خدا وند ا!لوگوں نے قرآن کو چھوڑ دیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
چند اہم نکاتسوره فرقان / آیه 30 - 34

چونکہ گزشتہ آیات میں ہٹ دھرم مشرکین اور بے ایمان لوگوں کے مختلف الزامات اور اعتراضات بیان ہو ئے ہیں لہٰذا ان آیات میں سے پہلی آیت میں پیغمبر اسلام کی اس پریشانی اور شکایت کا تذکرہ ہے ، جو لوگوں نے قرآن کے ساتھ رویہ اختیار کیا ہوا تھا انھوں نے بار گاہ خداوندی میں عرض کیا خدا وندا!میری اس قو م نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور اس سے دوری اختیار کرلی ہے (وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ھَذَا الْقُرْآنَ مَھْجُورًا)(۱) ۔
رسول اللہ کی یہ گفتگو اور شکایت آج بھی اسی طرح فضا میں گونج رہی ہے گویا آپ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے خلاف بار گاہ ایزدی میں استغاثہ کر رہے ہیں : خدایا ! ان لوگوں نے قرآن کو بالکل بھلا دیا ہے جو قرآن زندگی کی علامت اور نجات کا ذریعہ ہے ، قرآن فتح و کامرانی ، تحرک اور ترقی کا عامل ہے ، جوقرآن ہر شعبہ زندگی کے لئے راہنما اصول رکھتا ہے ، اسی قرآن کو ان لوگوں نے چھوڑ دیا ہے حتی کہ انہوں نے اپنے دیوانی اور فوجداری قوانین تک کے لئے دوسروں کی طرف گدائی کا ہاتھ پھیلایا ہوا ہے۔
اب بھی ہم اکثر و بیشتر اسلامی ملکوں خاص کر ان ممالک کی طرف نظر کریں جو مشرقی یا مغربی کلچر اور ثقافت کے زیر ِ تسلط ہیں تو معلوم ہو گا کہ وہاں پر قرآن مجید کو تکلفاًایک مقدس کتاب کا درجہ دیا گیا ہے اس کے صرف الفاظ کو خوبصورت آواز میں ریڈیواور ٹیلی ویژن جیسے نشر یاتی اداروں سے نشر کر دیا جاتا ہے یاآیاتِ قرآنی کو فنِ تعمیر کے عنوان سے مسجدوں کی کاشی کاری میں جگہ دی جاتی ہے ۔ نئے مکان کے افتتاح کے موقع پر یا مسافر کی جان کی حفاظت کے لئے یا بیماروں کی صحت ی ابی کے لئے یا زیادہ سے زیادہ حصول ِثواب کی غرض سے اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔
اگر کبھی قرآن مجید سے کسی بھی چیز کا استدلال بھی کیا جاتا ہے تو ا س سے ان مقصود ہوتا ہے کہ اپنے پہلے سے کئے ہو ئے فیصلوں کی تائید میں تفسیر بالرائے کی جائے ۔
بہت سے اسلامی ملکوں میں ” حفظِ قرآن“ کے نام سے لمبے چوڑے مدارس دیکھنے میں آتے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیوں کی بہت بڑی تعدا د قرآن حفظ کرنے میں مصروف ہے جبکہ ان ملکوں کے آئیں اور قوانین اسلام سے بے خبر ممالک سے در آمد شدہ ہیں اور ان کے افکار و نظر یات یا تو مشرق سے لے لئے گئے ہیں یا مغرب سے اور اپنی ان غلط کاریوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے انہوں نے قرآن کا سہارا لیا ہوا ہے ۔
ہاں ہاں اب بھی پیغمبر اکرم فریاد کررہے ہیں : خدا وندا!میری قوم نے قرآن کو چھوڑدیاہے ۔
قرآن کی روح اور مطالب کو ، اس کے طرز تفکر کو اور اس کے تعمیری منصوبوں پر عمل در آمد چھوڑدیا ہے ۔
چونکہ حضرت رسول گرامی کو دشمنوں کے اس قسم کے سخت دشمنوں کے اس سخت معاندانہ سلوک کا سامنا تھا ۔ لہٰذا خداوند عالم ان کی دلجوئی کے لئے بعد والی آیت میں فرماتا ہے : اسی طرح کے گناہ گار اور مجرم دشمن ہم نے ہر پیغمبر کے لئے قرار دئے ہیں(وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِنْ الْمُجْرِمِینَ ) ۔
توہی نہیں کہ جسے اس قسم کے دشمنوں کا سامنا ہے بلکہ سب انبیاء کا یہی حال تھا ۔مجرمین کا کوئی نہ کوئی ٹولہ ان کی مخالفت کرتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ دشمنی پر ہمیشہ کمر باندھے رہتا ہے ۔
لیکن تجھے معلوم ہونا چاہئیے کہ تو بے یار و مدد گار نہیں ” یہی بات کافی ہے کہ خدا ند عالم تیرا ہادی ، راہنما اوریار و یاور ہے (وَکَفَی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَنَصِیرًا )۔
چونکہ تیرا ہادی خدا وند ِ عالم ذوالجلال ہے لہٰذا ان کے وسوسے تجھ پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اور چونکہ تیرا ناصرو مدد گار خدا ہے لہٰذا ان کی ہر طرح کی سازشین تیرا بال تک بیکا نہیں کرسکتیں کیونکہ اس کا علم تمام علوم سے بر تر اور اس کی قدرت تمام قدر توں اور طاقتوں سے بالا تر ہے ۔مختصر یہ کہ بلا جھجک کہہ دے :
ہزار دشنم از می کنند قصد ہلاک تو ام چو دوستی از دشمنان ندارم باک
اگر میرے ہزروں دشمن مجھے ہلاک کرنا چاہیں ( تو وہ ایسا نہیں کرسکتے ) کیونکہ جب تک تو میرا دوستی ہے مجھے دشمن کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ۔
بعد والی آیت میں مجرموں کی ایک او ربہانہ جوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن ، ایک ہی مرتبہ کیوں نازل نہیں ہوتا(وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً)۔
آیا یہ سب کا سب خدا کی طرف سے نہیں ہے ؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اوّل سے لے کر آخر تک اپنے تمام مضامین سمیت ایک ہی مرتبہ یہ کتاب نازل ہو جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس کی عظمت سے با خبر ہو ں آخر کیا وجہ ہے کہ یہ آیات بتدریج اور وفقے وفقے کے بعد نازل ہوتی رہتی ہیں ؟
سطحی فکر رکھنے والے افراد خاص کر جب وہ کسی بہانے کی تلاش میں بھی ہوں ان کے لئے نزول ِ قرآن کی کیفیت کے بارے میں یہ اشکال پیدا ہو گا کہ دنیا جہاں کی اس قدر عظیم آسمانی کتاب بیک وقت کیوں نازل نہیں ہوئی جبکہ یہ مسلمانوں کے تمام امور کا سرمایہ اور ان کی بنیاد ہے اور اس میں تمام سیاسی ، اجتماعی معاشرتی اور عبادی قوانین موجود ہیں اس طرح سے لوگ ہمیشہ اسے اول سے آخر تک پڑھتے اور اس کے مضامین سے آگاہی حاصل کرتے۔
بہتر یہی ہے کہ خود آنحضرت بھی اس سے مجموعی طور پر باخبر ہوتے تاکہ جب بھی آپ سے لوگ کوئی سوال کرتے تو اس کا فوری طور پر جواب دیتے ۔
لیکن اسی آیت میں انھیں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے :
ہم نے قرآن کو تدریجی طور پر نازل کیا ہے تاکہ تیرے دل کو محکم و استوار رکھیں اور اسے جدا گانہ آیات کی صورت میں آہستہ آہستہ لیکن بطور مسلسل تجھ پر وحی کیا ہے ( کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا)۔
چونکہ وہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں لہٰذا اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں ۔
البتہ قرآن کے تدریجی نزول کا پیغمبر اسلام اور مومنین کے دل کی تقویت کے ساتھ کیا رابطہ ہے ؟ یہ ایک مفصل اور دلچسپ گفتگو ہے جو انہی آیات کے آخر میں نکات کی بحث میں پیش کی جائے گی۔
پھر مندرجہ بالا جواب کومزید پختہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایا گیاہے : وہ تیرے لئے کوئی مثل نہیں آتے اور تیری دعوت کو کمزور کرنے کے لئے کوئی بھی بات نہیں کرتے مگر یہ کہ ہم ایسی حق بات تجھے عطا کردیتے ہیں جو دو ٹوک انداز میں ان کے بودے دلائل کو ناکام کرکے رکھ دیتی ہے اور بہتر تفسیر اور دلچسپ بیان تجھے عطا کرتے ہیں ( وَلاَیَاٴْتُونَکَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاٴَحْسَنَ تَفْسِیرًا)۔
ان کینہ پر ور دشمنوں اور متعصب اور ہٹ دھرم مشرکوں نے اپنے چند اعتراضات کے ذریعے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ ان اوصاف ، اس کتاب اور ان پروگراموں کی وجہ سے ( نعوذ باللہ ) محمد اور اس کے ساتھی غلط ہیں اور کیونکہ ایسی بیہودہ سوچ اور گفتگو کا اسی انداز میں ذکر کرنا قرآن جیسی فصیح و بلیغ کتاب کے شایان ذکر نہیں تھا لہٰذا اس آخری آیت میں ان کی گفتگو کو ذکر کئے بغیر خدا وند عالم اس کا یوں جواب دیتاہے۔
جو لوگ منہ کے بل محشور کئے جائیں گے اور اسی حالت میں انہیں جہنم میں ڈالاجائے گا وہی ان کا بد ترین ٹھکا نا ہو گا اور وہ خود گمراہ ترین افراد ہوں گے.
( الَّذِینَ یُحْشَرُونَ عَلَی وُجُوھِھِمْ إِلَی جَھَنَّمَ اٴُوْلَئِکَ شَرٌّ مَکَانًا وَاٴَضَلُّ سَبِیلًا )۔
سچ بات تو یہ ہے کہ انسان کے منصوبوں کا نتیجہ تو وہاں جا کر واضح ہو گا کچھ لوگ وہ ہوں گے جو سرو قامت اور چاند ایسے نورانی چہرے کے مالک ہوں گے اور تیز قدموں کے ساتھ بہشت میں داخل ہوں گے جن کے منہ پر خاک پڑی ہو گی اورعذاب کے فرشتے انہیں کشاں کشاں جہنم میں لے جائیں گے ۔ یہ دو متضاد اور مختلف انجام ہی بتا ئیں گے کہ کون لوگ گمراہ اور شریر تھے اورکون نیک بخت اور ہدایت یافتہ ۔
1۔”قال“ ظاہراًفعل ماضی ہے اور اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ آنحضرت نے یہ بات اسی دنیا میں شکایت کے طور پر کہی ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی نظریہ ہے لیکن بعض دوسرے مفسرین مثلاً علامہ طبا طبائی مرحوم نے ”المیزان “ میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اس بات کا تعلق قیامت کے ساتھ ہے اور فعل ماضی یہاں پر فعل مضارع کے معنی میں ہے علامہ طبرسی مرحوم نے بھی مجمع البیان میں اسی چیز کو احتمال کے طور پر ذکر کیا ہے لیکن بعد والی آیت جو آپ کی دلجوئیکرہی ہے اس بات کی دلیل ہے کہ مشہور تفسیر زیادہ صحیح ہے ۔
چند اہم نکاتسوره فرقان / آیه 30 - 34
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma