہاں کسی قسم کی کوتاہی کی تو وہاں پر ان حقوق، تکالیف اور خدمات کے بارے میں بازپرس کی جائے گی اور ذرے ذرے کا حساب لیاجائے گا جہاں تہیں خدا کی نعمتوں کے شکر اوراسی طرح ماں باپ کے وجود کی نعمت اور ان کے پاک اور بے آلائش تشکر کے سلسلہ میں خدائی حساب سے عہدہ برآہونا ہے۔
بعض مفسرین نے یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ کی کہ قرآن مجید میں والدین کے حقوق کی رعایت پر تو باربار تا کیدکی ہے لیکن اولاد کے بارے میں بہت کم سفارش نظرآتی ہے (سوائے ایک موقعہ پر کہ جس میں اولاد کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے جوزمانہ جاہلیت کی ایک منحوس اور بری عادت تھی) تویہ اس بناء پر ہے کہ اپنے زبردست پیارکی وجہ سے بہت کم ممکن ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو فراموش کردیں جبکہ اکثر دیکھاگیا ہے کہ والدین جب بہت بوڑھے اور بے کار ہوجاتے ہیں تو اولاد نہیں فراموش کردیتی ہے اور یہ ا ن کے لیے دردناک ترین حالت اور اولاد کے لیے بدترین ناشکری شمار ہوتی ہں۔ (6)
اور مں باپ کے بارے نیکی کی وصیت سے ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیداہوجائے کہ عقائد، کفر اور ایمان کے مسئلہ میں بھی ان کی پیردی کی جائے یانرمی برتی جائے ؟ لیکن بعد والی آیت میں فرمایا ہے ”جس وقت وہ دونوں سعی وکو شش کریں کہ کسی چیز کو میرا شریک قرار دوکہ جس سے (کم ازکم) آگارہی نہیں رکھتے تو ان کی اطاعت نہ کرو (وَإِنْ جَاھَدَاکَ عَلی اٴَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْھُمَا) ۔
کبھی کبھی انسان اور اس کے والدین کے رابطہ کو خدا کے رابطے پر مقدم نہ کرنا اور نہ ہی رشتہ داری کی محبت اعتقاد پر حاکم ہو۔
”جاھداک “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے والدین کبھی کبھی اس بنا کہ وہ اپنی اولاد کی سعادت چاہتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ انھیںاپنے غلط عقائد کی طرف اور یہ چیز ہر ایک والدین کے بارے میں دکھائی دیتی ہے ۔
اولاد کا فرض بنتا ہے کہ کبھی بھی اس قسم کے دباوٴکے آگے نہ جھکیں اور اپنی فکریاستقلال کو محفوظ رکھتے ہوئے عقیدہ توحید کا کسی چیز سے تبادلہ نہ کریں ۔
ضمناً ۔”ما لیس لک علم“(یعنی وہ چیز کہ جس کا تمھیں علم نہیں) کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر بالفرض شرک کے باطل ہونے کو مدنظر نہ بھی رکھاجائے تو کم ازکم اتنا تو ضرور ہے ہی کہ اس کے اثبات پر کوئی دلیل بن سکتی اور نہ کوئی بہانہ جو شخص اس کے اثبات پردلیل قائم کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں اگر شرک کی کوئی حقیقت ہوتی تو یقیناً اس کے اثبات پر کوئی دلیل ضرور ہو تی اور اس قسم کی کسی دلیل کا نہ ہونا یقینا اس کے بطلان کی دلیل ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس فرمان سے یہ وہم وگمان پیداہو کہ مشرک مں باپ کے سامنے سختی اور بے احترامی کو استعمال کیا جاناچاہیئے ؟تو فوراًہی کہتا ہے کہ شرک اور کفرکے مسئلہ میں ان کی پیروی نہ کرنا مطلقاً قطع رابطہ کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے باوجود ”ان کے سات دنیا میں شائستگی کا سلوک کرو، “ . (وصاحبھما فی الدنیا معروفاً) ۔ دنیا داری اور زندگی میںان سے مہرومحبت سے پیش آؤ اور نرمی کا سلوک کرو اور مندہبی امورمیں ان کے افکار اور نظریات کے سامنے نہ جھکو، یہ ٹھیک اعدال کا نقطئہ اصلی ہے جس میں خدا اور ماں باپ کے حقوق کا حسین امتز ج ہے۔
لہٰذ اس کے بعد مزید کہتا ہے ”ایسے لوگوں کی پیروی کرو دجنھوں نے . میری طرف رجوع کیاہے: (وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ اٴَنَابَ إِلَی) ۔
کیونکہ ”اس کے بعد تم سب کی بازگشت میری طرف ہے اور میں تمھیں اس عمل سے آگاہ کروں گا جو تم انجام دیا کرتے تھے “اور اس کے مطا بق ہی جزا اور سزاووں گا :(فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا َّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاٴُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ) ۔
او پر والی آیات میں پے در پے کے اثبات ونفی اور امر ونہی اس لیے ہیں تا کے مسلمان اس قسم کے مسائل کہ جن میں ابتدائی نظر میں دو ضروری فرائض اور ذمہ داریوں کے انجام دینے میں تضاد کا تصور ہوتا ہو ، صحیح خطوط کو تلاش کریں اور تھوڑی سی بھی افراط اور تفریظ کے بغیر صحیح راہ پر گامزن ہوجائیں اور قرآن مجید میں اس قسم کی جزئیات کو اس باریک بینی اور ظرافت ولطافت کے ساتھ بیان کرنا اس کی فصاحت و بلاغت کے مختلف پہلووٴں سے ایک پہلو ہے ۔
بہر صورت اور پر والی مکمل طور پر سورہ عنکبوت کی آیہ ۸ کے عین مشابہ ہے جس میں خدا کہتا ہے :(وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاھَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْھُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاٴُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ) ۔
بعض تفسیروں میں مذ کورہ آیت کا شان نزول منقول ہے جسے ہم سورہ عنکبوت کی آیت ۸ کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں ۔
۱۔ ”ان اشکر الله“ کے جملے میں کوئی چیز مقدر ہے نہیں؟ مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ ”قلنا لہ“ کا جملہ اس سے پہلے مقدر ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ مقدر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ”ان اشکر“ کے جملہ میں خود ”ان“ تفسیریہ ہے کیونکہ شکرگزاری عین حکمت ہے اور حکمت میں شکرگزاری (اور دونوں تفسیریں قابل قبول ہیں) ۔
۲۔ اصول کافی، ج۱، ص۱۳، کتاب العقل والجہل، حدیث۱۲.
۳۔ نور الثقلین، ج۴، ص۱۹۶.
4۔ ”ان“ اور ”لام“ اور ”جملہ کا اسمیہ ہونا“ ہر ایک تاکید پر دلالت کرتا ہے.
5۔ ”وَھْنًا عَلیٰ وَھْنٍ“ کا جملہ ہوسکتا ہے کہ لفظ ”ام“ کا حال ہو اور لفظ ”ذات“ کو مقدر (پوشیدہ) مانا جائے تو اس وقت مکمل جملہ یوں بنے گا ”حملتہ امّہ ذات وھن علی وھن“ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ”وھن“ کے مادہ سے مقدر (پوشیدہ) فعل کا مفعول مطلق ہو تو پھر اس صورت میں ”تھن وھناً علیٰ وھن“۔
6۔ تفسیر فی ظلال، ج۶، ص۴۸۴.
۱۔ لقمان کون تھے ؟سوره لقمان / آیه 12 - 15
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma