درسِ عبرت سے لاپر وائی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۱۔ ”اصحاب الرس “ کو ن ہیں ؟ سوره فرقان / آیه 35 - 40

ان آیات میں خداوند عالم ایک تو اپنے پیغمبر اور مومنین کی تسلی اور دلجوئی کے لئے ، دوسرے ان حیلہ ساز مشرکین کی تنبیہ کے لئے جن کی باتیں ابھی بیان ہو چکی ہیں ، گزشتہ اقوام کی تاریخ اور ان کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ کررہا ہے اور گزشتہ اقوام میں سے چھ قوموں کا خاص طور پر تذکرہ فرما رہا ہے (یعنی قوم فرعون ، قوم نوح ، قوم عاد، ثمود ، اصحاب الرس اور قوم لوط) او ران اقوام کے انجام کو بطور درسِ عبرت پیش فرماتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو مدد کے لئے ان کے ہمراہ کردیا (وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَہُ اٴَخَاہُ ہَارُونَ وَزِیرًا )۔
کیونکہ انھوں نے فرعون کے ساتھ مقابلہ کی عظیم ذمہ داری اٹھا رکھی تھی لہٰذا اس انقلابی کام کو انھیں مل جل کر سر انجام دینا تھا تاکہ وہ اس انقلابی تحریک کو ساحل ِ کامرانی تک پہنچاسکیں ۔
”ہم نے (ان دونوں بھائیوں سے خطاب کرتے ہوئے ) کہا :اس قوم کی طر ف جائیے جس نے ہماری آیات کو جھٹلا یا ہے ( فَقُلْنَا اذْہَبَا إِلَی الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا)۔
انھوں نے ایک تو آیات و انفس اورکائنات میں موجود آیات ِ خداوندی کی عملاً تکذیب کی اور شرک و بت پرستی کی راہ اپنائی اور دوسر ے انبیاء ماسبق کی تعلیم کو نظر انداز ہی نہیں کردیا بلکہ ان کی تکذیب بھی کی ۔
لیکن جناب موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون علیہ اسلام کی تمام کوششوں کے باوجود اور عظیم اور روشن معجزات کے بعد بھی انھوں نے کفر اور انکار کا راستہ اپنا یا ” لہٰذا ہم نے انھیں ایسے سر کوب کیا کہ وہ نیست و نابود ہو گئے ( فَدَمَّرْنَاھُمْ تَدْمِیرًا )۔
”تدمیر “ کا لفظ ”دمار“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ٰ ہے تعجب خیز ہلاکت اور سچی بات ہے کہ دریائے نیل کی متلاطم موجوں میں قومِ فرعون کی ایسے انداز میں تباہی تاریخ ِ بشریت کے عجائبات میں شمار ہوتی ہے ۔
اسی طرح جب قوم نوح نے پیغمبروں کی تکذیب کی تو ہم نے اسے بھی غرق کردیا اور ا س کے انجام کو عام لوگوں کے لئے ایک واضح اور روشن نشانی قرار دیا اور تمام ظالموں کے لئے ہم نے دردناک عذاب مہیا کررکھا ہے ( وَقَوْمَ نُوحٍ لَمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ اٴَغْرَقْنَاھُمْ وَجَعَلْنَاھُمْ لِلنَّاسِ آیَةً وَاٴَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِینَ عَذَابًا اٴَلِیمًا) ۔
اوریہ بات قابل توجہ ہے کہ خدا فرماتاہے کہ انھوں نے رسولوں کو جھٹلا یا (صرف ایک رسول کو نہیں بلکہ کئی رسولوں کو جھٹلایا )کیونکہ خدا کے انبیاء اور رسولوں کے دعوتی اصولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا ایک کی تکذیب گویا سب کی تکذیب ہے اور پھر یہ کہ اصولی قوم ِ نوح کو تمام انبیاء کی دعوت سے مخالفت تھی اور وہ تمام ادیان کے منکر تھے۔
اسی طرح ” ہم نے قوم عاد و ثمود ، اصحاب رس اور دوسری بہت سی قومیں جو ان میں موجود تھیں کو ہلاک کردیا ( وَعَادًا وَثَمُودَ وَاٴَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَلِکَ کَثِیرًا)(۱) ۔
قوم عاد وہی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے حضرت ہود علیہ اسلام کو اللہ نے احقاف ( یایمن) میں مبعوث فرمایا اور قوم ثمود اللہ کے پیارے نبی جناب صالح علیہ السلام کی قوم ہے حضرت صالح علیہ اسلام کو خدا نے وادی القری ( مدینہ اور شام کے علاقے )میں مبعوث فرمایا۔
البتہ اصحاب الرس کے بارے میں ہم آگے چل کر تفصیل سے بتائیں گے ۔
” قرون “ ”قرن“کی جمع ہے جو اصل میں ایسی جماعت او رگروہ کے بارے میں بولا جاتا ہے ، جس کے افراد ایک ہی زمانے میں باہم زندگی بسر کرتے ہوں ، پھر ایک لمبے زمانے ( مثلا ً چالیس سال یا سو سال ) پر بھی اس کا اطلاق ہو نے لگا ۔
البتہ ہم نے انھیں غافل کرکے سزا نہیں دی بلکہ ہم نے ان میں سے ہر ایک کے لئے مثالیں بیان کیں “( وَکُلًّا ضَرَبْنَا لَہُ الْاٴَمْثَالَ )۔
جس قسم کے اعتراضات یہ لوگ آپ پر کرتے ہیں اور ہم ان کا جواب دیتے ہیں ، اسی طرح کے اعتراض لوگوں نے ان پر بھی کئے تھے ۔ او رہم نے ان کا جواب بھی دیا۔ ان کے لئے احکام الٰہی کو واضح طور پر پیش کیا اور دینی حقائق کو ان کے سامنے کھول کر بیان کیا۔
انھیں خبر دار کیا ، ڈرایا اور سابق لوگوں کی داستانیں بیان کیں ۔
لیکن جب کوئی چیز بھی کا رگر نہ ہوئی تو ” ہم نے ان میں سے ہر ایک کی شدت کے ساتھ سر کوبی کی اور انھیں تباہ و بر باد کر کے رکھ دیا“ (وَکُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیرًا)(۲) ۔
انجام کار اس سلسلے کی آخری آیت میں قوم ِ لوط کے شہروں کے کھنڈرات او رویرانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
جو حجاز سے شام جانے والے لوگوں کی راہ میں پائے جاتے ہیں اور شرک و گناہ سے آلودہ لوگوں کی دردناک تباہی و بر بادی کا جیتا جاگتاثبوت ہیں ، خدا فرماتا ہے : وہ لوگ اس شہر کے پاس سے گزرے جس پر برائی او ربد بختی ( ہلاک کردیتے والے پتھروں )کی بارش ہو ئی ، تو کیا انھوں نے ( اپنے سفر ِ شام کے دوران میں ) ایسی صورتِ حال کو نہیں دیکھا اور ان کے انجام سے درس حاصل نہیں کیا ( وَلَقَدْ اٴَتَوْا عَلَی الْقَرْیَةِ الَّتِی اٴُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ اٴَفَلَمْ یَکُونُوا یَرَوْنَہَا)۔
انھوں نے اس کیفیت کو دیکھا تو ضرور ہے لیکن اس سے درس ِ عبرت حاصل نہیں کیا کیونکہ و ہ روز قیامت پر نہ تو ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی ا س کی امید(بَلْ کَانُوا لاَیَرْجُونَ نُشُورًا)۔
وہ لوگ مو ت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتے ہیں او راگر دوسرے جہان کی زندگی کے بارے میں ان کا کچھ عقیدہ ہے بھی تو نہایت ہی کمزوراور بے بنیاد ۔ جس طرح یہ عقیدہ ان کی روح میں موٴثر اور کار گر ثابت نہیں ہوسکتا ان کی معمول کی زندگی میں تو بطریق اولیٰ غیر موٴثر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز کو بازیچہٴ اطفال سمجھتے ہیں اور چند زندگی کی ہوا وہوس کے سوا کچھ سوچتے نہیں ۔
1۔”عاد و ثمود “ کے کلمہ کا عطف ” دمرناھم “ میں موجود”ھم“ کی ضمیر پر ہے بعض مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ ”جعلناھم“ میں ”ھم“ کی ضمیر پر ہوسکتا ہے یا پھر ” الظالمین“ پر بھی ہو سکتا ہے ، لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے ۔
۲۔ ”تتبیر“”تبر“ (بر وزن ”ضَرَر“ یا”صَبر“) ہلاک ہو نے یا تباہ و بر باد ہونے کے معنی ٰ میں ہے ۔
۱۔ ”اصحاب الرس “ کو ن ہیں ؟ سوره فرقان / آیه 35 - 40
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma