۱۔ ”اصحاب الرس “ کو ن ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۲۔ کچھ لرزا دینے والے درسدرسِ عبرت سے لاپر وائی

”رس“ کالفظ در اصل مختصر اور تھوڑے سے اثر کے معنی ٰ میں ہے جیسے کہتے ہیں :” رس الحدیث فی نفسی “ ( مجھے اس کی تھوڑی سی بات یاد ہے )یا کہا جاتا ہے ” وجدرساً من حمی“ ( اس نے اپنے اندر بخار کا تھوڑا سا اثر پایا (1) ۔
کچھ مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ ”رس“ کا معنی ٰ” کنواں “ ہے ۔
معنی خواہ کچھ بھی ہواس قوم کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اب تھوڑا اثر یا بہت ہی کم نام اور نشان باقی رہ گیا ہے یا اس وجہ سے انھیں ”اصحاب الرس “کہتے ہیں کہ وہ بہت سے کنووٴں کے مالک تھے یا کنووٴں کا پانی خشک ہو جانے کی وجہ سے ہلاک و بر باد ہو گئے ۔
یہ کون تھے ؟ موٴرخین او رمفسرین کی اس بارے میں مختلف آراء ہیں ۔
(۱)بہت سے لوگوں کو نظریہ تو یہ ہے کہ اصحاب الرس ”یمامہ “ کے علاقے میں ایک قبیلہ تھاجس کے لئے حضرت ”حنظلہ“ نامی پیغمبر کو مبعوث کیا گیا ان لوگوں نے خدا کے اس نبی کی تکذب کی اور انھیں کنوئیں میں ڈال دیا بلکہ بعض نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ انھوں نے اس کنوئیں کو نیزوں سے بھر دیا اور ا س کا منہ پتھروں سے بند کردیا ۔ جس کی وجہ سے اللہ کے نبی جناب حنظلہ وہیں پر شہید ہو گئے(2)۔
(۲)کچھ موٴرخین کا نظریہ ہے کہ ”اصحاب الرس“ حضرت شعیب علیہ السلام کے زمانے کے لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو بت پرست تھے ان کے بڑی تعداد میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ہوتے تھے اور بہت سے کنوئیں بھی اور ” رس“ نامی کنواں بہت بڑا تھا اس کا پانی خشک ہو گیا اور اس علاقے کے لوگوں کو بھی تباہی نے آن لیا۔
(۳)بعض کہتے ہیں کہ سر زمین ”یمامہ “ میں ”رس“ نامی ایک گاوٴں تھا ، جہاں قوم ثمود کے بچے کھچے لوگ رہ رہے تھے اور اپنی س رکشی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
(۴)بعض کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کے کچھ عرب تھے جو شام اور حجاز کے درمیان رہتے تھے(3) ۔
(۵)بعض تفسیریں عاد و ثمود کے بچے کھچے لوگوں کو ”اصحاب الرس“ کے نام سے موسوم کرتی ہیں اور سورہ ٴ حج کی آیت ۴۵” و بئر معطلة و قصر مشید“ کا تعلق انہیں لوگوں سے بتاتی ہیں اور ”حضر موت “ کا علاقہ ان کی جائے سکونت بتاتی ہیں چنانچہ ”ثعلبی“ نے ”عرائس التیجان“ میں اسی قول کو ترجیح دی ہے ۔
کچھ اور مفسرین جو ”ارس“ کے نام سے آشنا ہوئے ہیں انھوں نے ”رس“ کو ” ارس“پر منطبق کیا ہے (جو آذربائیجان کے شمال کا علاقہ ہے )۔
(۶)مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں ، فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے روح المعانی میں جو احتمالات نقل کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ شام کے علاقے انطاکیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے نبی کا نام ” جیب بخار“ تھا ۔
(۷)عیون الرضا میں امام رضا علیہ السلام کے ذریعے امیر المومنین علی علیہ السلام سے اصحاب الرس کے بارے میں ایک طویل گفتگو نقل ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :۔
” وہ ایسے لوگ تھے جو صنوبر درخت کی پوجا کرتے تھے اور اسے ”درختوں کا بادشاہ“ کہتے تھے یہ وہ درخت تھاجسے جناب نوح کے بیٹے ”یافث“ نے طوفان نوح کے بعد ”روشن آب“ کے کنارے کاشت کیا تھا”رس“ نامی نہر کے کنارے انھوں نے بارہ شہر آباد کررکھے تھے جن کے نام یہ ہیں : آبان ، آذر، دی ، بھمن، اسفند ، فروردین، اردیبہشت،،خرداد، تیر، مرداد، شہریور، اور مہر۔ایرانیوں نے اپنے کلینڈر کے بارے مہینوں کے نام انہی شہروں کے نام پررکھے ہوئے ہیں ۔
چونکہ وہ درخت صنوبر کا احترام کرتے تھے لہٰذ ا انھوں نے اس کے بیج کو دوسرے علاقوں میں بھی کاشت کیا اور آبپاشی کےلئے ایک نہر کو مختص کردیا انہوں نے اس نہر کا پانی لوگوں کے لئے پینا ممنوع قرار دے دیا تھا۔حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اس سے پی لیتا تو اسے قتل کردیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کیونکہ یہ ہمارے خداوٴں کا سرمایہ حیات ہے لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ کوئی اس سے ایک گھونٹ پانی کم کردے ۔
وہ سال کے بارہ مہینوں میں سے ہر ماہ ایک ایک شہر میں ایک دن کے لئے عید منایا کرتے تھے او رشہر سے باہر صنوبر کے درخت کے پاس چلے جاتے اس کے لئے قربانی کرتے اور جانوروں کو ذبح کرکے آگ میں ڈال دیتے جب اس سے دھواں اٹھتا تو وہ درخت کے آگے سجدے میں گر پڑتے اور خوب گر یہ کیا کرتے تھے ۔
ہر مہینہ نے ان کا یہی طریقہ ٴ کار تھا چنانچہ جب ”اسفند “کی باری آتی تو تمام بارہ شہروں کے لوگ یہاں جمع ہوتے او رمسلسل بارہ دن تک عید منا یا کرتے کیونکہ یہ ان کے باد شاہوں کا دار الحکومت تھا یہییں پر وہ مقدور بھر قربانی بھی کیا کرتے اور درخت کے آگے سجدہ بھی کیا کرتے ۔
جب وہ کفر اور بت پرستی کی انتہا کو پہنچ گئے تو خدا وند ِ عالم نے بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ان کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھےں شرک سے روکے اور خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دے لیکن وہ اس نبی پر ایمان نہ لائے اب اس نبی نے فساد او ربت پرستی کی اصل جڑ یعنی اس درخت کے قلع قمع کرنے کی خداسے دعا کی اور بڑا درخت خشک ہو گیا جب ان لوگوں نے یہ صورت حال دیکھی تو سخت پریشان ہو گئے او رکہنے لگے کہ اس شخص نے ہمارے خداوٴں پر جادو کردیا ہے کچھ کہنے لگے کہ ہمارے خدا اس شخص کی وجہ سے ناراض ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ہمیں کفر کی دعوت دیتا ہے ۔
اس بحث مباحثہ کے بعد سب لوگوں نے اللہ کے اس نبی کو قتل کرنے کی ٹھان لی او رگہرا کنواں کھودا جس میں اسے ڈال دیا اور کنویں کا منھ بند کرکے اس کے اوپر بیٹھ گئے اور اس کے نالہ و فریاد کی آوازکو سنتے رہے یہاں تک کہ اس نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ۔خدا وند عالم نے انھیں ان برائیوں اور ظلم و ستم کی وجہ سے سخت عذاب میں متبلا کرکے نیست و نابود کردیا (4) ۔
بہت سے قرائن اس حدیث کی تائید کرتے ہیں کیونکہ عاود و ثمود کے ذکر کے باوجود ” اصحاب الرس “ کا تذکرہ اس احتمال کی تردید کرتا ہے کہ یہ عاد اور ثمود کی قوم کے بچے کھچے لوگ تھے او ریہ بات بعید بھی معلوم ہوتی ہے ۔
اسی طرح یہ احتمال بھی بعید معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جزیرة العرب ، شام او ران علاقوں کے گرد و نواح میں رہتے تھے کیونکہ تاریخ عرب میں قاعدةً ان کا ذکر بھی ہونا چاہئیے جبکہ ایسا بہت کم دکھائی دیتاہے ۔
اس سے قطع نظر مندرجہ بالا حدیث میں یہ جو ہے کہ ” ان کی عورتیں بے راہ روی کا شکار تھیں اور ہم جنس بازی کیا کرتی تھیں “ یہ بھی مندرجہ بالا حدیث کے منافی نہیں ہے(5) ۔
البتہ نہج البلاغہ (کے خطبہ نمبر ۱۸۰) کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس صرف نبی نہیں آیا کیونہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
این اصحاب مدائن الرس الذین قتلوا النبیین و اطفاٴ و ا سنن المرسلین و احیوا سنن الجبارین
کہاں ہیں رس کے شہروں والے !جنھوں نے انبیاء کو قتل کر ڈالا ، خدا کے رسولوں کی سنت کو مٹا کر جباروں کے رسم و رواج کو فروغ دیا۔
اس تعبیر سے بھی روایت بالا کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ ممکن ہے کہ روایت میں ان کی تاریخ کے صرف اس ایک حصے کی طرف اشارہ ہو جس میں پیغمبر بھیجا گیا تھا۔
1۔ مفردات راغب۔
2 ۔اعلام القرآن، ص ۱۴۹۔
3 ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۰ ص ۹۴۔
4 ۔”عیون اخبار الرضاعلیہ اسلام “( منقول و ملخص از تفسیر المیزان جلد ۱۵ ص ۲۳۷۔
5 ۔ کافی ( منقول از تفسیر نور الثقلین جلد ۴ ص۱۹ ) ۔
۲۔ کچھ لرزا دینے والے درسدرسِ عبرت سے لاپر وائی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma