تمہارا ملک خطرے میں ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 38 - 42سوره شعراء / آیه 30 - 37

گذشتہ آیات میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے منطق اور استدلال کی رو سے فرعون پر کیونکر اپنی فوقیت اور بر تری کا سکہ منوالیا اور حاضرین پر ثابت کردیا کہ ان کا خدا ئی دین کس قدر عقلی منطقی ہے اور یہ بھی واضح کردیا کہ فرعون کے خدائی دعوے کس قدر پوچ اور عقل و خرد سے عاری ہیں کبھی تو وہ استہزاء کرتا ہے کبھی جنون اور دیوانگی کی تہمت لگا تا ہے اور آخرکار طاقت کے نشے میں آکر قید و بند اور موت کی دھمکی دیتا ہے ۔اس موقع پر گفتگو کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے اب جناب موسیٰ کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئیے تھا جس سے فرعون کا عجز ظاہر ہو جائے ۔
موسیٰ علیہ اسلام کو بھی کسی طاقت کے سہارے کی ضرورت تھی ایسی خدا ئی طاقت جس کے معجزانہ انداز ہوں ، چنانچہ آپ علیہ اسلام فرعون کی طرف منہ کر کے فرماتے ہیں :آیا اگر میں اپنی رسالت کے لئے واضح نشانی لے آوٴں پھر بھی تو مجھے زندان میں ڈالے گا ( قَالَ اٴَوَلَوْ جِئْتُکَ بِشَیْءٍ مُبِین) ۔
اس موقع پر فرعون سخت مخمصے میں پڑ گیا ، کیونکہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے ایک نہایت ہی اہم اور عجیب و غریب منصوبے کی طرف اشار ہ کرکے حاضرین کے توجہ مبذول کر والی تھی ۔ اگر فرعون ان کی باتوں کو اَن سنا کر کے ٹال دیتا تو سب حاضرین اس اعتراض کرتے اور کہتے کہ موسیٰ کو وہ کام کرنے کی اجازت دی جائے اگر وہ ایسا کرسکتا تو بھی اس کی شیخی آشکار ہو جائے گی۔
بہر حال موسیٰ علیہ اسلام کے اس دعوے کو آسانی سے مسرد نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ آخر کار فرعون نے مجبور ہو کر کہا:”اگر سچ کہتے ہو تو اسے لے آوٴ“( قَالَ فَاٴْتِ بِہِ إِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِینَ)۔
اسی دوران میں موسی ٰ نے جو عصا ہاتھ میں لیا ہوا تھا زمین پر پھینک دیا اور وہ ( خدا کے حکم سے ) بہت بڑا واضح سانپ بن گیا “ ( فَاٴَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُبِینٌ )۔
پھر اپنا ہاتھ آستین میں لے گئے اور باہر نکا لا تو اچانک وہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمک دار بن چکا تھا ۔
(وَنَزَعَ یَدَہُ فَإِذَا ھِیَ بَیْضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ)۔
در حقیقت یہ دو عظیم معجزے تھے ۔ ایک خوف کا مظہر تھا تو دوسرا مید کا ۔ پہلے میں انداز کا پہلو تھا تو دوسرے میں بشارت کا ۔ ایک خدائی عذاب کی علامت تھی تو دوسرا نور اور رحمت کی نشانی ۔کیونکہ معجزے کو پیغمبر خدا کی دعوت کے مطابق ہونا چاہیئے ۔
”ثعبان“ بہت بڑے سانپ کا نام ہے جسے فارسی میں ”اژدہا“ کہتے ہیں ۔
”راغب “نے اپنی کتاب ”مفردات“ میں لکھا ہے کہ ”ثعبان“ ثعب“ کے مادہ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے پانی کا چلناکیونکہ سانپ کی حرکت بھی پانی کی طرح بھی پانی کی طرح ہوتی ہے جوبل کھا کر چلتا ہے ۔
”مبین “کی تعریف سے ممکن ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو عصا سچ مچ سانپ بن گیا ۔ اس میں ہاتھ کی صفائی فریب ِ نظر اور جادُو کا ر فرما نہ تھا ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر ”ثعبان “ کا لفظ آیا ہے اور سورہ ٴ نمل کی آیت ۱۰ ،اورسورہ ٴ سورہ ٴ قصص کی آیت ۱۳ میں ”جان “ کا لفظ استعمال ہوا ہے ( جس کا معنی ہے چھوٹے چھوٹے اور تیز رفتار سانپ) سورہٴ طٰہٰ کی آیت ۲۰ میں ” حیة“ کا لفظ ذکر ہوا ہے ( جس کا معنیٰ ہے سانپ ، اور ”حیات“ کے مادہ سے لیا گیا ہے )۔
بادی النظر میں یہ تعبیریں مختلف نظر آتی ہیں جن سے ذہن میں مختلف سوال بھی اُٹھ سکتے ہیں لیکن حقیقت میں مندرجہ ذیل دومطالب میں سے کسی ایک کے بیان کرنے کے لئے ہیں :
ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ اس سانپ کی مختلف حالتوں کی طرف اشارہ ہو کہ پہلے تو وہ ”عصا“ چھوٹا سا ایک سانپ بن جاتا ہو، پھر آہستہ آہستہ بڑا ہوتے ہوتے اژدہا بن جاتا ہے ۔
دوسرے یہ کہ ممکن ہے کہ یہ تینوں الفاظ اس سانپ کی مختلف خاصتوں کی طرف اشارہ ہو ں ”ثعبان“ اس کے بڑا ہو نے کی طرف اشارہ ہو اور ”جان “ اس کی تیز رفتاری کی طرف اور ”حیة“ اس کے زندہ سلامت ہو نے کی طرف اشارہ ہو۔
فرعون نے جب یہ صورت حال دیکھی تو سخت بوکھلا گیا اور وحشت کی گہری کھائی میں جا گرا لیکن اگر اپنے شیطانی اقتدار کو بچانے کے لئے جو موسیٰ علیہ اسلام کے ظہور کے ساتھ متزلزل ہو چکا تھا اس نے ان معجزات کی توجیہ کرنا شروع کردی تاکہ اس طرح سے اطراف میں بیٹھنے والوں کے عقائد محفوظ اور ان کے ھوصلے بلند کر سکے اس نے پہلے تو اپنے حواری سرداروں سے کہا : یہ شخص ماہر اور سمجھ دار جادو گر ہے ( قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَہُ إِنَّ ھَذَا لَسَاحِرٌ عَلِیمٌ)۔
جس شخص کو تھوڑی دیر پہلے تک دیوانہ کہہ رہا تھا اب اسے ”علیم “ کے نام سے یا د کر رہا ہے ۔ ظالم اور جابر لوگوں کو طریقہ کار ایسا ہی ہو تا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی محفل میں کئی روپ تبدیل کرلیتے ہیں اور اپنی انا کی تسکین کے لئے نت نئے حیلے تراشے رہتے ہیں ۔
اس نے سوچا چونکہ اس نے زمانے میں جادو کا دَور دَورہ ہے لہٰذا موسیٰ علیہ اسلام کے معجزات پر جادو کا لیبل لگا یا جائے تاکہ لوگ اس کی حقانیت کو تسلیم نہ کریں ۔
پھر اس نے لوگوں کے جذبات بھڑ کانے اور موسیٰ علیہ اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے کہا : وہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے ( یُرِیدُ اٴَنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ اٴَرْضِکُمْ بِسِحْرِہِ )۔
تم لوگ اس بارے میں کیا سوچ رہے ہو اور کیا حکم دیتے ہو (فَمَاذَا تَاٴْمُرُونَ )۔
یہ وہی فرعون ہے جو کچھ دیر تک تمام سر زمین مصر کو اپنی ملکیت سمجھ رہا تھا ” الیس لی ملک مصر“( کیا سر زمین مصر پر میری حکومت اور مالکیت نہیں ہے ) اب جبکہ اسے اپنا راج سنگا سن ڈولتا نظر آرہا ہے تو اپنی حکومت ِ مطلقہ کومکمل طور پر فراموش کر کے اسے عوامی ملکیت کے طورپر یا د کر کے کہتا ہے ”تمہارا ملک خطر ے میں گھر چکا ہے اسے بچا نے کی سوچو“۔
وہی فرعون جو ایک لحظہ قبل کسی کی بات سننے پر تیار نہیں تھا بلکہ ایک مطلق العنان آمر کی حیثیت سے تکت ِ حکومت پر براجمان تھا اب اس حک تک عاجز اور درماندہ ہو چکا ہے کہ اپنے اطرافیوں سے در خواست کررہا ہے کہ تمہارا کیا حکم ہے نہایت ہی عاجز اور کمزور ہو کر التجا کر رہا ہے ۔
سورہ اعراف کی آیت ۱۱۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے درباری باہمی طور پر مشورے کرنے لگ گئے وہ اس قدر حواس باختہ ہو چکے تھے کہ سوچنے کی طاقت بھی ان سے سلب ہو گئی تھی ۔ ہو کوئی دوسرے کی طرف منہ کر کے کہتا : ”تمہاری کیا رائے ہے ؟“
جی ہاں !پوی تاریخ ِ انسانی ظالم حکمرانوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ جب وہ ملکی حالات پر مکمل طور پر مسلط ہو تے ہیں تو ہر چیز کو اپنی ملیت اور ہر ایک کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اور جبر و استبدادان کی منطق ہوتی ہے ۔
لیکن جب اپنی ظالمانہ حکومت کی چولیں ہلتی نظر آتی ہیں تو وقتی طور پر سخت استبداد سے اتر کر عوام کا دامن تھامنا شروع کردیتے ہیں اور ان کی آراء و افکار کو اہمیت دینے لگ جاتے ہیں ، عوامی حکومت کا ڈھنڈورا پیتے ہیں ”ملک کے اصلی مالک عووام ہیں “ کا شور مچاتے ہیں ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن جب بحرانی لمحات ٹل جاتے ہیں تو پھر وہی چال بے ڈھنگی ہمیں بھی ایک ایسے بادشاہ سے پالا پڑا ہے کہ جب سلطنت کے حالات اس کے لئے ساز گار تھے تو اس نے تمام مملکت کو اپنی ذاتی ملکیت بنارکھا تھا حتیٰ کہ جو لوگ اس کی پارٹی کا رکن بنا نہیں چاہتے تھے انھین ملک سے چلے جانے کو حکم دے دیا جاتا تھا ۔ خدا کی زمین وسیع ہے جہاں چاہوچلے جاوٴ اس ملک میں تمہارے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی ہو گا اور بس !
لیکن جب انقلاب کی آندھی چلی تو یہی آمر مطلق عوامل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہو گیا۔ اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوا ، گناہوں سے توبہ کی لیکن عوام نے اسے سالہا سال پہچانا ہوا تھا کہ سب دھوکا اور فریب ہے لہٰذا عوام کے آگے اس کی ایک نہ چلی ۔
بہر حال کافی صلاح مشورے کے بعد درباریوں نے فرعون سے کہا :موسیٰ اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور اس کے بارے میں جلدی نہ کرواور تمام شہروں میں ہر کارے روانہ کردو“( قَالُوا اٴَرْجِہِ وَاٴَخَاہُ وَابْعَثْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِین)(1)۔
تاکہ ہر ماہر اور منجھے ہوئے جادو گر کو تمہارے پاس لے آئیں ( یَاٴْتُوکَ بِکُلِّ سَحَّارٍ عَلِیمٍ)۔
در اصل فرعون کے درباری یا توغفلت کا شکار ہو گئے یا موسیٰ علیہ السلام پر فرعون کی تہمت کو جان بوجھ کر قبول کر لیا اور موسیٰ کو ”ساحر“ ( جادوگر ) سمجھ کر پروگرام مرتب کیا کہ ساحر کے مقابلے میں ”سحار“ یعنی ماہر اور منجھے ہوئے جادو گر وں کو بلا یا جائے ۔
چنانچہ انھوں نے کہا :خو ش قسمتی سے ہمارے وسیع و عریض ملک( مصر) میں دفنِ جادو کے بہت سے ماہر استاد موجود ہین اگر موسیٰ ساحر ہے تو ہم اس کے مقابلے میں سحار لاکھڑا کریں گے اور فن ِ سحر کے ایسے ایسے ماہریں کو لے آئیں جو ایک لمحے میں موسیٰ کا بھرم کھول کر رکھ دیں گے ۔
”حاشرین“ ”حشر“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے میدان جنگ یا سی قسم کے مقام پر کچھ لوگوں کو تیار کر کے لے آنا ۔ یعنی فرعون کے ہر کاروں کو حکم ہوا کہ موسیٰ کے مقابلے کے لئے ہر قیمت پر ماہر جادوگروں کو جمع کر کے لائیں ۔
 1۔”ارجہ“ ک اکلمہ ”ارجاء“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ٰہے فیصلے میں تاخیر سے کام لینا اور جلدی نہ کرنا اور اس کی آخری ضمیر موسیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ صیغہ در اصل ”ارجئہ“تھا ۔ہمزہ کو تخفیف کے لئے حذف کردیا گیا ہے ۔
سوره شعراء / آیه 38 - 42سوره شعراء / آیه 30 - 37
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma